تازہ تر ین

خبریں واحد اخبار جس نے حافظ آباد بون میرو کی خبر سب سے پہلے چھاپی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شیخ رشید کی درخواست سپریم کورٹ میں نامنظور نہیں ہوئی بلکہ انہیں درست جگہ جانے کو کہا گیا ہے۔ ایل این جی کا کیس بھی اسی قسم کا ہے جس طرح نوازشریف کے بارے کرپشن اور مالی بدعنوانی کے مقدمات تھے۔ سپریم کورٹ کوئی تفتیشی ادارہ نہیں ہے۔ اگر شیخ رشید کسی ماہر قانون دان سے مشورہ کرتے تو وہ بھی انہیں نچلی عدالت میں جانے کو کہتا۔ سپریم کورٹ جانے سے قبل نچلی عدالتیں مقدمات دیکھتی ہیں۔ شیخ رشید نے حدیبیہ کیس کے بارے کہا تھا کہ میاں شہباز شریف کے خلاف یہ فائنل کیس ہو گا۔ اس وقت بھی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ اس سنا نہیں جا سکتا کیونکہ اس میں ملزم صاف بَری ہو چکے۔ لہٰذا شیخ رشید کو اب نیب میں جانا پڑے گا۔ وہاں سے جس پارٹی کے خلاف فیصلہ آئے گا وہ سپریم کورٹ میں جائے گی۔ قانون کے تحت سپریم کورٹ پہنچنے کے لئے درجہ بہ درجہ نچلی عدالتوں میں کہیں سنے جاتے ہیں۔ بعض اوقات سپریم کورٹ یہاں ریفر کرتی ہے کہ ”آپ سیشن کورٹ میں جائیں!“ کیوں وہ ٹرائل کورٹ سے اس طرح ہائیکورٹ بھی ٹرائل کورٹ ہے۔ وہاں فیصلے ہونے کے بعد لوگ اپیلوں کیلئے سپریم کورٹ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لینا شروع کر دیئے ہیں۔ خبر یہ آئی ہے کہ سپریم کورٹ نے ایف بی آر کو خبردار کیا ہے کہ عطاءالحق قاسمی کے پچھلے دس سالوں کے ریکارڈ لے کر آئیں۔ یہ کیس کسی ادارے یا شخص نے نہیں کیا ہوا بلکہ سماعت کے دوران جو حقائق سامنے آئے ہیںاس پر چیف جسٹس صاحب نے احکامات جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کس نے یہ سمری منظور کی اسے پیش کیا جائے۔ وہ سمری نوازشریف صاحب کے پاس گئی تھی انہوں نے منظوری دی اور وہ ”اپوائنٹ“ ہو گئے۔ آہستہ آہستہ باقی چیزیں بھی سامنے آئیں گی۔ میں نے نکتہ نظر کے عنوان سے اپنے اخبار میں اس کی تفصیل بھی شائع کی ہیں۔ ایم کیو ایم کے لوگوں کے اندر زبردست اداکارانہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ جس طرح فلموں میں اداکارائیں آنکھوں میں گلیسرین ڈال کر روتی ہیں اسی طرح مرد بھی آنسوﺅں کیلئے اسے استعمال کرتے ہیں۔ پہلے فاروق ستار روئے، عامر خان بھی روئے۔ فیصل سبز واری بھی روئے۔ لگتا ہے یہ بھی گلیسرین استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایم کیو ایم کے لوگ اچھے اداکار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کے قائد تحریک بھی چار پانچ گھنٹے کی فلم میں سب کچھ ہوتا تھا۔ مزاح، گانا، پھل چھڑی، رونا، آنسو سب کچھ ہوتا تھا۔ اس طرح ان سب کی تربیت بھی ایسی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عاصم، اتنے چارجز کے باوجود عدالت سے صاف ہو کر آ گئے ہیں۔ اب ان کا اکڑنا اور ایم کیو ایم کو پی پی پی میں شامل ہونے کی دعوت درست ہے۔ ان پر بہت سنجیدہ اور تفصیلی الزامات لگے تھے۔ ہسپتال کے نقشے سے لے کر ایم کیو ایم کے بھگوڑوں اور دہشت گردوں کے علاج کے الزامات بھی ان پر لگے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ تمام الزامات غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بارے ہم پہلے بھی کہہ رہے تھے کہ اس کے چار ٹوٹے ہوں گے۔ اب ایم کیو ایم پاکستان کے دو دھڑے بننے جا رہے ہیں۔ فاروق ستار اور عامر خان کے عزائم بالکل مختلف ہیں۔ دونوں گروپوں کے پروگرام مختلف ہیں۔ فاروق ستار کی نظر ٹیسوری کے پیسوں پر تھی۔ سب لوگ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے مالدار آسامی پکڑی ہے۔ موجودہ نتائج کے مطابق ایم کیو ایم کے سارے اہم لوگ اس جانب ہیں اور فاروق ستار کے ساتھ نہیں ہیں۔ الطاف حسین بالکل ننگا ہو گیا اور ہاتھ بڑھا بڑھا کر اسرائیل اور ”را“ کو مدد کیلئے پکارتا رہا۔ راولپنڈی میں جب ہمارے اداروں نے اس کی حرکت دیکھی ہو گی تو اس نے سیاست سے چھٹی کروانے کی ٹھان لی ہو گی۔ جب الطاف حسین کے خلاف ایکشن ہوا تو وہی لوگ جو میڈیا ہاﺅں پر ہلا بولتے تھے اب بھیگی بلی بن کر بیٹھے رہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک حکم کے حت ان پر پابندی سے وہ ضم ہو گیا۔ اس کی پارٹی کا ایک حصہ توڑ کر مصطفی کمال کے سپرد کر دیا گیا۔ لوگوں نے اپنی سیٹیں چھوڑ کر پی ایس پی میں شمولیت اختیار کی۔ مصطفی کمال اور اس کے ساتھی کھلم کھلا الطاف حسین کو گالیاں دیتے تھے۔ فاروق ستار نے باقیات کو جوڑے رکھا یہ کہہ کر تمہاری سیٹیں محفوظ رہیں گی نعرے لگایا کہ مہاجر ہو تو ایم کیو ایم میں آﺅ۔ اب اس کے بھی دو حصے بنا دیئے گئے۔ اب لوگ رو رہے ہیں کہ ہائے ایک دوسرے سے ”جپھی“ نہیں ڈال سکتے جس نے اس فلم کا سکرپٹ لکھا ”اس کو سلام“ اب یہ واپس نہیں ہونے والا۔ عاصمہ جہانگیر سیاسی تفکرات سے میں کبھی متفق نہیں رہا۔ اس کے باوجود ایک وکیل کی حیثیت سے انہوں نے اچھا مقام حاصل کیا۔ بھٹو کے آخری ایام میں وہ سرگرم تھیں اور رٹ بھی ان کی جانب سے دائر ہوتی تھی۔ نجم سیٹھی اور عاصمہ جہانگیر کو پرو انڈین لابی میں شامل کیا جاتتا ہے۔ جو کہتے تھے بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزہ ختم ہونا چاہئے۔ مرجانے والا شخص جو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کا فیصلہ خدا کی عدالت میں ہو گا کہ وہ اچھا تھا یا بُرا۔ عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار کی صدر رہیں۔ اچھی قانون دان تھیں۔ چند دن پہلے میں اور طلال اشتیاق ہمارے رپورٹر ان سے ملنے گئے اور تین گھنٹوں تک ان سے ملاقات کی۔ بہت سال پہلے مستوئی میں مختاراں مائی کا کیس ہوا تھا۔ میں اس کیس میں سب سے پہلے پہنچا۔ میرے آنے کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد عاصمہ جہانگیر سڑک پر سفر کر کے وہاں پہنچی۔ میانوالی میں ایک ونی کا کیس ہوا۔ جس میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کو ونی (غلام) بنا کر دوسروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ وہاں جب شور مچا تو میں نے اپنے دوست گورنر پنجاب خالد مقبول سے کہا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے مجھے اور وزیر قانون (اعجاز) کو اپنے ذاتی طیارے پر وہاں جانے کو کہا۔ ہم جہاز پر وہاں پہنچے اور عاصمہ سڑک پر سفر کر کے وہاں پہنچی۔ جہاں بھی دکھ تکلیف ہوتی تھی وہ وہاں پہنچتی تھیں۔ مولوی صاحبان ان کے خلاف ہوتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے ایک مولوی کی لڑکی جس نے مرضی کی شادی کی تھی۔ ان کے پاس پناہ لی۔ مولوی صاحبان ان کے سخت خلاف ہو گئے۔ اب یہ بحث کہ ان کی نماز جنازہ کی امامت کس سے کروائیں گے یہ ایک فضول بحث ہے۔ بحرحال یہ دیکھنا چاہئے کہ کوئی کوتاہی تو نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ان کی جان گئی۔ میں تو عاصمہ جہانگیر کی بہت عزت کرتا ہوں یہ آگرہ بھارت ساتھ گئی تھیں جب مشرف کے مذاکرات واجپائی صاحب کے ساتھ طے تھے یہ سارا دن ہمارے ساتھ رہیں۔ وہ ایک سچی، جرا¿ت مند اور بہادر خاتون تھیں۔ انہوں نے ڈٹ کر مولویوںکا بھی مقابلہ کیا۔ جب سلمان تاثیر نے کرسچین لڑکی کی حمایت کی تو ان کے خلاف قتل کے فتوے دے دیئے گئے۔ اس کے نتیجے میں سلمان تاثیر گولی کا نشانہ بنے۔ عاصمہ نے ڈٹ کر مخالفین کا سامنا کیا۔ میں انہیں سلوٹ کرتا ہوں۔ بچیوں کے بون میرو کی سٹوری سب سے پہلے ہمارے اخبار نے بریک کی اور ہمارے چینل نے یہ سٹوری بریک کی۔ احمد پور شرکیہ میں پٹرول ٹیکسز جب الٹ گیا تھا۔ اور لوگ پٹرول لوٹنے کے لئے وہاں اکٹھے تھے۔ اور ایک شخص نے سیگریٹ پھینک دی جس سے کئی لوگ خاکستر ہو گئے تھے۔ میں نے اس وقت بھی مضمون لکھا تھا کہ اس کی وجہ غربت ہے میں حکمرانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جھوٹے دعوﺅں سے کچھ نہیں ہو گا۔ بیچارے غریب ماں باپ اپنی بچیوں کو بون میرو نکلوانے کیلئے خود بھیجتے تھے کیونکہ اس سے 40 ہزار روپے ملتا تھا۔ ایک خاکروب کے ذریعے یہ سلسلہ چل رہا تھا معلوم نہیں آگے سے کتنے پیسے وصول کرتے ہوں گے۔ اصل دین اور مذہب تو یہ ہے کہ حدیث مبارکہ کے مابق سونے سے پہلے اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے سات گھروں تک تحقیق کرو کہ کوئی بیمار تو نہیں کوئی بھوکا تو نہیں۔ کسی بچی کی شادی تو نہیں ہونے والی۔ کوئی مقروض تو نہیں۔ کوئی ایسا تو نہیں جو فاقے سے ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول تھا کہ دریائے نیل کے ساحل پر اگر ایک کتا بھی پیاس سے مر گیا تو میری اوپر کے جہان میں پرزش ہو گی۔ آج کے حکمرانو! سن لو رسول پاک کے اقوام ہمارے لئے حتمی ہیں۔ وہاں پرویز خٹک، مراد علی شاہ، شہبازشریف کوئی اور صاحب ہوں انہوں نے دوسرے جہان جا کر اپنے اقتدار کا حساب دینا ہے۔ میاں شہباز شریف آپ نے بھی اس بات کا اطمینان کرنا ہے کہ کسی گھر میں کوئی مجبور بچی تو نہیں جسے زبردستی گودا دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے تا کہ وہ پیسے لے کر گزر اوقات کر سکے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain