اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملک کے معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب قتل کیس میں گرفتار ملزم عمران علی کے 37 بنک اکاؤنٹس ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ نجی ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا کہ زینب قتل کیس میں گرفتارملزم عمران علی کے 37 سے زائد بینک اکاؤنٹس موجود ہیں جن میں سولہ لاکھ یوروز موجود ہیں جو اس گھناؤنے کام کے بدلے عمران علی کو دئے جاتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا کہ زینب قتل کیس کا مرکزی ملزم عمران علی انٹرنیشنل پورنوگرافی مافیا کا ایک فعال رکن ہے جو کم سن بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیتے ہیں۔ اپنے پروگرام میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے سو موٹو ایکشن لینے کا مطالبہ کیا اور کہاکہ خدارا اس معاملے کو دیکھا جائے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ پنجاب حکومت اور ایک وفاقی وزیر اس گھناؤنے کام میں ملوث ہیں اور یہ کہ اگر میری خبر جھوٹی ثابت ہو جائے تو چاہے مجھے پھانسی دے دی جائے۔دعووں کی برسات کرنے کے بعد چیف جسٹس نے بالآخر ڈاکٹر شاہد مسعود کے اس مطالبے پر غور کیا اور سو موٹو لیتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ، پیشی کے دوران انہوں نے چیف جسٹس کو ایک چٹ پر وفاقی وزیر اور ایک اور نام لکھ کر دیا جسے چیف جسٹس نے صیغہ راز میں رکھنے کی یقین دہانی کروائی۔تاہم اب اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے ایف آئی اے کو ریکارڈ فراہم کیا جس میں صاف صاف بتایا گیا کہ عمران علی کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے ۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اس ریکارڈ پر ایف آئی اے نے بھی تصدیق کی کہ عمران علی کے شناختی کارڈ پر 37 تو کیا کوئی بھی بینک اکاؤنٹ موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی اس رپورٹ کو جھُٹلاتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے نجی ٹی وی چینلز پر گفتگو کےدوران ایک ہی بات کی کہ میں اپنی خبر پر قائم ہوں ، لیکن میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ میری خبر جھوٹی نکلے۔لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے دعووں سے مُکر گئے اور کہا کہ میں نے محض خبر دی ہے اب اس پر تحقیقات کرنا اداروں کا کام ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران یہ تک کہہ دیا کہ میں کسی کو ثبوت نہیں دوں گا لیکن اگر سپریم کورٹ مجھ سے ثبوت طلب کرے گی تو میں بلا شُبہ تمام ثبوت چیف جسٹس کے سامنے رکھ دوں گا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے مبینہ بھونڈے دعوے اور غلط خبر پر سوشل میڈیا صارفین نے جہاں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا وہیں ان کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرشاہد مسعود نے غلط خبر دی اور اپنے مبینہ جھوٹے دعووں سے پاکستان کی دنیا بھر میں ہتک عزت کا سبب بنے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی صحافی کی خبر کو جھُٹلادیا ہے لہٰذا اب ان کے اپنے ہی بیان کہ ” خبر جھوٹی ہونے پر مجھے پھانسی دے دی جائے” کے مطابق انہیں تختہ دار پرلٹکا دیا جائے تاکہ آئندہ صحافیوں کے لیےایک مثال قائم ہو اور اس کو اس بات کا احساس ہو کہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا یہ انجام بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے ملک میں موجود نام نہاد صحافی آئندہ کسی بات پر انکشاف کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے اور صحیح خبر بریک کرنے سے قبل بھی کم از کم 10 مرتبہ اس کی تصدیق کریں گے۔