پاکستانی عوام سے بہتر غذا اپنے ہی دیس میں کون کھاتا ہے

لاہور (خصوصی رپورٹ)ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی قوم بھی ہیں۔پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے لیے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے ۔ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجیے لاہور شہر کے لیے اوکاڑہ چشتیاں قصور جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جب کہ راولپنڈی کے لیے جہلم اور سرائے عالمگیر سے دودھ لایا جاتا ہے۔ دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینسوں کو ہارمون کے انجکشن لگاتا ہے یہ انجکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل اسٹورز سے عام مل جاتے ہیں یہ سستے بھی ہوتے ہیں یہ انجکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے یہ فورا دودھ دے دیتی ہے یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہےیہ ہارمون بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے۔ گوالے پتلے پن کو چھپانے کے لیے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاڈر (سرف) ڈال دیتے ہیںڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کے لیے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاڈر ڈالتے ہیں بلیچنگ پاڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہےبیوپاری اس میں یوریا کھاد ہائیڈروجن پر آکسائیڈ بورک پاڈر پنسلین ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں چائے خانوں ریستورانوں دودھ دہی کی دکانوں اسٹورز مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں ہم اب ٹیٹرا پیک بوتل لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ ٹیٹرا پیک کے لیے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے یہ طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کے لیے اس میں خشک دودھ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے۔ یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہذ دودھ فروش گوالے بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیںپیچھے رہ گیا خشک دودھ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ دودھ بھی نہیں ہوتا یہ پاڈر مِلک اور کیمیکلز کا مرکب ہوتاہے کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ پام آئل چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں یہ دودھ ٹی وائیٹنر کہلاتا ہے یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے آپ تصور نہیں کر سکتے۔ یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں یہ بیکری کی مصنوعات مٹھائیوں ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہیں یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں یہ 20 کیمیکل بیکریوں مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں ان میں مصنوعی رنگ مصنوعی خوشبو پلاسٹک دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے۔ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتاآپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیںکیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے ہم دودھ بیکری اور خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔ ہمارے ملک میں بکریاں مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیںیہ خالص چارہ کھاتے ہیں یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں یہ ہم سے زیادہ فعال ہیں جب کہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں۔
لاہور (خصوصی رپورٹ)ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی قوم بھی ہیں۔پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں
باقی صفحہ4بقیہ نمبر21

پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے لیے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے ۔ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجیے لاہور شہر کے لیے اوکاڑہ چشتیاں قصور جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جب کہ راولپنڈی کے لیے جہلم اور سرائے عالمگیر سے دودھ لایا جاتا ہے۔ دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینسوں کو ہارمون کے انجکشن لگاتا ہے یہ انجکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل اسٹورز سے عام مل جاتے ہیں یہ سستے بھی ہوتے ہیں یہ انجکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے یہ فورا دودھ دے دیتی ہے یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہےیہ ہارمون بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے۔ گوالے پتلے پن کو چھپانے کے لیے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاڈر (سرف) ڈال دیتے ہیںڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کے لیے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاڈر ڈالتے ہیں بلیچنگ پاڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہےبیوپاری اس میں یوریا کھاد ہائیڈروجن پر آکسائیڈ بورک پاڈر پنسلین ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں چائے خانوں ریستورانوں دودھ دہی کی دکانوں اسٹورز مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں ہم اب ٹیٹرا پیک بوتل لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ ٹیٹرا پیک کے لیے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے یہ طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کے لیے اس میں خشک دودھ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے۔ یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہذ دودھ فروش گوالے بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیںپیچھے رہ گیا خشک دودھ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ دودھ بھی نہیں ہوتا یہ پاڈر مِلک اور کیمیکلز کا مرکب ہوتاہے کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ پام آئل چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں یہ دودھ ٹی وائیٹنر کہلاتا ہے یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے آپ تصور نہیں کر سکتے۔ یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں یہ بیکری کی مصنوعات مٹھائیوں ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہیں یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں یہ 20 کیمیکل بیکریوں مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں ان میں مصنوعی رنگ مصنوعی خوشبو پلاسٹک دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے۔ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتاآپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیںکیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے ہم دودھ بیکری اور خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔ ہمارے ملک میں بکریاں مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیںیہ خالص چارہ کھاتے ہیں یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں یہ ہم سے زیادہ فعال ہیں جب کہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں۔

پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام….اہم چیزیں3روپے کلوپھر مہنگی

 اسلام آباد (آن لائن)ملک میں وافر مقدار میں ذخائر ہونے کے باوجود چینی کی قیمت میں اضافے نے سوال اٹھا دئیے ہیں۔ ہول سیل مارکیٹ میں 3 روز میں کلو چینی 3 روپے مہنگی ہوگئی۔اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار نے بتایا تھا کہ شوگر ملزکے پاس 15 دسمبر2016 تک 12 لاکھ 30 ہزار ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں۔ 4 لاکھ ٹن ماہانہ طلب کے حساب سے ذخائر5 فروری 2017 تک کے لئے کافی ہیں۔اس بریفنگ پر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ڈھائی لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن فیصلے کا اثرہول سیل مارکیٹ نظر آنے لگا ہے۔تین روز میں ہول سیلز مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 59 روپے سے بڑھ کر 62 روپے ہوچکی ہے۔ یعنی 100 کلو چینی کا تھیلے پر 300 روپے کا اضافہ ہوچکاہے۔

ایک اور اُستاد کی 8سالہ بچی سے زیادتی ….چیخیں مارتی رہی مگر….

شاہدرہ (بیورو رپورٹ) تھانہ فیکٹری ایریا کے علاقہ نین سکھ میں صغیر نامی آدمی نے ایک پرائیویٹ سکول دی برائٹ وے سکول سسٹم کے نام سے بنا رکھا ہے اور اچھی شہرت کا حامل بھی نہیں۔ پرنسپل صغیر نے8 سال کی بچی (S) سے زبردستی زیادتی کی تو بچی نے چیخیں مارنی شروع کر دیں۔ چیخ وپکار سن کر علاقے کے لوگ اکٹھے ہو گئے جنہوں نے پرنسپل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر صغیر سے بچی کی جان چھڑائی اور صغیر پرنسپل کی خوب چھترول کی۔ بچی کے ورثاءآنے پر ملزم موقع سے فرار ہو گیا اور اپنے گھر جا کر چھپ گیا۔ اہل علاقہ اور ورثاءنے پرنسپل صغیر کے گھر کے باہر شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کی پولیس اطلاع کے باوجود موقع پر تاخیر سے پہنچی اور ملزم اپنے گھر کی چھت پھلانگ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اہل علاقہ نے ”خبریں“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملزم صغیر عادی مجرم ہے اس سے قبل بھی کئی بار بچیوں سے ایسی حرکت کر چکا ہے اور بااثر ہونے کی وجہ سے ملزم ہر بار بچ جاتا ہے۔ زیادتی کا شکار (S) کو پولیس نے میڈیکل کیلئے ہسپتال بھیج دیا۔ اہل علاقہ کا ملزم صغیر کے خلاف شدید احتجاج اور وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب اور ڈی پی او شیخوپورہ سے اس واقع کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایس ایچ او فیکٹری ایریا رانا اقبال کال چلنے پر خود وقوعہ پر پہنچا لیکن ملزم اس وقت تک بھاگ چکا تھا۔ ایس ایچ او نے خبریں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچی کا میڈیکل کروائیں گے۔ اگر زیادتی ہوئی ہو گی تو ضرور کارروائی کریں گے۔ اگر نہ ہوئی ہو گی تو جو کارروائی بنی ہو گی وہ کرینگے

ملکہ حُسن کس نشے کی عادی ….راز کھل گیا

سڈنی(خصوصی رپورٹ)لبنان کی ملکہ حسن نجہ گھمراوی کی کار سے ہیرون بر آمد ہونے کے بعد منتظمینکی جانب سے ان سے ملکہ حسن کا تاج واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آسڑیلوی نژاد لبنان کی ملکہ حسن نجہ گھمراوی سڈنی میں تیزرفتاری سے اپنی گاڑی میں سفر کر رہی تھیں کہ پولیس کی جانب سے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا گیا، تیزرفتاری کے باعث ملکہ حسن کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا جس کے بعد انہیں رکنا ہی پڑا۔پولیس کی جانب سے ملکہ حسن کی گاڑی سے ہیروئن برآمد کی گئی، ملکہ حسن کی گاڑی سے 22 گرام آئس ہیروئن سمیت بڑی نقد رقم بھی برآمد کی گئی ہے جب کہ گاڑی میں بیٹھے ایک اور شخص کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں کو پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا جہاں گرفتار شخص پر منشیات رکھنے کا جرم جب کہ ملکہ حسن پر ایک ہزار350 ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ دونوں پر منشیات رکھنے، سیٹ بیلٹ نہ باندھنے، تیز گاڑی چلانے سمیت دیگرالزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ ملکہ حسن کی گاڑی سے منشیات برآمدگی کے بعد مقابلہ حسن کے منتظمین کی جانب سے نجہ گھمراوی سے ان کا تاج واپس لینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ ملکہ حسن پرالزام تاحال ثابت نہیں ہوا لیکن ان سے مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن ان کی جانب سے ایک بار بھی جواب نہیں دیا گیا۔

آج چوتھی برسی….دعائیہ تقریبات….سیمینار میں خراج عقیدت پیش کیا گیا

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) متحدہ مجلس عمل کے بانی سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے 4برس بیت گئے ، انکی چوتھی برسی آج جمعہ کو منائی جائیگی ، اس سلسلہ میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ملک بھر میں تعزیتی ریفرنسز ، کانفرنسز ، مذاکرے اور مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جائے گاجس میں جماعت اسلامی کے ذمہ داران اور مقررین مرحوم قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی اور ملک و قوم کیلئے پیش کی گئی خدمات کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔قاضی حسین احمد1938ءمیں صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر نوشہرہ میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز1970ءمیں رکن جماعت اسلامی سے کیارکن جماعت سے امیر جماعت اسلامی پشاور ،امیر ضلع اور پھر امیر صوبہ کی ذمہ داریاں ادا کیں۔قاضی حسین احمد 1978ءمیں جماعت اسلامی کے جنرل سیکر ٹری اور1987ءکو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے وہ2004ءتک چار مرتبہ امیر جماعت منتخب ہوئے۔قاضی حسین احمد 1985ءاور 1992ءمیں دو مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے۔2002ءکے انتخابات میں قاضی حسین احمد دو حلقوں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے انہوں نے ملک کی تمام دینی جماعتوں کو متحد کرکے ایک پلیٹ فارم ” متحدہ مجلس عمل “ میں اکٹھا کر دیا انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔قاضی حسین احمد ایک بلند پایہ سیاستدان اور ممتاز عالم دین تھی انہیں اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ عربی،فارسی،اردو،انگریزی اور دیگر زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا وہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے اور اپنی تقاریر میں ان کے شعر اکثر شامل کرتے تھے۔قاضی حسین احمد نے ملکی سیاست میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کی ان کی جماعت کا یہ نعرہ ظالموقاضی آرہا ہے بھی ملک میں بہت مقبول ہوا قاضی حسین احمد کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ان کی ایک بیٹی سمیعہ راحیل قاضی بھی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔قاضی حسین احمد6جنوری2013ءکواسلام آباد میں دل کے عارضہ کے سبب انتقال کر گئے تھے۔

بچی والدین سمیت غائب …. کہاں گئی ، طیبہ تشدد کیس میں نیا موڑ

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں، کرائم رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل سیشن جج اور اس کی اہلیہ کے مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ طیبہ کا کیس کھلی عدالت میں سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں حاضر سروس ایڈیشنل سیشن جج خرم علی خان اور اس کی اہلیہ ماہین ظفر کے ہاتھوں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی 10 سالہ طیبہ کے حوالے سے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کی رپورٹ کے جائزے کے بعد کیس کو عدالت عظمیٰ میں سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے فیصلہ کیا ہے کہ کیس کی سماعت (آج) جمعہ کو کھلی عدالت میں ا±ن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کرے گا۔سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں جس میں کہا گیا کہ بچی پر تشدد کے حوالے سے تمام ریکارڈ، پیش رفت اور بچی کے ورثا سمیت عدالت میں پیش ہوں ¾ سماعت کے لئے فریقین کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ ادھر طےبہ تشدد کےس مےں رجسٹرار ہائی کورٹ نے سپرےم کورٹ مےں رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ رپورٹ مےں صلح نامہ پولےس کی تفتےش اےڈےشنل سےشن جج اور متاثرہ بچی کے بےانات شامل ہےں اس تشدد کےس مےں رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ کی انکوائری کی تھی۔ تاہم سپرےم کورٹ نے طےبہ تشدد کےس مےں صلح نامہ پر از خود نوٹس لےتے ہوئے متاثرہ بچے کے معائنہ کےلئے نےا بورڈ تشکےل دےنے کا حکم دےا تھا۔ دوسری طرف طےبہ تشدد کےس مےں پمز ہسپتال کے ڈاکٹروں پر مشتمل مےڈےکل بورڈ کا اجلاس بھی آج دن گےارہ بجے پمز مےں ہوگا چار رکنی مےڈےکل بورڈ آج تشدد سے زخمی طےبہ کا معائنہ کرے گا۔ اجلاس کے دوران متعلقہ پولےس حکام کو شرکت کی ہداےت کی گئی ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کی جانب سے سیشن جج کی کم سن ملازمہ پر تشدد کا نوٹس لینے پر والدین بچی سمیت غائب ہوگئے ۔پمز کے میڈیکل بورڈ نے (آج) جمعہ کو بچی کا معائنہ کرنا ہے ،پولیس کو بچی کو پیش کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد متاثرہ بچی کو فیصل آباد سے لینے کےلئے جانے والے والدین اب تک واپس گھر نہیں پہنچے،دادا کا کہنا ہے کہ بچی سے ان کا کوئی رابطہ نہیں۔از خود نوٹس کے بعد چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ٹیم بچی کی کفالت کی ذمہ داری لینے اس کے گھر پہنچی تاہم بچی سے ملاقات نہ ہو سکی ہے۔

” ملکی نظریاتی مخالفین کیخلاف جہاد کیلئے نظریہ پاکستان فاﺅندیشن ریسرچ سیل قائم کرے “

لاہور (ایجوکیشن رپورٹر) قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ آج ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ ہم پاکستان کو بانی پاکستان کے تصورات کا آئینہ دار بنانے میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں؟۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام 2017ءکو 70ویں سالِ آزادی کے طور پر منایا جا رہا ہے اور آج کا یہ پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان خیالات کااظہار تحریک پاکستان کے مخلص کارکن، سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان و چیئرمین نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان، لاہور میں 70ویں سال آزادی کی مناسبت سے جاری تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ خصوصی لیکچر بعنوان ”قائداعظمؒ کا تصور پاکستان“ کے دوران اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ اس پروگرام کے کلیدی مقررممتاز صحافی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای) کے صدر ضیا شاہدتھے۔ پروگرام کا اہتمام نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبول اور قومی ترانہ سے ہوا۔ بلال ساحل نے تلاوت جبکہ الحاج اختر حسین قریشی نے نعت رسول مقبول سنانے کی سعادت حاصل کی۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیئے۔ سابق صدرمحمد رفیق تارڑ نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک پاک صاف ذہن کے مالک‘ راست فکر اور راست گو انسان تھے۔ ان کے دل و دماغ میں یہ بات سما گئی تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کو انگریزوں سے آزادی دلائی جائے نیز ہندو اکثریت کی غلامی میں جانے سے محفوظ رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ مسلمانوں کی ایک ایسی مملکت قائم کرنا چاہتے تھے جہاں وہ قرآن و سنت کے احکامات و تعلیمات کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔ میں بلاخوف تردید یہ بات کہتا ہوں کہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے اور خلیفہ¿ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے نظام حکومت جیسا نظام پاکستان میں رائج ہوتے دیکھنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بابائے قوم پاکستان کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کو دین اسلام کے زریں اصولوں پر استوار کر کے دنیا پر ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیںجس طرح رسول کریم اور خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں تھے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ان کے خطاب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی معیشت کو رائج دیکھنا چاہتے تھے اور یہاں ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرہ دیکھنے کے آرزومند تھے جس میں غریبوں کو بھی آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے یکساں اور بھرپور مواقع حاصل ہوں۔ وہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا سوفیصد تحفظ چاہتے تھے اور انہیں برابر کا شہری تصور کرتے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو اقوام عالم میں ایک ممتاز مقام پر فائز ددیکھنے کے آرزومند تھے۔ ان کا فرمانا تھا: ”مسلمانوں کے لیے یہ ایک لازمی اور ناگزیر امر ہے کہ وہ آزادانہ زندگی بسر کرنے کے لیے اپنی اکثریت کے علاقوں میں ایک الگ آزاد ریاست قائم کریں لیکن تحریک پاکستان کا صرف یہی مقصد نہیں ہے۔ پاکستان کا ایک دوسرا زیادہ ارفع پہلو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا اڈہ ہو گا جہاں ہم مسلمان دانشور‘ ماہرینِ معیشت و تعلیم‘ سائنس دان‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ ٹیکنیکل اور دیگر کاریگر پیدا کرنے اور انہیں تربیت یافتہ بنانے کے قابل ہو جائیں گے اور یہ احیائے اسلام کے لیے کام کریں گے۔
اپنے لیکچر میں ضیا شاہد نے کہا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں الگ ریاست بنانے کا خواب دیکھا گیا ۔ اس میں چاہے جمال الدین افغانی کی تھیوری ہو‘ علامہ محمد اقبالؒ کا خطبہ¿ الٰہ آباد ہو یا چوہدری رحمت علی کی کتاب ”Now or Neve“میں موجود تصور ہو‘متعدد افراد نے اس پر کام کیا۔ سر سید احمد خان کی تحریک نے بھی مسلمانوں میں بیداری پیدا کی ۔قائداعظمؒ کا تصور یہ تھا کہ نہ صرف مسلمانوں کیلئے الگ ریاست قائم ہو بلکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا ماڈل بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔کہ اگر ہمیں نظام حکومت دیا جائے تو ہم ایک ایسا ماڈل معاشرہ دیں گے جس کا افسر، جج، وکیل، استاد، پولیس، تاجر وغیرہ اور انتخابی نظام بھی مثالی ہو گا۔آج ہم میں سے ہرایک اس بات کا جائزہ لے کہ ہمارایہ سفر کن ارادوں اور مقاصد کے ساتھ شروع کیا گیا تھا اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ قائداعظمؒ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میرے بنائے گئے پاکستان میں محروم کو چھت، غریب کو روٹی اور مظلوم کو انصاف نہیں ملتا ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیایہ ایسا ہی پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظمؒ نے دیکھا تھا؟۔ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ضیاءشاہد نے کہا میں نے ایک حالیہ میٹنگ میں سیاستدانوں سے یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ مجھے ایسا پاکستان دو جس کا قائداعظمؒ نے تصور دیا تھا۔ قائداعظمؒ کی تقاریر کا مطالعہ کریں ، انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں کچھ اصول متعین کر کے ہمیں ہدایات دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر قوم اپنے ملک کے بانی کی بے انتہا عزت اوراحترام کرتی اور ان کے افکارونظریات پر عمل پیرا رہتی ہے۔ میری بھی خواہش ہے کہ ہمارے ملک کے ہر طالبعلم، سرکاری ملازم، تاجر، صحافی، وکیل، غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس قائداعظمؒ کے اقوال کی کتاب موجود ہو۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان دشمن اور پاکستان کے بنیادی نظریات کے مخالف بھی یہاں فخر کے ساتھ رہ رہے ہیں‘ان کیخلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔ موجودہ حالات میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کا وجود ایک غنیمت ہے۔یہ ادارہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے اور قائداعظمؒ کے افکارونظریات نئی نسل تک پہنچا رہا ہے۔میری گزارش ہے کہ یہاں ایک ایسا تحقیقی سیل قائم کیا جائے جو نظریاتی لڑائی لڑے اور پاکستان یا اس کے بنیادی نظریات کیخلاف بولنے والے عناصر کو بھرپور دلائل کے ساتھ منہ توڑ جواب دے۔اگر یہ ادارہ ایسا نہیں کرے گا تو پھر میرا سوال ہے کہ پاکستان بھر میں اور کون یہ کام کرے گا؟۔انہوں نے کہا کہ میں نے قائداعظمؒ کی زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات پر مبنی ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں ہر بات ریفرنس کے ساتھ موجود ہے۔قائداعظمؒ کا دوقومی نظریہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے الگ قوم ہیں۔انہوں نے کہا میں موجودہ حالات سے بالکل بھی مایوس نہیں ہوں ، پاکستان کے عوام میں سیاسی شعور بلند ہو رہا ہے اور یہی شعور ہمارے لیے امید کی کرن ہے۔یہ وہی شعور ہے جو قائداعظمؒ نے1940ءکی دہائی میں برصغیر کے مسلم عوام میں بیدار کیا تھا۔ ہمیں نئی نسل سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنی صحافتی زندگی میں مجید نظامی جیسا نڈر ، بے خوف اور حوصلہ مندایڈیٹر نہیں دیکھا۔ہمیں آج ان کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ان خیالات کااظہار ممتاز صحافی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرزسی پی این ای کے صدر ضیاءشاہد نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ،لاہور میں منعقدہ خصوصی لیکچر بعنوان ”قائداعظمؒ کا تصور پاکستان“ کے دوران کیا۔
شاہد رشید نے کہا کہ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ کی قیادت میں پوری قوم بالخصوص نئی نسلوں کو تحریک پاکستان ، دوقومی نظریہ، قیام پاکستان کے حقیقی اسباب مقاصد اور مشاہیر تحریک آزادی کے افکارونظریات سے آگاہ کر رہا ہے۔ ہمارے آباواجداد نے ایک علیحدہ وطن کے حصول کیلئے جان ومال کی لازوال قربانیاں دیں۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ سال 2017ءکو 70ویں سال آزادی کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے ایک جامع پروگرام طے کیا گیا ہے۔ سالِ آزادی کی سرگرمیاں پورے سال پر محیط ہوں گی۔ اس پروگرام میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔

جڑانوالہ میں 38سالہ شخص کی 10سالہ بچی سے شادی….آگے کیا ہوا ….دیکھئے خبر

جڑانوالہ(خصوصی رپورٹ)تھانہ سٹی پولیس نے بروقت کارروائی کرکے 10سالہ بچی کے 38سالہ شخص سے نکاح کی کوشش ناکام بنا دی، دولہا و نکاح خواں جائے وقوعہ سے فرارہوگئے۔ پولیس نے دولہا کے والد سمیت 5باراتیوں کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کر
لیا۔ تفصیلات کے مطابق تھانہ سٹی پولیس نے مخبر کی اطلاع پر فیصل پارک میں کامیاب چھاپہ مار کر 10سالہ نابالغ بچی سے 38سالہ شخص یاورسکنہ 433گ ب کے نکاح کی کوشش ناکام بنا دی۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ دولہے کے والد لعل ، باراتیوں منظور ، عامر ، عبدالرحمن ، عنصر کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کر لیا ہے۔ جبکہ دولہے اور نکاح خواں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس کی کارروائی کی اطلاع پر بچی کے والدین بھی فرار ہوگئے۔

مولانا فضل الرحمن بارے افسوسناک خبر ….

لاہور (آن لائن) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا اتفاق ہسپتال میں پتے کا کامیاب آپریشن ہوا۔ تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمن جو کہ گزشتہ ایک ماہ سے پتے کے مرض میں مبتلا تھے ان کا لاہور کے اتفاق ہسپتال میں پتے کا کامیاب آپریشن کیا گیا جہاں اب ان کی طبیعت بہتر ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ایک ماہ پہلے ٹیسٹ کئے گئے تھے ۔ ڈاکٹر نے ان کو آپریشن کا مشورہ دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کے پتے کا آپریشن40منٹ تک جاری رہا۔

طویل عمری کا راز سامنے آگیا….اگر آپ بھی لمبی عمر چاہتے ہیں تو….

لندن (خصوصی رپورٹ)وہ دادے دادیاں اور نانے نانیاں جو پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں وہ ان عمر رسیدہ افراد کے مقابلے میں زیادہ جیتے ہیں جو دوسرے لوگوں کا خیال نہیں رکھتے۔ برطانوی ریڈیو کے مطابق ارتقا اور انسانی رویے کے مطالعے کے ایک معروف جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق اگرچہ سارا وقت چھوٹے بچوں کا خیال رکھنے والے عمر رسیدہ افراد کی صحت پر اس ذمہ داری کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، تاہم اگر آپ کبھی کبھار بچوں کا خیال رکھتے ہیں تو اس سے آپ کی عمر زیادہ ہوتی ہے۔