312سیاسی جماعتیں بینک کھاتوں کی تفصیل فراہم کرنے میں ناکام

اسلام آباد (اے پی پی) ملک بھر سے 312سے زائد سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس اپنے مالی سال 2016-17ءکے بنک کھاتوں کی تفصیلات بروقت جمع کرانے میں ناکام رہی ہیں۔ جنہیں مستقبل میں کسی بھی الیکشن میں حصہ لینے کی
اجازت نہیں ہوگی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کے مطابق جو جماعتیں اپنے بنک کھاتوں کی تفصیلات جمع کرانے میں ناکام رہی ہیں ان میں بعض جماعتیں متحدہ قومی مومنٹ (پاکستان)، مسلم لیگ (فنکشنل)، پاکستان مسلم لیگ (ضیائ)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) شامل ہیں۔ حکام نے بتایا کہ کل 345جماعتوں میں سے 31سیاسی جماعتوں نے مالی سال 2016-17کے بنک کھاتوں کی تفصیلات بروقت جمع کرائی ہیں ۔ مجلس وحدت المسلمین پاکستان اور قومی وطن پارٹی نے اپنے کھاتوں کی تفیصلات مقررہ مد ت پوری ہونے کے بعد جمع کرائی ہیں۔ حکام نے بتایا کہ مقررہ تاریخ کے بعد کھاتوں کی تفصیلات جمع کرانے یا کھاتے ظاہر کرنے میں ناکام رہنے والی سیاسی جماعتوں کو آئندہ کسی بھی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔

عید کے بعد پردیسیوں کی واپسی شروع، اسٹیشن، بس اڈوں پر رش

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) ملک کے مختلف علاقوں میںاپنے پیاروں کے ساتھ عید الا ضحی منانے کے بعدپردیسیوں کی لاہورآمد شروع ہو گئی ہے جس کے باعث گزشتہ روز لاہور ریلوے سٹیشن اور بس سٹینڈ ز پردیسیوں کی واپسی کا رش بڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔پاکستان ریلوے کے زیر انتظام عید آپریشن آج مکمل ہو گاعلاوہ ازیں معمول کی شیڈول ٹرینوں پر بھی مسافروں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے اور اپنے آبائی علاقوں کو عید منانے جانے والے ٹرینوں اور بسوں کے ذریعے واپس آرہے ہیںاس حوالے سے لاہور ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ ریلوے اسٹیشن کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن اور رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن پر گزشتہ روز مسافروں کا غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا جہاں قلیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ مالکان نے مسافروں سے من مانے کرایہ وصول کر کے انہیں اپنے گھروں کو پہنچایا ۔ ریلو ذرائع کے مطابق مسافروں کی زیادہ آمد کا سلسلہ آج سے شروع ہو گا کیونکہ سرکاری محکموں کی عید تعطیلات بھی ختم ہو گئی ہیں ذرائع کے مطابق 80فیصد مسافروں نے اپنی ایڈوانس بکنگ کر وا رکھی ہے تاہم اگر کہیں سے اضافی کوچز لگانی پڑیں تو ان کا انتظام پہلے سے موجود ہے۔

ورلڈ الیون کا ٹور، وقار یونس کو ماضی کی یاد آنے لگی

لاہور: سابق کپتان کا کہنا ہے کہ خوش قسمت ہوں کہ قذافی اسٹیڈیم میں ہوم کراو¿ڈ کے سامنے کھیلنے کا موقع ملا۔
ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کی تیاریاں دیکھ کر وقار یونس کو اپنا دور یاد آگیا ہے، ایک انٹرویو میں سابق کپتان نے کہا کہ 10سال سے ملکی میدان ویران ہیں، زمبابوے ٹیم کی آمد اور پی ایس ایل فائنل کے سوا کوئی سرگرمی قذافی اسٹیڈیم میں نظر نہیں آئی،اس میدان کی اپنی تاریخ ہے، ان خوش قسمت کھلاڑیوں میں سے ہوں جنہیں یہاں اپنے ہوم کراو¿ڈ کے سامنے کھیلنے اور داد سمیٹنے کا موقع ملا، میری کئی حسین یادیں اس گراو¿نڈ سے وابستہ ہیں، میرے لیے اس میدان کو دوبارہ آباد ہوتے دیکھنے کا تصور ہی بڑا خوشگوار ہے، پورے ملک کے عوام کرکٹ کی واپسی کا جشن مناتے نظر آئیں گے۔
وقار یونس نے کہا کہ پاکستان کے شائقین انٹرنیشنل کرکٹ کو ترسے ہوئے اور اپنے ہیروز کو ایکشن میں دیکھنے کا بیتابی سے انتظار کررہے ہونگے۔ ورلڈ الیون کی آمد پر اسٹیڈیم چھوٹا پڑ جائے گا، پرستاروں کا جوش وخروش فضا میں رنگ بکھیر دے گا۔
سابق ہیڈ کوچ نے کہا کہ مہمان کرکٹرز،کوچز اور منیجمنٹ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں، مختلف ملکوں کے کھلاڑی ہمارا جوش وخروش اور خوشی دیکھنے کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر کرنے کا ذریعہ بنیں گے، ہماری کرکٹ درست سمت میں گامزن ہے،امید ہے کہ سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی آمد کے بعد دیگر غیر ملکی ٹیمیں بھی پاکستان آئیں گی۔

پاکستان کی دنیا بھر میں دھوم مچا دینے والی آئی ایس آئی بارے وہ حقائق جو آپ کو پہلے معلوم نہیں تھے

یہ 26جون 1979ء کی بات ہے ،کہوٹہ لیبارٹریز کی حفاظت پر مامور آئی ایس آئی کے جوانوں نے علاقے میں دو غیر ملکیوں کو کار میںاِدھر اُدھر حرکت کرتے دیکھا۔ وہ اپنے کیمروں سے اردگرد کے مناظر کی تصاویر کھینچ رہے تھے ۔یہ دیکھ کر جوانوں کی چھٹی حس جاگ پڑی۔ کہوٹہ لیبارٹریز میں پاکستانی سائنس داں و انجینئر راز دارانہ طور پر ایٹم بم بنانے کی کوششوں میں محو تھے۔اس بم کی تیاری سے قومی دفاع انتہائی مضبوط ہو جاتا اور دشمن جرات نہ کرتا کہ پاکستان کو میلی نظر سے دیکھ سکے۔قدرتاً یہ انتہائی حساس معاملہ تھا۔بھارت اور   اسرائیل کے علاوہ مغربی استعمار کی خفیہ ایجنسیاں بھی پاکستانی ایٹم بم کو تردد کی نگاہ سے دیکھ رہی تھیں۔ان کی یہی سعی تھی کہ ایک اسلامی ملک ایٹمی طاقت نہ بننے پائے۔ آئی ایس آئی کے جوان اس سارے پس منظر سے بخوبی واقف تھے۔سو انہوں نے دفاعِ وطن سے متعلق حساس ترین مقام پر دو غیر ملکیوں کو منڈلاتے دیکھا تو چوکنا ہو گئے۔انہوں نے موقع پاتے ہی انہیں جا پکڑا اور پوچھ گچھ کرنے لگے ۔جوانوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک غیر ملکی ،لیو گورریریس فرانس کا سفیر تھا۔دوسرا فرانسیسی سفارت خانے کا فرسٹ آفیسر نکلا۔ بعدازاں تفتیش سے انکشاف ہوا کہ دونوں فرانسیسی امریکی خفیہ ایجنسی ،سی آئی اے کے ایجنٹ تھے۔سی آئی اے نے ان کی خدمات اس لیے حاصل کی تھیں تاکہ کہوٹہ لیبارٹریز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تصویری معلومات حاصل کرسکے۔یوں آئی ایس آئی کے جوانوں نے حاضر دماغی اور دلیری سے کام لیتے ہوئے دشمن کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ دین اسلام اور دفاع دشمن کے عزائم اور سرگرمیوں سے باخبر ہونے اور اپنا دفاع مضبوط بنانے کے لیے ازروئے قرآن و سنت دشمنوں کی جاسوسی و سراغ رسانی کرناجائز ہے۔درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِ مکہ اور دیگر مخالف عرب قبائل کے مذموم منصوبوں و چالوں سے واقف ہونے کی خاطر بڑے مربوط انٹیلی جنس نظام کی بنیاد رکھی۔ابتداً یہ کام عام مخبروںسے لیا جاتا تھا۔بعدازاں مدینہ منورہ میں سراغ رسانی کا باقاعدہ شعبہ (Cell)تخلیق کیا گیا جس کے پہلے سربراہ حضرت عمرؓبن خطاب بنائے گئے۔ تاریخ اسلام سے عیاں ہے کہ پہلے مسلمان جاسوس خلیفہ اول،حضرت ابوبکرصدیقؓ کے صاحبزادے ،حضرت عبداللہؓ تھے۔ہجرت مدینہ سے قبل نبی کریمؐ اور خلیفہ اولؓ نے تین دن غار ثور میں قیام فرمایا تھا۔ اس زمانے میں حضرت عبداللہ ؓ لڑکے سے تھے۔پہلے ہی روز رسول اللہ ؐ نے حضرت عبداللہؓ کو ہدایت دی کہ دن بھر کفار مکہ کے ساتھ اٹھو بیٹھو۔اور جو باتیں سنو ، وہ شام کو آ کر بتائو۔اسی قسم کی جاسوسی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ،حضرت اسماؓ نے کفار خواتین کی گفتگو سن کر انجام دی۔انہیں دنیائے اسلام کی پہلی مسلم سراغ رساں خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔حضرت ابوبکر صدیقؓکے غلام ،عامر بھی کفار کی سن گن لیتے رہے۔یوں ان تین مخبروں کی مدد سے حضور اکرمؐ کو جو معلومات ملیں ،ان کے ذریعے آپ ﷺنہ صرف دشمن کے منصوبوں اور چالوں سے باخبر رہے بلکہ انہیں ناکام بھی بنا دیا۔ مدینہ منورہ میں مقیم ہونے کے بعد حضور اکرمؐ اور صحابہ کرام نے اپنے دفاع اور دشمنوں کے عزائم سے باخبر ہونے کی خاطر سب سے زیادہ شعبہ انٹیلی جنس ہی سے مدد لی۔یوں دشمنوں کی چالو ںکا توڑ کر کے مسلمان اپنے آپ کو مضبوط بناتے چلے گئے۔آخر وہ تاریخی وقت آ پہنچا جب پورے عرب میں اسلام کا نور پھیل گیا۔ سنت نبویؐ پر عمل کرتے ہوئے آنے والی اسلامی حکومتوں نے بھی منظم و مربوط انٹیلی جنس یونٹ قائم کیے۔درحقیقت وہ ہر اسلامی مملکت کی دفاعی جنگ میں فوج کے کان،آنکھ اور بازو بن گئے۔ سراغ رسانوں،جاسوسوں اور مخبروں پہ مشتمل یہ وسیع نیٹ ورک دشمنوں کو غالب نہ آنے دیتے۔ رفتہ رفتہ جب یہی شعبہ جاسوسی کمزور ہوئے، تو یہ امر بھی اسلامی سلطنتوں کے زوال کا اہم سبب بن گیا۔ انگریز کا نظام ِجاسوسی انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے اسلامی ہندوستان میں قدم جمائے تو وہ تعداد میں بہت کم تھے۔اسی لیے انہیں اپنے انٹیلی جنس یونٹوں میں مقامی باشندے بھرتی کرنے پڑے۔انگریز استعمار نے البتہ یہ جدت اپنائی کہ اس کے ہندو اور مسلم ایجنٹ عموماً اپنے اپنے مذہبی گروہوں ہی میں جاسوسی کرتے ۔ہندوستان میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لیے انگریزوں نے بڑا جامع انٹیلی جنس نیٹ ورک تشکیل دیا۔اسی باعث ملک میں آزادی کے کئی منصوبے مثلاً تحریک ریشمی رومال کامیاب نہیں ہو سکے۔ بیسویں صدی تک ’’آئی بی‘‘ (آل انڈیا انٹیلی جنس بیورو)برطانوی ہند حکومت کی بنیادی خفیہ ایجنسی بن گئی۔ اس کاانتظام پولیس افسروں کے ہاتھوں میں تھا۔اس ایجنسی کے سویلین مخبر و جاسوس قصبات اور دیہات تک پھیلے ہوئے تھے۔آئی بی کی ذمے داری تھی کہ وہ حریت پسندوں پر نظر رکھے تاکہ وہ انگریز استعمار کے خلاف منصوبے نہ بنا سکیں۔برطانوی ہند حکومت نے ’’ایم آئی‘‘ (ملٹری انٹیلی جنس)بھی بنا رکھی تھی مگر اس خفیہ ایجنسی کا دائرہ کار صرف فوج تک محدود تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان میں انٹیلی جنس سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں۔جرمن اور جاپانی خفیہ ایجنسیوں کی چالوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر انگریزوں نے مزید خفیہ ادارے قائم کیے جن میں’’ ایس او ای‘‘ (سپیشل آپریشن ایگزیکٹو)نمایاں ہے۔اسی خفیہ ایجنسی کے ہندوستانی و برطانوی ایجنٹوں نے برما میں جاپانیوں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں کیں اور انھیں وہاں مستحکم نہیں ہونے دیا۔ بھارت کی انگلیاں گھی میں اگست 1947ء میں ہندوستان دو مملکتوں …بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا۔تب برطانوی ہند حکومت کی ملکیت ہر شے کا بھی بٹوارہ ہوا۔بھارتی فوج یوں فائدے میں رہی کہ اسے دہلی میںافواج ِ برطانوی ہند کا جما جمایا ہیڈ کوارٹر مل گیا۔وہیں ایم آئی سمیت دیگر خفیہ ایجنسیوں کا انفراسٹرکچر بھی مربوط حالت میں تھا۔یوں نو زائیدہ بھارتی حکومت کو اپنا انٹیلی جنس نظام کھڑا کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی۔دوسری طرف حکومت پاکستان کو نئے سرے سے اپنا انٹیلی جنس شعبہ تعمیر کرنا پڑا۔ تب ملکی وسائل ہی کم نہ تھے،بلکہ تجربے کار ماہرین جاسوسی کا بھی فقدان تھا۔بہرحال حکومت برطانوی ہند کی آئی بی میں شامل جو مسلمان افسرو ماہرین پاکستان آئے ،انہی پر مشتمل پاکستانی ’’آئی بی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔یہ وطن عزیز کی پہلی انٹیلی جنس ایجنسی تھی ۔ بدقسمتی سے جنگ کشمیر(1947ء )میں آئی بی دشمن کے خلاف موثر کردار ادا نہیں کر سکی۔چناں چہ بھارتی مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے۔اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی آئی بی کے افسر و کارکن اندرون ملک انٹیلی جنس معاملات کا تجربہ رکھتے تھے۔جب غیرملکی سرزمین پہ انھیں سراغ رسانی کی حساس و نفیس ترین سرگرمیاں انجام دینا پڑیں ،تو ناتجربہ کاری کے باعث وہ ان کو صحیح طرح نہ نبھا سکے۔سو پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت نے فیصلہ کیا کہ دشمن کے مذموم منصوبے ناکام بنانے کی خاطر نئے خفیہ ادارے قائم کیے جائیں۔ خاک سے نیا ڈھانچا بنانا پڑا قیام پاکستان کے وقت شعبہ جاسوسی سے متعلق صرف ایک تربیتی ادارہ’’اسکول آف ملٹری انٹیلی جنس‘‘پاکستانی سیکورٹی فورسز کے حصے میں آیا۔یہ تب تک کراچی سے مری منتقل ہو چکا تھا۔اس کے پہلے پاکستانی کمانڈر،کیپٹن اختر عالم مقرر ہوئے۔دسمبر 1947ء میں انٹیلی جنس کا وسیع تجربہ رکھنے والے مسلم فوجی افسر،میجر محمد ظہیر الدین کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔اسی اسکول میں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں میں اپنے فرائض انجام دینے والے اولیّں افسروں اور ماہرین نے جاسوسی و سراغ رسانی کی تربیت پائی اور دفاع ِوطن کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا،ابتداً پاک افواج بے سر وسامانی کی حالت میں تھیں۔سو دفاع کا سارا ڈھانچا اور انفراسٹرکچر اصلتاً خاک سے نئے طور پہ تخلیق کرنا پڑا۔اسی لیے پہلے پہل ملٹری انٹیلی جنس سے متعلق معاملات شعبہ ایم او(ملٹری آپریشنز)کو سونپ دئیے گئے جس کی قیادت بریگیڈئر محمد شیر خان کر رہے تھے۔تجربے کار افرادی قوت کی شدید کمی تھی۔صورت حال کی گھمبیرتا کا اندازہ یوں لگائیے کہ آزادی کے سمّے پاک فوج میں صرف ایک میجر جنرل،دو بریگیڈئر اور ترپین(53)کرنل موجود تھے۔ آخر اسکول آف ملٹری انٹیلی جنس سے تربیت پانے والے ماہرین کا پہلا دستہ نکلا،تو مارچ 1948ء میں ’’ایم آئی‘‘ (ملٹری انٹیلی جنس) کی بنیاد رکھی گئی۔اس کے پہلے سربراہ مایہ ناز مسلم فوجی افسر،کرنل محمد عبدالطیف خان بنائے گئے۔یوں ان کی ان تھک رہنمائی میں ہماری ایم آئی کا بے مثال سفر شروع ہوا۔اس کے بعد جلدہی ایک اور شاندارخفیہ ادارے ،انٹر سروسز انٹیلی جنس کا قیام عمل میں آیا جو آج بہ حیثیت ’’آئی ایس آئی‘‘ جانا جاتا ہے…وہ خفیہ ادارہ جس کا نام سنتے ہی دشمن خوف سے تھّرا اٹھتا ہے۔ پاکستانی سپوتوں کی قربانیاں صد افسوس کہ کم از کم دنیائے انٹرنیٹ پہ ان نامورپاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے قیام کا سہرا ایک غیرملکی فوجی افسر،والٹر کائوتھورن کے سر باندھ دیا گیا۔سچ یہ ہے کہ آئی بی،ایم آئی اور ایس آئی ایس…ان تینوں خفیہ اداروں کے نوزائیدہ پودے پاکستانی افسروں و جوانوں نے ہی محنت و مشقت سے پروان چڑھائے اور اپنا لہو دے کر انھیں توانا و مضبوط درخت بنایا۔یہ کہنا کہ کسی غیر ملکی فوجی افسر نے قومی انٹیلی جنس اداروں کی بنیادیں رکھیں، درحقیقت اولیّں پاکستانی سپوتوں کی قربانیاں اور محنت رائیگاں کرنے کے مترادف ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ آئی ایس آئی کے قیام کی تجویز بانی پاکستان،قائداعظم محمد علی جناح کے ذہن ِرسا کی تخلیق ہو۔قائد دفاعِ وطن کو جتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے،وہ ان کی تقاریر کے اقتباسات سے عیاں ہے۔چناں چہ ہو سکتا ہے کہ کسی روشن لمحے انھیں خیال آیا ، ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو تینوں مسلح افواج(برّی،فضائی اور بحری)کے انٹیلی جنس معاملات کو باہم مربوط و منضبط کر دے۔بہرحال پاکستانی مورخین نے لکھا ہے کہ اوائل 1948ء میں پاک فوج کے کمانڈر،جنرل ڈگلس گریسی اور وزیر دفاع،اسکندر مرزا نے والٹر کائوتھورن کو ہدایت دی کہ وہ آئی ایس آئی قائم کرنے کی خاطر مطلوبہ اقدامات کر لیں۔ والٹر کائوتھورن (1896ء۔1970ء )برطانوی نہیں آسٹریلوی شہری تھے۔پہلی جنگ عظیم کے وقت برطانوی فوج میں شامل ہوئے۔بعد ازاں برطانوی ہند فوج کی16 پنجاب رجمنٹ میں چلے آئے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران مقامی ایم آئی کے چیف رہے۔جیمز بانڈ کے خالق برطانوی ادیب،آئن فلیمنگ کا بھائی،پیٹر فلیمنگ ان کے ماتحت کام کرتا رہا۔وہ ایک ماہر جاسوس تھا۔ ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو کائوتھورن نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔دراصل ان کے بیشتر دوست مسلم فوجی افسر تھے۔جب وہ پاکستان چلے گئے،تو انھوں نے بھی اس نوزائیدہ مملکت کو اپنا نیا وطن بنا لیا۔1948ء میں آپ کو ڈپٹی چیف آف سٹاف مقرر کیا گیا۔اسی عہدے کی مناسبت سے کائوتھورن کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ آئی ایس آئی قائم کرنے کی خاطر وہ تمام مطلوبہ کارروائی کر لیں ۔وہ بعد ازاں دسمبر 1951 ء میں آسٹریلیا چلے گئے تاکہ وہاں کے انٹیلی جنس اداروں سے منسلک ہو سکیں۔مگر عملی طور پہ آئی ایس آئی کو بطور ادارہ کھڑاکرنے کی ذمے داری کرنل شاہد حامد کو سونپی گئی۔تب کرنل صاحب پاکستان نیشنل گارڈز کے کمانڈر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔انھیں نئی ذمے داری ملی ،تو فوراً نئے محاذ پہ جت گئے۔ کریٹ کی بنی میز کرسیاں کراچی میں عبداللہ ہارون روڈ اور غلام حسین ہدایت اللہ روڈ کے سنگم پہ ،زینب مارکیٹ کے سامنے ایک پرانی ،چھوٹی سے یک منزلہ عمارت واقع تھی۔اسی عمارت میں آئی ایس آئی کا پہلا ہیڈکوارٹر قائم ہوا۔(وہاں اب نئی تعمیر شدہ عمارت میں ایک نجی کمپنی کا دفتر کھل چکا)۔14جولائی1948ء کو عمارت میں انٹیلی جنس کا متعلقہ کام باقاعدہ طور پہ شروع ہوا ۔وطن عزیز کے اس اہم ادارہ ِجاسوسی کا آغاز جن نامساعد حالات میں ہوا،ان کا تذکرہ عیاں کرتا ہے کہ تب انسانی جوش و ولولے اور جذبہ حب الوطنی کی بدولت عجب کرشمے ظہور پذیر ہوئے۔ وسائل اور عملے کی شدید کمی تھی،مگر کرنل شاہد اور ان کے مٹھی بھر ساتھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔انھوں نے لکڑی کے کریٹوں کو بطور میز کرسی استعمال کیا۔اپنے پلّے سے دفتری استعمال کی اشیا خریدنا معمول تھا۔دراصل ان پہ بس یہی دھن سوار تھی کہ نوزائیدہ ادارے کو مستحکم کر کے مملکت کا دفاع زیادہ سے زیادہ مضبوط بنا دیا جائے۔ تنکا تنکا جمع ہوا آئی ایس آئی میں پہلے پہل صرف تینوں افواج سے منسلک افسر و جوان شامل کیے گئے۔بعد ازاں سویلین عملہ بھی بھرتی کیا جانے لگا۔ان میں بیشتر افراد پولیس سے لیے جاتے۔آئی بی کے دو ڈائرکٹروں،سید کاظم رضا اور غلام محمد نے آئی ایس آئی کے اولیّں ریکروٹوں کو انٹیلی جنس کے اسرارورموز سکھانے میں بڑی جانفشانی دکھائی۔یوں تنکا تنکا جمع کر کے ایسا قوی لٹھ تیار کیا جانے لگا جسے دشمن کے سر پہ مارا جا سکے۔ کرنل شاہد حامد کی ذمے داری تھی کہ وہ ایجنسی کی سرگرمیوں کی رپورٹ مسلح افواج کے سربراہوں کو ارسال کریں۔ان کے نائب(جنرل سٹاف آفیسر)میجر صاحب زادہ یعقوب علی خان تھے جو بعد لیفٹیننٹ جنرل بنے اور وزیر خارجہ پاکستان رہے۔ آئی ایس آئی کی بنیادیں مضبوط کرنے میں میجر محمد ظہیر الدین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔جولائی 1948ء ہی میں انھیں بھی اسکول آف انٹیلی جنس سے آئی ایس آئی منتقل کر دیا گیا۔وہ سراغ رسانی کے معاملات میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ایجنسی کے اولیّں افسروں نے بھی ان کے تجربے سے خوب فائدہ اٹھایا۔افسوس کہ ظہیر الدین کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۔ ہوا یہ کہ 1950ء میں انھیں ترقی دے کر ایم آئی کا سربراہ بنا دیا گیا۔مارچ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس سامنے آ گیا۔یہ سازش پولیس افسروں نے دریافت کی تھی۔اسی لیے ڈی جی ایم آئی،ظہیر الدین کو سازش پکڑنے میں ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔(انھیں اپنے چیف آف جنرل سٹاف،میجر جنرل محمد اکبر خان پہ نظر رکھنا تھی کیونکہ اس زمانے میں ایم آئی انہی کے ماتحت تھی۔)نتیجتہً کمانڈر پاک فوج،جنرل ایوب خان نے انھیں برخاست کر دیا۔اس اقدام سے ظہیر الدین بہت زیادہ افسردہ و دل گرفتہ ہوئے ۔ ایوب خان کا دور کرنل شاہد حامد نے دو برس تک ڈی جی آئی ایس آئی کی ذمے داری نبھائی۔چونکہ وہ میدان جنگ میں جانے کے خواہشمند تھے،سو جون 1951ء میں انھیں بریگیڈیر بنا کر 100 بریگیڈ(پشاور)کی کمان سونپ دی گئی۔ڈی جی کا عہدہ پھر شوریدہ سر سیاسی حالات کے باعث طویل عرصہ خالی رہا۔اکتوبر1958 ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا ،تو انھوں نے بریگیڈیر ریاض حسین کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا۔دنیائے انٹرنیٹ کے مشہور انسائیکلوپیڈیا،وکی پیڈیا میںنجانے کس نے یہ دُرفطنی چھوڑ دی کہ میجر جنرل کائوتھورن 1951ء تا 1959 ء آئی ایس آئی کے ڈی جی رہے۔اس واسطے انجان لوگ انہی کو اس قومی ادارے کا خالق سمجھنے لگے ہیں۔ شروع میں آئی ایس آئی دشمن کی سراغ رسانی کرنے اور اس کے منصوبے خاک میں ملانے پہ مامور تھی۔

عید کے مزے ،چھٹیاں ختم, سرکاری دفاتر بینکوں بارے اہم خبر

لاہور (خصوصی نامہ نگار) عیدالاضحی کی چار روزہ تعطیلات کے بعد سرکاری و نجی ادارے آج ( منگل ) کو دوبارہ کھل جائینگے ۔حکومت کی طرف سے عید الاضحی کی مناسبت سے یکم تا 4ستمبر (جمعہ تا پیر)تعطیلات کا اعلان کیا گیا تھا ۔بینک ، مالیاتی اداروں اوراورسٹاک ایکسچینج میں بھی عید الاضحی کی چار تعطیلات کے بعد آج سے کاروباری سر گرمیاں دوبارہ شروع ہو ں گی ۔عید الاضحی کی چار روزہ تعطیلات کے بعد تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے آج ( منگل) سے کھل جائیں گے۔عید کے تہوارکی تعطیلات ختم ہونے کے پہلے روز طلبہ کی تعداد کم رہنے کا امکان ہے۔عید الاضحی کی تعطیلات پیر کو اختتام پذیر ہونے کے بعد تمام سرکاری و نجی دفاتر،بنک ،تعلیمی ادارے اور تجارتی مراکز (آج) منگل کو دوبارہ کھل جائیں گے۔حکومت کی طرف سے عید الاضحی کی 4روزہ سرکاری تعطیلات پیر 4ستمبر کو اختتام پذیر ہوگئی ہیں جس کے بعد تمام سرکاری اور نجی ادارے (آج) منگل کو کھلیں گے ۔

بلاول کا کارکنوں کو بڑا حکم

لاڑکانہ (بیورو رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرادری نے عید کے دوسرے دن نوڈیرو ہاو¿س میں لاڑکانہ اور قمبر شھداد کوٹ اضلاع سے تعلق رکھنے والے پارٹی عہدیداروں سے ملاقات کی جہاں بلاول نے عہدیداوں اور پارٹی کارکنوں کو عید کی مبارک باد دی۔ اس موقع پر پارٹی کارکنوں سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آئندہ سال الیکشن کا سال ہے لہٰذا کارکن انتخابات کی بھرپور تیاری کریں جبکہ منتخب بلدیاتی نمائندے عوام کے مسائل حل کریں۔ ملاقات میں بلاول بھٹو زرادری نے کارکنوں کے مسائل بھی سنے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کی ایم این اے فریال ٹالپر اور ایم پی اے نادر خان مگسی بھی موجود تھے۔ لاڑکانہ شہر میں جاری ترقیاتی کام مکمل نہ ہونے پر بلاول بھٹو زرداری کی برہمی، میئر نے بلاول بھٹو زرداری کو بریفنگ دی۔ عید کے دوسرے روز پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میئر لاڑکانہ میونسپل کارپوریشن محمد اسلم شیخ سے ملاقات کی جس میں میئر لاڑکانہ نے میونسپل کارپوریشن کے مسائل سے بلاول بھٹو کو آگاہ کیا جبکہ ترقیاتی اور صفائی کا کام پر بلاول بھٹو نے عدم اطمینان اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ دوران ملاقات میئر نے بارشوں اور عید انتظامات کے بارے میں بلاول کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ آلائشیں اور کچرا اٹھانے کے لئے 115 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، عید سے قبل شہر کی صفائی ستھرائی کا عمل مکمل کیا گیا ہے اور شہر کو ہر صورت میں صاف ستھرا رکھا جائے گا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات کے باعث لاڑکانہ کا دورہ مختصر کردیا بلاول بھٹو نے عید کے تیسرے روڈ لاڑکانہ کے لاہوری محلہ میں بننے والے اوور فلائی، ایران کے تعاون سے تعمیر شدہ پروین اعتصامی گرلز ہائی اسکول اور تھلسیمیا سینٹر کا افتتاح کرنا تھا تاہم کراچی میں بارشوں کے نقصانات کے باعث وہ عید کے دوسرے روز کراچی روانہ ہوگئے جہاں وہ اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی صدارت کریں گے۔ کراچی روانگی سے قبل بلاول بھٹو گڑھی خدا بخش بھٹو گئے جہاں پر انہوں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو، شہید ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر شہداءکے مزاروں پر حاضری دیتے ہوئے پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر سکیورٹی کے انتظامات سخت کرتے ہوئے مزار کو عام لوگوں کے لیے مکمل بند کیا گیا تھا جبکہ مزار کے باہر بھاری تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔

کپتان کی بچوں کے ساتھ عید, نواز شریف کیخلاف اہم اعلان

لاہور‘ بنی گالہ (نمائندگان خبریں) تحرےک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ نوازشر ےف کو بھاگنے نہےں دےں گے انکو جےل جانا ہی پڑ ےگا ‘نوازشر ےف اس وجہ سے نکلے کےونکہ اربوں روپے کی چوری کی اور اس سے اپنے بچوں کے نام پر جائیدادیں بنائیں ‘سپریم کورٹ کے سامنے جھوٹ بولا اور جعلی دستاویزات پیش کیں‘تحر ےک انصاف این اے 120کے ضمنی انتخاب میں آخری گیند تک لڑے گی‘ انتخابی مہم چلانے والے عوام کے پاس یہ پیغام لے کر جائیں ملک کے جو اربوں روپے چوری کرکے باہر لیجائے گئے ہیں یہ عمران خان ، ڈاکٹر یاسمین راشد یا پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ پاکستان کے لوگوں کا پیسہ ہے ‘(ن) لےگ لاہور کے ضمنی انتخابات مےں سر کاری وسائل استعمال کر رہی ہے ۔تفصےلات کے مطابق تحر ےک انصاف چےئر مےن عمران خان کے بچے اپنے والد کے ساتھ عےد منانے کےلئے خصوصی طور پر پاکستان آئے اور عمران خان ان کو لےنے کےلئے خود اےئر پورٹ آئے اور انکے ساتھ عےد منائی جبکہ اپنے اےک انٹر وےو کے دوران عمران خان نے کہا کہ اگر نواز شریف عدالت کے فیصلے کو نہیں مان رہے تو دوسرے مجرم کیوں مانیں گے؟ اربوں کی چوری اگر بڑی نہیں تو جیلوں میں قید لوگوں کا کیا قصور ہے؟ نواز شریف بار بار یہ پوچھ رہے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا، میں بتانا چاہتا ہوں کہ نواز شریف کو کرپشن پر نااہل کیا گیا، اربوں روپے کی چوری کر کے ملک سے باہر بھیجے گئے، نوازشریف آپ کو اس لیے نکالا گیا کیوں کہ آپ نے چوری کی جو عدالت میں پکڑی گئی۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے ضمنی انتخابات مےں عوام کو آگاہ کیا جائے کہ اگر آپ نواز شریف یا ان کے نامزد کردہ امیدوار کو ووٹ دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ملک میں انصاف اور احتساب کے ساتھ نہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے کرپشن کرنے پر نا اہل کیا اگر کرپشن بری چیز نہیں تو جیلوں میں قید ہزاروں، لاکھوں لوگوں کا کیا قصور ہے ۔ ہمیں لوگوں کو جگانا ہے جس مےں ہم کامےاب ہوں گے اور اس ملک سے کر پٹ سےاستدانوں کی سےاست ہمےشہ کےلئے ختم ہوجائےگی۔

عمران خان کا گورو رام رحیم سنگھ سے کیا تعلق؟, دیکھئے خبر

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) مسلم لیگ(ن)کی خاتون ایم این اے مائزہ حمید نے بھی سربراہ تحر ےک انصاف عمران خان کو بھارتی میں جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار گورو رام رحیم سنگھ سے ملا دیا ۔تفصےلات کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کی خاتون ایم این اے مائزہ حمید کا کہنا ہے کہ بھارتی گورو کو خواتین کے ساتھ زیادتی کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی گورو عمران خان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ عمران خان کو بھارتی گورو قرار دینے کے بعد سوشل میڈیا پر مائزہ حمید کے اس اقدام کو شرمناک اور سیاست کی تذلیل کہا جا رہاہے جبکہ ٹوئٹر صارفین کی جانب سے ان کے ٹوئٹ پر انہیں کھری کھری سنائی ہیںواضح رہے کہ سوشل میڈیا پر مائزہ حمید کے نام سے اکانٹ ٹوئٹر کی جانب سے ویریفائڈ نہیں ہے مگر اس پر کی جانے والی ٹوئٹس ان کی سرگرمیوں اور مسلم لیگ(ن)کی پالیسیوں کے حوالے سے ہیں جس سے غالب امکان یہی ہے کہ وہ خود ہی اس اکانٹ کو استعمال کر رہی ہیں۔

اعتزاز احسن کا بینظیر کے قاتل بارے بڑا انکشاف….نام بھی بتادیا

لاہور (خبر نگار) سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ججز بحالی تحریک میں نواز شریف کا کردار آٹے میں نمک کے برابر تھا، نواز شریف کو لانگ مارچ پر نکالنے کےلئے کس طرح تیار کیا ہم جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے اپنے ہی وزیراعظم کےخلاف سازش سے کیرئیر کا آغاز کیا اور مسلسل سازشیں کرتے رہے۔ عدالت پر حملہ کیا اسامہ بن لادن اور آئی ایس آئی سے پیسے لئے جو ثابت شدہ ہے۔ عدالت نے ہمیشہ ان کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا۔ پانامہ کیس میں بھی ان کے ساتھ نرمی برتی جا رہی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ حدیبیہ کیس کھلنا چاہیے کیونکہ وہ کلیدی کیس ہے اس کیس میں ان کے اپنے سمدھی نے منی لانڈرنگ کی شہادت دی ہے تاہم کیس کھلے گا یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ (ن) لےگ کر پشن بے نقاب ہونے پر پرےشان ہوچکی ہے‘ قوم دےکھ رہی ہے شرےف خاندان نے ملک کو کےسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے‘ مجھے شہباز شرےف کے نوٹس کا انتظار ہے جب ملے گا تو بھرپور جواب ددں گا۔ اپنے اےک انٹروےو کے دوران چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ شہباز شر ےف نے مجھے کرپشن کے خلاف بات کرنے پر نوٹس دےنے کی بات کی ہے جب بھی مجھے نوٹس ملے گا تو اس کا بھر پور جواب دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم (ن) لےگ کے کر پشن بے نقاب کر رہے ہےں اور آنےوالے دنوں مےں ان کے مزےد اےسے سےکنڈلز آئےں گے کہ عوام کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائے گی۔ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے خود اپنی کتاب میں صفحہ 249-250 میں لکھا ہے کہ اس پر حملہ ہوا تو کس طرح جنرل کیانی نے کئی دن جائے وقوعہ کے قریب بھی کسی کو نہ پھڑکنے دیا اور اسی دوران وہاں سے ایک موبائل سم ملی جس سے سارے مجرم پکڑے گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو پر کراچی میں حملہ ہوا تو فوری جائے وقوعہ کو دھو دیا گیا، پھر لیاقت باغ میں حملہ میں بینظیر بھٹو شہید ہو گئیں تو وہاں بھی جائے وقوعہ کو دو گھنٹے کے اندر ہی دھو ڈالا گیا جس سے صاف ظاہر تھا کہ کسی کو خطرہ تھا کہ اگر ایسا نہ کیا تو حملہ آوروں کی چین پکڑی جا سکتی ہے۔ الزام تو بیت اللہ پر لگانے کی کوشش کی گئی لیکن پیپلز پارٹی میں عمومی طور پر مشرف کو قاتل سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی جیالے نعرہ لگاتے ہیں ”بی بی ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں“ تو کلیجہ منہ کو آتا ہے بینظیر بھٹو کیس میں پانچ ملزمان کو بری کرنا سمجھ سے باہر ہے جب ان میں سے 3 تو اقبالی بیان بھی دے چکے تھے۔ ابھی مختصر فیصلہ آیا ہے تفصیلی فیصلہ سے صورتحال واضح ہو گی۔ این اے 120 میں پی پی امیدوار سے ڈر ہے تو ہی دفاتر پر فائرنگ کرائی گئی ہے۔ پولیس افسر منتیں کر رہے ہیں کہ شہباز شریف، حمزہ شہباز، رانا ثناءاللہ، بلال یٰسین کا نام نکال دیں تو ایف آئی آر درج کر لینگے۔ بینظیر بھٹو کیس میں سعود عزیز نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا لیکن انہیں بہت زیادہ سزا دی گئی۔ جائے وقوعہ کو دھلوانے والا وہ ہے جس کی دسترس میں پورا پاکستان تھا۔ نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری جس طرح ایک معمہ تھی اسی طرح کلثوم نواز کی بیماری بھی شاید معمہ ہی رہے گی۔

سی پیک کے باعث ہندﺅں کے پیٹ کے مروڑ اُٹھنے لگے

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزےراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشرےف نے عید کے دوسرے روز چلڈرن ہسپتال لاہور مےں 614بستروں پر مشتمل نئے انڈور بلاک کاافتتاح کیا۔اڑھائی ارب روپے کی لاگت سے تےار ہونےوالے نئے بلاک کے افتتاح کے بعد چلڈرن ہسپتال مےں بستروں کی تعداد 1100ہوگئی ہے ۔نئے بلاک مےں 16نئے آپرےشن تھےٹرز بھی بنائے گئے ہےں جبکہ بچوں کے کےنسر وارڈ کےلئے بستروں کی تعداد 100تک بڑھا دی گئی ہے ۔رواں ماہ پہلے مرےض کا بون مےروٹرانسپلانٹ ہوگا۔وزےراعلیٰ شہبازشرےف نے نئے بلاک کے افتتاح کے بعد مختلف وارڈز کا دورہ کےا ۔وزےراعلیٰ نے وارڈز مےں زےر علاج بچوں کی عےادت کی اوران کی خےرےت درےافت کی۔وزےراعلیٰ جنرل وارڈ،کارڈیک سرجری وارڈ،آئی سی ےو،آپرےشن تھےٹرزاوردےگر وارڈز مےں گئے۔وزےراعلیٰ نے بچوں کےلئے ہسپتال مےں فراہم کی جانے والی تفرےحی سہولتوں کا بھی جائزہ لےا۔وزےراعلیٰ نے زےر علاج بچوں سے پےار کےا اوران کی جلد صحت ےابی کےلئے دعا کی ۔انہوں نے زیرعلاج بچوں کی ماﺅں سے ہسپتال میں فراہم کی جانے والی طبی سہولتوں کے بارے میں پوچھا،جس پر بچوں کی ماﺅں نے اطمینان کاا ظہا رکیا اورکہا کہ آپ نے بچوں کے لئے شاندار ہسپتال بنایاہے اورہم آپکے کے لئے دعا گو ہیں ۔وزےراعلیٰ نے زیر علاج بچوں کی ماو¿ں سے بات چیت کی اورہسپتال میں فراہم کی جانے والی سہولتوں کے بارے دریافت کیا۔بچوں کی ماﺅں نے وزیر اعلی کو بتایا کہ ےہاں بہترےن علاج ہورہاہے ۔ ڈاکٹرز ،نرسےں اورعملہ بہت اچھا ہے اورہمارے بچوں کا اعلی معےا ر کا علاج فری ہورہا ہے ۔ ہسپتال مےں بچوں کے لواحقےن نے وزیر اعلی کو بتایاکہ ہمےں ےہاں انتہائی اچھی سہولتےں مل رہی ہےںاورہمےں ےہاں کوئی شکاےت نہےں۔آپ نے انتہائی اعلی معےار کاہسپتال بناےا ہے ۔ہمارے بچوں کو بہترےن علاج معالجہ مل رہا ہے ۔وزیر اعلی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت عام آدمی کو معےاری طبی سہولتےں فراہم کرنے کےلئے اربوں روپے خرچ کررہی ہے اورمیرا مشن دکھی انسانیت کی خدمت ہے جسے ہر حال میں پورا کرونگا۔وزیر اعلی نے بعض مقامات پر صفائی پر عدم اطمینان کااظہارکیااورکہا کہ ہسپتال مےں صفائی کا معےار انتہائی معےاری ہونا چاہےے اورکمی وکوتاہی کو فی الفو ردورکےاجائے۔چھتوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دی جائے ۔صفائی کے بارے مےں مجھے دوبارہ شکاےت کا موقع نہےں ملنا چاہےے۔ :وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کاعےد الاضحی کے موقع پر ترکی کے صدر رجب طےب اردوان اورترکی کے وزےراعظم بن علی ےلدرم Mr.BinAli Yildirim) (کے مابین ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔وزیر اعلی پنجاب نے ترک صدر ، ترک وزیراعظم اور عوام کو عےد الاضحی کی مبارکباد دی اورمسرت کے اس موقع پر ترک قیادت اورعوام کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ترک صدر نے وزےر اعلیٰ پنجاب اور پاکستانی عوام کو عےد کی مبارکباد دی۔ترک صدر نے بےگم کلثوم نواز کی جلد صحت ےابی کے لےے دعاکی اور بےگم کلثوم نواز کے لےے نےک تمناﺅں کا اظہار کیا۔ترک صدر نے وزیر اعلی پنجاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خوشی کے مواقع اےک ہےں۔ ترکی اور پاکستان کے عوام ےک جان ہےںاور پاکستان اور ترکی کے عوام کا رشتہ بھائےوں سے بڑھ کر ہے۔ وزیراعلی محمد شہباز شریف نے ترک صدر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اورترکی کے مابین تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں اورےہ رشتہ ہر آنے والے دن مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خوشےا ں سانجھی اور ےہ بانٹنے سے بڑھتی ہےں۔ ترکی کے وزےراعظم بن علی ےلدرم اور وزیر اعلیٰ پنجا ب محمد شہباز شریفنے ٹیلی فون پر ایک دوسرے کوعید الاضحٰی کی مبارکباد دی۔ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے پاکستان اور پنجاب کے عوام کےلئے نیک خواہشات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ترکی اور پاکستان کی خوشیاں ایک ہیںاوردونوں ملکوں کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے عیدالاضحی کے موقع پر صوبہ بھر میںصفائی کے بہترےن انتظامات ےقےنی بنانے کیلئے انتظامیہ ،سالڈ ویسٹ مےنجمنٹ کمپنےوںاوردیگر متعلقہ اداروں کو ضروری ہدایات جاری کیں اورکہا کہ صفائی کے انتظامات کو خوب سے خوب تر بنانے کےلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائےںاورآلائشوں کو بروقت مناسب طرےقے سے ٹھکانے لگاےا جائے ۔اس ضمن مےں تمام متعلقہ اداروں کے حکام خود فےلڈ مےں موجود رہےں اور سالڈ وےسٹ مےنجمنٹ کمپنےوں کا عملہ صفائی کو ےقےنی بنانے کےلئے مستعدی سے فرائض سرانجام دے اور قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اٹھانے کیلئے تمام متعلقہ ادارے ذمہ داری سے اپنا کام مکمل کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کراچی میں خواجہ اظہارالحسن پر حملے کی مذمت کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے حملے میں معصوم زندگیوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے گوجرہ کے قریب ہونے والے ٹریفک حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسلام پورہ کے علاقے میںاین اے 120 کے ایک انتخابی دفترکے باہرفائرنگ کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی ہے کہ فائرنگ کے واقعہ کی تحقےقات کر کے ذمہ داروں کو فی الفور گرفتار کر کے قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل چیرٹی ڈے منانے کا مقصد خلق خدا کی بھلائی کی سرگرمیوں کے بارے میں شعور کو عام کرنا اور خیراتی اداروں کی خدمات کو سراہنا ہے۔ اللہ کے عطا کئے ہوئے حلال رزق میں سے مستحق افراد کی اپنی حیثیت کے مطابق مالی معاونت کرنا بڑی عبادت اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور دین اسلام کا درس ہے۔ غریب اور مستحق لوگوں کی مالی مدد کے بغیر پُرامن و فلاحی معاشرہ کا وجود ناممکن ہے، لہٰذا معاشرے کے ہرفرد کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے اعتبار سے کم وسیلہ افراد کی مدد کیلئے آگے آئے۔ چلڈرن ہسپتال میں نئے ان ڈور بلاک کی افتتاحی تقریب سے قبل وزیر اعلی محمد شہباز شریف گاڑی سے اتر کر سیدھے ہسپتال کے باہر موجود بچوں کے لواحقین کے پاس گئے اور ان سے ہسپتال میں فراہم کی جانے والی طبی سہولتوں کے بارے دریافت کیا- لواحقین نے وزیر اعلی کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور” دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا “کے نعرے لگائے- لواحقین نے وزیر اعلی کو بتایا کہ بچوں کے علاج معالجے کے لئے ایسا ہسپتال پورے پاکستان میں نہیں – اس ہسپتال میں بچوں کے پیچیدہ امراض کا بھی علاج ہوتا ہے جس پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں –