لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے مختلف موضوعات کا احاطہ کرنے والے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ لیگی رہنما لندن میں سرجوڑے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف کی عدالت میں پیشی اس وقت ان کےلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیگی رہنما ذاتی خرچے پر تو لندن نہیں گئے ہونگے۔ پاکستان کے فیصلے تو عموماً امریکہ میں ہوتے ہیں تاہم ان پر عملدرآمد کی ڈیوٹی شاید برطانیہ کی لگائی جاتی ہے۔ اسی لئے ہمارے رہنما برطانیہ جاتے اور وہیں جائیدادیں بنانا پسند کرتے ہیں۔ 1970ءمیں پہلا لندن پلان سامنے آیا تھا جب انٹی بھٹو گروپ وہاں جمع ہوا تھا۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم شاہد خاقان کے اعصاب جواب دینا شروع ہو گئے ہیں۔ روزنامہ ”خبریں“ کے قیام کو 25 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ضیاشاہد ایک ورکنگ جرنلسٹ تھے اور ایک ورکنگ جرنلسٹ کا پاکستان میں اخبار نکالنا اور اسے کامیابی سے چلانا ناممکن تھا جسے ضیاشاہد نے ممکن کر دکھایا۔ ضیاشاہد کی حال ہی میں چار پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں ایک کتاب ”قلم چہرے“ تکمیل کے مراحل میں ہے جو تاریخ کے طالبعلموں کےلئے نادر تحفہ ہوگی۔ ضیاشاہد نے زندگی میں بڑے حادثات کا سامنا کیا۔ بیٹا اور داماد دنیا سے رخصت ہوگئے خود انہوں نے طویل بیماری کاٹی مگر کبھی حوصلہ اور ہمیت نہ ہاری اور عزم کے ساتھ صحافتی زندگی کا سفر جاری رکھا۔ معروف کالم نویس اسلم خان نے کہا کہ لندن میں لیگی رہنما اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ نواز شریف کی عدالت سے جان کیسے چھڑائی جائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو نواز دور میں عدالتوں کے چکر لگوائے جاتے رہے تاہم انہوں نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا اور پیشیاں بھگتتی رہیں۔ نواز شریف بھی اب اسی طرح ہمت کریں اور عدالتوں کا سامنا کریں۔ مریم نواز 4 سال تک بغیر کسی عہدے کے حرکت کرتی رہیں ہیں۔ غیر فطری چیزیں نہیں چل سکتیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہد خاقان کب تک معاملات کو لیکر چلتے ہیں۔ نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آئے ہیں۔ نواز شریف، شاہد خاقان اور جنرل باجوہ کی بھی تثلیث ہے۔ شاہد خاقان کے سسر جنرل (ر) ریاض جنرل باجوہ کا رشتہ لیکر جنرل (ر) اعجاز عظیم کے گھر گئے تھے اور رشتہ کرایا تھا۔ شاہد خاقان کے برادر نسبتی عابد ریاض اور جنرل قمر جاوید میں گہری دوستی ہے۔ نواز شریف نے شاہد خاقان کو وزیراعظم بھی اسی لئے بنایا کہ وہ فوج سے معاملات کو ٹھیک چلا سکتے ہیں۔ ضیاشاہد سے میرا بڑی محبت کا ر شتہ رہا ہے وہ بڑے فراخ دل، محبت کرنے والے اور پناہ دینے والے ہیں۔ موجودہ وقت میں بھی ضیاشاہد ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کا جھنڈا تھام رکھا ہے کسی اور میں یہ ہمت دکھائی نہیں دیتی۔ مجید نظامی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو ضیاشاہد نے پر کیا ہے۔ چیئرپرسن پلاک ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ لندن میں پہلی بار سیاسی رہنما اکٹھے نہیں ہوئے ماضی میں کئی بار لندن میں پلان بنتے رہے ہیں۔ لیگی رہنماﺅں کا وہاں اکٹھے ہوننا اچنبھے کی بات نہیں ہے ان کا لیڈر وہاں ہے تو اس سے مشاورت تو کرینگے۔ عدالتوں کو ڈکٹیٹروں نے بھی کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ انصاف سب کےلئے برابر ہونا چاہیے۔ احتساب وزیراعظم سے شروع ہوا ہے تو باقی سب کو بھی پکڑا جانا چاہیے۔ پھر ہی عوام کا اعتماد بحال ہو گا صرف ایک شخص کا احتساب ہوا تو عوام میں اس کےلئے ہمدردی پیدا ہوگی۔ عمران کی کوشش ہے کہ حکومت رخصت ہو جائے اور انہیں موقع مل جائے۔ ان کے جلسوں کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ ضیاشاہد کی کتاب ”امی جان“ پڑھی تو پتہ چلا کہ ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور معتبر گھرانے سے ہے۔ وہ ایک ذہین و فطین آدمی ہیں جنہیں اپنے اخبار اور چینل سے جنون کی حد تک محبت ہے۔ ضیاشاہد نے بیٹے اور داماد کے غم کے باوجود اپنا صحافتی مشن جاری رکھا۔ وہ جس طرح مختلف محاذوں پر ڈٹے نظر آتے ہیں اس طرح کوئی اور صحافی نظر نہیں آتا۔ ضیاشاہد کی شخصیت میں منافقت نہیں ہے اگر وہ ناراض ہوں تو چھپاتے نہیں ہیں۔ معروف تجزیہ کار سجاد بخاری نے کہا کہ اگر لندن میں بیٹھ کر ہی پاکستان کے فیصلے کرنے ہیں تو پھر آزادی حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ نواز شریف کو بچانے کےلئے نہیں ان سے جان چھڑانے کےلئے لندن میں اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ نواز شریف کی وجہ سے حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اگر لیگی رہنما سرکاری خرچ پر وہاں گئے ہیں تو یہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ لندن عالمی سیاست کا مرکز ہے۔ نواز شریف تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو مشکل کا شکار خود ہی کیا ہے۔ الیکشن جلد ہونے کے امکانات موجود ہیں، پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس کے باعث تحریک ا نصاف کو ا بھرنے کا موقع ملا اور اس نے ا پنے لئے چانس پیدا کر لیا ہے۔ ضیاشاہد کو صحافتی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے جرنلزم میں نئے ٹرینڈ متعارف کرائے۔ ایک عام صحافی کو طاقتور بنایا۔ ہمیشہ جرا¿ت و بہادری کا مظاہرہ کیا اور جدوجہد کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اپنی جرا¿ت بہادری اور دلیری سے جرنلزم کے شعبہ کو عزت دلوائی۔ ان سے پہلے جرنلزم کا تاثر مختلف تھا۔ ضیاشاہد کی تحریریں بڑی جاندار اور پرتاثیر ہوتی ہیں۔ ان کی کتابیں پاکستان کی تاریخ ہیں۔ ضیاشاہد کو اپنی بائیوگرافی بھی لکھنی چاہیے۔ وہ ایک سچے اور کھرے آدمی ہیں جنہوں نے زندگی میں سخت محنت کر کے اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ ضیاشاہد نے زندگی کے کٹھن سفر میں عام آدمی کی حیثیت سے سفر شروع کیا۔ معمولی کام بھی کئے تاہم آج جب وہ ایک بڑے مقام پر ہیں پھر بھی کبھی ماضی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور یہی ایک بڑے آدمی کی پہچان ہے۔