کراچی (خصوصی رپورٹر) سی پی این ای کے صدر ، روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ، کہنہ مشق صحافی اور ادیب ضیاشاہد نے کتاب ”پاکستان کے خلاف سازش“کی تعارفی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان اصل مقصد یہ ہے کہ جو قوتیںملک کو جغرافیائی نظریاتی سرحدوں کو چیلنج کررہی ہیں ان کی سازشوں کا خاتمہ ہوسکے ، مجھے اخبارنویس کی حیثیت سے 51برس گزرچکے ہیں ، میں نے صحافت کا آغاز18برس کی عمر سے کیا جب کالج میں پڑھتا تھا ۔ گزشتہ ایک سال میں جو مضامین اور یادداشتیں لکھیں کافی چیزیں جمع ہوگئی ہیں ، میرے دماغ پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش بننے کا گہرا اثرہوا تھا ، یہ کتاب اسی اثر کا نتیجہ ہے ، میں نے محسوس کیا کہ پاکستان کا قیام دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا ، قائداعظم کا خیال تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی ، معاشی حقوق پورے نہیں ہوسکتے ، اسی لئے قرارداد پاکستان لانا پڑی ۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم نے سیاسی غلطیاں کی ہیں ۔ میں صوبوں کے حقوق کا قائل ہوں ، اٹھارویں ترمیم کے علاوہ صوبوں کو اور بھی حقوق ملنے چاہیئیں ۔چھوٹے صوبوں کی بات کی جارہی ہے ، انتظامی طور پر انھیں چلانا آسان ہے ۔ میری پیدائش گڑھی یاسین میں ہوئی جہاں میرے والد مختیارکار تھے ،میں نے بھاولنگر ، ملتان اور لاہور میں تعلیم حاصل کی ہے ۔ سب علاقوں کو حقوق ملنے چاہیئیں، پاکستان کے لئے شیخ مجیب الرحمان نے کلکتہ سے ڈھاکہ تک سائیکل پر سفر کیا تھا ، مگر زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش وجود میں آیا ۔ اردوکو قومی زبان بنانے پر ردعمل ہوا ، پھر تحریک شروع ہوئی جو بنگلہ قومیت کی بنیاد بنی ، جس کے بعد چھ نکات کی شکل میں سیمی انڈی پینڈنس کا مطالبہ کیا گیا ۔ پھر بھی ہم معاملات نہیں سنبھال سکے اور انڈیا نے مداخلت کرکے اسے الگ ملک بنادیا ۔ سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخواہ جہاں کہیں زبان اور نسل کی بنیاد پر صوبائی حقوق کا نعرہ دیکھا ، جائز مطالبات نہ مانے گئے تو علیحدگی کی باتیں سامنے آئیں ۔ یہ باب ابھی بند نہیں ہوا ، نواب سلیمان ، حربیارمری ، الطاف حسین ، محمود اچکزئی یا اسفندیار ہوں ، جب کہا جائے کہ ڈیورنڈلائن کو نہیں مانتے ، کہا جائے کہ خیبر پختونخواہ افغانوں کا علاقہ ہے تو پھر سوچنا پڑے گا کہ ہم سے غلطی تو نہیں ہوگئی ہے ، یہ کتاب اس بحث کو سمیٹنے کے لئے کافی ہے ۔ میں خود کو پولیٹیکل سائنٹسٹ نہیں سمجھتا صرف ایک اخبارنویس کی حیثیت سے ان حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بھٹونے نیپ پر پابندی لگائی تھی ، جی ایم سید نے پاکستان بننے سے پہلے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا ، ہم سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں کہ انہوں نے پاکستان کے خلاف تحریک شروع کردی ۔ یہ تحریک بظاہر ختم ہوئی مگر اس کے اثرات آج بھی قوم پرست تحریکوں کے احساسات میں کہیں موجود ہیں ۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ یہ بحثیں پرانی ہوگئی ہیں ، مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ باتیں ختم نہیں ہوئی ہیں ، کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ زبان اور نسل کی بنیاد پر صوبائی حقوق اور پھر علیحدگی کا مطالبہ سامنے آتا رہا ہے ۔
