
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سوئٹزر لینڈ حکومت کا پاکستان کےخلاف تعصب کھل کر سامنے آگیا، پاکستانی سرکاری وفد کو ویزا دینے سے انکار پر پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔ سوئٹزر لینڈ میں پاکستانی سفیر نے ویزا سے انکار کا معاملہ سوئس حکومت کے سامنے اٹھایا۔ وزیر خارجہ کی قیادت میں وفد نے جنیوا میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کرنا تھی۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی، ماجدہ رضوی اور دیگر کو بروقت سوئٹزر لینڈ کا ویزا نہیں دیا گیا۔ پاکستان مخالف بلوچ رہنماﺅں کو سوئس حکومت فوری ویزے جاری کرتی ہے۔
اسلام آباد (صباح نیوز) قومی اسمبلی میں وزیر داخلہ احسن اقبال اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے درمیان شدید لفظی جھڑپ ہوئی،جھڑپ کے دوران ہی قومی اسمبلی میں ختم نبوت کے حوالے سے آئینی ترمیم پاس ہوگئی ، معاملہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے رفع دفع کیا جبکہ شیخ آفتاب اور چودھری جعفر اقبال بھی وزیر داخلہ کی مدد کے لیے آگئے جمعرات کو قومی اسمبلی میں ختم نبوت کے حوالے سے حلف میں ترمیم کے موقع پر جب زاہد حامد نے اپنی تقریر مکمل کی تو احسن اقبال نے بھی ان کے حق میں تقریر کر دی جس پر شیخ رشید احمد نے سپیکر قومی اسمبلی ایازصادق سے اجازت لی اور بولنا شروع کیا اور وزیر داخلہ کی طرف سے اپنے ایمان کی صفائی کے بیان پر شدید رد عمل دیا اور کہاکہ ناموس رسالت ﷺ پر اس طرح کی ک¾ئی اسمبلیاں قربان کرسکتے ہیںیہ کہہ کرشیخ رشید احمد نے اپنی تقریر مکمل کی ہی تھی کہ احسن اقبال اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے جس کے بعد دونوں رہنماﺅں میں شدید لفظی جھڑپ ہوئی جبکہ شیخ آفتاب اورچودھری جعفر اقبال بھی وزیر داخلہ کا ساتھ دینے آ گئے اور اسی لفظی جھڑپ کے اندر ختم نبوت کے حوالے سے آئینی ترمیم پاس ہوگئی جس کے بعد خواجہ سعد رفیق نے معاملہ رفع دفع کیا اور دونوں رہنماﺅں کو لڑائی ختم کرنے کا کہا ختم نبوت کے حوالے سے ترمیمی بل کو پاس کرنے کے موقع پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی اسمبلی میں موجود تھے۔
بہاولنگر( ملک مقبول احمد سے) بہاولنگر ڈی ایچ کیو ہسپتال میںادویات اور ایل پی کی مد میں کروڑوں کی کرپشن کی خبر خبریں میں شائع کی گئی جوکہ خبریں کی خبر سچی ثابت ہوئی جس پر ایکشن لیتے ہوئے سیکرٹری ہیلتھ پنجاب علی جان خان نے ڈائریکٹر ایڈمن ہیلتھ پنجاب کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی جس پر کمیٹی نے سرکاری ریکارڈ اپنے قبضہ میں لے کر انکوائری رپورٹ سیکرٹری ہیلتھ کو پیش کر دی۔ تفصیلات کے مطابق ڈی ایچ کیو ہسپتال بہاولنگر اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال چشتیاں میں ایل پی کی مد میں ایم ایم ایم بیگ میڈیسن کمپنی نے کروڑوں روپے کی کرپشن کی جس پر سیکرٹری ہیلتھ پنجاب کی جانب سے میڈیسن کی مقرر کردہ قیمتوں سے زیادہ میڈیسن سپلائی کی گئی کروڑوں روپے کے بل محکمہ ہیلتھ کے افسران کے ساتھ مل کر ایم ایم ایم بیگ میڈیسن کمپنی نے پاس کروا لئے تھے جس کی خبر روزنامہ خبریں میں شائع کی گئی جس پر فوری طور پر سیکرٹری ہیلتھ نے خبریں کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اب کمیٹی نے میڈیسن کی مد میں ہونے والی کرپشن کی انکوائری کر کے رپورٹ سیکرٹری ہیلتھ پنجاب علی جان خان کو پیش کردی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال بہاولنگر اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال چشتیاں میں کروڑوں روپے کی میڈیسن سپلائی کی گئی جس میں ایل پی کی مد میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی جس پر سیکرٹری ہیلتھ نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پر ایکشن لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو کارروائی کے لئے خط لکھ دیااور سکرٹری ہیلتھ پنجاب علی جان خان نے خبریں کی انسپکشن ٹیم ملک مقبول احمد سے لاہور میں ملاقات کرتے ہوئے بتایا کہ تین میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کے خلاف پیڈا ایکٹ لگا کر ریگولر انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ واضع رہے کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال بہاولنگر اور ضلع بھر کے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں ادویات اور ایل پی کی مد میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے انکشافات محکمہ صحت بہاولنگر کے کئی اعلیٰ افسران اور ایم ایم ایم بیگ میڈیسن کمپنی کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں۔ سیاسی سماجی اور عوامی حلقوں نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ، چیف سیکرٹری پنجاب اورسیکرٹری ہیلتھ علی جان خان سے مطالبہ کیا ہے کہ جعلی اور نوسر باز کمپنی ایم ایم ایم بیگ سے لوٹی گئی رقم کی ریکوری کر کے سرکاری خزانے میں واپس جمع کروائی جائے اورمحکمہ صحت کے کرپٹ افسران کے خلاف انٹی کرپشن میں مقدمہ درج کروا کر انہیں فوری تور پر گرفتار کیا جائے اور ایم ایم ایم بیگ میڈیسن کمپنی کو بلیک لسٹ کیا جائے تاکہ ٓائندہ کوئی سرکاری افسر اور میڈیسن کمپنی سرکاری خزانے پر ڈاکہ نا ڈال سکے۔
شیخوپورہ (بیورورپورٹ)روزنامہ ”خبریں“ میںشیخوپورہ میں سستی موٹر سائیکل سکیم کی آڑ میں سودی کاروبار میں ملوث اور شہریوں سے کروڑوں روپے فراڈ کر نے والی کمپنی ایم این ایم کے خلاف مسلسل خبروں کی اشاعت پر سٹی فاروق آباد پولیس نے سرگودھا روڈ پر سبحان میرج ہال بیسمنٹ میں قائم ایم این ایم کے دفتر میں چھاپہ مار کر 4ملزمان میاں صابر حسین،محمد حسین بھٹی ،جمشید احمد ،منظور احمد کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے کمپنی کی رسیدیں اور 70ہزار روپے نقدی برآمد کر لی جبکہ سٹاکسٹ شہزاد سیفی سمیت مذکورہ چاروں ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 294A،294B اور 420ت پ کے مقدمہ نمبر 227/17درج کر کے انہیں علاقہ مجسٹریٹ فیصل اسلام ہنجراءکی عدالت میں پیش کر دیا جہاں عدالت نے مقدمہ کی دفعات کو ناقابل ضمانت قرار دیتے ہوئے چاروں ملزمان کو جوڈیشنل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ بھجوا دیا ہے۔ ایم این ایم کمپنی کے کرتا دھرتا اور مرکزی کردار ڈاکٹر آصف علی ،عبدالواحد،شہزاد سیفی پولیس کی گرفت میں نہ آسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے بھاری مک مکا کر کے چھاپے کے دوران ان افراد کو وہاں سے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا۔ تاہم پولیس نے ایم این ایم کی اس برانچ کو سیل کر دیا ہے جبکہ کوٹ رنجیت ،کوٹ عبد المالک،جوئیانوالہ موڑ اور بھکھی میں ایم این ایم اپنے منی دفاتر قائم کر کے بد ستور شہریوں سے لاکھوں روپے کی رقوم روزانہ کی بنیاد پر جمع کر رہے ہیں اور گزشتہ کئی ہفتوں سے کسی بھی ممبر کو اسکی رقم کا سود ادا نہیں کیا گیا روزنامہ ”خبریں“ نے موٹر سائیکل فراڈ سکینڈل اور سودی کاروبار کی اپنی اشاعت میں نشاندھی کی جس پر گزشتہ روز ڈی پی او سرفراز خاں ورک نے تمام ایس ڈی پی اوز کو یہ ہدایت جاری کر دی تھی کہ وہ ایم این ایم کے خلاف کاروائی کریں مگر سٹی فاروق آباد پولیس کے ایس ایچ او حاجی خالد جاوید کے علاوہ تھانہ صدر شیخوپورہ،تھانہ بھکھی،تھانہ صدر شیخوپورہ اور تھانہ فیکٹری ایریا کے ایس ایچ اوز نے ان علاقوں میں ایم این ایم کے دفاترکے خلاف تاحال کو ئی کاروائی نہیں کی یہ امر قابل ذکر رہے کہ مذکورہ کمپنی سات ماہ سے شہر میں دھرلے سے یہ سودی کاروبار کر رہی تھی جس کا علم ڈی پی او سرفراز خاں ورک اور مقامی ایس ایچ اوز کو بھی تھا اور اس فراڈ کی تحریری درخواست بھی تھانہ میں دی گئی اور ڈی پی او کو بھی میڈیا نے نشاندھی کر دی تھی اس کے باو جود پولیس اور ایف آئی اے خاموش رہی اور شہری اپنے کروڑوں روپے لٹا بیٹھے ذرائع کے مطابق ایم این ایم نے شیخوپورہ میں گزشتہ سات ماہ کے دوران ساڑھے 7ارب روپے شہریوں سے وصول کئے اور اس کے عوض” اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف “شہریوں کو موٹر سائیکلیں یا رقم کا منافع یعنی سود ادا کیا اور خود سٹاکسٹ یا سرکلز آفیسرز جو کل تک موٹرسائیکل پر گھمتے تھے آج ان کے پاس لگثری گاڑیاں ہیں جو دھرلے سے شہر میں پھر رہے ہین اور پولیس نے ان سے آنکھیںپھیر لی ہیں اور ہزاروں متاثرین اب اپنی اصل رقوم کی وصولی کے لیے سیاستدانوں ،پولیس اور سٹاکسٹ کے گھروں میں چکر لگا رہے ہیں ۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ 3 بار وزیراعظم ایک بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اس وقت مشکل ترین حالات کا شکار ہیں ان پر کئی مقدمات چل رہے ہیں۔ جے آئی ٹی ان کے خلاف اتنا مواد دے چکی ہے کہ بچنا مشکل نظر آتا ہے اور کافی طویل مدت کے لئے ان کا سیاسی کیریئر ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں ان کے لہجے میں تلخی آ جانا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک طرح سے بادشاہت ہی چل رہی ہے جس کے لئے کسی ایک کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ خان عبدالغفار کے بیٹے اور آگے ان کے بیٹے سیاست میں آئے، مفتی محمود کے بیٹے سیاست میں آئے، ذوالفقار علی بھٹو نے بیگم کو پارٹی سربراہ بنایا بیٹی کو سیاست میں لائے جو اپنے شوہر کو لے آئیں اور اب ان کا بیٹا بلاول پارٹی چیئرمین ہے، عبدالصمد اچکزئی کا بیٹا محمود اچکزئی اور سارا خاندان فیض یاب ہوا، جی ایم سید کا بیٹا شاہ محمد ان کی فکر لے کر آگے بڑھا، جے یو آئی س میں مولانا عبدالحق کو بھی اپنا بیٹا سمیع الحق ہی نظر آیا۔ نوازشریف نے چھوٹے بھائی کو وزیراعلیٰ بنایا، بیٹی کو سیاست میںلائے، داماد کو ایم این اے بنوایا، سمدھی اسحاق ڈار تو ان کے دور میں آل ان آل ہی رہے۔ صرف جماعت اسلامی ہی ایک پارٹی ہے جہاں موروثیت نہیںبلکہ الیکشن سے سربراہ بنایا جاتا ہے۔ جمہوریت میں اس طرح کی موروثی سیاست قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اسحاق ڈار اس وقت بری طرح پھنس چکے ہیں اب اگر وہ وعدہ معاف گواہ نہیں بنتے تو بیٹے کا گھر برباد ہوتا ہے اور اگر ایسا کرتے ہیںتو خود پکڑے جائیں گے۔ ممتاز بھٹو نے بڑا اہم سوال اٹھایا ہے کہ نوازشریف کے پیچھے پڑنے والوں کو سندھ کے حالات نظر کیوں نہیں آ رہے۔ اس سوال کا جواب نہیں، عدلیہ و دیگر اداروں کو آخر دینا ہی پڑے گا۔ دبئی میں صرف اسحاق ڈار ہی کی جائیداد کو کیوں دیکھا جاا ہے جبکہ بیڈن روڈ کے ہر چوتھے تاجر کا بیٹا یا داماد دبئی میں ہے وہاں جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ کراچی کے ہر کھاتے پیتے دوسرے شخص کا ایک گھر دبئی میں ہے دبئی تو اس وقت منی پاکستان بنا ہوا ہے۔ وہاں پاکستانی لیبر بھی بڑی تعداد میں موجود ہے اور سخت حالات میں کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہی ہے۔ کراچی سے کتنا پیسہ روزانہ دبئی جاتا ہے کیا یہ پیسہ لے جانے والے سارے حاجی ہیں۔ ایف آئی اے کو یہ سب نظر نہیں آتے۔ سابق گورنر عشرت العباد وہاں کیسے رہتا ہے، بینظیر بھٹو کا محل نما گھر کیسے بنا، مشرف نے پورے فلور پر آفس بنا رکھا ہے، ان سب کا بھی تو حساب کتاب ہونا چاہئے کہ کیسے یہ پیسہ باہر گیا۔ بلوچستان میں 15 افراد کی موت کا سن کر افسردہ ہوں، معاشرے میں عدل و انصاف نہ ہو تو ایسے حالات پیش آتے ہیں۔ پاکستان میں سچ بولنے یا چھپانے والے کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے یہاں مجرم اکڑتے پھرتے ہیں ”خبریں“ میں غیر قانونی ٹول پلازوں بارے خبر شائع ہوئی۔ ہمارے ایک رپورٹر چیئرمین این ایچ اے سے موقف لینے گئے تو وہ صاحب فرعون بن گئے اور کیمرہ ضبط کرنے کی کوشش کی، رپورٹر کو دھمکیاں دیں۔ غریب عوام کے پیسوں سے اکٹھا ہونے والے ٹیکس پر پلنے والے یہ افسر بدمعاش بنے ہوئے ہیں، ان کی حقیقت کو سامنے ضرور لایا جائے گا۔ معلومات تک رسائی قانونی حق ہے ہماری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہم صرف سوالات کے جواب چاہتے ہیں۔ چیئرمین این ایچ اے اگر ہماری خبر کو غلط سمجھتے ہیں توتردید کر دیں لیکن فرعون نہ بنیں ملتان ہائیکورٹ بنچ میں غیر قانونی ٹول پلازوں کے خلاف کیس بھی دئر ہے جج صاحب کے ریمارکس ہی ںکہ کئی بار این ایچ اے سے پوچھا گیا لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ نیشنل ہائی ویز کی صورتحال انتہائی ابتر ہے سڑکوں پر کوئی لائٹ ہے نہ ریفلکٹر ہیں، کوئی رہنمائی کرنے والے اشرے ہیں نہ ہی سائیڈوں پر برج موجود ہے، بیلداروں کو کرپٹ افسران اپنے گھر کے کاموں پر لٹائے رکھتے ہیں۔ سڑکوں کی دگرگوں صورتحال کے باعث انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں لیکن کسی کو کوئی فکر نہیںہے۔ وزیرمواصلات سے پوچھا تو موصوف فرماتے ہیںکہ موٹر وے بن رہی ہے سب ٹھیک ہو جائے گا یعنی کئی سال تک یونہی بندے مرتے رہیں انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وزیراعظم کو بھی اس معاملے پر ایکشن لینے کیلئے درخواست بھجوائی ہے امید ہے کہ وہ معاملہ پر ہمدردانہ غور کریںگے۔ وزیرمواصلات کا کہنا تھا کہ جب کوئی ان سے کہے گاکہ پھر وہ ایکشن لیں گے یعنی اگر اخبارات میں شائع خبر ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ گزشتہ روز کھانے پر چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی سے ملاقات ہوئی۔ چودھری شجاعت نے میرے سوال پر کہ ن لیگ سے پرندے اب تک اڑتے نظر تو نہیں آئے جواب دیا کہ ایم این ایز بڑے سیانے ہیں ابھی وہ سوچ رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ شہباز شریف اگر پارٹی صدر بن جاتے ہیں تو حالات مختلف ہوں گے اور شاید کچھ لوگ پارٹی نہ چھوڑیں تاہم اگر ایسا نہ ہوا تو پھر لیگی ارکان نے کسی اور چھت پر بیٹھنے کیلئے اڑنا ہی ہے۔ ریزیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں عبدالغفار نے کہا کہ غیر قانونی ٹول پلازوں کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کے ملتان بنچ میں رٹ نمبر 3498/2016 درج ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی رٹ درج ہے۔ این ایچ اے کی ویب سائٹ پر بھی ان 10 غیر قانونی ٹول پلازوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ این ایچ اے کے 99 ٹول پلازوں پر تو مقامی افراد کو کوئی چھوٹ نہیں دی جاتی جبکہ ان 10 غیر قانونی ٹول پلازوں پر مقامی افراد سے پیسے نہیں لئے جاتے تا کہ کہیں یہ احتجاج نہ کریں۔ این ایچ اے ڈیڑھ سال سے عدالتوں کے سوالوں کا بھی جواب نہیں دے رہا۔ 20 سال سے این ایچ اے میں یہ وطیرہ چل رہا ہے کہ صرف اسی کو چیئرمین بنایا جاتا ہے جو اوپر تک کمیشن پہنچاتا ہے۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف مصنف اور تجزیہ کار فرخ سہیل گوئندی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں پنجابیوں کو نہیں بلکہ 15 انسانوں کو قتل کیا گیا جو غریب اور محنت کش طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس واقعہ کا محرک بلوچ پنجابی تنازعہ کو بڑھانا بھی ہو سکتا ہے۔ عالمی طاقتیں افغانستان کے بعد بلوچستان کو میدان جنگ بنا کر اپنا کھیل کھیلنا چاہتی ہیں۔ بلوچستان میں صرف بھارت ہی نہیں ان ممالک کا بھی مفاد ہے جنہیں ہم برادر ملک کہتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی سازشوں سے بچنے کیلئے اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانا بہت ضروری ہیں۔ موجودہ سسٹم کے تحت تو احتساب کی توقع ہی غلط ہے ہماری وردی اور بغیر وردی سب میں لوٹ مار کے حصہ دار ہیں۔ احتساب اسی صورت ممکن ہے جب عوام کا استحصال ختم ہو گا۔ میڈیا بھی لوٹ مار کرنے والوں کا حصہ دار ہے اس لیے شور مچاتا ہے۔ انہوں نے ختم نبوت پر اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے کہا کہ احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے لیکن اس کا ایک طریقہ کار ہے آپ کے احتجاج سے کسی دوسرے کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی مکار ہے ایسی چالیں چلتا ہے کہ یہ ہمارے حکمران وہی کرتے ہیں جو وہ چاہتا ہے پاکستان کو بھارت سے مذاکرات ہر صورت جاری رکھنے چاہئیں۔ معروف لکھاری اور تجزیہ کار شاہد محمود ندیم نے کہا کہ نوجوانوں کو بیرون ملک سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر پیسے بٹورنے والے مافیا کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں 15 افراد کے قتل میں بلوچ علیحدگی پسند بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ پنجابیوں کو اس لیے مارا گیا تاکہ پنجاب میں ردعمل پیدا ہو جب سے سی پیک شروع ہوا ہے۔ عالمی طاقتیں بلوچستان کے خلاف زیادہ متحرک ہو گئی ہیں اس لیے بلوچ رہنماﺅں کو پناہ دی جاتی ہے فنڈز دیئے جاتے ہیں۔ بلوچوں کو اپنی لیڈرشپ کرپٹ ہے وہ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے متفقہ طبقہ کو مافیا کا ٹھیک نام دیا ہے اور یہ صرف ایک پارٹی نہیں ساری پارٹیوں میں ایسا ہی ہے احتساب بلا امتیاز ہونا چاہیے۔ ختم نبوت کا ایشو تو ختم ہو گیا اب ہونے کا جوازنہیں ہے شاید یہ دھرنا پوائنٹ سکورنگ یہی ہے اور حکومت کو بھی اس سے فائدہ ہے کہ عوام کا دھیان کرپشن سے بٹ رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم انتہا پسند ہے یا وزیر اعظم کمزور ہے اس لیے وہ ہم پر چڑھائی کیے ہوئے ہیں۔ بھارت سے مذاکرات کادروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے تاہم وہ برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں۔ سینئر صحافی خالد چودھری نے کہا کہ بلوچستان میں 15 افراد مارے گئے جو غریب مگر ازل سے تعلق رکھتے تھے وہ قوتیں جو پاکستان میں استحکام نہیں دیکھنا چاہتیں وہی اس طرح کے واقعات کی ذمہ دار ہیں۔ امیر اور غریب میں بڑھتی خلیج ایسے واقعات کو جنم دیتی رہے گی جب تک بلوچستان کے عوام کی مشکلات دور اور ان کے مطالبات پورے نہیں کی جائیں گے مسائل حل نہیں ہونگے صرف سیاستدانوں کو ہی کرپٹ قرار دینا غلط ہے کیا خاکی وردی والے جج، جرنلسٹ، کرپٹ نہیں ہیں راوجڑی کیمپ کے بعد کتنے جرنلوں کے بچے ارب پتی بنے ضیا دور ملک کا تاریک ترین دور تھا جب سب سے زیادہ بربادی ہوئی۔ ختم نبوت قانون کی ترمیم جب حکومت نے واپس لے لی تو احتجاج کا جواز ختم ہو جاتا ہے دھرنے کے باعث اسلام آباد کے شہریوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے اور یہ ریاست کی ناکامی ظاہر کرتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار جاوید کاہلوں نے کہا کہ بلوچستان میں 15 غریب افراد کا قتل افسوسناک ہے اس واقعہ میں ہم ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ نظر آتا ہے میڈیا کو ان حالات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ تاکہ ایسے واقعات کسی نسلی تعصب کو ہوا نہ ملے۔ اسلام آباد میں دھرنا دینے والوں کا مطالبہ ہے کہ ختم نبوت قانون میں تبدیلی کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ احتجاج کرنا ٹھیک ہے۔ تاہم اس کی بھی حدود وقیود ہونی چاہیے۔ سکیورٹی قومی اسمبلی کا بھی معاملہ کو صرف کلریکل غلطی قرار دے دینا بھی غلط ہے۔ بھارت سے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں تاکہ وہ برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں۔ بدترین جنگ کے دوران ہی مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا جاتا ہے۔
Error 403: The request cannot be completed because you have exceeded your quota..
Domain code: youtube.quota
Reason code: quotaExceeded