انسانی جسم میں بظاہر سخت نظر آنے والی 206 ہڈیوں کا تمام حصہ اسی طرح سخت نہیں ہوتا بلکہ ان کے اندرونی حصہ کے نرم خلیوں میں کچھ خالی جگہ بھی ہوتی ہے۔ پیدائش سے بلوغت تک ہڈیاں نرم ہوتی ہیں اور پھر ان کے سرے اور درمیانی حصے جڑنے لگتے ہیں۔ یوں اٹھارہ انیس سال تک جسم کی تقریباً تمام ہڈیاں اپنی اصل شکل میں آ جاتی ہیں۔بالغ شخص میں جسم کی ہڈیوں کا تقریباً 10فیصد حصہ اپنی ساخت کو نئی ترتیب دیتا ہے اس کا بنیادی مقصد کیلشیم فاسفورس اور دوسرے معدنیات کا تناسب برقرار رکھنا، ہڈیوں کے اندرونی خلیوں میں ہونے والے توڑ پھوڑ کے عمل میں بے کار مادوں کو صاف کرتا ہے۔ یہ ری ماڈلنگ کا عمل کہلاتا ہے۔ یہ عمل پیدائش سے موت تک جاری رہتا ہے۔ البتہ عمر کے ساتھ ہڈیوں میں نئے صحت مند خلیے بننے کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ معدنیات کے جمع یا سٹور رہنے کی مقدار اور ان کا استعمال بھی کم ہو جاتا ہے۔ پچاس سال کی عمر کے بعد ہڈیوں میں کثافت یا ”بون ڈین سٹی“ کم ہونے لگتی ہے۔ خواتین میں یہ عمل ماہواری کی بندش کے بعد ہارمون ایسٹروجن کم ہونے سے شروع ہو جاتا ہے۔ نامناسب یا ناکافی خوراک، مضر صحت خوراک کا زیادہ استعمال، دودھ پروٹین کیلشیم والی غذا کا کم استعمال، وٹامن ڈی کی کمی، لائف سٹائل جیسی چیزیں بھی ہڈیوں کو جلد کمزور کرتی ہیں اور یوں ہڈیوں کی کثافت یا ڈینسٹی 20 سے 30 فیصد کم ہو جاتی ہے۔ ہڈیاں اندر سے بھربھری یا نرم ہو جاتی ہیں۔ یہ آسٹیو پروسز کا عمل ہے۔ اس میں ہڈیاں کمزور ہو کر جلد فریکچر کا شکار ہو سکتی ہیں۔ ہڈیوں کی ا صل شکل خراب ہو جاتی ہے اور ظاہری طور پر ہڈیاں ٹیڑھی یا بے ڈھب نظر آتی ہیں، کمر میں خم آ جاتا ہے، جسم میں خاص کر ہڈیوں میں ہر وقت درد رہتا ہے، جلدی تھکن ہو جاتی ہے۔آسٹیو پروسز کی ایک وجہ کیلشیم کے ساتھ وٹامن ڈی کی کمی بھی ہے۔ اکثر افراد ہڈیوں اور جوڑوں کی مضبوطی کے لئے کیلشیم کی گولیاں کھانا کافی سمجھتے ہیں حالانکہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہڈیوں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ ایکسرے اور بون سکین کے ذریعے آسٹیو پروسز کی تشخیص ہو سکتی ہے۔ لیکن ایکسرے میں صرف اس وقت واضح تبدیلی نظر آتی ہے جب بون ماس 20 فیصد تک ضائع ہو چکا ہو۔ آسٹیو پروسز کی علامات ظاہر ہونے پر وٹامن ڈی کا بلڈ ٹیسٹ ضرور کروائیں۔