اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی نے برقی توانائی کی پیداوار ‘ ترسیل اور تقسیم کو منضبط کرنے کے (ترمیمی) بل 2017ءکی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اوور بلنگ کے ذمہ دار عملہ کو تین سال تک سزا دی جاسکے گی‘ نیپرا کو مستحکم کرنے اور اسے تحقیقات کا اختیار ہوگا۔ پیر کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر سردار اویس احمد خان لغاری نے تحریک پیش کی کہ رولز کو معطل کرکے ترجیحی بنیادوں پر یہ بل لیا جائے جس پر ایوان سے رائے لے کر رول معطل کرکے یہ بل قائمہ کمیٹی کی پیش کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔ تحریک کی منظوری کے بعد ایوان سے شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر اور تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس بل سے اصولی طور پر ہمیں کوئی اختلاف نہیں ¾یہ ایک اچھی کاوش ہے لیکن اچھا کام عجلت میں نہ کیا جائے جس پر وفاقی وزیر اویس خان لغاری نے کہا کہ پورے ملک میں صارفین کو اس وقت اوور بلنگ کا سامنا ہے‘ اس بل کے تحت اوور بلنگ میں ملوث افسران اور سٹاف کو تین سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔ قائمہ کمیٹی نے یہ بل متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔ اگر یہ بل منظور ہوتا ہے تو بجلی کے شعبہ میں درپیش مشکلات کا ازالہ ممکن ہوگا۔ اگر آج بل منظور نہیں ہوا تو اس کی منظوری میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل سے موجودہ فریم ورک کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ ریگولیٹر کی حدود متعین ہوں گی تو نیپرا کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ نیپرا کے ممبران کے لئے اہلیت اور قابلیت کا معیار طے کیا گیا ہے۔ قانونی معاملات نمٹانے کے لئے ٹریبونل قائم کرنے کی تجویز بل میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل کی منظوری میں عجلت سے بچنے کے لئے اسے منظور کیا جائے۔ اس کے بعد ایوان سے شق وار منظوری کا عمل شرو ع ہوا جس کے بعد وفاقی وزیر بجلی اویس لغاری نے بل ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس بل کے تحت کوئی بھی شخص کسی خریدار کو برقی توانائی کی فراہمی اتھارٹی کی جانب سے لائسنس کے بغیر نہیں کر سکے گا۔ اپوزیشن کی جانب سے وفاقی حکومت کی جانب سے سرچارج لگانے کی شق پر اعتراض کیا جس پر اویس لغاری نے کہا کہ اس شق کو بل سے نکال دیا جائے‘ اسے بعد میں منظور کرا لیا جائے گا جس کے بعد شق 40 مسترد ہوگئی۔ اس بل کے تحت پیداواری کمپنیوں کے فرائض میں شامل ہوگا کہ وہ ترسیلی لائنز بچھانے‘ اسے چلانے اور برقرار رکھیں گی۔ اس بل کے تحت قومی برقیاتی پالیسی و منصوبہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری سے وفاقی حکومت بنائے گی۔ اس بل کے تحت ایک ٹریبونل قائم کیا جائے گا جس کا چیئرمین عدالت عالیہ کا سابق جج ہوگا۔ اس کی مدت تین سال ہوگی جبکہ اس میں چاروں صوبوں سے نمائندے اور وفاقی حکومت کا ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ بعد ازاں شق 50 میں بھی اپوزیشن کی ترمیم شامل کرلی گئی۔ بعد ازاں انہوں نے بل ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔اجلاس کے دور ان قومی یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی بل 2017ءپر قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی۔ شائستہ پرویز ملک نے سپیکر کے کہنے پر یہ رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ شیر اکبر خان اور دیگر کے پیسکو پشاور کو تخفیف نقصانات ‘ توانائی اور تقسیم برقی توانائی کے فنڈز جاری نہ کئے جانے سے متعلق توجہ دلاﺅ نوٹس کے جواب میں وفاقی وزیر اویس احمد خان لغاری نے کہا کہ 2017ءمیں پیسکو کو کہا گیا تھا کہ اپنی ایڈیشنل ڈیمانڈ دے‘ ایک ارب روپے سے زائد اضافی مانگے گئے۔ بجٹ میں 8.6 ارب روپے کی ضرورت تھی۔ 2016-17ءکی دو ارب روپے اسینشل تھی۔ چھ ماہ میں 1.1 روپے کی اسینشل تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 2017-18ءاکتوبر تک پیسکو کے 1.3 ارب روپے استعمال کئے جو 13 فیصد بنتا ہے۔ یہ اپنے ترقیاتی اہداف سے بہت پیچھے ہیں۔ اس کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ شیر اکبر کے بیان پر انہوں نے بتایا کہ نئے قانون کے تحت مزیڈ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں آئیں گی اور صارفین کو بجلی فراہم کر سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اوور بلنگ کے خاتمے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے اقدامات لائق مستحسن ہیں۔ لوگ اب حلف دے رہے ہیں۔ اوور بلنگ کو بہتر کر رہے ہیں۔ سفارش پر تقرر و تبادلے نہیں ہو سکیں گے ۔ جب ایس ڈی او کی کارکردگی درست نہیں ہوگی تو اسے عہدہ پر نہیں رکھا جائے گا۔ انقلابی سوچ پر ہم یہ کر رہے ہیں۔ صارف کو اس ماہ اس کے اثرات نظر آئیں گے۔ ساجدہ بیگم کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملازمین کو بجلی کی مفت فراہمی ختم کرنے کی تجویز بورڈ کو ارسال کردیں گے۔قبل ازیں اجلاس کے دور ان نواب یوسف تالپور‘ شازیہ مری‘ سید نوید قمر‘ ڈاکٹر عذرا فضل اور عبدالستار بچانی کے توجہ مبذول نوٹس کے جواب میں وفاقی وزیر پانی جاوید علی شاہ نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے‘ پانی نہ صرف زراعت کے استعمال‘ بجلی کے حصول بلکہ انسان اور انسانیت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی کمی کی وجہ بارش کم ہونا ہے۔ ہمارا اندازہ تھا کہ 20 سے 21 فیصد پانی کی کمی ہوگی۔ تاہم اس وقت 36 فیصدپانی کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا مجموعی اخراج 43.2تک پہنچ چکا ہے۔ توقع ہے کہ بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے سے پانی کی قلت میں کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے ذخیرہ سے بھی پانی استعمال کرنا پڑا ہے۔ اس مسئلے کا اصل حل پانی کے ذخائر بنانے میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم منصوبہ تیار ہے اس پر فنڈنگ ہو تو کام شروع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مہمند ڈیم سمیت کئی چھوٹے ڈیم کے پی کے ‘ بلوچستان میں ہیں جن پر پانی ذخیرہ کے لئے فنڈنگ ہو جائے تو آنے والے وقت میں پانی کی قلت میں بہت حد تک کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اس پر صرف باتیں نہیں عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد کچھ چیزیں صوبوں کے پاس چلی گئی ہیں۔ وفاق اور صوبے فنڈنگ کا مسئلہ حل کر دیں تو یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں پانی صاف کرنے کا پلانٹ بھی لگانا تھا اس پر کام شروع ہونا چاہیے۔ نواب یوسف تالپور نے کہا کہ پانی کی کمی صرف ایک صوبے کے لئے ہے یا پورے پاکستان کے لئے ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1530 فٹ پر آتی ہے تو یومیہ دو فٹ بھرتے تھے۔ بعد ازاں نومبر میں ایک فٹ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ڈیم بھر نہیں سکا اور بلوچستان کو 11 فیصد اضافی پانی دیا جارہا ہے۔ وزیر پانی و بجلی جاوید علی شاہ نے اس نکات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ منگلا ڈیم‘ تربیلا ڈیم‘ دریائے سندھ‘ دریائے جہلم‘ دریائے کابل میں پانی کا بہائہ بہتر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 35000 کیوسک‘ سندھ کو درکار ہے اور یومیہ اتنا پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ہدایت دی کہ پانی کی قلت کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ توجہ دلاﺅ نوٹس میں شامل اراکین قومی اسمبلی اور جو ممبران دلچسپی رکھتے ہوں ان کے لئے وزارت پانی (کل) بدھ کو خصوصی بریفنگ کا انتظام کرے۔ عبدالستار بچانی کے سوال پر وفاقی وزیر آبی امور سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ سندھ کو فراہم ہونے والے پانی میں کسی قسم کا کٹ نہیں لگایا گیا۔ جتنی طلب ہے وہ پوری کی جارہی ہے۔ شازیہ مری کے سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ تربیلا ڈیم سے 3.456 ملین ایکڑ فٹ اخراج ہے۔ سید نوید قمر کے سوال پر انہوں نے کہا کہ گدو بیراج پر دو اطراف سے پانی مل رہا ہے‘ ایک طرف چشمہ دوسری طرف پنجند سے آرہا ہے۔ پانی کی جو کمی ہوئی ہے وہ چشمہ سے پانی لے کر کمی پوری کی۔ سندھ کو پورا پانی فراہم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عذرا فضل کے سوال پر انہوں نے کہا کہ تربیلا سے پانی چشمہ اور چشمہ سے گدو میں آتا ہے اور اگر کوئی کمی رہ جائے تو تونسہ سے پانی پورا کرکے ارسا سندھ کو پانی دے رہی ہے۔بعد ازاں قومی اسمبلی نے قومی یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی بل 2017ءکی اتفاق رائے سے منظوری دے دی وزیر مملکت برائے سائنس و ٹیکنالوجی میر دوستین ڈومکی نے قائمہ کمیٹی کی پیش کردہ صورت میں بل زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دے دی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی۔ بعد ازاں وزیر مملکت نے بل ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جس کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی گئی۔