لندن/اسلام آباد(اے این این‘ مانیٹرنگ ڈیسک) لندن میں مسلم لیگ(ن)کا اعلیٰ سطح کا اہم مشاورتی اجلاس،نوازشریف کی قیادت پرمکمل اعتمادکااظہار، مائنس نواز فارمولااورکوئی غیر آئینی اقدام قبول نہ کرنے پر اتفاق ، سابق وزیراعظم کادونومبرکوپاکستان واپسی
کااعلان، تین نومبرکواحتساب عدالت میں پیش ہوں گے ،شفاف ٹرائل نہ ملنے کاشکوہ بھی کیا، ،ادھرسابق وزیرداخلہ چوہدری نثارنے لندن میٹنگ کواتفاقیہ قراردے دیا ۔ تفصیلات کے مطابق پیرکومسلم لیگ (ن) کے صدرنوازشریف کے زیرصدارت پارٹی کااعلیٰ سطح کااہم مشاورتی اجلاس سابق وزیراعظم کے صاحبزادے حسن نواز کے دفتر میں ہوا جوتقریباً تین گھنٹے جاری رہا ۔اجلاس میں وزیراعظم شاہدخاقان عباسی ،وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار ودیگرشریک ہو ئے ۔میڈیارپورٹ کے مطابق نوازشریف کے دونوں بیٹے حسین اور حسن نوازبھی اجلاس میں موجود تھے۔اجلاس میں پارٹی امور،ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اورشریف خاندان کے خلاف زیرسماعت نیب ریفرنسزسمیت دیگراہم معاملات پرتفصیلی غوراوراہم فیصلے کئے گئے ۔اجلاس میں نوازشریف کی قیادت پرمکمل اعتمادکااظہارکرتے ہوئے کہاگیاکہ مائنس نوازفارمولہ اورکوئی غیرآئینی اقدام قبول نہیں کیاجائے گا۔اجلاس کے بعدصحافیوں سے انتہائی مختصربات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہاکہ عدالت میں جوٹرائل ہورہاہے وہ سب سے سامنے ہے، مجھے شفاف ٹرائل نہیں ملا اگر فیئرٹرائل ہوتاتواقامے پرنااہل نہ کیاجاتا ۔انہوں نے کہاکہ میں سب دیکھ اورسمجھ رہاہوں کہ کیاہورہاہے؟ ۔انہوں نے کہاکہ کوئی مائنس نوازفارمولہ نہیں نہ ہی پارٹی میں کوئی تقسیم ہے ۔ انہوں نے دونومبرکوپاکستانی واپسی کااعلان بھی کیا ۔اس سے پہلےصحافیوں سے مختصرگفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ انہوں نے حکومت سے ایک دن کی چھٹی لی تھی نواز شریف سے ان کی ملاقات نجی تھی جو مفید رہی، ملاقات میں پاکستان میں چلنے والے مختلف امور پر بات چیت ہوئی۔انہوں نے کہاکہ مائنس نواز کے حوالے سے کوئی بھی فارمولا قابل قبول نہیں ہوگا، مسلم لیگ( ن) متحد ہے، مسلم لیگ کو توڑنے والی بات صرف افواہ ہے۔ ا نہوں نے کہاکہ آئندہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) متحد جماعت کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اترے گی ۔صحافیوں کے بارہااصرارپروزیراعظم نے انہی پوچھ لیاکہ (ن)لیگ کوکون توڑرہاہے کون شہبازشریف کوصدربنارہاہے،پارٹی کاصدرجنرل کونسل ہی منتخب کرتی ہے اسی نے نوازشریف کوپارٹی صدر بنایا وہی ان کو عہدے سے ہٹاسکتی ہے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ نواز شریف مقدمات کا سامنا کریں گے ،جلدپاکستان جائیں گے اور3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوں گے ۔ایک صحافی کے اس سوال پر کہ اجلاس میں ایک صوبے کا وزیراعلیٰ تھا باقی صوبے کے وزرائے اعلیٰ کیوں نہیں تھے وزیراعظم نے کہاکہ یہ وزرائے اعلیٰ کا اجلاس نہیں تھا۔ عدالت میں جاری ٹرائل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فیئرٹرائل عدالت میں جاکردیکھیں میں اس پر کیا کہ سکتا ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ پی آئی اے کی امریکہ پرواز کو بہت پہلے بند ہو جانا چاہیے تھا دیرسے بند ہوئی ہے،ایئربلیوکا 10 فیصدشیئرہولڈرہوں،ایئربلیوکاامریکاپروازشروع کرنیکاارادہ نہیں ۔ شہباز شریف نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں ان امور پر مشاورت ہوئی کہ پارٹی کو کس طرح لے کر چلنا ہے اور الیکشن کی تیاری کس طرح کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف پارٹی کے سربراہ ہیں اور پارٹی انہیں کی قیادت میں چل رہی ہے اور انہیں کی ہدایات پر تمام معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے مشوروں سے ہر بات طے ہوگی ۔ انہوں نے واضح کیا کہ پارٹی کو کوئی خطرہ نہیں ہے، شفاف ٹرائل نواز شریف کا جائز مطالبہ ہے۔ دوسری جانب پیرکو اسلام آباد میں میڈیا سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)کے رہنماوں کا لندن میں کوئی ہنگامی اجلاس نہیں ہو ا بلکہ تمام رہنما اتفاقی طور پر اکٹھے ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پاناما معاملے پر نواز شریف کو تقریر نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، انہیں سپریم کورٹ کو کمیشن کے لئے خط بھی نہیں لکھنا چاہیے تھا، سپریم کورٹ میں ہم خود گئے، میں نے منع کیا تھا، کمیشن بنانا اور امیونٹی چھوڑنا کس کا مشورہ تھا؟ اب سارا نقصان ہو چکا ہے، اب ٹھنڈے مزاج کے ساتھ چلنا چاہئے اور عدالت کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرنی چاہئے، عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے، تنقید کی جا سکتی ہے لیکن عدالت کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے، ہمیں عدالتوں سمیت ملک کے دیگر اداروں کا احترام کرنا ہوگا، عدالت کے فیصلوں پر اعتراض کیا جاسکتا ہے ہم کسی صورت محاذ آرائی کے متحمل نہیں، مجھے پہلے پتہ تھا کہ اگر عدالتی فیصلہ خلاف آیا تو پارٹی محاذ آرائی کرے گی، اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ حکومت سے الگ ہو جاو¿ں۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم الیکشن کی طرف جا رہے ہیں اور ہمارے سیاسی مخالفین نے انتخابی مہم شروع کررکھی ہے، مسلم لیگ(ن)سیاسی جماعت ہے، پارٹی کے اندر کوئی تقسیم نہیں بس اختلاف رائے ہے جو کہ جمہوری نظام کا حصہ ہے، ہماری پارٹی میں ایک مفاہمتی گروپ اور ایک مزاحمتی گروپ ہے، میں نے اپنے تحفظات بیچ سڑک پر نہیں بلکہ پارٹی کے اجلاسوں میں بیان کئے ، ( ن) لیگ اس وقت ذاتی مفادات پر مبنی پارٹی بن چکی ہے اس وقت پارٹی میں صرف ذاتیات پرتوجہ دی جا رہی ہے، ہمیں ذاتیات سے نکل کر پارٹی کے مفاد کو دیکھنا ہوگا، اگر ایسا کیا تو ذاتیات کے ساتھ پارٹی کو بھی فائدہ ہوگا پارٹی قیادت کو اب گو مگو کی کیفیت سے باہر آنا ہو گا ۔خدانخواستہ مسلم لیگ کوکوئی نقصان پہنچا توبہت بڑا سیاسی خلا پیدا ہوجائے گا مجموعی پارٹی کے مسائل پر سوچنا ہو گا ۔