لاہور (خصوصی رپورٹ) مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان کی کم تعداد سینٹ میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیم کی عدم منظوری کے بارے میں دلچسپ انکشافات ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جمعرات کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 110ارکان کی شرکت سے حکمران جماعت کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور حکومت کے اہم ارکان کو محسوس ہوا کہ سرکاری ارکان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ختم ہونے کے بعد جب وزراءاجلاس میں پہنچے تو پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکان جو پہلے سے موجود تھے‘ نے اعتراض کیا کہ جب آپ کے ارکان پورے نہیں اور آپ کی دلچسپی کا یہ عالم ہے تو ہمیں کیوں بٹھا رکھا ہے جس کے بعد سعد رفیق اور دیگر وزراءنے بھاگ دوڑ شروع کی اور ٹیلیفونک رابطوں کے علاوہ پارلیمانی ہاسٹل سے 16ارکان کو منت سماجت کر کے اجلاس میں آنے پر آمادہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے 22ارکان اسمبلی ایسے تھے جو اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد پہنچے ہی نہیں جبکہ 28ناراض ارکان بھی غیرحاضر رہے‘ جبکہ 23ارکان قومی اسمبلی میں آئے اور ووٹ ڈالے بغیر ہی چلے گئے‘ جب اعلیٰ سطح پر ان ارکان سے بازپرس کی گئی کہ اجلاس میں عدم شرکت نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہے‘ ان کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے تو ان کا جواب تھا کہ پہلے حمزہ شہبازشریف کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ شہبازشریف اور حمزہ شہباز نے دو درجن سے زائد ارکان کو چائے پر بلایا لیکن انہیں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر قائل کرنے کی بجائے فرمائش کی کہ وہ اپنے حلقوں میں جلسوں‘ اجتماعات اور ریلیوں کا اہتمام کریں جن میں وہ شریک ہوں گے۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ناراض ارکان کو پیر کے روز ظہرانے پر ملاقات کی دعوت دی ہے۔ بیشتر ارکان نے شرکت کی حامی بھر لی لیکن یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ حکومتی ہدایت کی پابندی کریں گے۔ سینٹ کے ناراض ارکان یہ یقین دہانی کرانے پر تیار نہیں کہ وہ حلقہ بندیوں کے بارے میں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔
وزراءکی دوڑیں
