واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے وہ قرارداد منظور کرلی ہے جس میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے۔ جس کے بعد بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علامتی قرارداد کا امریکہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جبکہ اگر امریکہ نے مخالفت کرنے والے ممالک کی امداد روک لی تو اس کے سنجیدہ نقصانات ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مخالفت کرنے والے ممالک کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن کیا وہ ایسا کر پائیں گے؟ اس بارے میں تاحال وائٹ ہاوس سے کوئی بیان تو جاری نہیں ہوا لیکن ماہرین کے بقول ایسا کرنا مشکل ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔ قانونی اعتبار سے امریکہ پر ہرگز لازم نہیں کہ وہ قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنائے لیکن اس سے اسرائیل کے خلاف ایک مرتبہ پر عالمی برادری یکجا ضرور نظر آئی ہے۔ اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار ڈاکٹر مقتدر خان نے کہا کہ ’یہ ایک علامتی قرارداد ہے اس سے کچھ بدلنے والا نہیں ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پالیسی بدلنے والے نہیں۔‘ڈاکٹر مقتدر کا کہنا تھا کہ ’ایک طرح سے ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً ساری دنیا کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ یہ بات ظاہر کریں کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا ناقابل قبول ہے۔ ایک مرتبہ پر اسرائیل دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اسرائیل اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کی ہار ہے مگر فلسطین کی جیت بھی نہیں، کیونکہ فلسطینیوں کو اس سے کچھ نہیں ملنے والے اور اگر آپ یروشلم کا نقشہ دیکھیں تو فلسطین پہلے ہی اپنی بہت ساری زمین یہودیوں کے ہاتھوں کھو چکا ہے۔‘خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ عالمی برادری نے بڑی سطح پر اقوام متحدہ میں امریکہ کی مخالفت کی ہے۔ اس سے پہلے بھی جب فلسطین کو ’نان سٹیٹ ممبر‘ کا رتبہ دینے پر رائے شماری ہوئی تھی تو بھی امریکہ کی مخالفت ہوئی اور وہاں بھی امریکہ کی ہار ہوئی تھی۔اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر امریکہ ہمیشہ تنہا رہا ہے۔ عراق کی جنگ کے معاملے میں بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکہ کی محالفت میں قرارداد منظور کی تھی، مگر عراقی جنگ پر بھی ہوئی۔جبکہ اسرائیل کا ساتھ دینے کی ایک وجہ امریکی سیاستدانوں میں مضبوط سیاسی لابی ہونا ہے۔ سابق صدر اوباما بھی جاتے جاتے اسرائیل کو 38 بلین ڈالر کی امداد دے کر گئے تھے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں مقیم تجریہ کار کامران بخاری کہتے ہیں کہ اخلاقیات ایک طرف اور طاقت کا سرچشمہ ایک طرف، امریکہ دنیا کا طاقتور ملک ہے اور وہ اپنے ساتھی ممالک کے خلاف کبھی نہیں جائے گا۔کامران بخاری کا کہنا ہے کہ ’امریکی صدر کے لیے اپنی دھمکی پر عمل درآمد کرنا بظاہر مشکل ضرور ہو گا۔ کیونکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا صدر ٹرمپ کا فیصلہ امریکہ میں بھی تنقید کا نشانہ بنا ہے، انہیں خاصی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’کیا ایسے میں وہ اپنے خلاف جانے والے ملکوں کی امداد روکنے کے سلسلے میں حمایت اکھٹی کر پائیں گے؟ لیکن اگر صدر ٹرمپ امداد روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بہت سارے ملک خاصہ نقصان اٹھا سکتے ہیں خصوصاً وہ ممالک جو غریب ہیں۔‘واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے سب سے بڑی فوجی امداد لینے والے چھ ملک ہیں جن میں پاکستان، افغانستان اور عراق سمیت پانچ مسلم ممالک اور ایک اسرائیل ہے، تو کیا پاکستان کی مالی امداد ختم کی جا سکتی ہے ؟اس سلسلے میں ڈاکٹر مقتدر خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان یا دیگر ملکوں کو ملنے والی امریکی فوجی امداد اس لیے دی جاتی ہے کیونکہ وہ امریکہ کے قومی مفاد میں ہے۔ تو وہ تو نہیں ختم کی جا سکتی لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ جو چھوٹے کم امداد لینے والے ایک دو ملک ہیں ان کو نشانہ بنایا جا سکتاہے محض علامتی طور پر۔‘ڈاکٹر مقتدر خان کا کہنا تھا کہ ’اہم چیز یہ ہے کہ امریکہ تقریباً آٹھ بلین ڈالر کی سالانہ امداد اقوام متحدہ کو دیتا ہے یعنی وہ اقوام متحدہ کو ملنے والی ایک چوتھائی سے زیادہ امداد۔ اگر امریکہ وہ امداد کم کرتا ہے تو اس سے اقوام متحدہ کے بہت سارے منصوبوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔