مجلس وحدت المسلمین کے لاپتہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی ایک ماہ بعد واپسی،اغواءکس نے کیا،سنسنی خیز خبر

لاہور( ویب ڈیسک)مجلس وحدت المسلمین کے لاپتہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی ایک ماہ بعد بحفاظت واپس پہنچ گئے۔ناصر شیرازی کو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جاتے ہوئے واپڈا ٹاو¿ن کے علاقے سے نامعلوم افراد زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ناصر شیرازی کے چھوٹے بھائی علی شیرازی کے مطابق ناصر شیرازی خیریت سے ہیں۔رابطہ کرنے پر مجلس وحدت المسلمین کے ترجمان مظاہر شگری نے بتایا کہ میری ناصر شیرازی سے باتہوئی ہے وہ خیریت سے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ناصر شیرازی کو مضافاتی علاقے میں چھوڑا گیا جہاں سے وہ کسی محفوظ مقام پر پہنچے اورٹیلیفون کال کر کے پارٹی رہنماو¿ں کو آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی رہنماو¿ں نے انہیں بتائے گئے مقام سے اپنے ساتھ لیا جس کے بعد وہ علامہ راجہ ناصر عباس کی رہائشگاہ پر پہنچے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قیادت مشاورت کر رہی ہے اور متوقع طور پر کل منعقدہ پریس کانفرنس میں ناصر شیرازی اغواءکاروں کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کریں گے۔یاد رہے کہ مجلس وحدت المسلمین کی قیادت کی جانب سے اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماو¿ں سے ملاقاتیں کی گئیں اور ان سے ناصر شیرازی کی بازیابی کا مطالبہ کرنے کیلئے آواز بلند کرنے کی درخواست کی گئی تھی جبکہ اس سلسلہ میں دس دسمبر کو دھرنا دینے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ناصر شیرازی کے لا پتہ ہونے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر تھی اور فاضل عدالت کی جانب سے حساس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انہیں بازیاب کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیاتھا۔

 

نگران وزیر اعظم کیلئے نئے نامور نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی دارالحکومت میں نگران وزیراعظم کی تلاش شروع کر دی گئی۔ مختلف ناموں پر غور شروع کر دیا گیا۔ حکومت دھرنے کے دوران پی ٹی وی کو فساد پھیلانے کیلئے استعمال کرتی رہی۔ سپریم کورٹ نوٹس لے۔ یہ انکشافات سینئر صحافی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کئے۔ انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کیلئے اب تک جسٹس (ر) وجیہہ الدین، رضا ربانی، وسیم سجاد اور مشاہد حسین سید کے نام سامنے آئے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ وقت پر الیکشن نہیں چاہتے اسی باعث سینٹ میں ترمیم روک دی گئی ہے، دونوں جماعتوں کا منصوبہ ہے کہ طویل عرصہ تک نگران سیٹ اپ چلایا جائے تا کہ اس دوران عمران خان کی مقبولیت کا گراف نیچے لایا جا سکے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ختم نبوت قانون میں تبدیلی کی اصل حقیقت سامنے آنے تک کیس ختم نہیں ہو گا۔ دھرنے کے دوران پاکستان ٹیلی ویںن پر عائشہ گلا لئی کو لایا گیا جو اسلام آباد اور پنڈی کے عوام کو اکساتی رہی کہ غلیلیں اور ڈنڈے لے کر باہر نکلو اور دھرنے میں بیٹھے جنونیوں کو بھگاﺅ میں تمہاری سپہ سالار بنوں گی۔ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت عوام اور دھرنے والوں کو لڑانا چاہتی تھی، سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ اس معاملہ کا نوٹس لیتے ہوئے فوری ریکارڈنگ منگوا کر دیکھی جائیں اور چیئرمین پی ٹی وی سے اس حوالے سے وضاحت طلب کی جائے۔

60 لیگی ارکان اسمبلی کی بغاوت

کراچی (خصوصی رپورٹ) نبیل گبول نے دعویٰ کیا ہے کہ 60 ارکان اسمبلی ن لیگ چھوڑنے کو تیار ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق نبیل گبول کا کہنا تھا کہ ترقیاتی کاموں کیلئے ارکان اسمبلی کو 200 ارب دیئے گئے۔ شاہد خاقان عباسی برائے نام وزیراعظم ہیں۔ وہ تمام ہدایات نوازشریف سے لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف جیل نہیں بیرون ملک چلے جائیں گے۔ نوازشریف اداروں پر دباﺅ ڈال کر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔

عدلیہ کیخلاف محاز آرائی مریم نواز کو مہنگی پڑی، عدالت نے بڑا اقدام اٹھا لیا

لاہور (خصوصی رپورٹ)لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی بیٹی مریم نواز کے عدلیہ مخالف ٹوئٹر میسج کے خلاف درخواست پر بھی نوٹس جاری کردئیے جبکہ نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی تمام درخواستیں یکجا کرنے کا حکم دیدیا۔ درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد نوازشریف مسلسل عدلیہ سمیت اہم ملکی اداروں کو ہدف تنقید بنارہے ہیں اور توہین آمیز تقاریر کررہے ہیں۔ وکیل نے نشاندہی کی کہ حال میں ہی نوازشریف نے ایبٹ آباد میں عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز تقریر کی، ان کا یہ خطاب توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ درخواست گزار نے استدعا کی کہ سابق وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ دنیا بھر میں توہین عدالت کا قانون ختم ہورہا ہے۔ آپ نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے کیوں نہیں رجوع کیا۔ جس پر وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ لاہور ہائیکورٹ بھی اس معاملے کی سماعت کا مکمل دائرہ اختیار رکھتی ہے۔ وکیل نے بتایا کہ نوازشریف کی بیٹی مریم نواز نے بھی عدلیہ مخالف ٹوئٹس کیے ہیں جوتوہین کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کی بیٹی کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کردئیے جبکہ نوازشریف کیخلاف ایک نوعیت کی مختلف توہین عدالت کی درخواستیں یکجاکر نے کا حکم دیدیا۔

ہاشمی نواز ملاقات، مسلم لیگ ن میں کھلبلی، پارٹی میں شمولیت

ملتان (سپیشل رپورٹر) 2014ءکے دھرنے کے دوران پی ٹی آئی کی کمر میں چھرا گھونپ کر اس پارٹی کے قیام سے آج تک سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے جاوید ہاشمی بالآخر ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“ کے مصداق ، واپس مسلم لیگ (ن) میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ یوں تو جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) چھوڑی ہی نہ تھی بلکہ ایک منصوبے کے تحت الگ ہوئے تھے لیکن اب وہ باقاعدہ فوٹو سیشن کے بعد اپنی اصل جگہ پہنچ جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کوئٹہ سے واپسی پر ملتان میں مختصر قیام کرکے جاوید ہاشمی کو رسمی دعوت دیں گے اور چار سال سے طے شدہ ڈیل اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گی۔ اس شمولیت سے جو اصل پیغام دیا جا رہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذ آرائی میں تیزی آ جائے گی کیونکہ جاوید ہاشمی بظاہر نیوٹرل رہ کر گزشتہ 3 سال سے عدلیہ اور فوج کو کورید رہے ہیں اور ہر موقع پر سخت ترین بیانات انہی کی طرف سے سامنے آتے رہے ہیں۔ واقفان حال کے مطابق واپسی ڈیل میں یہ بات شامل ہے کہ وہ عدلیہ اور فوج کے خلاف سخت موقف رکھتے ہوئے یہی کہیں گے کہ یہ ان کا ذاتی موقف گزشتہ تین سال سے ہے اور پارٹی میں آنے سے ان کا موقف تبدیل نہیں ہوا کیونکہ نواز شریف نے تو بہت بعد میں یہ لائن لی جبکہ انکے ذریعے ہاشمی کھیل تو عرصہ سے کھیلا جا رہا ہے۔ اب ہاشمی واضح طور پر یہی کہیں گے ان کا 2014ءسے ایک موقف ہے جس پر وہ قائم ہیں۔ جاوید اختر سے جاوید ہاشمی اور پھر مخدوم جاوید ہاشمی بننے والے جنوبی پنجاب کے اس سیاستدان نے اپنی سیاست کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا اور 1974ءتک طلبہ سیاست کی۔ اس کے بعد فخر امام نواز شریف اور جاوید ہاشمی نے پاکستان تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی اور آئی جے آئی کی طرف سے 1977 کے الیکشن میں ہاشمی تحریک استقلال کے کوٹے سے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے لاہور میں موصوف تجزیہ کار جناب مجیب الرحمن شامی کے ساتھ پارٹنر شپ کی۔ سابق کور کمانڈر ملتان میجر جنرل اعجاز عظیم جاوید ہاشمی پر خاص توجہ دیتے تھے اور انہیں جنوبی پنجاب سے لانچ کرنا چاہتے تھے۔ ضیاءالحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے نوجوانوں کو سیاست میں لانے کا فیصلہ کیا اور ازخود جاوید ہاشمی کے علاوہ زکریہ یونیورسٹی ملتان کے سابق صدر فاروق تسنیم سے بھی ملاقات کی۔ فاروق تسنیم شدید مالی مسائل کا شکار تھے لہٰذا انہوں نے محض کسٹم کی نوکری سے اکتفا کیا اور اپنے مالی حالات درست کرلیے۔ البتہ جاوید ہاشمی سابق کور کمانڈر ملتان میجر جنرل اعجاز عظیم کی طرف سے د یجانے والی بریفنگ کی روشنی میں ضیاءالحق سے مارشل لاءچھتری تلے وزارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں کھیل اور ٹورازم کی وفاقی وزارت ملی، حالانکہ ایم پی اے کا الیکشن ملتوی ہونے پر پنجاب اسمبلی کے رکن بھی نہ بن سکے جبکہ عام شہری کی حیثیت سے مارشل لا کی چھتری تلے وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔ فوج کی چھتری تلے پہلی کامیابی جاوید ہاشمی کو اس وقت ملی جب 1983ءکے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے فخرامام کے ساتھ گروپ بنا کر حامد رضا گیلانی کو شکست دے دی اور اس اینٹی گیلانی گروپ نے پہلی مرتبہ ضلع ملتان میں اپنی شناخت بنائی جو اس وقت خانیوال اور لودھراں پر مشتمل تھا۔ اس کامیابی کے بعد جنرل ضیاءالحق نے چیئرمین ضلع کونسل ملتان فخر امام کو براہ راست وفاقی وزیر بلدیات بنا لیا اور 1985ءکے الیکشن میں ہاشمی اور فخرامام گروپ نے ملتان میں قومی اسمبلی کی دس میں سے پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ اس گروپ کے کامیاب اراکین قومی اسمبلی میں سید فخرامام‘ جاوید ہاشمی‘ شیخ رشید‘ بابو فیروز الدین انصاری اور آفتاب ڈاہا شامل تھے۔ اب جاوید ہاشمی کو اسٹیبلشمنٹ کی چتھری کی ضرورت نہ رہی تھی۔ لہٰذا ممبر قومی اسمبلی کا حلف اٹھاتے ہی انہوں نے قومی اسمبلی میں انڈی پینڈنٹ پارلیمانی گروپ جسے آئی پی جی کا نام دیا گیا تھا قائم کیا اور خواجہ صفدر کے مقابلے میں فخرامام کو سپیکر قومی اسمبلی کامیاب کرا دیا۔ اس گروپ میں سیدہ عابدہ حسین‘ حاجی سیف اللہ‘ شیخ رشید احمد بھی شامل تھے۔ تحریک استقلال کے دور میں نوازشریف سے دوستی انہیں مسلم لیگ میں اوپر لاتی گئی اور نوازشریف کی بیرون ملک موجودگی کے بعد انہوں نے پارٹی سنبھالے رکھی مگر نوازشریف کے واپس آنے کے بعد 2012ءمیں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خواجہ آصف اور چودھری نثار علی خان نے ہاشمی کی سب کی موجودگی میں بے عزتی کی اور یہ ساری کارروائی نوازشریف کے سامنے ہوئی۔ جاوید ہاشمی پارلیمانی لیڈر یا پھر پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی لینا چاہتے تھے جو انہیں نہ ملی اور فاصلے بڑھتے گئے حتیٰ کہ متعدد مرتبہ جاوید ہاشمی یہ کھلے عام کہا کرتے تھے کہ ان کے کہنے پر تو ایس ایچ او مخدوم رشید بھی بات نہیں سنتا بلکہ ملتان کی ساری انتظامیہ اور پولیس ان کیخلاف چلتی ہے حالانکہ ہاشمی کی فریاد پر نوازشریف نے انہیں رسمی طور پر پارٹی کا سینئر نائب صدر بنا رکھا تھا مگر مکمل طور پر وہ بے اختیار تھے۔ اس دوران خواجہ سعد رفیق نے مسلم لیگی لیڈروں کی پشت پناہی میں ایک کھیل کھیلا اور ہاشمی جو پہلے ہی ڈپریشن کا شکار تھے کو اعتماد میں لے کر پی ٹی آئی میں شمولیت کروا دی اور وعدے کے باوجود خود سعد رفیق پی ٹی آئی میں نہ گئے۔ جاوید ہاشمی چونکہ مسلم لیگ ن میں سینئر نائب صدر تھے لہٰذا یہ بھی سیاسی تاریخ میں کم ہی ہوا ہوگا کہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہی کسی کو پارٹی صدر کا عہدہ دے دیا گیا ہو۔ جاوید ہاشمی جنوبی پنجاب کے ایسے سیاستدان ہیں جن کے کریڈٹ پر کوئی ایک بھی بڑا فلاحی اور عوامی منصوبہ نہیں بلکہ چند ایکڑ ترکہ اراضی کے مالک جاوید ہاشمی کی ملتان اور مخدوم رشید میں ایکڑوں پر مشتمل کوٹھیاں ہیں اور بطور وزیر صحت ان پر ایک مشہور جنسی دوائی کی پاکستان میں فروخت کی اجازت دینے کا الزام بھی تھا۔ جتنا عرصہ بھی جاویدہاشمی وفاقی وزیر صحت رہے‘ ابدالی روڈ پر ملتان کے اکلوتے تھری سٹار ہوٹل کے کمرے ملک بھر کی ادویہ ساز کمپنیوں کے نمائندوں سے بھرے رہتے تھے۔ انہی دنوں جاویدہاشمی نے اپنے نام کے ساتھ مخدوم لکھوانا شروع کیا تھا۔ پی ٹی آئی میں شمولیت واقفان حال کے مطابق ایک طے شدہ منصوبے کے تحت تھی۔ پہلے خواجہ آصف کا انہیں پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں بے عزت کرنا اور یہ کہنا کہ تم عالمی لیڈر بنے پھرتے ہو‘ اپنی سیٹ تو جیت نہ سکے۔ خیرات پر ملنے والی سیٹ پر نوازشریف نے تمہیں جتوایا اور چلے تم مسلم لیگ کی قومی اسمبلی میں قیادت لینے۔ اس اجلاس کے بعد ایک اخبارنویس اور خواجہ سعدرفیق نے جاویدہاشمی پر ورک کرنا شروع کر دیا اور بالآخر وہ پی ٹی آئی میں شامل کروا دیئے گئے۔ جاویدہاشمی کی تمام تر ہمدردیاں پی ٹی آئی کی صدارت سنبھالنے کے بعد بھی (ن) لیگ کے ساتھ رہیں حتیٰ کہ انہوں نے تحریک انصاف کا صدر ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نوازشریف میرا لیڈر ہے۔ واقفان حال کے مطابق پی ٹی آئی میں جاویدہاشمی کی شمولیت کے بعد پارٹی کی انتہائی اہم میٹنگز کے فیصلے بھی مسلم لیگ (ن) کے علم میں ہوتے اور خواجہ سعدرفیق کے ذریعے تمام معلومات مسلم لیگ کو مل جاتیں حتیٰ کہ آئندہ کی حکمت عملی بھی۔ اس دوران 2013ءکے الیکشن میں جنوبی پنجاب کی بہت سی سیٹیں جن پر پی ٹی آئی کی کامیابی یقینی تھی مسلم لیگ نے حاصل کر لیں اور جاویدہاشمی پر پارٹی ٹکٹ فروخت کرنے کا نہ صرف الزام لگا بلکہ عمران خان کی طرف سے قائم کی جانے والی کمیٹی میں بہت سے شواہد سامنے آ گئے۔ قبل اس کے کہ وہ رپورٹ سامنے آتی‘ دھرنا جاری تھا اور دھرنے کے دوران پی ٹی آئی نے رپورٹ خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس میں ٹکٹ فروشی کے الزامات کے ثبوت مل چکے تھے۔ اس رپورٹ کو دھرنے کے بعد منظرعام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جاویدہاشمی کو بھی اس کا اندازہ تھا اور چند چیزیں میڈیا پر اس حوالے سے سامنے بھی آ چکی تھیں‘ مگر دھرنے کے دوران ہی اچانک ہاشمی نے پی ٹی آئی پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ دی اور پھر قومی اسمبلی کی سیٹ بھی۔ اب اگر عمران خان رپورٹ سامنے لاتے تو بے اثر ہوتی۔ ہاشمی اپنا پتا کھیل چکے تھے۔ انہوں نے تب سے فوج اور عدلیہ کے خلاف سخت مو¿قف اختیار کئے رکھا ہے اور وہی باتیں مسلسل کہہ رہے ہیں جو حقیقت میں مسلم لیگ (ن) کے مو¿قف کو سپورٹ کرتی تھیں۔ اب واپسی اور فوٹو سیشن کا وقت آ گیا ہے ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کبھی مسلم لیگ (ن) سے الگ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے عمران پر مارشل لاءلگوانے کا الزام لگا کر تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے کے بعد اپنے گھر انتظار میں بیٹھے رہے اور وقتاً فوقتاً اپنے دوستوں سے یہ شکوہ کرتے تھے کہ میں انتظار کر رہا ہوں کہ (ن) لیگ مجھے بلاتی نہیں‘ لہٰذا وہ اکثر و بیشتر ملتان پریس کلب میں اور دیگر فورمز پر فوج اور عدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے (ن) لیگی قیادت کو بار بار یہی پیغام دیتے رہے ”اب تو بلا لے“ بالآخر وہ وقت آ گیا۔ اب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو کر ”باغی سے داغی“ قرار دیئے جانے والے جاویدہاشمی جن کا ملتان نماز جمعہ کیلئے مساجد میں داخلہ مشکل ہوگیا تھا کہ عمران خان کے ٹائیگر ان پر ”باغی سے داغی“ کی آوازیں لگاتے۔ اسی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباﺅ کا شکار تھے۔ اب پھر جاویدہاشمی کو مسلم لیگ (ن) کا پلیٹ فارم مل رہا ہے کہ وہ کھل کر عدلیہ اور فوج پر تنقید کریں اور نوازشریف کی خوشنودی حاصل کریں۔ معاوضہ لینے کا وقت آ گیا ہے لہٰذا پی ٹی آئی کے علاوہ ملتان میں عوام کی طرف سے ”باغی سے داغی“ قراردیئے جانے والے جاویدہاشمی کھل کر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔
جاوید ہاشمی

 

پشاور زرعی یونیورسٹی میں خون کی ہولی کھیلنے والے کون؟ تفصیلات سامنے آگئیں ،سنسنی خیز انکشافات

کوئٹہ،پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک) مہمند ایجنسی میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوگیا۔ذرائع کے مطابق مہمند ایجنسی کے علاقے چمر کنڈ میں بارودی سرنگ کا دھماکا اس وقت ہوا جب ایک اہلکار چیک پوسٹ کے لیے پانی لے کر جارہا تھا۔ذرائع نے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوگیا، زخمی اہلکار کو فوری طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد نے موقع پر پہنچ کر جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے لیا اور قریبی علاقے میں سرچ آپریشن بھی شروع کردیا۔دریں اثنا کوئٹہ میں کرسچین کالونی کے قریب بم دھماکے کے نتیجے میں ایک بچہ جاں بحق ایک زخمی ہوگیا، معلوم ہوا ہے کہ بم دھماکہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا تھا۔

ہاشمی کا سعد رفیق سے تعلق، اصل حقائق سامنے آگئے،سنسنی خیز خبر

ملتان (سپیشل رپورٹر) 2014ءکے دھرنے کے دوران پی ٹی آئی کی کمر میں چھرا گھونپ کر اس پارٹی کے قیام سے آج تک سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے جاوید ہاشمی بالآخر ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“ کے مصداق ، واپس مسلم لیگ (ن) میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ یوں تو جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) چھوڑی ہی نہ تھی بلکہ ایک منصوبے کے تحت الگ ہوئے تھے لیکن اب وہ باقاعدہ فوٹو سیشن کے بعد اپنی اصل جگہ پہنچ جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کوئٹہ سے واپسی پر ملتان میں مختصر قیام کرکے جاوید ہاشمی کو رسمی دعوت دیں گے اور چار سال سے طے شدہ ڈیل اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گی۔ اس شمولیت سے جو اصل پیغام دیا جا رہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذ آرائی میں تیزی آ جائے گی کیونکہ جاوید ہاشمی بظاہر نیوٹرل رہ کر گزشتہ 3 سال سے عدلیہ اور فوج کو کورید رہے ہیں اور ہر موقع پر سخت ترین بیانات انہی کی طرف سے سامنے آتے رہے ہیں۔ واقفان حال کے مطابق واپسی ڈیل میں یہ بات شامل ہے کہ وہ عدلیہ اور فوج کے خلاف سخت موقف رکھتے ہوئے یہی کہیں گے کہ یہ ان کا ذاتی موقف گزشتہ تین سال سے ہے اور پارٹی میں آنے سے ان کا موقف تبدیل نہیں ہوا کیونکہ نواز شریف نے تو بہت بعد میں یہ لائن لی جبکہ انکے ذریعے ہاشمی کھیل تو عرصہ سے کھیلا جا رہا ہے۔ اب ہاشمی واضح طور پر یہی کہیں گے ان کا 2014ءسے ایک موقف ہے جس پر وہ قائم ہیں۔ جاوید اختر سے جاوید ہاشمی اور پھر مخدوم جاوید ہاشمی بننے والے جنوبی پنجاب کے اس سیاستدان نے اپنی سیاست کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا اور 1974ءتک طلبہ سیاست کی۔ اس کے بعد فخر امام نواز شریف اور جاوید ہاشمی نے پاکستان تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی اور آئی جے آئی کی طرف سے 1977 کے الیکشن میں ہاشمی تحریک استقلال کے کوٹے سے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے لاہور میں موصوف تجزیہ کار جناب مجیب الرحمن شامی کے ساتھ پارٹنر شپ کی۔ سابق کور کمانڈر ملتان میجر جنرل اعجاز عظیم جاوید ہاشمی پر خاص توجہ دیتے تھے اور انہیں جنوبی پنجاب سے لانچ کرنا چاہتے تھے۔ ضیاءالحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے نوجوانوں کو سیاست میں لانے کا فیصلہ کیا اور ازخود جاوید ہاشمی کے علاوہ زکریہ یونیورسٹی ملتان کے سابق صدر فاروق تسنیم سے بھی ملاقات کی۔ فاروق تسنیم شدید مالی مسائل کا شکار تھے لہٰذا انہوں نے محض کسٹم کی نوکری سے اکتفا کیا اور اپنے مالی حالات درست کرلیے۔ البتہ جاوید ہاشمی سابق کور کمانڈر ملتان میجر جنرل اعجاز عظیم کی طرف سے د یجانے والی بریفنگ کی روشنی میں ضیاءالحق سے مارشل لاءچھتری تلے وزارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں کھیل اور ٹورازم کی وفاقی وزارت ملی، حالانکہ ایم پی اے کا الیکشن ملتوی ہونے پر پنجاب اسمبلی کے رکن بھی نہ بن سکے جبکہ عام شہری کی حیثیت سے مارشل لا کی چھتری تلے وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔ فوج کی چھتری تلے پہلی کامیابی جاوید ہاشمی کو اس وقت ملی جب 1983ءکے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے فخرامام کے ساتھ گروپ بنا کر حامد رضا گیلانی کو شکست دے دی اور اس اینٹی گیلانی گروپ نے پہلی مرتبہ ضلع ملتان میں اپنی شناخت بنائی جو اس وقت خانیوال اور لودھراں پر مشتمل تھا۔ اس کامیابی کے بعد جنرل ضیاءالحق نے چیئرمین ضلع کونسل ملتان فخر امام کو براہ راست وفاقی وزیر بلدیات بنا لیا اور 1985ءکے الیکشن میں ہاشمی اور فخرامام گروپ نے ملتان میں قومی اسمبلی کی دس میں سے پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ اس گروپ کے کامیاب اراکین قومی اسمبلی میں سید فخرامام‘ جاوید ہاشمی‘ شیخ رشید‘ بابو فیروز الدین انصاری اور آفتاب ڈاہا شامل تھے۔ اب جاوید ہاشمی کو اسٹیبلشمنٹ کی چتھری کی ضرورت نہ رہی تھی۔ لہٰذا ممبر قومی اسمبلی کا حلف اٹھاتے ہی انہوں نے قومی اسمبلی میں انڈی پینڈنٹ پارلیمانی گروپ جسے آئی پی جی کا نام دیا گیا تھا قائم کیا اور خواجہ صفدر کے مقابلے میں فخرامام کو سپیکر قومی اسمبلی کامیاب کرا دیا۔ اس گروپ میں سیدہ عابدہ حسین‘ حاجی سیف اللہ‘ شیخ رشید احمد بھی شامل تھے۔ تحریک استقلال کے دور میں نوازشریف سے دوستی انہیں مسلم لیگ میں اوپر لاتی گئی اور نوازشریف کی بیرون ملک موجودگی کے بعد انہوں نے پارٹی سنبھالے رکھی مگر نوازشریف کے واپس آنے کے بعد 2012ءمیں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خواجہ آصف اور چودھری نثار علی خان نے ہاشمی کی سب کی موجودگی میں بے عزتی کی اور یہ ساری کارروائی نوازشریف کے سامنے ہوئی۔ جاوید ہاشمی پارلیمانی لیڈر یا پھر پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی لینا چاہتے تھے جو انہیں نہ ملی اور فاصلے بڑھتے گئے حتیٰ کہ متعدد مرتبہ جاوید ہاشمی یہ کھلے عام کہا کرتے تھے کہ ان کے کہنے پر تو ایس ایچ او مخدوم رشید بھی بات نہیں سنتا بلکہ ملتان کی ساری انتظامیہ اور پولیس ان کیخلاف چلتی ہے حالانکہ ہاشمی کی فریاد پر نوازشریف نے انہیں رسمی طور پر پارٹی کا سینئر نائب صدر بنا رکھا تھا مگر مکمل طور پر وہ بے اختیار تھے۔ اس دوران خواجہ سعد رفیق نے مسلم لیگی لیڈروں کی پشت پناہی میں ایک کھیل کھیلا اور ہاشمی جو پہلے ہی ڈپریشن کا شکار تھے کو اعتماد میں لے کر پی ٹی آئی میں شمولیت کروا دی اور وعدے کے باوجود خود سعد رفیق پی ٹی آئی میں نہ گئے۔ جاوید ہاشمی چونکہ مسلم لیگ ن میں سینئر نائب صدر تھے لہٰذا یہ بھی سیاسی تاریخ میں کم ہی ہوا ہوگا کہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہی کسی کو پارٹی صدر کا عہدہ دے دیا گیا ہو۔ جاوید ہاشمی جنوبی پنجاب کے ایسے سیاستدان ہیں جن کے کریڈٹ پر کوئی ایک بھی بڑا فلاحی اور عوامی منصوبہ نہیں بلکہ چند ایکڑ ترکہ اراضی کے مالک جاوید ہاشمی کی ملتان اور مخدوم رشید میں ایکڑوں پر مشتمل کوٹھیاں ہیں اور بطور وزیر صحت ان پر ایک مشہور جنسی دوائی کی پاکستان میں فروخت کی اجازت دینے کا الزام بھی تھا۔ جتنا عرصہ بھی جاویدہاشمی وفاقی وزیر صحت رہے‘ ابدالی روڈ پر ملتان کے اکلوتے تھری سٹار ہوٹل کے کمرے ملک بھر کی ادویہ ساز کمپنیوں کے نمائندوں سے بھرے رہتے تھے۔ انہی دنوں جاویدہاشمی نے اپنے نام کے ساتھ مخدوم لکھوانا شروع کیا تھا۔ پی ٹی آئی میں شمولیت واقفان حال کے مطابق ایک طے شدہ منصوبے کے تحت تھی۔ پہلے خواجہ آصف کا انہیں پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں بے عزت کرنا اور یہ کہنا کہ تم عالمی لیڈر بنے پھرتے ہو‘ اپنی سیٹ تو جیت نہ سکے۔ خیرات پر ملنے والی سیٹ پر نوازشریف نے تمہیں جتوایا اور چلے تم مسلم لیگ کی قومی اسمبلی میں قیادت لینے۔ اس اجلاس کے بعد ایک اخبارنویس اور خواجہ سعدرفیق نے جاویدہاشمی پر ورک کرنا شروع کر دیا اور بالآخر وہ پی ٹی آئی میں شامل کروا دیئے گئے۔ جاویدہاشمی کی تمام تر ہمدردیاں پی ٹی آئی کی صدارت سنبھالنے کے بعد بھی (ن) لیگ کے ساتھ رہیں حتیٰ کہ انہوں نے تحریک انصاف کا صدر ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نوازشریف میرا لیڈر ہے۔ واقفان حال کے مطابق پی ٹی آئی میں جاویدہاشمی کی شمولیت کے بعد پارٹی کی انتہائی اہم میٹنگز کے فیصلے بھی مسلم لیگ (ن) کے علم میں ہوتے اور خواجہ سعدرفیق کے ذریعے تمام معلومات مسلم لیگ کو مل جاتیں حتیٰ کہ آئندہ کی حکمت عملی بھی۔ اس دوران 2013ءکے الیکشن میں جنوبی پنجاب کی بہت سی سیٹیں جن پر پی ٹی آئی کی کامیابی یقینی تھی مسلم لیگ نے حاصل کر لیں اور جاویدہاشمی پر پارٹی ٹکٹ فروخت کرنے کا نہ صرف الزام لگا بلکہ عمران خان کی طرف سے قائم کی جانے والی کمیٹی میں بہت سے شواہد سامنے آ گئے۔ قبل اس کے کہ وہ رپورٹ سامنے آتی‘ دھرنا جاری تھا اور دھرنے کے دوران پی ٹی آئی نے رپورٹ خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس میں ٹکٹ فروشی کے الزامات کے ثبوت مل چکے تھے۔ اس رپورٹ کو دھرنے کے بعد منظرعام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جاویدہاشمی کو بھی اس کا اندازہ تھا اور چند چیزیں میڈیا پر اس حوالے سے سامنے بھی آ چکی تھیں‘ مگر دھرنے کے دوران ہی اچانک ہاشمی نے پی ٹی آئی پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ دی اور پھر قومی اسمبلی کی سیٹ بھی۔ اب اگر عمران خان رپورٹ سامنے لاتے تو بے اثر ہوتی۔ ہاشمی اپنا پتا کھیل چکے تھے۔ انہوں نے تب سے فوج اور عدلیہ کے خلاف سخت مو¿قف اختیار کئے رکھا ہے اور وہی باتیں مسلسل کہہ رہے ہیں جو حقیقت میں مسلم لیگ (ن) کے مو¿قف کو سپورٹ کرتی تھیں۔ اب واپسی اور فوٹو سیشن کا وقت آ گیا ہے ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کبھی مسلم لیگ (ن) سے الگ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے عمران پر مارشل لاءلگوانے کا الزام لگا کر تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے کے بعد اپنے گھر انتظار میں بیٹھے رہے اور وقتاً فوقتاً اپنے دوستوں سے یہ شکوہ کرتے تھے کہ میں انتظار کر رہا ہوں کہ (ن) لیگ مجھے بلاتی نہیں‘ لہٰذا وہ اکثر و بیشتر ملتان پریس کلب میں اور دیگر فورمز پر فوج اور عدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے (ن) لیگی قیادت کو بار بار یہی پیغام دیتے رہے ”اب تو بلا لے“ بالآخر وہ وقت آ گیا۔ اب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو کر ”باغی سے داغی“ قرار دیئے جانے والے جاویدہاشمی جن کا ملتان نماز جمعہ کیلئے مساجد میں داخلہ مشکل ہوگیا تھا کہ عمران خان کے ٹائیگر ان پر ”باغی سے داغی“ کی آوازیں لگاتے۔ اسی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباﺅ کا شکار تھے۔ اب پھر جاویدہاشمی کو مسلم لیگ (ن) کا پلیٹ فارم مل رہا ہے کہ وہ کھل کر عدلیہ اور فوج پر تنقید کریں اور نوازشریف کی خوشنودی حاصل کریں۔ معاوضہ لینے کا وقت آ گیا ہے لہٰذا پی ٹی آئی کے علاوہ ملتان میں عوام کی طرف سے ”باغی سے داغی“ قراردیئے جانے والے جاویدہاشمی کھل کر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔

سابق وز یر اعظم جلسہ میں خطاب کیلئے کوئٹہ پہنچ گئے ،کارکنوں کا لہو گرمائیں گے

کوئٹہ(ویب ڈیسک)ایوب اسٹیڈیم میں پشتونخوا میپ کے جلسے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں جب کہ جلسے سے خصوصی طور پر خطاب کرنے کے لیے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کوئٹہ پہنچ گئے۔پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی آج ایوب اسٹیڈیم میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرے گی جس کے لیے جلسے کا انعقاد کیا گیا ہے۔پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی کی خصوصی دعوت پر میاں نوازشریف لاہور سے کوئٹہ پہنچ گئے جہاں محمود خان اچکزئی نے ان کا استقبال کیا۔ایوب اسٹیڈیم میں جلسے کی تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں جب کہ سیکیورٹی کے بھی سخت انتظامات ہیں، شرکا کے داخلے کے لیے واک تھرو گیٹ نصب کیے گئے ہیں۔جلسے سے قبل سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی اسپیشل سیکیورٹی ٹیم جلسہ گاہ پہنچی اور سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔

شیشہ ہٹوادیا تاکہ آپ مجھے اور میں آپ کو دیکھ سکوں،نوازشریف کا جلسہ گاہ میں حیران کن اقدام

کوئٹہ (ویب ڈیسک)سابق وزیراعظم نوازشریف نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے جلسے میں سٹیج پر آتے ہی بلٹ پروف شیشہ ہٹا دیا،نوازشریف کا جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میر ی سکیورٹی اللہ کے ہاتھ میں ہے،مجھے کہاگیا کہ سکیورٹی کیلئے بلٹ پروف شیشہ لگایا گیا ہے لیکن میں نے شیشہ ہٹوادیا تاکہ آپ مجھے اور میں آپ کو دیکھ سکوں،ان کا کہناتھا کہ میرااور بلوچستان کے عوام کا گہرا تعلق ہے ،جس میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی.پاکستان میں آئین کی حکمرانی یقینی بنائینگے۔

ختم نبوت دھرنے میں داڑھی والے شامل ہیں :طلال چوہدری

لاہور (خصوصی رپورٹر) چینل ۵ کے پروگرام ’ضیاشاہد کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے آئی جی کے پی کے صلاح الدین محسود نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کے باعث سرحد پار سے لوگوں کی آمدورفت سے واقعی سکیورٹی کے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اگر یہ رکاوٹیں شامل نہ ہوں تو ہم دہشت گردی پر زیادہ مو¿ثر طریقے سے قابو پا سکتے ہیں کیونکہ حملہ آور بالعموم سرحد پار سے یہاں آتے ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جمعہ کے دن دہشت گردی کی واردات میں پولیس کے افسروں اور سپاہیوں نے جرا¿ت‘ ہمت اور بے خوفی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور فوج کے ساتھ مل کر تمام حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لندن سے آپ کی خصوصی کارسپانڈنٹ کی یہ رائے درست ہے کہ پولیس افسروں کے تشہیر اور چینل ۵‘ ٹی وی چینلوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر ڈالنا سکیورٹی کے اعتبار سے غلط اقدام ہے لیکن آج کل میڈیا کوریج کا دور ہے اور ہم بروقت اس تشہیر کو نہ روک سکے۔ پروگرام میں ضیاشاہد نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ رائے ونڈ جاتی امرا میں سابق وزیراعظم نوازشریف‘ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی طرف سے عید میلادالنبی کے موقع پر خصوصی محفل میلاد منعقد ہوئی جس میں دونوں بھائیوں کے اہل خانہ کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزرائ‘ اہم سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی طور پر شریف فیملی سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن خاندانی پس منظر کے اعتبار سے یہ لوگ دینی نکتہ نظر پر سختی سے عمل پیرا رہے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی شنگھائی تنظیم کے موقع پر چین میں تقریر پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ شاہد خاقان عباسی ذہین اور تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ معلوم نہیں ان سے یہ کوتاہی کیسے ہوگئی کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی‘ علیحدگی پسندوں کی تحریکوں اور شدت پسندی سے خطرہ ہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ علیحدگی پسند کی تحریکیں بھارت میں موجود ہیں‘ جیسے تامل ناڈو کی تحریک‘ ایک دور میں خالصتان کی تحریک‘ 1947ءسے اب تک کشمیر میں آزادی اور دلی حکومت سے علیحدگی کی تحریک‘ لیکن پاکستان میں بلوچستان کے کچھ باغیوں کی بیرون ملک بیان بازی کو آپ آزادی کی تحریک نہیں کہہ سکتے اور وزیراعظم پاکستان کے طور پر اعتراف کرنا کہ ہمارے ہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، سفارتی اور بین الاقوامی طور پر انتہائی غلط ہے۔ اس موقع پر ”خبریں“ کے کالم نگار اور معروف صحافی عبدالودود قریشی نے اسلام آباد سے بحث میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی صاحب کی تقریر وزارت خارجہ کے کلرکوں نے لکھی ہے۔ وزیراعظم صاحب کو ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر کہنا چاہیے۔ لندن خبریں کی کالم نگار اور چینل۵ کی کارسپانڈنٹ معروف قانون دان شمع جونیجو نے اس رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ براہمداغ بگٹی اور سلمان داﺅد کے پاکستان دشمن بیانات یا جینوا، لندن کی بسوں پر بھاری معاوضہ دیکر فری بلوچستان کے نعرے لگوانے سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ تحریک مقامی افراد گلیوں، سڑکوں اور شہروں میں چلاتے ہیں اور بلوچستان میں ایسی کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دیتی۔ بری بھلی جیسی بھی پارٹیاں ہوں الیکشن لڑتی ہیں اور وہاں مسلسل صوبائی حکومت کام کر رہی ہے۔ ضیا شاہد نے وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے پارٹی صدر کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ دانیال عزیز کی طرح طلال چودھری بھی سیاسی مخالفین کو گالیاں دینے کے نتیجے میں وفاقی وزیر بنے۔ یہ حضرات غیر محتاط گفتگو کرتے ہیں‘ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ طلال چودھری نے جمعہ کے دن ختم نبوت کے سلسلہ میں دھرنا دینے والوں کو داڑھی والے دہشت گرد قرار دیا اور اشارتاً کہا کہ عمران خاں کے دھرنے والوں کی داڑھیاں نہیں ہوتی تھیں اور اب دھرنے والے داڑھیاں رکھتے ہیں۔ طلال چودھری نے یہ الزام بھی لگایا کہ موجودہ دھرنے نواز شریف کی پارٹی کی حکومت کیلئے سازش ہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کی طرح ہم سب دعا کرتے ہیں کہ جلد لاہور دھرنے کا بھی اختتام ہو اور منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرے، لیکن ان کے یہ سیاسی بھونبو حالات بگاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ احسن اقبال کے یہ وزیر مملکت اشتعال انگیز الفاظ استعمال کرتے ہیں جبکہ ہم لوگ دونوں اطراف کے غصے اور انتہا پسندی کو ختم کرکے معاملات مذاکرات سے حل کرانا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد میں مفاہمت کے نکتہ نظر کو کامیابی مل چکی ہے اور لاہور میں بھی انشاءاللہ مسئلہ حل کرلیا جائے گا لیکن اگر طلال چودھری جیسے لوگوں نے داڑھی والے لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا نہ چھوڑا تو یہ فاصلے مزید بڑھ جائیں گے‘ جو ملک و ملت کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ نئے وزیروں کو شائستگی، بردباری اور تحمل کی تلقین دینے کیلئے جو حکمران جماعت کیلئے لازمی ہوتی ہے، دوبارہ پرائمری سکولوں میں داخلہ دلوایا جائے۔