اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ کسی بھی اسمبلی میں اسپیکر ہاﺅس کا کسٹوڈین ہوتا ہے اور اس کی پوزیشن ہر لمحہ آزمائش میں گھری رہتی ہے حکومت اور اپوزیشن کے معاملات کو عدل و انصاف کے ساتھ چلانا مشکل ترین مرحلہ ہے لیکن یہ اسپیکر کی ایسی ذمہ داری ہے جو اسے جان جوکھوں میں ڈال کر پوری کرنا پڑتی ہے ۔ مولوی تمیزالدین سے لے کر سردار ایاز صادق تک اسپیکرز کی اکثریت نے تاریخ ساز کردار ادا کر کے اپنا نام پاکستانی تاریخ میں امر کیا ۔یہ باتیں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے صحافیوں سے خصوصی گفتگو کے دوران کہیں ۔ انہو ںنے کہا کہ میرا کریڈٹ تو کچھ بھی نہیں جو کہ کریڈیٹ ہے اللہ تعالیٰ کا ہی ہے میں اللہ کے کرم سے اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے نبھا رہا ہوں میں نے قومی اسمبلی میں پروموشن اور ریکیومنٹ سو فیصد میرٹ پر کی ہیں اس وقت پاکستان کی پہلی پارلیمنٹ ہے جو سو فیصد فیئر اور مثبت طریقے سے چل رہی ہے ۔ ہم نے SDG بنایا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کام ویلتھ کی صدارت بھی جیتی ہے اپنی سیاست میں آنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں سردار آئی ٹرسٹ میں بیٹھا کرتا تھا وہاں غریب اور مستحق لوگ علاج کے لئے آتے تھے وہ آنکھوں کا علاج کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل بھی لے کر آتے تھے میں ان کے مسائل کے حل میں ان کی مدد کرتا تھا ۔ مسائل میں بچیوں کی شادیوں ‘ ملازمت اور فیملی جھگڑوں کا ایشو شامل ہوتا تھا میں ان کے یہ مسائل کم و پیش حل کرتے کرتے مجھے غریبوں کے مسائل حل کرنے کی دلچسپی بڑھ گئی کیونکہ کسی بھی مستحق کا مسئلہ حل کرنے کے بعد جو خوشی حاصل ہوتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی خدمت کرنے کے لئے مجھے سیاسی پلیٹ فارم حاصل کرنا پڑا اور میری سیاسی کی بنیاد ہی عوامی خدمت بنی ۔ انہوں نے کہا کہ 1997 میں میں نے پہلا الیکشن صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے لڑا اور عمران خان نے قومی اسمبلی کی سیٹ پر اسی حلقے سے لڑا ۔ اس الیکشن میں میرے صوبائی الیکشن میں 48 ہزار اور عمران خان کے قومی اسمبلی کی سیٹ پر 32 ہزار ووٹ ھے ۔ 1998 میں عمران خان کی پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا اس کی وجہ ان کا رویہ سمجھ لیں ۔ لوگ عزت کے لئے سیاست کرتے ہیں عمران خان ٹکٹ ہولڈرز کی بہت بے عزتی کرتے ہیں میں نے پارٹی چھوڑنے کے بعد بھی عوامی خدمت جاری رکھی اور مسلم لیگ(ن) کو جوائن کر دیا ۔ انہوں نے کہاکہ 2001 جبکہ نواز شریف جلاوطن تھے اس کے باوجود میں نے 2001 میں ان کی پارٹی جوائن کی کیونکہ میرے نزدیک نواز شریف کی حکومت غیر قانونی طور پر ختم کرکے انہیں جلاوطن بھی غیر قانونی طور پر کیا گیا تھا جس وجہ سے مجھے یقین تھا کہ ایک وقت آئے گا جب نواز شریف دوبارہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لئے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے ۔ جب میں نے مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کی وہ پرویز مشرف کی آمریت کا سخت ترین دور تھا اس دور میں پہلی مرتبہ اور پھر کئی بار تھانوں میں سرکاری مہمان بنا ۔ لیکن میں نے مخلصانہ طو رپر مسلم لیگ(ن) کا ساتھ دیا جس وجہ سے وزیر اعظم مجھ سے زیادہ لگاﺅ رکھتے ہیں انہوں نے کہاکہ میں (ن) لیگ میں ایک ایم این اے اور ایم پی اے کی خواہش پر شامل ہوا تھا جبکہ شہباز شریف کو میں پہلے سے جانتا تھا ۔ 1995 میں اپنے گھر میں میاں محمد نواز شریف کے ایک جلسہ کا اہتمام کیا تھا ۔ پانامہ اور جے آئی ٹی کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس عدالت میں ہے ۔ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کا تو یہ ایک SUB JUDAS کیس ہے جس پر تبصرہ کرنا یا رائے دینا نامناسب بات ہے لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انشاءاللہ اس کیس میں میاں محمد نواز شریف سرخروں ہوں گے ۔ اگر ان کے خلاف کوئی چیزیں ہوتی تو مارشل لاءدور میں مشرف ان کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیتا۔