لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ الیکشن بند مٹھی کی طرح ہوتے ہیں۔ پہلے سے پیشنگوئی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر کوئی بڑا واقعہ رونما ہو جائے تو حالات یکسر بدل سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک بڑی جماعت ہے، نوازشریف نہ سہی شہباز شریف پارٹی کو لیڈ کر لیں گے۔ گزشتہ حالات میں شہباز شریف کے بارے سپریم کورٹ کا ایسا فیصلہ آ گیا جس کی توقع نہیں تھی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ بڑے منجھے ہوئے جج ہیں۔ لیکن بہت سے قانون دانوں کا اس بارے یہ تجزیہ تھا کہ یہ بہت عجیب کیس تھا۔ جس میں پیش ہوتے ہی چیف جسٹس نے فرما دیا کہ نیب کا بڑا قصور ہے۔ اس نے اتنے برسوں تک کوئی تحقیق ہی نہیں کی۔ پھر نیب پر چڑھائی کی۔ اگر دیر کرنے میں نیب قصور وار تھا تو اس پر چڑھائی کرنی چاہئے تھی۔ عدالت عالیہ نے حدیبیہ کیس کو یکسر خارج کر دیا۔ لوگ کہتے ہی ںکہ شہبازشریف صاحب کے بارے کوئی سافٹ کارنر تھا۔ آج نیب نے ریفرنس دوبارہ دائر کر دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بابا رحمتے والا انصاف ہوا تھا۔ ایک کیس ایک کے خلاف دوسرا کیس دوسرے کے خلاف۔ پیسے اور اثرورسوخ ضرور کام کرتے ہیں۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ٹائی اس پر آ کر پڑتی ہے کہ پنجاب کیا رزلٹ دے گا۔ پنجاب میں اگر مسلم لیگ (ن) جیت جاتی ہے تو پھر ان کے لئے مرکز میں حکومت بنانا بہت آسان ہو جائے گا۔ پنجاب میں اس وقت تین ادارے، ایک ایک ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹ پر کون کہاں کھڑا ہے۔ کس کے جیتنے کے چانسز ہیں۔ اس پر رپورٹا رپورٹی ہو رہی ہے۔ آئندہ کچھ دنوں میں فائنل رزلٹ آ جائے گا۔ فوج والے لاکھ انکار کریں کہ ہمارا کوئی رول نہیں لیکن آئی ایس آئی اس پر کام کر رہی ہے۔ سول اینسی، آئی بھی کام کر رہی ہے پنجاب میں رابرٹ کلب جسے پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے طور پر کام کر رہی ہے۔ ایجنسیاں جس ادارے کے تحت کام کرتی ہیں۔ وہ ادارے اس سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔ مثلاً آئی بی، سول حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ لہٰذا پنجاب حکومت اس سے پوچھ سکتی ہے اور فوجی قیادت بھی پوچھ سکتی ہے۔ ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹ پر بہت تیزی سے کام جاری ہے ہر جگہ پر لوگ اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ تینوں ادارے اپنے اپنے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان مفاہمت کا عمل بہت دیر سے جاری ہے۔ انٹرنیشنل لیول پر بالخصوص یو این او کے لیول پر آپس میں یہ دونوں ایک دوسرے کی بہت پشت پناہی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ یاہو صاحب کہاں سے اٹھے اور مودی صاحب سے آ ملے یہ کوئی عام بات نہیں، فرسٹ ورلڈ وار اور سیکنڈ ورلڈ وار کے بعد جو ڈبلومیسی رہی اس میں سب بڑے بڑے فیصلے کاغذوں پر یا ٹیلی فونوں پر نہیں ہوتے۔ ون ٹو ون ملاقاتوں میں اس قسم کے فیصلے ہوتے ہیں۔ پاکستان، اسرائیل اور بھارت کا مشترکہ دشمن ہے۔ وہ اسے سمجھتے ہیں۔ آنے والے چھ ماہ میں کچھ نہ کچھ شرارت ہونے والی ہے۔ جس کے بارے دونوں ملکوں کے ون آن ون ملاقات میں بیٹھ کر بات کرنا چاہی۔ ون آن ون ملاقاتوں میں تجارتی اور اکنامی معاہدے نہیں ہوا کرتے اگر ایسا ہونا ہو تو۔ دستاویزات تیار ہو جاتی ہیں اور کسی لیول پر بھی دستخط ہو جاتے ہیں یہ ون ٹوون ملاقات جو چھ روز تک جاری رہی۔ اصل میں انسٹی ٹیوشن ٹو انسٹی ٹیوشن دورہ تھا۔ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ آگے کیا کرنا ہے ہمیں نہ تو اسرائیل سے خیر کی توقع ہے نہ ہی بھارت سے۔ بھارت کی زبان بولنے والے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد، شیخ مجیب کے الفاظ بول رہی ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم جو شیخ مجیب کی بیٹی ہے۔ اس نے جماعت اسلامی کے 9 رہنماﺅں کو پاکستانی فوج کے ساتھ کولیبریشن کرنے کے الزام میں پھانسی دے دی 1970ءمیں تو پاکستان ایک تھا۔ اس پر فوج کے ساتھ رابطہ کرنے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے والے کس طرح باغی ہو گئے۔ ڈاکٹر صفدر محمود، جو کہ نوازشریف کے گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد بھی رہے ہیں، پاکستان کی تاریخ پر بے شمار کتب تحریر کی ہیں۔ انہوں نے ”مائی ڈیئر نوازشریف“ کے نام سے کالم لکھا۔ عطاءالحق قاسمی ایم اے او کالج کے لیکچرار تھے۔ وہ پارٹ ٹائم نوائے وقت میں کام کیا کرتے تھے۔ بعد میں انہوں نے اپنے گھر پر ”شب دیگ پارٹی“ کا اہتمام کیا اور مجھے کہا کہ آپ کو بھی بلاتا لیکن کچھ لوگوں کو آپ اچھے نہیں لگتے۔ انہوں نے بتایا کہ شب دیگ کھا کر نوازشریف بہت خوش ہوئے۔ نوازشریف بادشاہ بننے کے ماسٹر ہیں۔ انہوں نے خوش ہو کر عطاءالحق قاسمی کو کہا بول بچے کیا مانگتا ہے۔ ”بچہ“ نے کہا مجھے ناروے کا سفیر بنا دیں پاکستان کی سفارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایم اے او کالج کے لیکچرار کو اٹھا کے ناروے میں سفیر مقرر کیا گیا۔ عطاءالحق قاسمی نے ڈاکٹر صفدر کے کالم کے جواب میں ایک بدبودار کالم تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ممدوح جناب نوازشریف کے حق میں کالم لکھا ہے۔ اس کالم میں انہوں نے کہا ہے کہ نوازشریف نے مجیب الرحمن کو کیوں محب وطن قرار دیا ہے؟ ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں زبردست دلائل دیئے ہیں کہ خود حسینہ واجد نے جب وہ انگلینڈ میں تھی۔ تو اس نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرے والد بھی اس جگہ آ کر کھڑے تھے۔ وہاں مجھ سے ”را“ کے سینئر لوگ ملنے آتے تھے۔ اس وقت بنگلہ دیش نہیں بنا تھا۔ ”را“ نے انہیں مالی امداد کی بھی پیش کش کی تھی وہ اسے تحریک آزادی اور ہم اسے بغاوت کہتے ہیں۔ نذیر ناجی نے بھی ایک کالم لکھا ہے انہیں اس پر اور بھی اسٹڈی کرنی چاہئے۔ نوازشریف کو جب مشرف نے نکالا تھا۔ تو نذیر ناجی نے اس وقت لکھا تھا۔ جو فیصلہ تھا، پرویز مشرف کو بنانے کا وہ خفیہ طور پر مجھے بھیجا گیا تھا۔ حسین نواز کے ساتھ اور ہم نے فلائیٹ کے دوران وہ الفاظ بنائے تھے۔ جب فوج نے آ کر قبضہ کیا تو نذیر ناجی بھی وہاں موجود تھے۔ اور شعیب بن عزیز جو شہباز شریف سے ایک بڑی تنخواہ کے عوض انہیں شعر وغیرہ دیتے ہیں۔ سانحہ قصور پر میں نے بہت کام کیا اور پچھ پانچ چھ روز سے مسلسل محنت کر رہا ہوں میں خود بھی قصور گیا اور اہم عہدیداروں سے رابطے بھی کئے۔ فون کئے اور ذاتی طور پر بھی ملا۔ لاہور ہائیکورٹ نے ملزمان کی گرفتاری کیلئے جو مدت دی تھی وہ ختم ہو گئی ہے اب ان کے مطابق کورٹ نے 36 گھنٹوں کی اور مہلت دے دی ہے۔ ترجمان پنجاب حکومت ملک محمد احمد نے اس کے دوران دو پریس کانفرنسیں کر ڈالی کہ ہم عنقریب ملزمان تک پہنچنے والے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ گراﺅنڈ پر ابھی کچھ بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی دی ہوئی مدت کل شام ختم ہو جائے گی۔ زینب کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ اسے تو ایک طرف رکھیں۔ جائے وقوع پر کوئی سرکاری کیمرے نہیں لگے ہوئے۔ فوٹیج جو پولیس کو پیش کی گئی ہے۔ وہ لوگوں نے اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے لگائے گئے کیمروں سے لی گئی ہیں۔ آج انہوں نے تصویر بدل دی ہے کہ یہ ہے وہ شخص جو بچی کو لے کر جا رہا ہے زینب بچی کے معاملے میں سارا ملک ہمدردی کے طور پر اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔ قصور سانحہ کا دوسرا چہرہ یہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں۔ ڈی سی او، آفس کے سکیورٹی اہلکاروں نے گولیاں چلائیں۔ ڈی سی او صاحب کہتے ہیں کہ میں نے گولی چلانے کا آرڈر نہیں دیا تھا۔ پولیس اس وقت تک گولی نہیں چلاتی جب تک ہائی کمان سے آرڈر نہ آ جائے۔ مجاز افسر دو ہی ہو سکتے ہیں ایک ڈی سی او اور دوسرا ڈی سی (خاتون) جن کا کہنا ہے کہ ہنگامے شروع ہوتے ہی پچھلے دروازے سے پیدل گھر چلی گئی تھی۔ اب ایک نیا نام اے ڈی سی جی کا آ رہا ہے کہ انہوں نے آرڈر کیا تھا۔ پولیس نے ایف آئی آر میں نامعلوم شخص کا نام لکھا ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے پیٹی بھائیوں کو صاف بچا لیا۔ میرے پاس فوٹیج موجود ہے جس میں اقرارالحسن جو اے آر وائی کے اینکر ہیں۔ انہوں نے رانا ثناءاللہ سے سوال کیا ہے کہ گولی کس نے چلائی۔ اس کے جواب میں رانا ثناءاللہ نے صاف انکار کر دیا ہے کہ کون سی گولی؟؟ وہ تو سرے سے انکاری ہیں کہ کوئی گولی چلی ہی نہیں۔ مجھے کچھ ریٹائرڈ اور کچھ حاضر سروس افسروں نے بتایا ہے کہ اگر ضیا صاحب آپ قصور کا دورہ کریں کہ صرف دو تین کلو میٹر کے علاقے کا یہ مسئلہ ہے۔ 8 واقعات اسی چھوٹے سے علاقے میں پیش آئے۔ اس افسر نے کہا کہ قصور کا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دس ایم پی ایز اور ایم این ایز کے نام چل رہے ہیں۔ کیا آپ نے پڑھے ہیں؟ پولیس ان ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بالکل بھی ہاتھ نہیں ڈالے گی۔ انہوں نے کہا صرف ان لوگوں کو فوجیوں کے ہاتھ پکڑوا دیں۔ یہ ساری باتیں اگل دیں گے۔ اور متعلقہ 4 تھانہوں کے ایس ایچ اوز کے بھی کان پکڑوا دیں۔ یہ سب اگل دیں گے۔ یہ کسی مجرم کو تھانے میں رہنے ہی نہیں دیتے۔ ان حکمرانوں کے دس سالوں کی آمدن نکال کر دیکھ لیں سب کچھ صاف پتہ چل جائے گا۔ نمائندہ خبریں قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ سابق ڈی پی او قصور ذوالفقار علی صاحب نے اس دن پروگرام میں کہا تھا کہ گولی چلانے کا حکم انہوں نے نہیں دیا۔ انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ ڈی سی او نے دیا ڈپٹی کمشنر صاحب کل ہی قصور میں دوبارہ تشریف لائی ہیں جو تین چار روز سے غائب تھیں۔ وہ میڈیا سے کوئی بات نہیں کر رہی اور فون بھی اٹینڈ نہیں کر رہی۔ جے آئی ی میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ میں چلی گئی تھی اور نہیں جانتی کہ کس نے آرڈر دیا۔ ایک افواہ یہ چل پڑی ہے کہ نئے اے ڈی سی جی، عبدالسلام وارث نے آر دیا۔ انہوں نے بھی مجھے کہا کہ میں نے کوئی آرڈر نہیں دیا اور میں اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ جے آئی ٹی سے معلوم کریں۔ پنجاب حکومت، ڈی پی او کو تو تبدیل کر دیا ہے لیکن لوگ سائرہ عمر کا نام لے رہے ہیں۔ ان سے ابھی تک کسی نے پوچھا بھی نہیں ہے اور انہوں نے آج آ کر دوبارہ چارج بھی سنبھال لیا ہے۔ ہجوم میں غم و غصہ، وزیراعلیٰ کے نہ آنے کی وجہ سے نہیں بڑھا بلکہ رانا ثناءاللہ کے نہ آنے کی وجہ سے بڑھا۔ جس وقت لوگ قصور میں لاشیں اٹھا رہے تھے اس وقت رانا ثناءاللہ نے میڈیا پر بیان دیا کہ کون سی گولی۔ اور بچی اپنے کسی رشتہ دار کے ساتھ چلی گئی ہو گی۔ اس سے قبل ہونے والے واقعات میں ایک بچی ”لائبہ“ تھی۔ جس کی عمر 6 سال تھی۔ اسے بھی ایک شخص نے اغوا کیا تھا۔ ڈی این اے کے مطابق وہی شخص تھا۔ اس میں بھی بچی کو قتل کیا گیا ”لائبہ“ کے والدین سے حکمران افراد نے گھر جا کر تعزیت کی اور وزیراعلیٰ ان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ 5 لاکھ امداد دی جائے گی۔ لیکن کوئی رقم انہیں نہیں ملی۔ اس کے والد سے میری بات ہوئی۔ اس نے بتایا کہ مجھے کسی رشتہ دار کا نام لینے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ یا کسی اور بندے کا نام لے لیں ہم آپ کو 5 لاکھ دے دیں گے۔ ایک اوور بچی جس کا نام ”کائنات‘’ ہے اس کی عمر بھی چھ سال تھی۔ اس کے والد کا نام احسان الٰہی ہے۔ اس بچی کو بھی اسی شخص نے اغوا کیا۔ اس نے اپنی طرف سے بچی کو قتل کر کے دبا دیا۔ لوگوں نے فجر کی نماز کے بعد چیخ و پکار سن کر بچی کو مٹی سے نکال لیا۔ اس کی سانس جاری تھی۔ وہ بچی پچھلے 3 ماہ سے چلڈرن ہسپتال لاہور میں زیر علاج ہے۔ اس کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی ہے۔ اس کا مقدمہ بھی درج ہے۔ اس کا والد بہت غریب ہے۔ کھانے سے بھی تنگ ہے۔ اس کے پاس علاج کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں ایک وکیل اپنے طور پر خرچ کر کے اس کا علاج کروا رہا ہے۔ کوئی حکومت یا انتظامیہ اس کی مدد نہیں کر رہے۔