لاہور(خصوصی رپورٹ) صوبائی دارالحکومت سمیت مختلف اضلاع میں پولیس کی سرپرستی میں چلنے والے 2023 نجی ٹارچر سیلز کا انکشاف ہوا ہے جن میں 4 برس کے دوران پولیس کی تھرڈ ڈگری سے 16بے گناہ افراد ہلاک ہوئے ، متعدد افراد کو ہمیشہ کیلئے معذور کردیا گیا جبکہ اغوا ،دہشت گردی،پولیس مقابلے ،اغوا برائے تاوان ،قتل ،بھتہ خوری ،جیسی سنگین وارداتوں میں مطلوب 31 خطرناک اشتہاری ٹارچر سیلز سے پولیس کی مبینہ ملی بھگت سے فرار ہوئے ۔ آئی جی پنجاب عار ف نواز کو بھجوائی گئی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ لاہور ،ساہیوال ،اوکاڑہ ،ملتان ،فیصل آباد ،ٹوبہ ٹیک سنگھ ،چنیوٹ ،گوجرانولہ ،شیخوپورہ،راولپنڈی ،جہلم ،چیچہ وطنی اوردیگر اضلاع میں پولیس افسروں نے غیر قانونی نجی ٹارچر سیل قائم کررکھے ہیں جن میں بے گناہ شہریوں کو بھی رکھا جاتا اور ورثاسے تاوان وصول کیا جاتا ہے ۔ پولیس نے کئی بے گناہ شہریوں پر رولر پھیرے ،الٹا لٹکا کر چھترول کی ،ڈرل مشین سے جسم پر سوراخ کئے جس سے چار سا لوں کے دوران 16 ہلاکتیں رونما ہوئیں، ایسے واقعات کے بعد پولیس افسروں و اہلکاروں کے خلاف مقدمات بھی درج کئے گئے جو ابھی تک زیر التوا ہیں کچھ مقدمات کے مدعیوں کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا رہا۔ انویسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق تھانہ گرین ٹاﺅن کے سابق ایس ایچ او میاں افضل اور ساتھی پولیس اہلکاروں نے اوکاڑہ سے سابق فوجی ارشد اور ضیا اللہ کو اٹھایا اور 5 لاکھ رقم طلب کی۔رقم نہ ملنے پر پولیس تشدد سے ضیا اللہ ہلاک ہوگیاجبکہ ارشد معذور ہو گیا۔تھانہ لوئر مال کے سابق ایس ایچ او نوید اعظم نے آٹ فال روڈ کے رہائشی سعادت کو ڈکیتی کے شبہ میں گھر سے اغوا کیا اور وحشیانہ تشدد سے اسے مار ڈالا۔ سابق ایس ایچ او ملت پارک آصف کمانڈو نے رانجھا روڈ کے رہائشی دو بھائیوں کو گھر سے اغوا کیا دونوں پر رولرپھیرے گئے جس سے دونوں بھائی رضوان بھٹی اور ناصر بھٹی معذورہوگئے ۔رپورٹ کے مطابق بے گناہ شہریوں کی موت کے ذمہ دار متعدد پولیس افسر و اہلکار ابھی تک پرکشش سیٹوں پر تعینات ہیں ۔