اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) امریکہ افغانستان میں امریکی اتحادی نیٹو سپلائی کیلئے روڈ نیٹ ورک کے استعمال کرنے پر پاکستان کا 45 ملین ڈالرز کا نادہندہ ہے، امریکہ نے پاکستان کو 2013 ءسے یہ رقم ادا کرنی ہے، یہ انکشاف چند روز قبل پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے ہونے والے ایک اجلاس میں ہوا ہے، سینئر فوجی حکام بھی اس اجلاس میں شریک تھے اور معلوم ہوا ہے کہ امریکہ نیٹو سپلائی کیلئے سال 2013 ءسے روڈ انفراسٹرکچر استعمال کررہا ہے اور اس کی مد میں پاکستان کا 45 ملین ڈالرز کا مقروض ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں سول و فوجی حکام نے ان پہلوﺅں پر غور کیا کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ مزید امداد بند کرتی ہے اور اس کے اثرات کیا ہونگے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے پاکستانی راستے سہولیات کے ساتھ استعمال کرنے پر عالمی معیار کے مطابق کمرشل اور نان کمرشل گاڑیوں سے ٹرانزٹ فیس لی جائے۔ اجلاس میں شریک ایک اہم ذرائع نے گفتگو میں بتایا کہ 26 نومبر 2011 ءکو نیٹو فورسز کے سلالہ حملے میں 28 پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی نے سوچ کو تبدیل کیا اور فیصلہ کیا کہ نیٹو اور امریکی گاڑیوں سے ٹرانزٹ فیس وصول کی جائے، جس کے نتیجے میں دوطرفہ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اس کے بعد 2013 ءسے امریکہ پاکستان کا 45 ملین ڈالرز کا مقروض ہے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ ہم نے 15 ملین ڈالرز دینے ہیں۔ اجلاس میں سول و فوجی حکام نے افغانستان کیلئے ٹرانزٹ روٹ پر بات کی اور کہا گیا سہولیات دینے کے ساتھ کمرشل اور نان کمرشل گاڑیوں سے عالمی معیار کے مطابق ٹرانزٹ فیس وصول کی جائے گی اور یہ ٹول فیس کے علاوہ ہوگی۔ حالیہ روڈ میپ سے متعلق حکام نے کہا کہ افغانستان کیلئے جدید سہولیات کے ساتھ عالمی معیار کے مطابق روڈز نیٹ ورک کیسے اور کب بنایا جائے۔ اجلاس میں موجود فوجی حکام نے کہا کہ یہ ہم پر چھوڑ دیں کہ افغانستان کیلئے نان کمرشل گاڑیوں ٹرانزٹ روٹ پر کیسے ہوگی۔ واضح رہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کی کمرشل گاڑیوں سے کوئی رقم کافی عرصے سے نہیں لی گئی اور سلالہ واقعہ سے پہلے بھی افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کے استعمال کی گاڑیوں سے بھی کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی۔ فوجی حکام سے متعلق بتانے والے ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایم او یو یا نیٹو فورسز کے ساتھ فیس چارجز کے معاہدہ گزر چکا ہے اور اب اس کی تجدید کی ضرورت ہے۔ دریں اثنا امریکی جنگ میں شراکت داری پاکستانی معیشت پر بھاری پڑی۔ پاکستان کو 13سال میں 120 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ دوسری جانب چین کے ساتھ باہمی تجارت کا حجم سولہ ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے جبکہ واشنگٹن سے پاکستان کی تجارت 70 سالوں میں صرف چھ ارب ڈالر تک محدود ہے، پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تجارت کا حجم سولہ ارب ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے میں پاک امریکہ باہمی تجارت چھ ارب ڈالر تک ہی محدود ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں ہونے والی کل براہ راست سرمایہ کاری میں چین کا حصہ 44 فیصد یعنی ایک ارب بیس کروڑ ڈالر رہا جبکہ اس عرصے میں امریکہ نے صرف دو کروڑ نوے لاکھ ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کی یاری بے پناہ مہنگی پڑی۔ گزشتہ 13 سال میں پاکستان کو 120 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا یعنی پاکستان کی معیشت کو سالانہ دس ارب ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اور امریکہ نے پاکستان کو اوسطاٰ اڑھائی ارب ڈالر کی امداد دی جن میں سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے جنگی اخراجات بھی شامل ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ ڈیڑھ سال کے دوران چینی مالیاتی اداروں نے پاکستان کو تقریباً دو ارب ڈالر قرض فراہم کیا جبکہ امریکہ نے اس دوران صرف دس کروڑ ڈالر کی معاشی معاونت فراہم کی جبکہ پاک فوج کے جوانوں سمیت ستر ہزار افراد شہید ہوئے جن کا کسی نے اعتراف نہیں کیا۔