تازہ تر ین

شاہد خاقان عباسی نا اہل ہو سکتے ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کوئٹہ دھماکہ افسوسناک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حملہ آور زرغون روڈ یعنی بلوچستان اسمبلی کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ قریب نہ پہنچنے کی وجہ سے اس نے کچھ فاصلے پر پولیس وین کے قریب خود کو اڑا لیا۔ بلوچستان اسمبلی کے اندر تو ہنگامہ چل ہی رہا تھا۔ لگتا ہے کہ دہشت گرد نے خود کو اس ہنگامے میں شمار کرنا تھا۔ اگر یہ دھماکہ اسمبلی کے قریب ہو جاتا تو یہ بہت بڑی خبر بن جاتی۔ بلوچستان اسمبلی میں ہونے والے ڈرامے کا آج ڈراپ سین ہو گیا ہے زہری صاحب مستعفی ہو گئے ہیں۔ ہم بھوتانی صاحب کا نام تو پہلے ہی لے چکے ہیں آج جس کا نام آیا ہے وہ جان محمد جمالی صاحب ہیں یہ پہلے بھی وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور ظفر اللہ جمالی کے کزن ہیں۔ جان جمالی کا پچھلا دور تو بہت ہی کرپشن کا دور تھا اس کا بہت شور مچا تھا۔ ہم نے بلوچستان کے دورے کے دوران ہی زہری صاحب کے بارے کہا تھا کہ یہ کبھی کراچی ہوتے ہیں اور کبھی بیرون ملک، صوبے کو تو وقت دیتے ہی نہیں ہیں۔ ایک اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ چاروں اسمبلیاں بھی ٹوٹ جائیں تو سینٹ کا اجلاس ہو سکتا ہے! ملک کے وزیراعظم کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری میں۔ کیا اس ملک کا نظام چل سکتا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کہہ رہے ہیں کہ عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری میں ہے۔ سابق عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو توہین پر گھر بھیج دیا تھا اب اتنی خاموشی کیوں ہے؟مولانا فضل الرحمن حکومت کے ساتھ ہیں، وہ تو کبھی بھی کسی حکومت کے خلاف نہیں جاتے ان کی سیاست حکومتی مفاہمت کے ساتھ چلتی ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ نوازشریف صاحب اور شاہد خاقان عباسی نے انہیں بلوچستان کے معاملے پر منانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے معذرت ہی کی۔ یہ کہہ کر کہ وہاں کہ لوکل لوگ نہیں مانتے۔ مولانا عبدالواسع کا تعلق جمعیت العلماءاسلام (ف) سے ہے۔ انہوں نے بھی پہلے دن سے کہا تھا کہ عدم اعتماد میں سرفراز بگٹی کا ساتھ دیں گے۔ لگتا یہی ہے کہ بلوچستان کا معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ میاں شہباز شریف کا اثرورسوخ بلوچستان اسمبلی پر نہیں ہے۔ مولانا واسع مولانا فضل الرحمن کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہی کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں صورتحال ایسی ہے کہ کوئی جماعت اب حکومت نہیں بنا سکے گی اور امکانات یہی ہے کہ اس صورت حال کے نتیجے میں اسمبلی ٹوٹ جائے گی۔ لگتا ہے۔ سپریم کورٹ اس وقت کوئی بڑا قدم کسی کے خلاف اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاہد خاقان عباسی کے اس بیان کے بعد ہم عدالتوں پر ”قل ہواللہ“ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ ماہرین قانون کی رائے کے مطابق وہ نااہل ہو گئے سپریم کورٹ نے اگر نوازشریف کے معاملے پر غلطی کر لی تھی تو انہیں اس پر کچھ نہ کچھ ازالہ کر لینا چاہئے۔ ورنہ لوگ یہ دیکھ رہے ہیں اس وقت سپریم کورٹ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اگر جج حضرات کسی سے خوفزدہ ہیں تو استعفے دے کر علیحدہ ہو جائیں اور ملک کو آئین اور قانون بنا دیں۔ پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ پاکستان میں کچھ بادشاہ ہیں کچھ نواب ہیں کچھ ملکہ ہیں۔ یہ بادشاہوں کا ملک ہے۔ ملک میں ایک صدر ہوتا ہے جو آئین اور قانون کا محافظ ہوتا ہے۔ ماضی میں صورتحال خراب ہو جاتی تھی تو صدر صاحب کوئی نہ کوئی رول ادا کرتے تھے اور دونوں فریقین کو سمجھاتے تھے اور معاملات حل ہو جاتے تھے۔ اگر عدالتیں رول ادا نہ کریں تو ملک میں ڈنڈے اور سوٹے چلا کرتے ہیں۔ نوازشریف کے خلاف جو فیصلے ہو گئے ہیں وہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ ”مشکل“ معاملات اقامہ یا پانامہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں تھا۔ بلکہ ”مشکل“ تھا۔ آج سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف صاحب نے کہہ دیا ہے کہ میں عدالتوں کی فیسیں دے دے کر تھک گیا ہوں۔ عدالت کیس کیلئے بہت بڑے بڑے وکیل کرنے پڑتے ہیں، فیسیں دینی پڑتی ہیں۔ ان کا مال اسباب ان کی دولت ان کی جائیدادوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے؟ ماہرقانون دان، وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سے اگر کوئی ایک ٹوٹ بھی جائے تو سینٹ کا اجلاس بلایا جا سکتا ہے۔ آئینی صورتحال تقریباً اسی قسم کی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ دوسرے کیسز میں بھی جن لوگوں نے ایسا کیا ان کو نوٹسز جاری ہوئے تھے لیکن ایکسن نہیں لیا گیا اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کر دیا گیا۔ افتخار چودھری کے دور میں عمران خان کو بھی توہین کا نوٹس جاری ہوا تھا۔ اس وقت میں پی ٹی آئی میں تھا۔ ہم لوگوں نے عمران کو مشورہ دیا تھا کہ معذرت کر لینی چاہئے۔ جو انہوں نے کر لی اور معاملہ ٹل گیا۔ ماہرقانون دان خالد رانجھا نے کہا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے اس بیان سے وہ 62/F کو توڑنے کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ وہ نااہل ہو سکتے ہیں۔ عدالتیں انہیں اتنا ریلیف شاید اس لئےدے رہی ہیں کہ نوازشریف کے کیس کا کفارہ ہو رہا ہے یا اس کے نکالے جانے کی زکوٰة نکل رہی ہے۔ اگر وزیراعظم سپریم کورٹ کو تضحیک کا نشانہ بنائے وہاں تو عدالتوں کا احترام ختم ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کو خود اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ عدالت ”یرک“ گئی ہے۔ ڈر گئی ہے ورنہ تو وہ ایک منٹ نہیں لگاتی۔ عدالت خود کو نہیں بلکہ قانون کو بچانے کیلئے یہ نوٹس لیتی ہے۔ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت شاید سیاسی اہمیت کے معاملات میں ہاتھ ڈالنا نہیں چاہتی اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو لوگ انہیں مزید اس میں گھسیٹنے کیلئے زور لگائیں گے۔ توہین عدالت کا نوٹس لینا کورٹ کا استحقاق ہے لیکن میرے خیال میں وہ اس وقت ان معاملات میں الجھنا نہیں چاہتے۔ نوازشریف کے خلاف وہ فیصلہ دے چکے ہیں۔ ان پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ تمام ادارے اس کو قبول کرتے ہیں اس وقت بہتر یہی ہے کہ سپریم کورٹ ایسے نوٹسز سے اجتناب ہی کرے تو بہتر ہے اس وقت توہین کی بارش ہو رہی ہے تمام سیاسی لوگ من مانے بیانات دے رہے ہیں اس طرح کوئی جج فرشتہ نہیں ہے۔ فیصلہ ہو چکا ہے۔ دلائل دیئے جا چکے ہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain