سیلفی کا جنون کتنی جانیں لے گیا؟, حیران کُن انکشاف

لاہور (خصوصی رپورٹ) آج انسانی آبادی بڑھ کر سات بلین سے تجاوز کرچکی ہے تو کیمروں کی آبادی (موبائل فون کے طفیل)اس قدر تیزی سے بڑھ کر اربوں تک جا پہنچی ہے کہ انسان تو انسان، جانور تک منہ دیکھتے رہ گئے ہیں۔ جو کیمرے پہلے فوٹوگرافر کے کاندھے پر ہوتے تھے، اب ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں آگئے ہیں اور بے دریغ استعمال ہو رہے ہیں۔ اس بے دریغ استعمال کا ایک مظہر سیلفی ہے۔پہلے ہم تصاویر کے لیے فوٹوگرافر کے محتاج تھے، آج ہر وہ شخص فوٹوگرافر ہے
جس کے پاس موبائل فون ہے، خواہ تین ہزار روپے والا موبائل فون ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی تصویر خود اتارنے کی سہولت دے کر موبائل فون کمپنیوں نے لوگوں کو دستِ خود، دہانِ خود کا شوقین اور اب عادی بنا دیا ہے، بے چارے فوٹوگرافر کو اب کوئی پوچھتاہے نہیں۔ بے چارہ فارغ ہے اور سیلفی لینے میں لگا ہوا ہے۔
سوال، میں کیسا لگتا یا لگتی ہوں؟ کا جواب دینے کے لیے پہلے آئینے ہوا کرتے تھے، جو فی الفور جواب دے دیا کرتے تھے، اب سیلفی ہے۔ یہی نہیں کہ سیلفی لی ہے تو اپنے پاس رکھیں، نہیں بھئی! پھر فائدہ کیا ہوا؟ سیلفی خواہ کیسی بھی ہو، اسے ضرور فیس بک پر ڈالا جائے گا اور لوگوں کی پسند کا انتظار کیا جائے گا۔ زیادہ پسندیدگی ملنے کا مطلب ہوگا آپ واقعی اچھے یا اچھی ہیں۔ دوسری صورت میں آپ دوسروں کی تو کیا، خود اپنی نظروں میں بھی گر جائیں گے۔ یہ کیسا مذاق ہے؟ اگر ہماری خود اعتمادی (self esteem) اس حد تک دوسروں پر منحصر ہے تو یہ کہاں کی خوداعتمادی ہوئی؟ یہ تو مانگے تانگے کی خوداعتمادی ہے۔
سیلفی کا بخار اب سرطان بن چکا ہے، وہ بھی لاعلاج! یہ سیلفیاں خودپسندی کے جراثیم اتنی تیزی سے پھیلا رہی ہیں کہ خود جراثیم پریشان ہوگئے ہیںاور سوچ رہے ہیں، ہم اتنے برے تو نہیں۔
زندگی بہت خوب صورت ہے، آپ اور ہم سب بھی بہت خوب صورت ہیں اور ہمارا ہر گزرتا لمحہ بھی یادگار ہو تا ہے۔ زندگی کے ایسے ہی مختلف مواقع کے یادگار لمحات کو لوگ تصویری شکل میں قید کرلیتے ہیں۔ تصویریں پرانی یادیں تازہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں۔ جب کبھی انہیں اپنے ماضی میں جھانکنا ہو تو انہی تصویروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ وہ وقت اور تھا جب لوگ خاص مواقع کے لیے خاص طور پر بن ٹھن کر نکلتے تھے لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے کیوںکہ اب سیلفی کے لیے تیار ہوا جاتا سیلفی کے ذریعے نہ صرف تصویریں ہاتھ کے ہاتھ دیکھی جاسکتی ہیں بل کہ تصویر لینے والا بھی بہ آسانی اس تصویر کا حصہ بن سکتا ہے۔کیمرے سے اپنی ہی تصویر بنانے کو سیلفی کہتے ہیں آکسفرڈ یونیورسٹی کے مطابق کیمرے، اسمارٹ فون یا ویب کیم سے اتاری گئی، وہ تصاویر، جنہیں کسی بھی سماجی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا ہو سیلفی کہلاتی ہیں۔ ویسے تو یہ عمل نیا نہیں، سیلفی لینے کا سلسلہ کیمرے کی ایجاد کے بعد ہی سے روا تھا۔واضح رہے کہ دنیا میں سیلفی پورٹریٹ کا سلسلہ کیمرے کی ایجاد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، دنیا کی پہلی سیلفی اٹھارہ سو انتالیس میں فوٹوگرافر رابرٹ کارنیلیس نے لی۔ تاہم اسمارٹ فونز کے متعارف ہونے کے بعد یہ ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ سیلفی کی اصطلاح ریکارڈ کے مطابق سب سے پہلے بی بی سی آن لائن نے تیرہ ستمبر دو ہزار دو کو اپنی ایک خبر میں استعمال کیا۔ تاہم اسے شہرت ابھی حالیہ برسوں میں ہی ملی اور اب تو یہ مرکزی میڈیا تک میں استعمال ہوتی ہے اور اس کا جادو عام افراد یا شوبز کی دنیا سے جڑے ستاروں سے لے کر سنجیدہ ترین سیاست دانوں تک چل چکا ہے۔ لفظ سیلفیکی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لفظ سیلفی دو ہزار تیرہ میں آکسفرڈ انگلش ڈکشنری میں شامل کیا گیا اور اسے ورڈ آف دی ایئر قرار دیا گیا۔موبائل فون میں کیمرا آنے کے بعد سیلفی لینا اب ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ سیلفی لینا اب ایک ایسا فن سمجھا جانے لگا ہے، جس کے لیے لوگ باقاعدہ مہارت حاصل کر رہے ہیں۔ سیلفی جدید عہد کے نوجوانوں کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے، جو اب ہر عمر کے افراد کی پسند بن چکا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ کیریر کے لحاظ سے سیلفی آپ کے مستقبل پر واقعی بہت زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی طرح سیلفی کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ہی کمپنیاں اور موجدین کی توجہ بھی اس ٹیکنالوجی کو دل چسپ اور جدید ترین رخ دینے کی جانب مبذول ہوچکی ہے اور ایسی ایسی ڈیوائسز سامنے آرہی ہیں جو کسی کا بھی دل جیت سکتی ہیں، جس میں چند ایک کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ سیلفی کی عادت سے جڑی چند دل چسپ ڈیوائسز یہ ہیں:سیلفی مِرر: ایک امریکی کمپنی نے ایسا اسمارٹ آئینہ تیار کیا ہے جو اپنے سامنے ہنستے مسکراتے شخص کی تصویر یا آج کے الفاظ میں سیلفی کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آئی اسٹریٹجی لیب نامی امریکن ڈیجیٹل ایجنسی کا تیار کردہ یہ آئینہ روایتی سیلفی کے بجائے بہت زبردست تصویر لیتا ہے۔ اس آئینے میں کوئی تصویر اس وقت تک نہیں کھنچتی جب تک اس کے سامنے مسکرایا نہ جائے۔سیلفی اسٹک: لگ بھگ تین فٹ کی میٹل اسٹک کے استعمال سے لوگ ان خطرات سے بچ جاتے ہیں جو خطرناک مقامات پر سیلفی لیتے ہوئے درپیش ہوتے ہیں۔سیلفی برش: یہ ان دیوانی خواتین کے لیے ہے جو اپنی تصاویر کھینچنے کے ساتھ ساتھ فیشن کو منفرد انداز میں دکھانا چاہتی ہیں، اس سیلفی برش میں آئی فون فائیو یا فائیو ایس کو فٹ کرکے اپنی جس حد تک ممکن ہوسکے بہترین تصویر کھینچی جاسکتی ہے۔سیلفی ہیٹ: تائیوان کی ایک کمپنی نے ایسا ہیٹ متعارف کرایا ہے جس کی مدد سے آپ کسی بھی وقت کسی بھی زاویے سے اپنی سیلفی لے سکتے ہیں۔سیلفی ٹوسٹر: جی ہاں موبائل تو چھوڑیں اب آپ بریڈ کے اوپر بھی اپنی سیلفی چسپاں کرسکتے ہیں اور ایسا انوکھا کام ایک ٹوسٹر کی بدولت ہوگا بس کرنا یہ ہوگا کہ اس کے اوپر کی اسکرین پر اپنی یا کسی کی بھی تصویر لگادیں اور ڈبل روٹی گرم کریں پھر جب وہ باہر آئے گی تو اس پر آپ کی تصویر بھی چھپ چکی ہوگی۔سیلفی رنگ: یہ انگوٹھی کسی مشکل زاویے میں ہاتھوں میں موجود اسمارٹ فون کو گرنے سے بچانے کے لیے ہے تاکہ آپ کسی بھی طرح سیلفی سے محروم نہ ہوں۔سیلفی ڈرون: نیکسی نامی ڈرون کسی کاغذ کی طرح بند ہو کر آپ کی کلائی پر کسی گھڑی کی طرح بندھ سکتا ہے اور جب دل کرے تو اسے کلائی پر پہننے والا شخص بس اوپر لگا بٹن دبائے جس کے بعد ڈرون دوبارہ کھل کر اس کے سر پر اڑنے لگے گا پھر جتنی چاہے سیلفیز لیں۔لوگ اپنے آپ کو ہر موقعے میں تصویر کی شکل میں محفوظ کر کے مسرت محسوس کرتے ہیں۔ لوگ خوشی، تو خوشی اب غمی کے مواقع پر بھی بے دھڑک سیلفیز لے رہے ہوتے ہیں۔ اسپتالوں سے لے کر کسی کی فوتگی تک میں ایسے مناظر نظر آنے لگے ہیں۔ یہ نہایت غیرمناسب عمل ہے، اس سے ایک طرف ہم نفسیاتی طور پر بدترین خودپسندی کا شکار ہورہے ہیں، تو دوسری طرف ہماری اپنی زندگی میں بھی بناوٹ اور مصنوعی پن بڑھتا جا رہا ہے۔ شوق میں توازن کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ سیلفی لینا بے شک ایک مسرت بخش عمل ہوگا، لیکن ہر وقت کی سلیفی ہمیں خود پسندی کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے، جو مجموعی طور پر ہماری شخصیت کو خراب کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیجیے کہ ہر جگہ سیلفی نہیں لی جاسکتی۔نیشنل گیلری آف آرٹ واشنگٹن میں فوٹو گرافی کے شعبے کی منتظم سارا کینل کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں سیلفی خود سے لگاو کا اظہار ہے۔ ان کے بقول سیلفی کا بڑھتا ہوا رجحان آج کل کے معاشرے میں موجود نرگسیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق اپنی بہترین تصویر کی تلاش میں سیلف پورٹریٹ بنانے والوں میں نوجوان مردوں کی نسبت لڑکیوں میں یہ خبط زیادہ پایا جاتا ہے ۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ سیلفی جنون میں مبتلا لوگ ذہنی طور پر مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ سیلفیکے بڑھتے ہوئے کریز کے حوالے سے امریکن سائیکیٹرک ایسوسی ایشن نے اس کو ایک قسم کا دماغی خلل قرار دے دیا ہے۔ماہرین کے مطابق اس خلل کے تین درجے ہیں۔ پہلے درجے میں کوئی شخص دن میں تین سے زیادہ مرتبہ اپنی سیلفی لے، لیکن اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہ کرے۔ دوسرے درجے میں دن میں تین مرتبہ سے زاید سیلفی لے اور ہر تصویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرے۔ تیسرے اور سب سے زیادہ تشویش ناک درجے میں کوئی شخص دن میں چھے سے زاید بار اپنی سیلفی لے اور ہر تصویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردے۔ ماہرین کے مطابق اس دماغی خلل کا تاحال کوئی طریقہ علاج طے نہیں ہوسکا ہے۔ سوچیے، کہیں آپ بھی تو اس سیلفی جنون میں مبتلا نہیں؟دنیا کے بہت سے انتہائی خوب صورت اور پرخطر مقامات پر سیلفی بنانے کا جنون اب تک کے اندازوں کے برعکس اتنا ہلاکت خیز ثابت ہو رہا ہے کہ حکام ہنگامی اقدامات پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کئی ملکوں میں حکومتیں اور پبلک سیکیوریٹی ادارے سیلفی کے جنون کو عوامی سلامتی کے لیے سنجیدہ نوعیت کا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ ایک امریکی ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق سیلفی کے چکر میں 2013 سے اب تک دو سو کے قریب افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ بھارت میں سیلفی لیتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 17 سے زاید ہے۔پاکستان میں بھی پرخطر مقامات پر سیلفی لینے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 10 ہوگئی ہے، لہذا خیال رکھیے، محتاط رہیے، کیوںکہ عوامی مقامات پر عجیب اور خطرناک حرکتوں کا نتیجہ موت یا اسپتال کا بیڈ ہی ہوتا ہے۔ کئی ممالک میں سیف سیلفی کے نام سے آگہی کی مہم بھی چلائی گئی جب کہ متعدد معاشروں میں تو اب اس سلسلے میں عوامی شعور کی بیداری کے لیے باقاعدہ پروگرام بھی شروع کیے جا چکے ہیں، جن میں کہا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا پر20 لاکھ لائیکس بھی آپ کی زندگی اور آپ کی بھلائی سے بڑھ کر نہیں ہیں۔

ٹرانسپورٹروں کا حیران کُن کارنامہ, عوام خوار ہونے لگی

لاہور (خصوصی رپورٹ) پٹرولیم مصنوعات ایک ماہمیں دوبار مہنگی، ٹرانسپورٹرز نے بھی کرایوں میںمن چاہا اضافہ کر دیا، کوئی پوچھنے والا نہیں، حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران دوبار اضافہ کیے جانے پر ٹرانسپورٹروں کی چاندی ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر اندرون شہر اے سی بس کمپنیوں اور گڈز ٹرانسپورٹروں نے کرایوں میں ازخود چھ سے دس روپے اضافہ کردیا جبکہ انتظامیہ کی جانب سے کرایہ وصول کرنے والے ٹرانسپورٹرز کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی جا رہی۔ لاہور کے دیہی اور دیگر علاقوں میں چلنے والی ویگنوں اور مزدا مالکان نے بھی کرایوں میں سٹاپ ٹو سٹاپ دس روپے تک اضافہ کردیا گیا۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شہریوں عدنان، وقاص، علیم، بابا ظہور، نوید، تیمور، اشفاق اور تنویر کا کہناتھا کہ پوری دنیا میں قیمتیں کم ہورہی ہیں جبکہ پاکستان میں آئے رزو بڑھا دی جاتی ہیں، حکومت غریب کش پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

ہسپتالوں کی نجکاری, پیرا میڈیکل سٹاف کی بڑی دھمکی

لاہور ( خصوصی رپورٹ) سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے حلاف لاہور جنرل ہسپتال اور سروسز ہسپتال لاہور میں پیرامیڈیکل اسٹاف کے احتجاج کے باعث دور دراز سے آنے والے مریضوں کو شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا‘ مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں پیرامیڈیکل نے احتجاج کی صوبہ بھر تک وسعت دینے کے لائحہ عمل پر غور شروع کر دیا۔گزشتہ روز الائیڈ ہیلتھ اور پنجاب پیرامیڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام لاہور سمیت صوبے کے بعض علاقوں میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری سمیت دیگر مطالبات کے حصول کے لئے لاہور جنرل ہسپتال اور سروسز ہسپتال میں احتجاج کیا گیا۔ اس دوران دونوں ہسپتالوں میں او پی ڈیز اور انڈورسروسز معطل رہیں۔ لاہور جنرل ہسپتال اور سروسز ہسپتال میں پیرا میڈیکل اسٹاف کی جانب سے ایڈمن بلاک کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
احتجاج

میک کولم نے لاہورقلندرز کے کھلاڑیوں کو اپنا گرویدہ بنالیا

دبئی (آئی این پی) برینڈن میکولم نے اپنی نئی ٹیم لاہورقلندرزکے کھلاڑیوں کو پہلی ملاقات میں ہی اپنا گرویدہ بنالیاہے۔لاہور قلندرز نے دبئی میں ٹیم کا تعارفی سیشن منعقد کیا ۔ میک کولم نے خاص طور پر کھلاڑیوں سے ملاقات کی اور کھلاڑیوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔اظہر علی کی جگہ لینے والے میک کولم نے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام میں منتخب ہونے والے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی وقت گزارا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار لاہور قلندرز بھرپور عزم کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔9 فروری سے شروع ہونے والے پی ایس ایل ’دوسرا‘ میں لاہور قلندرز کا پہلا مقابلہ 10 فروری کو کوئٹہ گلیڈی ایٹر سے ہوگا۔

ایل ڈی اے کا کریک ڈاﺅن, مکانات گرانا شروع کردئیے

لاہور (خصوصی رپورٹ) لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اپنی رہائشی سیکیموں ‘ پرائیویٹ سیکیموں اور کنٹرولڈایریا میں نقشہ منظور کرائے بغیر تعمیر کئے جانے والے مکانات کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ روز ٹاﺅن پلاننگ ونگ کے عملے نے نواب ٹاﺅن میں آپریشن کر کے مختلف بلاکوں میں نقشہ منظور کرائے بغیر تعمیر کئے جانے والے 17 مکانات کو سربمہر کر دیا۔ علاوہ ازیں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ مینجمنٹ ٹو کے عملے نے گزشتہ روز مصطفی ٹاﺅن میں ناجائز قابضین کے خلاف آپریشن کر کے احمد یار بلاک میں سات مرلے رقبے کا پلاٹ نمبر 133اے واگزار کرالیا ۔ ایل ڈی اے کے ملکیتی اس پلاٹ پر غیر قانونی طور پر زیر تعمیر مکان کو قبضے میں لے کر سربمہر کرویا گیا ہے۔

بلدیاتی سربراہوں کیلئے نئے قوانین جاری

لاہور (خصوصی رپورٹ) پنجاب کے بلدیاتی سربراہوں کو مالی اور انتظامی اختیارات دینے کیلئے نئے قوانین تیار کر لیے گئے۔ محکمہ بلدیات نے محکمہ قانون کی جانب سے منظوری کے بعد باقاعدہ نوٹیفکیشن سے قبل کنڈیکٹ آف بزنس رولز 2017ءصوبائی کابینہ کو بھجوا دیئے ہیں۔ وزیراعلیٰ ان قوانین کی حتمی منظوری دیں گے۔ کنڈیکٹ آف بزنس رولز 2017ءمیں نئے بلدیاتی اداروں کے انتظامی افسروں کے اختیارات بھی واضح کر دیئے گئے ہیں۔ ان رولز کے اجرا کے بعد پنجاب ڈسٹرکٹ گورنمنٹس رولز آف بزنس 2001 ءاور پنجاب تحصیل وٹاﺅنز میونسپل ایڈمنسٹریشن رولز آف بزنس 2002ءمنسوخ ہو جائیں گے۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ءکے تحت تیار کردہ اکاﺅنٹس، بجٹ، اپیل، ٹیکسیشن رولز اور دیگر بھی منظوری کے لیے صوبائی کابینہ کو ارسال کئے گئے ہیں۔ سب سے اہم رولز آف بزنس کے مطابق میٹرو پولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشنزکے میئرز، ضلع کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمین اپنے اداروں کے انتظامی سربراہ ہونگے جن کو ہر شعبہ کی انسپکشن کا اختیار ہو گا۔ ان کی عدم موجودگی میں ایک سے زائد ڈپٹی میئرز یا وائس چیئرمین کی صورت میں عمر میں سینئر کو سربراہ بنانے کی ایکٹ میں موجود شرط کو برقرار رکھا گیا ہے۔ میئرز کو گریڈ18اور اس سے زائد کے افسروں کے تقرروتبادلے کے اختیارات حاصل ہونگے جن میں محکمہ بلدیات یا پنجاب حکومت کی طرف سے لگائے گئے چیف آفیسرز اور میونسپل آفیسرز شامل نہیں ہوں گے۔ چیف آفیسرز گریڈ 9سے 17جبکہ میونسپل آفیسرز گریڈ ایک تا سات تک کے ملازمین کے تبادلے کر سکیں گے۔ چیئرمین ضلع کونسل گریڈ 17یا زائد جبکہ چیف آفیسر ضلع کونسل گریڈ 9 تا 16تک اور ایم او گریڈ ایک تا سات تک کے تبادلے کر سکے گا۔ میونسپل کمیٹیوں میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اور دیگر کے چیئرمینوں کے اختیارات میں فرق ہے۔ میئرز اور چیئرمین پنجاب حکومت کی جانب سے دی گئی حد میں مالی اختیارات کے حوالے سے مکمل با اختیار ہونگے اور لانگ ٹرم ترقیاتی منصوبہ بندی کر سکیں گے۔ انتظامی افسر میئرز اور چیئرمینوں کی منظوری کے بغیر کوئی اہم احکامات جاری نہیں کر سکیں گے۔ چیف آفیسرز کی حیثیت کنوینر کی ہو گی۔ بلدیاتی سربرہ سہ ماہی اور سالانہ کارکردگی رپورٹس پیش کریں گے جو ویب سائٹ پر بھی جاری کی جائیں گی۔کسی انتظامی یا مالی بے ضابطگی کی صورت میں پنجاب لوکل گورنمنٹ کمیشن کا کردار اہم ہو گا۔ سرکاری خزانے کو نقصان کی صورت میں میئرز، چیئرمینوں، متعلقہ انتظامی افسروں سمیت ملوث افراد کے خلاف انکوائری ہو سکے گی جس میں ریکوری کے لیے متعلقہ ایکٹ کا اطلاق ہو گا۔ کسی سینئر آفیسر کے اختیارات جونیئر آفیسر کو نہیں سونپے جا سکیں گے۔
نئے قوانین تیار

کروڑوں مالیت کا خشک دودھ پکڑا گیا, آلائشوں سے کوکنگ آئل تیار کرنیکا انکشاف

لاہور (خصوصی رپورٹ) محکمہ کسٹمز کی ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے کروڑوں روپے مالیت کا سمگل شدہ زائد المیعاد، مضر صحت خشک دودھ برآمد کرکےقبضے میں لے لیا جبکہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بھی کارروائی کرتے ہوئے گجومتہ سٹاپ ناکے پر سات سو لٹر دودھ ضائع کر دیا۔ ذرائع کے مطابق کسٹم افسر ذوالفقار یونس نے خفیہ اطلاع دی جس پر ایڈیشنل کلکٹر کسٹم نیئر شفیق نے اپنی ٹیم کے ہمراہ چھاپہ مار کر سمگل شدہ خشک دودھ سپلائی کرنے والوں کا سراغ لگالیا اور عین موقع پر کروڑوں روپے مالیت کے خشک دودھ کے آٹھ ہزار سے زائد بیگز برآمد کرکے قبضے میں لے لیا اور لوڈ کردہ خشک دودھ کے پچاس مزدے خالی کروالیے۔ ایڈیشنل کلکٹر کسٹم نیئر شفیق نے بتایا کہ زاہد ملک نامی شخص یہ خشک زائد المیعاد مضر صحت دودھ مختلف دودھ بنانے والی کمپنیوں کے بڑے ڈیری فارمز کو سپلائی کرتا تھا، یہ دودھ امریکہ ، ترکی، پولینڈ، بھارت، افغانستان اور دیگر ممالک سے پشاور اور کوئٹہ کو سمگل کیا جاتا تھا، جہاں سے یہدودھ مختلف کمپنیوں کی ڈیریز کو سپلائی کیا جاتا تھا، جو اس زائد المیعاد دودھ کو دوبارہ پیک کرکے بازار میں فروخت کرتی تھیں دوسری جانب صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کی سربراہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے گجومتہ سٹاپ پر ناکہ بندی کی اورقصور سے آنے والی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر لائے جانے والے دودھ کو چیک کیا اور سات سو لٹر مضر صحت دودھ ضائع کردیا اس موقع پر بلال یاسین کا کہناتھا کہ ناکہ بندی کا مقصد شہریوں کو خالص دودھ کی فراہمی یقینی بنانا ہے جس پر کریک ڈاﺅن جاری رہے گا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز فاران اسلم کا کہنا تھا کہ دودھ میں سٹارچ شوگر، صابن اور سرف جیسے مضر صحت کیمیکل کوچیک کیا گیا۔ دوسری طرف پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیم نے بند روڈ پر مرغی کی آلائشوں سے کوکنگ آئل تیار کرنے والا یونٹ سیل کردیا۔ آٹھ ہزار لٹرتیل ڈرموں میں ڈال کر مختلف علاقوں میں سپلائی کیلئے تیار کیا جا رہا تھا۔ کارروائی کے دوران ہزاروں کلو مرغی کی آلائشیں، پر، انتڑیاں اور پنجے موقع پر پائے گئے جن کو فوری تلف کردیا گیا تاہم ملزم موقع سے فرار ہوگئے۔ بند روڈ پر ہی بغیر لائسنس مضر صحت اور غیر معیاری نمک تیار کرنے والا یونٹ بھی پکڑا گیا جسے ٹیم نے سیل کر دیا۔ چمڑے کو لگانے والا نمک انسانی استعمال کیلئے پیک کرکے فروخت کیا جا رہا تھا۔

شہزادہ جاسم کے خطوط سے کوئی تعلق نہیں, قطری سفیر نے بھانڈا پھوڑ دیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاناما کیس میں اہم ترین ثبوت سمجھے جانے والے قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خطوط کے حوالے سے پہلی بار قطری حکومت کا باضابطہ موقف سامنے آگیا جس میں قطری حکومت نے ان خطوط سے اظہار لا تعلقی کردیا ہے۔ نجی ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں پاکستان میں تعینات قطری سفیر سقر بن مبارک المنصوری نے ان خطوط سے اظہار لا تعلقی کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور قطر کی پالیسی ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ ہماری حکومت کا قطری شہزادے کے خطوط سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک ذاتی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ قطری شہزادے کی جانب سے بھیجے جانے والے خطوط پر ہماری حکومت کا موقف بالکل واضح ہے، یہ خط حکومتی سطح پر جاری نہیں ہوئے اور نہ ہی یہ سفارتخانے یا وزارت خارجہ کے ذریعے آئے ہیں۔ قطری سفیر کے انٹرویو پر ردعمل دیتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا قطری خط جھوٹ اور جعلسازی پر مبنی ہے۔ سفیر نے قطری حکومت کا خط سے لاتعلقی کا اظہار کردیا جس سے جھوٹ کا ایک اور ثبوت سامنے آگیا۔ قطری سفیر کا بیان خط کے جعلی ہونے کو تقویت دیتا ہے۔ قطری سفیر کا انٹرویو سامنے آنے کے بعد وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کبھی نہیں کہا کہ خطوط کا تعلق قطری حکومت سے ہے ، یہ خطوط قطری شہزادے نے ذاتی حیثیت میں لکھے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم یکجہتی کشمیرمنایا جار رہا ہے

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان سمیت دنیا بھر میںیوم یکجہتی کشمیر (آج )اتوار کوسرکاری سطح پرمنا یا جائے گا۔ اس روز ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ¾ صبح 10بجے کشمیریوں سے اظہار ہمدردی کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی۔ ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی جائیں گی، پاکستان کو کشمیر سے ملانے والے پلوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیریں منائی جائیں گی جہاں کشمیر کمیٹی ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف آزاد کشمیر کونسل اور قانون ساز اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ وفاقی دارالحکومت سمیت ملک بھر میں کشمیریوں کی حمایت میں بڑے بڑے بینرز اور پینا فلیکس آویزاں کئے گئے ہیں۔جن میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کوسلامتی کونسلکی قرار دادوں کے مطابق حق خودارادیت دلائے۔ کشمیر کی آزادی تقسیم کشمیر کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ کشمیری اور پاکستان ایک ہیں،کشمیر کونسل کی جانب سے بھی اس دن کی مناسبت سے اہم تقریبات منعقد کی جائیں گی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے نام یاداشتیں پیش کی جائیں گی۔ جن میں اقوام متحدہ کو کشمیریوں سے حق خود ارادیت کی قراردادوں کی یاد دلائی جائےگی

اچھی گورننس قائم کرنے کی کوشش, کوئی تبدیل نہیں کر سکے گا

کراچی (نمائندہ خصوصی)وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے کہا ہے کہ 2010کے سیلاب اور 2011 کی شدید بارشوں نے صوبہ سندھ کا تقر یباً پورا انفرااسٹرکچر تباہ کر دیا تھا ۔ انہوںنے کہاکہ ہم صوبہ بھر کا پورا انفر اسٹرکچر دوبارہ بنا رہے ہیں اور کافی سڑکیں بہتر ہوئی ہیں اور کراچی شہر کی سڑکیں اور راستے تیزی سے بنا رہے ہیں یہ بات آج انہوںنے سی پی این ای (CPNE ) کے وفد سے وزیراعلیٰ ہاﺅس میں ملاقات کے دوران کہی ۔ ملاقات میں صدر ضیاءشاہد ،سیکریٹری جنرل اعجاز الحق ، سینئر نائب صدر شاہین قریشی ، نائب صدر سندھ عامر محمود ، نائب صدر پنجاب رحمت علی رضی ، نائب صدر بلو چستان انور ساجدی ،سی پی این ای اسٹینڈنگ کمیٹی کے ممبران وامق اے زبیریامتیاز عالم ،قاضی اسد عابد ، صدیق بلوچ اور ، ڈاکٹر جبار خٹک ، امتیاز عالم اور دیگر شریک تھے۔وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے سی پی این ای کے وفد کو خوش آمدید کہا ۔ انہوںنے کہاکہ صوبہ میں اچھی گورننس قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آنے والا وزیراعلیٰ اس کو تبدیل نہ کر سکے انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کے ساتھ کل تین ایشوز اٹھائیں ہیں جن میں (a ) موٹر وے پر بھاری ٹول ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں (b ) ٹیکس بوتھ زیادہ لگائے جا رہے ہیں (c ) موٹر وے کی تعمیر میں کافی اموات ہوئی ہیں ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اس کا مداوا کرنے کی کو شش ہو گی ۔انہوںے کہاکہ وزیر اعظم نے یقین دلا یا ہے کہ جامشورو۔سیہون سڑک کو دو روئیہ کیا جائیگا ۔ انہوںنے کہاکہ کراچی سرکلر ریلوے (KCR )پر کام ستمبر اور اکتوبر میں شروع ہو جائے گا ۔۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ سندھ کا این ایف سی (NFC )پر واضح موقف ہے ۔انہوںنے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ سیلز ٹیکس اور گڈز کو جمع کرنے کی پاور صوبوں کو دی جائے ،باقی وفا ق خود ہم سے جمع کیا ہوا سیلز ٹیکس اورگڈز کا پیسہ لے کر تقسیم کرے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ صوبے صارفین کے قریب ہیں اور بہتر جمع کر سکتے ، وفاقی کابینہ کمیٹی اور انرجی کے اجلاس میں صرف پنجاب کے وزیراعلیٰ کو بلایا جاتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ میری شکایت کے بعد اب وزیر اعظم نے ہمیں بھی بلانا شروع کیا ہے ۔ انہوںنے مزید کہاکہ سیلز ٹیکس اور گڈز کی وصولی پر پنجاب واضح سپورٹ نہیں کر رہا ۔ انہوں نے کہاکہ میئر کراچی کے پاس میونسپل کے تمام اختیارات ہیں ، اس سال ہم محکمہ بلدیات کو 60بلین روپے سے زیادہ دے رہے ہیں ۔ انہوںنے مزید کہاکہ ہمیں میڈیا سے ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ سپورٹ نہیں کرتا لیکن میں میڈیا کا شکر گزار ہوں کہ میڈیا نے ہماری سپورٹ اور ہماری حوصلہ افزائی کی ہے کراچی میں بہت زیادہ پلازہ ہیں جن کی پارکنگ میں دکانیں بنیں گی اور ہم کارروائی کر رہے ہیں ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ میں ایک دن بارش میں اکیلا ڈرائیو کر کے نکلا اور میں25منٹ تک ٹریفک میں پھنسا رہا تھا۔انہوںنے کہا کہ میں نے دیکھا کہ 2 ٹریفک پولیس اہلکار رین کوٹ پہن کر ٹریفک کا نطام درست کر رہے تھے ،اس سے لگتا ہے کہ ٹریفک پولیس متحرک ہے ، لیکن سڑکوں کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔اس موقعہ پرضیاءشاہد نے سی پی این ای کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کے کاموں ، توانائیوں اور محنت کو سراہااور ڈاکٹر جبار نے کہاکہ رائٹ ٹو انفارمیشن بل ابھی تک تعطل کا شکار ہے اور بیورو کریسی نے بدل کے رکھا ہوا ہے ۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے یقین دلایا کہ جیسا آپ چاہتے ہیںہم ویسے ہی بنائیں گے ۔ امتیاز عالم نے کہاکہ سی پی این ای کی مدد لیں ، وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ میں ضرور آپ کی مدد لوں گا۔۔وزیراعلیٰ سندھ کو محکمہ بلدیات کی گذشتہ سالوں کی آڈٹ کرانے کا مشورہ دیا گیا ۔انہوںنے سی پی این سی کے دوستوں کو مشورہ دیا کہ اندرونِ سندھ کا لفظ استعمال نہ کریں ، اندرونِ سندھ اور بیرونِ سندھ کیا ہے، آپ دیہی اور شہری کہہ سکتے ہیں۔ سی پی این ای کے وفد نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو یاد دلایا کہ چاروں صوبوں کی طرف سے سی پی این ای کیلئے 2-2 کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی تھی جو انہیں تین صوبوں سے مل چکی ہے جبکہ صوبہ سندھ کی طرف سے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ دے دی گئی تو ایک کروڑ کی رقم ابھی تک نہیں ملی جس پر وزیر اعلیٰ سندھ اس رقم کی ادائیگی کیلئے آرڈر کر دیا۔