اسلام آباد (آئی اےن پی) سپرےم کورٹ نے جہانگیر ترین کے وکیل کو دس روز میں آف شور کمپنی سے متعلق دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سماعت کے دوران رےمارکس دےئے کہ کیا ہم حقائق سے پردہ اٹھانے کےلئے تحقیقات کا آغاز کردیں، تحقیقات کرانا پڑیں گی کہ حقائق سے پردہ اٹھے، اگر دستاویزات نہیں ہیں تو کیسے مان لیں آف شور کمپنی جہانگیر ترین نے بنائی ،جہانگیر ترین کا آف شور کمپنی بنانے کا آپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے ، انکم ٹیکس کم دیا تو جہانگیر ترین جانیں یا انکم ٹیکس والے ہمارے پاس یہ معاملہ نہیں ،ہمارے پاس معاملہ جہانگیر ترین کے صادق اور امین ہونے کا ہے۔ جہانگیر ترین نے انٹرویو عدالت کے سامنے نہیں دیا تھا، دیکھنا ہوگا انٹرویو کی قانونی حیثیت کیا ہوگی، اپنی رائے کا اظہار صرف فیصلے کے ذریعے کرتے ہیں، ہم صرف سمجھنے کےلئے سوالات اٹھاتے ہیں ، ہم آف شور کمپنی کی قانونی حیثیت کو اس وقت نہیں دیکھیں گے، کیا ٹرسٹ ڈیڈ ہے؟ آپ نے ٹرسٹ بنایا آپ کے پاس تو ٹرسٹ ڈیڈ ہونی چاہئے؟ اگر آپ کے پاس نہیں تو بچوںکے پاس تو ہونی چاہئے۔ہم نہیں چاہتے کسی کا استحقاق کمپرومائز ہو میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ آپ نے کہا تھا ٹیکس معاملے پر عدالت نے حکم جاری کیا تھا آف شور کمپنی پر عدالت نے کونسا حکم جاری کیا ہے؟ ٹی وی انٹرویو کے علاوہ آف شور کمپنی سے متعلق کیا مواد ہے؟ حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ میرے پاس دیگر مواد دستیاب نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دستاویزات نہیں ہیں تو کیسے مان لیں آف شور کمپنی جہانگیر ترین نے بنائی۔ ہمیں کووارنٹو کا اسکوپ بتائیں ،جہانگیر ترین کا آٰف شور کمپنی بنانے کا آپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ حنیف عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس اخباری تراشوں کی بنیاد پر سنا عدالت نے کہا کہ پانامہ کیس میں تقاریر‘ ٹی وی انٹرویو اور دیگر مواد پر کارروائی شروع کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ جہانگیر ترین کی آف شور کمپنی کا نام کیا ہے۔ حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین نے 545 ملین روپے کی زرعی آمدن ایف بی آر میں ظاہر کی۔ الیکشن کمیشن کے سامنے زرعی آمدن 120 ملین روپے ظاہر کی گئی۔ جان بوجھ کر الیکشن کمیشن کو غلط بتایا گیا۔ 2010 میں فرق 425 ملین کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انکم ٹیکس کم دیا تو جہانگیر ترین جانیں یا انکم ٹیکس والے ہمارے پاس یہ معاملہ نہیں ہمارے پاس معاملہ جہانگیر ترین کے صادق اور امین ہونے کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یہ سمجھائیں کہ غلطی کیا ہے؟ حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین کو اپنی اصل آمدن ظاہر کرنی چاہئے تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی زیر التواءہے ہم کیسے کہہ دیں یہ غلط بیانی ہے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت صرف غلط بیانی کو دیکھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھتے ہیں اس معاملے پر جہانگیر ترین کے وکیل کیا موقف دیتے ہیں؟ جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کے بچوں کے گوشوارے پیش کروں گا دستاویزات حاصل کرلئے ہیں جمع کرادوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ ہفتے تک دستاویزات جمع کرادیں کیس کے دوران کم ہی تبصرہ کرتا ہوں۔ جہانگیر ترین نے انٹرویو عدالت کے سامنے نہیں دیا تھا۔ دیکھنا ہوگا انٹرویو کی قانونی حیثیت کیا ہوگی کسی دوسرے کیس پر کوئی بات کرکے اثر انداز نہیں ہونا چاہتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی رائے کا اظہار صرف فیصلے کے ذریعے کرتے ہیں، ہم صرف سمجھنے کےلئے سوالات اٹھاتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہاکہ جہانگیر ترین کے بچوں کی ویلتھ اسسمنٹ اور دستاویزات فراہم کریں گے، کمپنی کا نام شائنی ویو لمیٹڈ ہے، 27اپریل 2011کو قائم ہوئی، آف شور کمپنی کا ایک شیئر ہے جس کی پاور ویلیو نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آف شور کمپنی کی قانونی حیثیت کو اس وقت نہیں دیکھیں گے۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ آف شور کمپنی کا ایک شیئر ای ایف جی کمپنی کے نام ہے، دی رینڈم ٹرسٹ کمپنی کو جہانگیر ترین نے 5مئی 2011کو قائم کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جائیداد کی نوعیت کیا ہے، رقبہ کیا ہے؟اس کی تفصیل بتائیں۔ وکیل نے کہا کہ کمپنی کے ٹرسٹی سے رابطہ ہوا، اس نے تفصیلات کی فراہمی کےلئے عدالتی آرڈر مانگا، آف شور کمپنی کی ملکیت جہانگیر ترین کے ایک بیٹے اور3 بیٹیوں کے نام ہیں، آف شور کمپنی کی خریداری کتنے میں ہوئی، اس کی تفصیلات بعد میں دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم حقائق سے پردہ اٹھانے کےلئے تحقیقات کا آغاز کردیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ 2.5ملین پاﺅنڈز سے آف شور کمپنی بنائی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کےلئے تحقیقات کروانا پڑیں گی، تحقیقات کرانا پڑیں گی کہ حقائق سے پردہ اٹھے ،بتائیں پاﺅنڈز میں کتنے اثاثے خریدے گئے۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ 2011 میں 2.5 ملین پونڈ ٹرسٹ کے لئے بھیجے گئے۔ 2012 میں ہاف ملین پونڈ بھیجے گئے ‘ 2014 میں 1.1 ملین ڈالر بھیجے گئے۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ پراپرٹی ایک ہے پے منٹس تین کی گئیں کب خریدی یہ بتائیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے جو تحائف بھیجے وہ پاکستانی روپے میں بھیجے؟ وکیل نے کہا کہ یہ رقم آفیشل بینکنگ چینل کے ذریعے بھیجی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ٹرسٹ ڈیڈ ہے؟ آپ نے ٹرسٹ بنایا آپ کے پاس تو ٹرسٹ ڈیڈ ہونی چاہئے؟ اگر آپ کے پاس نہیں تو بچوںکے پاس تو ہونی چاہئے۔ وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے لئے میں کمپنی سے رابطہ کررہا ہوں میرے موکل جہانگیر ترین بینی فیشل آنر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے موکل جہانگیر ترین ٹرسٹ کے بینفشری نہیں؟ وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین نہیں انکے بچے بینفشری ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بچے ڈیپنڈنٹ ہیں ٹیکس ریکارڈ میں بتایا گیا ہے؟ جہانگیر ترین بےنےفشل فیشل آنر ہیں اور آپ نے ڈیکلیئر نہیں کیا ،کیا یہ بات درست ہے؟ وکیل نے کہا کہ عدالت کو مطمئن کروں گا بینی فیشل آنر جہانگیر ترین نہیں ان کے بچے ہیں۔ میں آف شور کمپنی سے متعلق مزید دستاویزات دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کسی کا استحقاق کمپرومائز ہو۔ آپ نے یہ ثابت کرنا ہے جو تحائف دیئے وہ اتنے ہی وصول بھی کئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اﷲ سپریم کورٹ کو سب کے ساتھ انصاف کی توفیق دے۔ عدالت نے جہانگیر ترین کے وکیل کو دس روز میں آف شور کمپنی سے متعلق دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔
