تازہ تر ین

سیلفی کا جنون کتنی جانیں لے گیا؟, حیران کُن انکشاف

لاہور (خصوصی رپورٹ) آج انسانی آبادی بڑھ کر سات بلین سے تجاوز کرچکی ہے تو کیمروں کی آبادی (موبائل فون کے طفیل)اس قدر تیزی سے بڑھ کر اربوں تک جا پہنچی ہے کہ انسان تو انسان، جانور تک منہ دیکھتے رہ گئے ہیں۔ جو کیمرے پہلے فوٹوگرافر کے کاندھے پر ہوتے تھے، اب ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں آگئے ہیں اور بے دریغ استعمال ہو رہے ہیں۔ اس بے دریغ استعمال کا ایک مظہر سیلفی ہے۔پہلے ہم تصاویر کے لیے فوٹوگرافر کے محتاج تھے، آج ہر وہ شخص فوٹوگرافر ہے
جس کے پاس موبائل فون ہے، خواہ تین ہزار روپے والا موبائل فون ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی تصویر خود اتارنے کی سہولت دے کر موبائل فون کمپنیوں نے لوگوں کو دستِ خود، دہانِ خود کا شوقین اور اب عادی بنا دیا ہے، بے چارے فوٹوگرافر کو اب کوئی پوچھتاہے نہیں۔ بے چارہ فارغ ہے اور سیلفی لینے میں لگا ہوا ہے۔
سوال، میں کیسا لگتا یا لگتی ہوں؟ کا جواب دینے کے لیے پہلے آئینے ہوا کرتے تھے، جو فی الفور جواب دے دیا کرتے تھے، اب سیلفی ہے۔ یہی نہیں کہ سیلفی لی ہے تو اپنے پاس رکھیں، نہیں بھئی! پھر فائدہ کیا ہوا؟ سیلفی خواہ کیسی بھی ہو، اسے ضرور فیس بک پر ڈالا جائے گا اور لوگوں کی پسند کا انتظار کیا جائے گا۔ زیادہ پسندیدگی ملنے کا مطلب ہوگا آپ واقعی اچھے یا اچھی ہیں۔ دوسری صورت میں آپ دوسروں کی تو کیا، خود اپنی نظروں میں بھی گر جائیں گے۔ یہ کیسا مذاق ہے؟ اگر ہماری خود اعتمادی (self esteem) اس حد تک دوسروں پر منحصر ہے تو یہ کہاں کی خوداعتمادی ہوئی؟ یہ تو مانگے تانگے کی خوداعتمادی ہے۔
سیلفی کا بخار اب سرطان بن چکا ہے، وہ بھی لاعلاج! یہ سیلفیاں خودپسندی کے جراثیم اتنی تیزی سے پھیلا رہی ہیں کہ خود جراثیم پریشان ہوگئے ہیںاور سوچ رہے ہیں، ہم اتنے برے تو نہیں۔
زندگی بہت خوب صورت ہے، آپ اور ہم سب بھی بہت خوب صورت ہیں اور ہمارا ہر گزرتا لمحہ بھی یادگار ہو تا ہے۔ زندگی کے ایسے ہی مختلف مواقع کے یادگار لمحات کو لوگ تصویری شکل میں قید کرلیتے ہیں۔ تصویریں پرانی یادیں تازہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں۔ جب کبھی انہیں اپنے ماضی میں جھانکنا ہو تو انہی تصویروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ وہ وقت اور تھا جب لوگ خاص مواقع کے لیے خاص طور پر بن ٹھن کر نکلتے تھے لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے کیوںکہ اب سیلفی کے لیے تیار ہوا جاتا سیلفی کے ذریعے نہ صرف تصویریں ہاتھ کے ہاتھ دیکھی جاسکتی ہیں بل کہ تصویر لینے والا بھی بہ آسانی اس تصویر کا حصہ بن سکتا ہے۔کیمرے سے اپنی ہی تصویر بنانے کو سیلفی کہتے ہیں آکسفرڈ یونیورسٹی کے مطابق کیمرے، اسمارٹ فون یا ویب کیم سے اتاری گئی، وہ تصاویر، جنہیں کسی بھی سماجی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا ہو سیلفی کہلاتی ہیں۔ ویسے تو یہ عمل نیا نہیں، سیلفی لینے کا سلسلہ کیمرے کی ایجاد کے بعد ہی سے روا تھا۔واضح رہے کہ دنیا میں سیلفی پورٹریٹ کا سلسلہ کیمرے کی ایجاد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، دنیا کی پہلی سیلفی اٹھارہ سو انتالیس میں فوٹوگرافر رابرٹ کارنیلیس نے لی۔ تاہم اسمارٹ فونز کے متعارف ہونے کے بعد یہ ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ سیلفی کی اصطلاح ریکارڈ کے مطابق سب سے پہلے بی بی سی آن لائن نے تیرہ ستمبر دو ہزار دو کو اپنی ایک خبر میں استعمال کیا۔ تاہم اسے شہرت ابھی حالیہ برسوں میں ہی ملی اور اب تو یہ مرکزی میڈیا تک میں استعمال ہوتی ہے اور اس کا جادو عام افراد یا شوبز کی دنیا سے جڑے ستاروں سے لے کر سنجیدہ ترین سیاست دانوں تک چل چکا ہے۔ لفظ سیلفیکی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لفظ سیلفی دو ہزار تیرہ میں آکسفرڈ انگلش ڈکشنری میں شامل کیا گیا اور اسے ورڈ آف دی ایئر قرار دیا گیا۔موبائل فون میں کیمرا آنے کے بعد سیلفی لینا اب ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ سیلفی لینا اب ایک ایسا فن سمجھا جانے لگا ہے، جس کے لیے لوگ باقاعدہ مہارت حاصل کر رہے ہیں۔ سیلفی جدید عہد کے نوجوانوں کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے، جو اب ہر عمر کے افراد کی پسند بن چکا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ کیریر کے لحاظ سے سیلفی آپ کے مستقبل پر واقعی بہت زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی طرح سیلفی کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ہی کمپنیاں اور موجدین کی توجہ بھی اس ٹیکنالوجی کو دل چسپ اور جدید ترین رخ دینے کی جانب مبذول ہوچکی ہے اور ایسی ایسی ڈیوائسز سامنے آرہی ہیں جو کسی کا بھی دل جیت سکتی ہیں، جس میں چند ایک کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ سیلفی کی عادت سے جڑی چند دل چسپ ڈیوائسز یہ ہیں:سیلفی مِرر: ایک امریکی کمپنی نے ایسا اسمارٹ آئینہ تیار کیا ہے جو اپنے سامنے ہنستے مسکراتے شخص کی تصویر یا آج کے الفاظ میں سیلفی کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آئی اسٹریٹجی لیب نامی امریکن ڈیجیٹل ایجنسی کا تیار کردہ یہ آئینہ روایتی سیلفی کے بجائے بہت زبردست تصویر لیتا ہے۔ اس آئینے میں کوئی تصویر اس وقت تک نہیں کھنچتی جب تک اس کے سامنے مسکرایا نہ جائے۔سیلفی اسٹک: لگ بھگ تین فٹ کی میٹل اسٹک کے استعمال سے لوگ ان خطرات سے بچ جاتے ہیں جو خطرناک مقامات پر سیلفی لیتے ہوئے درپیش ہوتے ہیں۔سیلفی برش: یہ ان دیوانی خواتین کے لیے ہے جو اپنی تصاویر کھینچنے کے ساتھ ساتھ فیشن کو منفرد انداز میں دکھانا چاہتی ہیں، اس سیلفی برش میں آئی فون فائیو یا فائیو ایس کو فٹ کرکے اپنی جس حد تک ممکن ہوسکے بہترین تصویر کھینچی جاسکتی ہے۔سیلفی ہیٹ: تائیوان کی ایک کمپنی نے ایسا ہیٹ متعارف کرایا ہے جس کی مدد سے آپ کسی بھی وقت کسی بھی زاویے سے اپنی سیلفی لے سکتے ہیں۔سیلفی ٹوسٹر: جی ہاں موبائل تو چھوڑیں اب آپ بریڈ کے اوپر بھی اپنی سیلفی چسپاں کرسکتے ہیں اور ایسا انوکھا کام ایک ٹوسٹر کی بدولت ہوگا بس کرنا یہ ہوگا کہ اس کے اوپر کی اسکرین پر اپنی یا کسی کی بھی تصویر لگادیں اور ڈبل روٹی گرم کریں پھر جب وہ باہر آئے گی تو اس پر آپ کی تصویر بھی چھپ چکی ہوگی۔سیلفی رنگ: یہ انگوٹھی کسی مشکل زاویے میں ہاتھوں میں موجود اسمارٹ فون کو گرنے سے بچانے کے لیے ہے تاکہ آپ کسی بھی طرح سیلفی سے محروم نہ ہوں۔سیلفی ڈرون: نیکسی نامی ڈرون کسی کاغذ کی طرح بند ہو کر آپ کی کلائی پر کسی گھڑی کی طرح بندھ سکتا ہے اور جب دل کرے تو اسے کلائی پر پہننے والا شخص بس اوپر لگا بٹن دبائے جس کے بعد ڈرون دوبارہ کھل کر اس کے سر پر اڑنے لگے گا پھر جتنی چاہے سیلفیز لیں۔لوگ اپنے آپ کو ہر موقعے میں تصویر کی شکل میں محفوظ کر کے مسرت محسوس کرتے ہیں۔ لوگ خوشی، تو خوشی اب غمی کے مواقع پر بھی بے دھڑک سیلفیز لے رہے ہوتے ہیں۔ اسپتالوں سے لے کر کسی کی فوتگی تک میں ایسے مناظر نظر آنے لگے ہیں۔ یہ نہایت غیرمناسب عمل ہے، اس سے ایک طرف ہم نفسیاتی طور پر بدترین خودپسندی کا شکار ہورہے ہیں، تو دوسری طرف ہماری اپنی زندگی میں بھی بناوٹ اور مصنوعی پن بڑھتا جا رہا ہے۔ شوق میں توازن کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ سیلفی لینا بے شک ایک مسرت بخش عمل ہوگا، لیکن ہر وقت کی سلیفی ہمیں خود پسندی کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے، جو مجموعی طور پر ہماری شخصیت کو خراب کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیجیے کہ ہر جگہ سیلفی نہیں لی جاسکتی۔نیشنل گیلری آف آرٹ واشنگٹن میں فوٹو گرافی کے شعبے کی منتظم سارا کینل کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں سیلفی خود سے لگاو کا اظہار ہے۔ ان کے بقول سیلفی کا بڑھتا ہوا رجحان آج کل کے معاشرے میں موجود نرگسیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق اپنی بہترین تصویر کی تلاش میں سیلف پورٹریٹ بنانے والوں میں نوجوان مردوں کی نسبت لڑکیوں میں یہ خبط زیادہ پایا جاتا ہے ۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ سیلفی جنون میں مبتلا لوگ ذہنی طور پر مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ سیلفیکے بڑھتے ہوئے کریز کے حوالے سے امریکن سائیکیٹرک ایسوسی ایشن نے اس کو ایک قسم کا دماغی خلل قرار دے دیا ہے۔ماہرین کے مطابق اس خلل کے تین درجے ہیں۔ پہلے درجے میں کوئی شخص دن میں تین سے زیادہ مرتبہ اپنی سیلفی لے، لیکن اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہ کرے۔ دوسرے درجے میں دن میں تین مرتبہ سے زاید سیلفی لے اور ہر تصویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرے۔ تیسرے اور سب سے زیادہ تشویش ناک درجے میں کوئی شخص دن میں چھے سے زاید بار اپنی سیلفی لے اور ہر تصویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردے۔ ماہرین کے مطابق اس دماغی خلل کا تاحال کوئی طریقہ علاج طے نہیں ہوسکا ہے۔ سوچیے، کہیں آپ بھی تو اس سیلفی جنون میں مبتلا نہیں؟دنیا کے بہت سے انتہائی خوب صورت اور پرخطر مقامات پر سیلفی بنانے کا جنون اب تک کے اندازوں کے برعکس اتنا ہلاکت خیز ثابت ہو رہا ہے کہ حکام ہنگامی اقدامات پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کئی ملکوں میں حکومتیں اور پبلک سیکیوریٹی ادارے سیلفی کے جنون کو عوامی سلامتی کے لیے سنجیدہ نوعیت کا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ ایک امریکی ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق سیلفی کے چکر میں 2013 سے اب تک دو سو کے قریب افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ بھارت میں سیلفی لیتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 17 سے زاید ہے۔پاکستان میں بھی پرخطر مقامات پر سیلفی لینے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 10 ہوگئی ہے، لہذا خیال رکھیے، محتاط رہیے، کیوںکہ عوامی مقامات پر عجیب اور خطرناک حرکتوں کا نتیجہ موت یا اسپتال کا بیڈ ہی ہوتا ہے۔ کئی ممالک میں سیف سیلفی کے نام سے آگہی کی مہم بھی چلائی گئی جب کہ متعدد معاشروں میں تو اب اس سلسلے میں عوامی شعور کی بیداری کے لیے باقاعدہ پروگرام بھی شروع کیے جا چکے ہیں، جن میں کہا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا پر20 لاکھ لائیکس بھی آپ کی زندگی اور آپ کی بھلائی سے بڑھ کر نہیں ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain