ایشیا کی 100بہترین یو نیورسٹیوں میں پاکستان کی کون سی یونیورسٹی شامل

کراچی(خصوصی رپورٹ)پاکستان کی قائد اعظم یونیورسٹی ایشیا کی100 بہترین جامعات میں شامل ہوگئی ہے۔ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن نے ایشیا کی 100 بہترین جامعات کی فہرست جاری کی ہے۔ اس فہرست کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی نے اپنی رینکنگ بہتر بنائی اور ایشیا کی100 بہترین جامعات میں شامل ہوگئی۔ گزشتہ برس اس یونیورسٹی کا شمار 120 سے 130 کے درمیان تھا جو اب پچاس درجے بہتری کے بعد 79 پر آگئی ہے۔قائد اعظم یونیورسٹی رواں برس دنیا کی بہترین 500 جامعات میں بھی شامل ہوگئی ہے۔

12سالہ بیٹی کی فروحت نے سب کے دل دہلا دیے

نارووال (خصوصی رپورٹ) غربت کے ہاتھوں ماں نے 12 سالہ بیٹی 55 ہزار روپے میں فروخت کر دی۔ تفصیلات کے مطابق محلہ بلان گنج کا حمد افضل جو اپنی بیوی اور چھ بچوں کو چھوڑؑ کر چلا گیا ہے ۔ روبینہ کوثر جو لوگوں کے گھروں مین کام کرتی ہے، روبینہ کوثر نے گھر میں مفلسی غربت سےتنگ آکر اپنی 12 سالہ بیٹی نگینہ کو باجوڑ ایجنسی کے رہائشی صاجزادہ خان کے ہاتھوں فروخت کر دیا، 38 سالہ صاجزادہ خان گزشتہ روز 12 سالہ نگینہ کو اپنے ساتھ باجوڑ لیکر جانے کیلئے جب نارووال بس سٹینڈ پہنچا تو مسافرون نے مقامی بچی کو قبائلی شخص کے ساتھ دیکھ کر پولیس کی اطلاع دی، پولیس نے مشکوک شخص کو گرفتار کر لیا۔ روبینہ کوثر نے صاجزادہ خان سے 20 ہزار روپے قرض لے رکھا تھا جو ادا نہٰں کر سکتی تھی، روبینہ کوثر جس کے بچے فاقوں سے بے حال اور بیمار رہتے تھے نے صاجزادہ خان سے مزید 35 ہزار روپے لیکر اپنی جگر کے ٹکرے کو اسے فروخت کر دیا تھا صاجزادہ خان نے بتایا کہ وہ بچی کو باجوڑ ایجنسی لیکر جا رہا تھا اور وہ اس سے شادی کرے گا 12 سالہ نگینہ نے بتایا کہ اس کی ماں اسے جسم فروشی پر مجبور کرتی تھی۔ پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

 

ججز کے احتساب کے متعلق سنسنی خیز انکشافات

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) نواز شریف کی وزارت عظمی کے دور میں وزارت قانون کی جانب سے تیار کیا جانے والا آئینی ترمیم کے مسودے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے تحت وزارت قانون نے غور شروع کر دیا ہے، اس مجوزہ قانون کا مقصد پارلیمانی ادارے کو اعلی عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے متعلق فیصلہ کن اختیار دینا ہے تاکہ پارلیمنٹ کو ججوں کے احتساب کے اختیارات بھی حاصل ہو سکیں۔ میڈیا کے پاس اس ترمیمی بل کا مسودہ موجود ہے۔ یہ بل فاروق نائیک کی زیر قیادت سینیٹ کمیٹی نے تیار کیا تھا۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ اب وزارت قانون اس بل میں مزید بہتری لانے میں مصروف ہے تاکہ پارلیمنٹ کو اعلی عدلیہ میں ججوں کے تقرر اور انہیں فارغ کرنے کے اختیارات مل سکیں۔ موجودہ صورتحال میں چیف جسٹس کی زیر قیادت جوڈیشل کمیشن کے پاس مکمل اختیارات ہیں کہ وہ نامزد کردہ ججوں کو سپریم اور ہائی کورٹ میں مقرر سکے لیکن اس موجودہ صورتحال کے برعکس، آئینی ترمیم کے بل میں ججوں کے تقرر کے معاملے میں پارلیمانی کمیٹی کو طاقتور بنانے کی بات کی گئی ہے۔ بل میں آئین کے آرٹیکل 175 اے کو تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اگرچہ بل میں صرف ججوں کے تقرر کی بات شامل ہے لیکن وزارت قانون کے ذرائع کا اصرار ہے کہ اب جوڈیشل اصلاحات کے حوالے سے ججوں کے احتساب (ججز کی برطرفی) کی بات بھی شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ فی الوقت، پارلیمانی کمیٹی کے پاس عملا جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن آئینی مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے پر کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔ 18ویں اور 19ویں آئینی ترمیم کے تحت متعارف کرائے گئے موجودہ نظام کے تحت، پارلیمانی کمیٹی اگر جوڈیشل کمیشن کی کسی سفارش کو مسترد کرتی ہے تو اس کے باوجود مذکورہ سفارش کی حتمی تقرری ہو سکتی ہے۔ نئے قانون کے مسودے مین تجویز دی گئی ہے کہ کسی نام کو مسترد کیے جانے کی صورت میں جوڈیشل کمیشن پارلیمانی کمیٹی کو نیا نام تجویز کرے گی اور سپریم کورٹ کے پاس پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ آئینی ترمیمی بل کی شق نمبر 18 میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن سے نامزد کردہ امیدوار کی تجویز ملنے پر اس کی ساکھ، قابلیت، اخلاقی معیار اور مالی ساکھ کا جائزہ لے گی اور اس کے بعد کمیٹی کے ارکان اکثریتی فیصلے کے ساتھ 30 روز میں اس تقرری کا فیصلہ کریں گے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ نامزد امیدوار کا تقرر ہو جائے گا: مگر شرط یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی نے تین چوتھائی ارکان کی اکثریت کے ساتھ مذکورہ عرصہ کے دوران نامزد امیدوار کی منظوری نہ دے، یہ بھی شرط ہے کہ اگر پارلیمانی کمیٹی نے نامزد امیدوار کی منظوری نہ دی تو وہ اپنے فیصلے سے جوڈیشل کمیشن کو بذریعہ وزیراعظم مطلع کرے گی، یہ بھی شرط ہے کہ اگر کسی نامزد امیدوار کی منظوری نہ دی گئی تو جوڈیشل کمیشن کو 45 روز کے اندر کمیٹی کو نیا نام بھیجنا ہوگا۔ قانون کے مسودے کے سیکشن 19 میں لکھا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ سیکشن 23 میں لکھا ہے کہ آرٹیکل 68 میں وضع کردہ باتوں کا اطلاق پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی پر نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 68 میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ فرائض کی انجام دہی کے دوران سپریم یا ہائی کورٹ کے کسی جج کے رویے پر بحث کرے۔ بل میں جوڈیشل کمیشن کے کے آئین میں تبدیلی کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔ فی الوقت جوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان ہیں لیکن موجودہ صورتحال کے برعکس، کہا گیا ہے کہ کمیشن میں کوئی ریٹائرڈ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کا سابق جج بطور ممبر شامل نہیں ہوگا۔ فی الوقت، سابق چیف جسٹس یا پھر سپریم کورٹ کے سابق جج کو چیف جسٹس پاکستان چیر سینئر ترین ججوں (جو جوڈیشل کمیشن کے رکن بھی ہیں) کے ساتھ مشاورت کے بعد دو سال کیلئے بطور ممبر نامزد کرتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے مسودے میں ہر ہائی کورٹ میں Initiation Committee تشکیل دینے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے تاکہ ہائی کورٹ میں ججوں کے تقرر کیلئے امیدوار نامزد کیے جا سکیں۔

ن لیگ کے خلاف توہین عدالت کیس،وجہ جان کر آپ بھی دنگ رہ جائینگے

لاہور‘ اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)لاہور ہائی کورٹ ،اسلام آباد ہائی کورٹ ،سپریم کورٹ میں مسلم لیگ ن کے سربراہ سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت 16رہنماﺅں کے خلاف توہین عدالت کے الزام میں درخواستیں دائر ہیں جن میں سے صرف نہال ہاشمی کے خلاف فیصلہ آ چکا ہے جبکہ دانیال عزیز ،طلال چوہدری کو پہلے ہی نوٹس جاری کئے جا چکے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو بھی توہین عدالت کے الزام میں سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔ تاہم ان سے پہلے طلال چودھری اور دانیال عزیز کا نمبر آسکتا ہے۔ واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ‘ اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیخلاف درج درخواستوں میں نوازشریف‘ آصف کرمانی‘ مریم اورنگزیب‘ رانا تناءاللہ‘ محسن رانجھا‘ فائزہ حمید اور ڈاکٹر طارق فضل چودھری سمیت دیگر لیگی رہنماﺅں کے نام بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس صورتحال میں نوازلیگ نے ”تحریک عدل“ پر فوکس بڑھا دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے رکن اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے تقریباً 16 رہنماﺅں کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں ایسی درخواستیں دائر ہیں جن میں ان پر توہین عدالت کے آرٹیکل کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی اس ضمنی میں دائر درخواستیں پر کارروائی اور مقدمات اس کے علاوہ ہیں۔ جن رہنماﺅں کے خلاف درخواستیں دائر ہیں ان میں میاںنوازشریف‘ مریم نواز‘ آصف کرمانی‘ مریم اورنگزیب‘ رانا ثناءاللہ‘ محسن رانجھا‘ دانیال عزیز‘ طلاق چودھری‘ فائزہ حمید‘ ڈاکٹر طارق فضل چودھری و دیگر شامل ہیں۔ دوسری جانب محکمہ قانون پنجاب سے متعلق ایک اہم ذمہ دار نے میڈیا کو بتایا کہ مریم نواز‘ دانیال عزیز اور طلاق چودھری کو بھی توہین عدالت کے الزم میں سزا ہوسکتی ہے کیونکہ ان کی تقاریر میں حدود عبور کرلی جاتی ہے۔ اس ذمہ دار کے بقول مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف عدالتی فیصلوں پر اپنا مو¿قف کھل کر بیان ضرور کرتے ہیں لیکن وہ باﺅنڈری کے اوپر ہی کھیلتے ہیں۔ اسے کراس نہیں کرتے جبکہ مریم نواز اس سے آگے نکل جاتی ہیں۔ ایک سوال پر اس ذمہ دار کا کہنا تھا کہ اگر سزا ہوئی تو مریم نواز سے پہلے دانیال عزیز اور طلاق چودھری کو ہوگی جبکہ رانا ثناءاللہ چونکہ صوبائی وزیرقانون ہیں اس لئے قانونی و عدالتی امور پر بات کرنا ان کا استحقاق ہے لیکن دیگر لیگی رہنما گفتگو میں حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ لیگی وکلاءکے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی پارٹی قائدین نے توہین عدالت کے حوالے سے ملنے والے ان نوٹسز پر کسی وکیل کی باضابطہ خدمات حاصل نہیں کی ہیں اگر نہال ہاشمی کے بعد دانیال عزیز اور طلال چودھری کو بھی سزا ہوسکتی ہے تو وکیل برادری بالعموم عدالتوں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ البتہ مراعات یافتہ طبقہ اور نامی گرامی وکیل قانون دان شخصیات لیگی قیادت کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔ ذرائع کے مطابق میاں نوازشریف اور مریم نواز کی طرف سے جو کچھ کہا جاتا ہے عام رہنما اور کارکن اسی کو پارٹی پالیسی سمجھتے ہیں۔ تاہم تمام پارٹی رہنما عدالتوں کے بارے میں کوئی ایسا انداز اختیار نہیں کرتے جو توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہو۔ ان ذرائع کے مطابق جب تک توہین عدالت کے حوالے سے کسی اور لیگی رہنما کی سزا پر ردعمل کا سوال ہے تو پارٹی نے تحریک بحالی عدل شروع کر رکھی ہے۔ اسی سلسلے میں لیگی قیادت عوامی جلسوں سے بھی خطاب کررہی ہے۔ ذرائع کے بقول اسے مسلم لیگ ن کی جوابی حکمت عملی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اگلے عام انتخابات تک تحریک بحالی عدل ایک حکمت عملی کے طور پر جاری رہے گی۔ بعض لیگی رہنماﺅں کے ہاں یہ بھی سوچ پائی جاتی ہے کہ توہین عدالت کے الزام میں دانیال عزیز اور طلاق چودھری کو نوٹس ملنے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ٹارگٹ مریم نواز کی ٹیم ہی ہے کیونکہ اس وقت مریم نواز کی ٹیم ہی پارٹی میں سب سے زیادہ زیادہ فعال ہے۔ ان ذرائع کے مطابق نہال ہاشمی نے بھی مریم نواز کی ٹیم کے قریب ہونے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے وہ ایک ایسی تقریر کر بیٹھے کہ ان کو توہین عدالت میں سزا کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

سینٹ الیکشن میں کن اراکین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی ہو گی

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کروانے پر سینٹ الیکشن میں 9 ممبران صوبائی اسمبلی ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی کے 7 اور پنجاب اسمبلی کے 2 اراکین کی رکنیت 15 اکتوبر 2017ءسے تاحال معطل ہے۔ تفصیلات جمع نہ کروانے تک اراکین کی رکنیت معطل رہے گی ۔الیکشن کمیشن نے سینٹ انتخابات 2018 ءکے لئے ووٹر فہرستیں متعلقہ ریٹرننگ افسروں کو بھجوا دی ہیں۔رکن سندھ اسمبلی محمد اسماعیل راہو، مخدوم خلیل الرحمان، محترمہ ثانیہ ،محمد کامران ،رخسانہ پروین ، ارم عظیم فاروقی بلقیس مختار بھی معطل ہونے کے باعث ووٹ کاسٹ کرنے کی اہل نہیں۔ پنجاب اسمبلی کے رکن سردار محمد جمال لغاری اور عبدالمجید نیازی بھی ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔
رکنیت معطل

 

سینٹ الیکشن روکا جائے ،رٹ نے کھلبلی مچا دی

لاہور (کورٹ رپورٹر) سینٹ انتخابات 2018ءرکوانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کر دی گئی۔ جوڈیشل ایکٹویزم پینل کے سربراہ ایڈووکیٹ اظہر صدیق کی جانب سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت ،وزارت قانون و انصاف اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 ءکے تحت کاغذات نامزدگی کے فارم اے اور بی میں سیاستدانوں کو اثاثے چھپانے کی اجازت دی گئی ہے ،الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سیاستدان کو قرضے، فوجداری مقدمات، دہری شہریت چھپانے کی اجازت دے دی گئی ہے ،الیکشن ایکٹ میں ترمیم آئین کے آرٹیکل 62اور 63کا اثر زائل کرنے کیلئے کی گئی، سیاستدانوں کی کرپشن چھپانے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 ءانتہائی عجلت میں پارلیمنٹ سے منظور کروایا گیا ، ایکٹ کی منظوری سے پہلے پارلیمنٹ میں بحث بھی نہیں کروائی گئی۔درخواست گزار کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017ءمیں ترمیم کے خلاف مقدمہ لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے لہٰذا معزز عدالت سے استدعا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ءمیں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر عدالتی فیصلے تک سینٹ انتخابات روکنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔

 

تحریک انصاف کو بڑی کا میا بی حاصل

اسلام آباد(صباح نیوز)الیکشن کمیشن نے تحریک ا انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کو خارج کردیا۔جمعرات کو الیکشن کمیشنمیں پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔سماعت میں درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تحریک انصاف نے پارٹی آئین میں غیرقانونی طریقے سے تبدیلی کی ہے۔کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے انٹرپارٹی انتخابات سے متعلق فیصلہ پہلے محفوظ کرلیا جسے بعد ازاں سناتے ہوئے درخواست کو خارج کر دیا گیا۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست صوابی سے پی ٹی آئی کے سابق رہنما محمد یوسف نے دائر کررکھی ہے۔گزشتہ سماعت پر الیکشن کمیشن نے درخواست پر کاروائی بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج امیدواروں کی تفصیلات طلب کی تھی۔اس سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ پانچ دسمبر کو سنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

دبئی میں اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے حکومت کا اہم اقدام

لاہور (نیااخبار رپورٹ) عابد باکسر کی گرفتاری کے بعد دبئی میں مفرور مزید 170اشتہاریوں کی گرفتاری کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ان 170افراد میں سے 72کا تعلق لاہور‘ 12کا تعلق گوجرانوالہ‘ 27کا سیالکوٹ‘ 23کا قصور اور 5کا شیخوپورہ سے ہے۔ اسی طرح پنجاب کے دیگر اضلاع سے مختلف مقدمات میں دبئی میں مفرور ملزمان اس لسٹ میں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پنجاب سے اکثر جرائم پیشہ افراد کسی بھی بڑی واردات کے بعد باآسانی دبئی فرار ہو جاتے تھے اور دبئی میں پاکستان کے چار بڑے گروہ موجود ہیں جو ان مفروروں کو پناہ دیتے ہیں اور پھر ان سے پناہ کے عوض مزید ٹارگٹ کلنگ کرائی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق دبئی‘ اجمان اور شارجہ میں یہ اشتہاری مختلف گروپوں کی صورت میں رہتے ہیں اور پھر ان کو پناہ دینے والے نہ صرف ان سے ٹارگٹ کلنگ اور دیگر کام کراتے ہیں بلکہ دبئی کے ہوٹلوں میں پاکستانی اور بھارتی ڈانسرز کو لانے والے گروپوں سے بھی رقم وصول کی جاتی ہے۔ پاکستانی گروپوں سے تو اس طرح رقم وصول کی جاتی ہے کہ اگر کوئی گروپ پیسے دینے سے انکار کرے تو پاکستان کے اندر ان کے گھروں پر فائرنگ یا ان کے قریبی عزیزوں کا اغوا کر لیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کا بھی ایک بڑا بااثر گروہ ان کے ساتھ رابطوں میں ہوتا ہے۔ اشتہاریوں کو پناہ دینے والے بااثر مافیا پولیس کو خوش کرنے کیلئے اور اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے کئی مرتبہ ایسے افراد کو بھی پولیس کے ہاتھوں گرفتار کروا دیتے ہیں جن کیلئے ان پر زیادہ پریشر ہوتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دبئی میں موجود گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کیلئے سب سے پہلے پولیس کے اندر ان کے حمایتیوں کو کھڈے لائن لگایا گیا ہے اور اس کے بعد باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن کا ٹارگٹ صرف دبئی سے پکڑ کر لانا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک 23افراد کو وہاں سے لایا جا چکا ہے اور مزید کیلئے کام جاری ہے۔ ان کو گرفتار کرنے کے حوالے سے باقاعدہ پولس کا ایک گروپ اور ان کے مخبر دبئی میں موجود ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عابد باکسر‘ باسط چیمہ اور دیگر افراد کی گرفتاری کے بعد دبئی میں موجود انڈر ورلڈ سے تعلق رکھنے والے چاروں گروپ اور اشتہاری انڈر گراﺅنڈ ہو گئے ہیں اور اکثر نے اپنے ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ موبائل نمبرز بھی بدل لئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عابد باکسر کو پاکستان لانے کیلئے جانے والی ٹیم کو سخت دشواریوں کا سامنا ہے۔ لاہور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق 5سال قبل بھی عابد باکسر کو گرفتار کیا گیا تھا مگر دبئی کے قوانین اور عابد باکسرز کے تگڑے وکیلوں کی طرف سے وہاں کی عدالتوں سے ملنے والے حکم امتناعی کی بنا پر اسے پاکستان نہیں لایا جا سکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب بھی عابد باکسر کو پاکستان لانے سے بچانے کیلئے بااثر مافیا متحرک ہو چکا ہے۔
گرفتاری کا فیصلہ

 

عابد باکسر کی کہانی ،دل دہلا دینے والے انکشافات

لاہور (خصوصی رپورٹر)گےارہ سال سے اشتہاری ملزم عابد باکسر جس کے سر کی قےمت پنجاب حکومت کی جانب سے 20 لاکھ روپے مقرر کی تھی کو انٹرپول کی جانب سے گرفتاری کے بعد اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم پر اہم کےس 2007ءمیں تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں امپےرےل سےنما کی مالکہ نسم شرےف کو اغواءکے بعد قتل کرنے کا تھا جس کی مدعےہ مقتولہ کی بہو نو رےن شرےف تھی، ملزم پر ےہ بھی الزام تھا کہ اس نے بےگم نسےم شرےف کی مبینہ طور پر 8ارب روپے کی جائیداد کی خاطر ےہ وردات کی ہے۔ ےہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس وقت کے اےس اےچ او تھانہ قلعہ گجر سنگھ میںعمر ورک تھے اور اس مقدمہ میں عابد باکسر کے علاوہ اس کا کزن علی باکسر اور ندےم عباس بھی ملزم تھا۔ ذرائع کا مزےدکہنا ہے کہ مذکورہ مقدمے میں دونوں ملزم علی اور ندےم عباس پانچ سال سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں سزائے موت کے قید بھی کاٹ چکے ہیں لےکن ہائیکورٹ میں دونوں ملزمان کو 3سال قبل بری کر دےا تھا جبکہ عابد باکسر اس وقت مفرور تھا۔ مقدمہ میں بریت کے بعد عملاً نسیم شر یف قتل کیس ختم ہو گیا تھا لیکن عابد باکسر کے دو روز قبل دبئی میں گرفتاری کے بعد اس کےس میں اکیلے ملزم کی حد تک اسے ازسر نو سماعت دوبارہ ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے ماہرین قانون کا کہنا ہے کے اب عابد باکسر بھی اس مقدمے میں بری ہو چکا ہے۔ دوسری جانب مقدمہ کی مدعیہ نورین شریف ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کا حق رکھتی ہے۔ ذرائع کا مزےد کہنا ہے کہ اشتہاری عابد باکسر کو گزشتہ سال ملت پا رک کے علاقہ میں کیبل آپریٹر کے قتل کے الزام میں انٹرپول کے ذریعے گرفتار کیا گیاہے۔ ملزم کے دو ساتھی افضال پنو اور شہباز سائیں بیرون ملک فرار ہوگئے۔ دوسری طرف پولیس حکام عابد باکسر کی گرفتاری سے متعلق بات کرنے سے گریز کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق عابد باکسر اشتہاری ہونے کے بعد عارضی طور پر یورپ سمیت مختلف ممالک میں قیام پذیر رہا۔ تاہم اس نے مستقل سکونت دبئی میں اپنے دیرینہ ساتھی ملک احسان کے ساتھ ہی رکھی۔ گرفتاری کے بعد عابد باکسر کو قانونی کارروائی کے لئے جلد وطن لایا جائے گا۔

 

انسانی سمگلر سر گرم،چونکا دینے والے انکشافا ت

لاہور(نادر چوہدری سے)یورپ جانے کے خواہشمند پاکستانیوںکی دردناک موت اور ازیت ناک کہانیوں کا سلسلہ نہ رُک سکا،سانحہ ترکی ، سانحہ تربت اور سانحہ لیبیا بھی حکومتی ایوانوں اور متعلقہ اداروں کو نہ جھنجوڑ سکا ،پاکستان میں پھیلے ہزاروں ایجنٹس کے ماسٹر مائنڈ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود،ایک کو ایف آئی اے نے گزشتہ سال گرفتار کیا لیکن باقیوں میں سے کسی کے متعلق ایف آئی اے کچھ کامیابی حاصل نہ کرسکی ۔ذرائع کے مطابق پاکستانی شہریوں کویورپی ممالک بھجوانے کے سنہرے خواب دیکھا کر انھیں زمینی راستے بیرون ممالک سمگل کرنے والے ایجنٹس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آئے روز انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹس کو گرفتار کر کے ان کے خلاف کاروائی کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن یہ سلسلہ ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ترکی میں پاکستانی شہریوں پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں 4پاکستانی شہریوں پر انسانیت سوز ظلم ڈھایا جارہا تھا اور پھر اس کے ورثاءسے تاوان طلب کیا گیاتھا ۔ حقیقت میں یہ ایک عالمی سطح کا مضبوط انسانی سمگلروں پر مشتمل گروپ ہے جس میں 9افراد شامل تھے جن میں سے ایک کو ایف آئی اے پنجاب نے گزشتہ سال گرفتار کر لیا تھا لیکن باقی 8ملزمان تاحال ایف آئی اے کی گرفت سے باہر ہیں ۔ ان میں بکان نامی انسانی سمگلر جو خود کو کرد بتاتا ہے ۔رضوان افغانی نامی انسانی سمگلر جو پشاور کے علاقہ تھکال میں ر ہتا ہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے یورپ کیلئے بھجوائے جانے والے شہریوں کو یہ ترکی کیلئے بارڈر کراس کرواتا ہے ۔بختیار افغانی جو کہ رحیم نامی انسانی سمگلر کے ساتھ ہوتا ہے اور اسے رحیم کا (گرل فرینڈ)بھی کہا جاتا ہے اسی گروپ کا اہم حصہ ہے ۔عتیق افغانی نامی انسانی سمگلر جس کا کام جرمنی سے شروع ہوتا ہے جبکہ اسکی رہائش بھی جرمنی میں ہے ۔رحیم اللہ نامی اغواءکار انسانی سمگلر جس کے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت ترکی میں روپوش ہے اور مسلسل گزشتہ تقریباً6سالوں سے اس مکروہ دھندے میں ملوث ہے ۔مسیح اللہ نامی انسانی سمگلر جو کہ تاوان لے کر شہریوں کو غیر قانونی طریقے سے ترکی سے بلغاریہ پہنچانے کا کام کرتا ہے ۔ احسان خان ہری پور کا رہائشی اور افغانی ہے جو کہ اٹلی میں رہائش پذیر ہے اور اس گروپ کا سب سے بڑا اغواءکار ہے جبکہ اسکا کام غیر قانونی طریقے سے زمینی راستے شہریوں کو اٹلی داخل کرواتاہے ۔ اغواءکار شنکر کے نام سے بھی موجود ہے جو کہ نعیم افغانی کا خاص آدمی سمجھا جاتا ہے اور آخری اطلاعات کے مطابق وہ ترکی میں رحیم کے ساتھ موجود تھا جبکہ پشاور کے علاقہ شمشاتو کیمپ کا رہائشی عبدالرحمن بھی اسی گروپ کا اہم رکن تھا جو پاکستان سے ترکی اور یونان کیلئے شہریوں کو بھجواتا تھالیکن اسے ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا تھا ۔ نومبر 2017میں ترکی انٹیلی جنس معلومات پر جنوبی صوبے عدنا اور شمال مغربی صوبے کرک لاریلی میں کاروائی کرکے 98افراد کو بازیاب کرایا گیا جن میں 57 پاکستانی شہریوں سمیت 25 افغان، 22پاکستانی، 20 شامی، بنگلہ دیش کے تین اور نائیجریا کے دو شہری شامل تھے ۔ ان تمام افرادکو انسانی سمگلروں نے ایک عمارت کے تہہ خانے میں قید کیا ہوا تھا اور انھیں فی کس دس ہزار ڈالر یورپ پہنچانے کا وعدہ کیا گیاتھا لیکن یہ یہاں قید خانے کی نظر ہو کر رہ گئے تھے اور ان پر شب و روز بہیمانہ تشدد کا سلسلہ جاری تھا اور اغواءکار ان کے ورثاءکو تشدد کی وڈیوز بنا کر بھیجتے اوران کی رہائی کیلئے تاوان وصول کررہے تھے ۔اسی طرح بلوچستان کے علاقہ تربت میںپنجاب سے تعلق رکھنے والے 20 افراد جو کہ ایجنٹوں کے ہاتھوں غیر قانونی طریقے سے زمینی راستے مختلف ممالک کے بارڈر کراس کروا کر یورپ بھجوانے کا خواب دکھا کر یہاں ٹھہرائے گئے تھے اور ان کو مبینہ طور پر بلوچ علیحدگی پسند گروہ نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔اس کے بعد گزشتہ دنوں لیبیا کے ساحل کے قریب سپین جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی کشتی کے حالیہ حادثے میں جو 90 افراد جان سے گئے جن میں سے 32 کا تعلق پاکستان سے تھااور ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ۔یکے بعد دیگر بڑے بڑے حادثے رونماءہونے اور یک مشت درجنوں شہریوں کی ہلاکتوں کے باوجود ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں سمیت حکومتی اراکین موثر اقدامات اُٹھانے میںمسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ انسانی سمگلنگ کے اصل کردار جن کو ایف آئی اے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بخوبی جانتے ہیں نامعلوم وجوہات کی بناءپر تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آسکے جس وجہ سے پاکستانیوں کی دردناک اموات کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔