اسلام آباد (آن لائن)شریف خاندان کے پارک لین لندن فلیٹس کی منی ٹریل بھی مل گئی پاکستان سے رقوم کی منتقلی سے لے کر پارک لین فلیٹس کی خریداری کب ،کیسے اور کن اکاونٹس اور آف شور کمپنیوں وایجنٹس کے ذریعے بھیجی گئیں،سب تفصیلات سامنے آگئیں جس سے قطری خط اور التوفیق انویسٹمنٹ کے سینئر عہدیدار کے بیان حلفی کا غلط ہونا ثابت ہوتا ہے ۔سماجی میڈیا کی ویب سائٹ تہلکہ ڈاٹ کام نے دعوی کیا ہے کہ منی ٹریل سامنے آنے سے شریف خاندان کے تمام دعووں کی نفی ہو گئی ہے۔ دستاویزی ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح وزیر اعظم کے فرنٹ مین جاوید کیانی نے سلمان ضیائ نامی شخص کے نام پر حبیب بینک اے جی زیورخ کی لاہور میں واقع برانچ میں جعلی اکاونٹ کھلوایا جس میں جاوید کیانی ، مختلف افراد اور ٹریولر چیکس کے ذریعے مقامی اور بیرون ملک مختلف مقامات سے مجموعی طور پر 2.08ملین ڈالر رقوم جمع کروائیں۔جن میں مجموعی طور پر ساڑھے 3 لاکھ ڈالر کی رقم نواز شریف کی ملکیتی آف شور کمپنی شیمروک کنسلٹنگ کارپوریشن کے Lloyds Bank Plc Stock Exchange Branch,Londonمیں 3مختلف ٹرانزیکشنز کے ذریعے جمع کر وائی گئی۔جن کی تفصیلات یہ ہیں۔ 3جنوری 1993:1لاکھ 5ہزار ڈالر، 6جنوری 1993 1لاکھ 50ہزار ڈالر،1فروری 1993:95ہزار ڈالر، دستاویزات کے مطابق پارک لین کے فلیٹس اور دیگر غیر ملکی جائیدادوں کے ذریعے شریف خاندان نے 15مئی 1992کو آف شور کمپنی شیمروک کنسلٹنگ کارپوریشن رجسٹرڈ کروائی۔جس کو سلمان ضیائ نامی شخص کے جعلی اکاونٹس کے ذریعے پاکستان سے بھاری رقوم کی منتقلی کی گئی۔ جن آف شور کمپنیوں کے ذریعے پارک لین کے فلیٹس لیئے گئے ان کی رجسٹریشن بھی نیسکول لمیٹڈ 27جنوری 1993اور نیلسن انٹرپرائزز لمٹیڈ کی رجسٹریشن 14اپریل 1994کو کروائی گئی اور ان رقوم سے یکم جون 1993 کوپہلا فلیٹ نمبر 17خریدا گیا۔اس طرح 31جولائی 1995 کو فلیٹ نمبر 16اور16Aخریدا گیا۔جبکہ 23جولائی 1996 کو فلیٹ نمبر 17A خریدا گیا۔ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جعلی اکاونٹس کے ذریعے بیرون ملک منتقلی ، ملزمان کا خود کو چھپانے کیلئے آف شور کمپنیاں بنائی گئیں تاکہ خریدنے والے کا پتہ نہ چل سکے ۔
