اسلام آباد (آئی این پی) پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران حکمران جماعت کے مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے چیئرمین پی اے سی سید خورشید شاہ نے کالاباغ ڈیم پرکمیٹی میں”ٹیکنیکل بریفنگ“ لینے سے یکسر انکار کر دیا،چیئرمین کے مطابق پہلے ہی سے حکومت کو گالیاں پڑ رہی ہیں، مزید پنڈورا بکس نہ کھولیں، اجلاس میں کالا باغ ڈیم پر بریفنگکے معاملے پر تحریک انصاف کے اراکین خاموش بیٹھے رہے، مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے دیگر اراکین کی حمایت نہ ملنے پر اپنے مطالبے پر زور نہیں دیا، اجلاس کے دوران نیپرا، وزارت پانی و بجلی اور واپڈا نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 2016-17میں بجلی مہنگی ہوئی، 5مختلف ٹیکسوں کی وجہ سے بجلی کے صارفین کے بلز میں سستی بجلی کی پیداوار کے باوجود کمی نہیں آ سکی، موجودہ حکومت کے دورمیں فی یونٹ 1روپیہ 23پیسے کا اضافی سرچارج بجلی کے بل پر عائد کیا گیا ہے، بجلی کے شعبے کے قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کا بوجھ بھی صارفین سے وصول کیا جا رہا ہے،سب سے زیادہ لائن لاسز سندھ کے اضلاع سکھر اور حیدر آباد میں ہیں، سکھر میں لائن لاسز کی شرح 37فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس امر کا اظہار حکام کی طرف سے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا۔پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے موجودہ حکومت کے آنے سے قبل کے آٹھ سالوں کے دوران پیدا ہونے والی بجلی، اس کی تقسیم اور موجودہ حکومت کے دور میں اس کی پیداور وفروختکا مکمل ڈیٹا مانگ لیا، کمیٹی گردشی قرضوں کے تناظر میں اس ڈیٹا کا جائزہ لے گی کیونکہ اجلاس کو بتایا گیا کہ موجودہ دور حکومت میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے دوبارہ 321 ارب روپے کا گردشی قرضہ ہو گیا ہے۔بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے ہر سال 35سے 40 ارب روپے سود کی ادائیگی میں ادا کئے جاتے ہیں،بجلی کے شعبے کے حوالے سے 2سکوک بانڈز بھی جاری کئے گئے ہیں، سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ نیلم جہلم پراجیکٹ کے حوالے سے سارے مسائل ختم ہو گئے ہیں، 68 کلو میٹر سے زائد کی سرنگ تعمیر کر لی گئی ہے، اکتوبر میں فلنگ کا کام مکمل کرلیا جائے گا، 425ٹاورز اور بجلی فراہمی کی تاریں لگانے کا 80 فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے، یکم فروری 2018 سے نیلم جہلم ڈیم کام شروع کر دے گا، اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ 80 ارب روپے تھا جو کہ بڑھ کر 500 ارب سے تجاوز کر گیا ہے، حکام نے اعتراف کیا کہ منصوبے کے پی سی ون کی تیاری کے وقت علاقے کاجیالوجیکل سروے نہیں کرایا گیا تھا،2005 کے زلزلے کے بعد یہ سروے کروایا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ نیلم جہلم پراجیکٹ کا علاقہ سسمک زون میں موجود ہے۔ حکام کے مطابق مارچ 2018 میں چاروں یونٹس کام شروع کر دیں گے، سسمک کے سروے کے بعد پراجیکٹ کی ایک سرنگ میں اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے لاگت بڑھ گئی، سیکرٹری پانی و بجلی نے واضح کیا کہ اگر بھارت نے ہمارے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کی تو ہمارے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں، کشن گنگا ڈیم کی وجہ سے نیلم جہلم ڈیم میں 15سے 20فیصد پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ 145 ملین مکعب فٹ پانی دستیاب ہو تا ہے،بدقسمتی سے بڑے ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے صرف 14 ملین مکعب فٹ پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں،30ملین مکعب فٹ پانی ضائع ہو کر سمندر میں جا گرتا ہے،ملک کو اگر خطرے سے بچانا ہے تو ڈیم بنانے پڑیں گے، انہوں نے اس حوالے سے دیامر بھاشا اور کالا باغ ڈیم سمیت پانچ ڈیموں کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ تربیلا ڈیم کی صلاحیت بھی 36 فیصد کم ہو چکی ہے، ہمیں ہر صورت پانچ سے چھ سالوں میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کو یقینی بنانا ہو گا۔ کمیٹی نے نولانگ اور دادو پاور پراجیکٹس کی بندش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دو ہفتوں میں ان منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کےلئے وزارت پانی و بجلی اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی سے رپورٹ مانگ لی ہے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نولانگ ڈیم کےلئے 2010میں 11ارب روپے سے زائد کا پی سی ون منظور کیا گیا،12 ارب روپے سے زائد کی بڈنگ آنے پر اسے کینسل کر دیا گیا، 2013 میں 28ارب روپے کی بڈنگ آئی،2015 میں اسی کمپنی کی 20 ارب روپے کی بڈنگ آئی، مگر ایک بار بھی اس کمپنی کو بلیک لسٹ قرار نہیں دیا گیا۔ سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ کچی کینال پر 57 ارب روپے کے اخراجات کے باوجود ایک کنال زمین بھی سیراب نہ ہو سکی، یہ رقم غرق ہو گئی، سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پانی کے وسائل کےلئے کم سے کم پیسے رکھے جاتے ہیں اور اب تو صرف یہ وسائل 32 ارب روپے تک رہ گئے ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے پی سی ون ناکام اور لاگت دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، کسی پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی جاتی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حکومت کی طرف سے چھوٹے صوبوں کے منصوبوں کو ترجیح نہ دینے پر وزیراعظم کو خط لکھ چکا ہوں، منصوبوں کے بڑے بڑے پی سی ون بنتے ہیں، پیسے خرچ کر دیئے جاتے ہیں، غریبوں کے خون پسینے سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کو استعمال کیا جاتا ہے مگر نتیجہ صفر ہے، توانائی اور آبپاشی کے منصوبوں کے حوالے سے حکومت پنجاب سے نہیں نکل رہی، کچی کینال سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ، اس سے بڑی اور کیا ناکامی ہو سکتی ہے۔ چیئرمین واپڈا نے اس ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کو کارآمد بنانے کےلئے موثر منصوبہ بندی کی گئی، مزید 45 ارب روپے درکار ہیں، رواں برس کچی کینال سے 72 ہزار ایکڑ ڈیرہ بگٹی کی اراضیات سیراب ہو جائیں گی،31 اگست2017 تک 55 ہزار اور دسمبر 2018 تک مزید 17ہزار ایکڑ اراضیوں کو پانی ملنا شروع ہو جائے گا، 137 نئے پلگ لگا دیئے گئے ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے حکام نے بتایا کہ دادو منصوبے کے لئے سندھ حکومت سات ارب روپے کا اپنا شیئر دینے کےلئے تیار ہو گئی ہے۔ وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ بجلی کے مجموعی لائن لاسز 17.9فیصد ہیں،تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو پہنچایا گیا ہے،86فیصد گھریلو،11فیصد کمرشل،1.3فیصد انڈسٹریل،1.3فیصد ٹیوب ویلوں اور .1فیصد اسٹریٹ لائٹس و دیگر صارفین ہیں، یہ تمام صارفین بالترتیب 50،ساڑھے7فیصد،1.3،25.6،1.3 اور دیگر 6.1فیصد بجلی استعمال کر رہے ہیں،2012-13میں فی یونٹ بجلی کی قیمت13روپے 8پیسے تھی جو کہ 2016-17 میں 11روپے 57پیسے ہو گئی۔2015-16میں بجلی کی قیمت 10روپے 90پیسے تھی، ٹیکسوں کی وجہ سے صارفین کے بلز میں کمی نہیں آئی، نوید قمر، عذرا فضل اور شیخ رشید احمد نے کہا کہ بجلی پر ٹیکسوں کے اطلاق سے پارلیمنٹ لاعلم ہے۔ حکام نے بتایا کہ 2014میں بجلی کے بلز پر فی یونٹ 1روپے 23پیسے کا نیا اضافی سرچارج لگایا گیا،371 ارب روپے کے کمرشل قرضوں پر سروسز چارجز بھی صارفین سے وصول کئے جا رہے ہیں۔