پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں توہین عدالت کے قوانین کیا ہیں؟

لاہور(خصوصی رپورٹ) دنیا کے ہر ملک میں توہین عدالت دو قسم کی ہوتی ہے جس میں عدالتی کمرے میں قانونی حکام سے گستاخانہ یا عدم احترام پر مشتمل رویہ اختیار کرنا یا جان بوجھ کر عدالتی حکم پر عمل نہ کرنا شامل ہیں۔ یہ بات ریسرچ کے دوران سامنے آئی ہے۔ توہین عدالت میں کیس کی سماعت کرنے والے جج یا ججوں سے گستاخی، نازیبا رویے سے سماعت میں رکاوٹ ڈالنا اور کوئی مواد شائع یا ٹیلی کاسٹ کرنا یا کوئی مواد ظاہر نہ کر کے منصفانہ ٹرائل کی راہ میں رکاوٹ بننا شامل ہیں۔ عشروں سے دنیا بھر میں جج توہین عدالت کے مرتکب افراد کو جرمانے یا قید کی سزا ئیں دیتے چلے آ رہے ہیں تاہم ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جج کم از کم ایک وارننگ جاری کئے بغیر توہین عدالت کی کارروائی کرے۔پاکستان سمیت کچھ ملکوں کے توہین عدالت کے قوانین کا جائزہ:۔دی نیوز انٹرنیشنل نے 4اگست 2012 کے ایڈیشن میں رپورٹ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت ایکٹ 2012 کو غیر آئینی کالعدم قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ توہین عدالت آرڈیننس 2003 کو 12جولائی 2012 سے بحال کیا جائے گا۔ 12جولائی 2012 کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے سیکشن 248(1) کے تحت قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد توہین عدالت ایکٹ 2012 نافذ کیا جس کے تحت وزیراعظم اور تمام دیگر وزرا سمیت تمام حکومتی عہدیداروں کو توہین عدالت کی عدالتی کارروائیوں سے مستثنی رکھا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے اس ایکٹ کے خلاف 27 ایک جیسی درخواستوں پر فیصلہ جاری کیا۔ بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس میاں شاکر اللہ جان، جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس تصدق حسین جیلانی شامل تھے۔ عدالت نے 21 صفحات کے مختصر حکم میں اعلان کیا کہ یہ درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت قابل سماعت ہیں کیونکہ اس میں عوامی اہمیت کے بنیادی حقوق کا معاملہ شامل ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 204کو آئین کے فورتھ شیڈول کی 55 انٹری کے ساتھ پڑھا جائے تو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو آرٹیکل 204کی کلاز (2) کے تحت توہین عدالت کی دی گئی تعریف کے مطابق جرم کرنے والے کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہے۔ مختصر حکم میں کہاگیا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012 کے سیکشن2 (اے) جج کی جو تعریف کرتا ہے اس میں ایسے تمام افسران آ جاتے ہیں جنہیں انصاف کی فراہمی کا منصب دیا جائے جبکہ اس کے برخلاف آرٹیکل 204(1) کے تحت عدالت سے مراد سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ ہے۔ ایکٹ کا سیکشن 3 مکمل طور پر کالعدم ہے کیونکہ یہ آرٹیکلز 4,9,25اور 204)2)سے متصادم ہے۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل 204(2)(b)میں دی گئی توہین عدالت کے امور اور آرٹیکل 204(2)(c)کے ذیل میں دیئے گئے بعض اقدامات کو ایکٹ کے سیکشن 3 میں توہین عدالت کی دی گئی تعریف سے نکال دیا گیا ہے۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا توہین عدالت ایکٹ 2012 آرٹیکل 204کے کلاز 3کے تحت نافذ کیا گیا جو مقننہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ عدالتوں کے اختیارات کے استعمال کو مربوط بنانے کیلئے قانون سازی کرے اور کوئی شرط نہ لگائے اور دفاع کے لئے بھی کسی قسم کی شرط نہ لگائی جائے عدالت نے کہا کہ ایک جج پر بہتان تراشی کر کے عدالتوں کے اختیار کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس مقصد کے لئے آرٹیکل 204(2)میں لفظعدالت استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح سیکشن 3میں دی گئی تعریف آرٹیکل 63(1)(g)کے تقاضوں سے متصادم ہے جس کے مطابق اگر کسی شخص کو عدلیہ کی تضحیک کا مجرم قرار دیا اور سزا سنائی جائے تو وہ عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل ہو گا اور سیکشن 3 میں اسے ختم کر دیا گیا اور عدلیہ کو شامل کرنے کے بجائے ایک ججپرر اس کے دفتر کے حوالے سے بہتان تراشی کی گئی۔مختصر حکم میں مزید کہا گیا کہ سیکشن 3 میں (i)سے (xi)تک شامل کی گئی شقوں کو لاگو کیا گیا جس کے تحت استثنی اور دفاع کے موقعے دیئے گئے جبکہ آئین میں ایسی کوئی شقیں نہیں اور سیکشن 3کی ذیلی شق (i)کے تحت آرٹیکل 248(1)کے عوامی عہدے رکھنے والے کو استثنی دیا گیا جو آرٹیکل 25 اور آرٹیکل 204(2)کی خلاف ورزی ہے ، عدالت کسی استثنی کے بغیر کسی بھی شخص کو توہین عدالت پر سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے۔مختصر حکم میں قرار دیا گیا سیکشن3کی ذیلی شق(i)میں آرٹیکل 248(1)کی شمولیت آئین میں ترمیم کے مترادف ہے اور یہ کام آرٹیکلز 238 اور 239 میں دیئے گئے طریق کار پر عمل کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 248(1) کسی عوامی عہدیدار کو فوجداری مقدمات سے استثنی نہیں دیتا پس سیکشن 3 کی ذیلی شق (i)کے تحت بھی کسی عوامی عہدیدار کو استثنی نہیں دیا جا سکتا اور یہ آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہو گی۔ فیصلے میں کہا گیا سیکشن 3کی ذیلی شقوں (i)تا (xi)میں دی گئی شرائط مبہم اور بے سروپا ہیں اور اس کا مطلب توہین عدالت کرنے والے کو فائدہ پہنچانا ہے جو عدالتوں کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتا پس یہ شقیں قانون کے سامنے سب برابر ہیں کے اصول سے متصادم اور کالعدم ہیں عدالت نے مزید فیصلہ دیا کہ سیکشن 4کے سب سیکشن 4کے تحت قبل ازیں دیئے گئے فیصلوں کا اثر ختم کرنے کے لئے فیصلہ دیا گیا اور ان بنیادوں کو ختم نہیں کیا گیا جن پر فیصلے دیئے گئے جو انصاف تک رسائی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے جس کا ذکر آرٹیکل 9میں ہے اور یہ شق بھی آرٹیکل 189سے متصادم ہے اور کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ سیکشن 6(2) وجود نہیں رکھتا کیونکہ سیکشن 3 کو بالکلیہ کالعدم قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح فیصلے میں کہا گیا کہ سیکشن 6(3) توہین عدالت کی حوصلہ افزائی اور اسے بڑھاوا دیتا ہے کہ سزا پر عملدرآمد موخر کر کے اپیل، نظرثانی کی راہ اختیار کی گئی ہے جبکہ عدالت کے وقار اور احترام کا تقاضا ہے کہ توہین عدالت کے مرتکب کو فوری سزا دینے کیلئے مناسب اقدام کیا جائے۔ مختصر حکم میں کہا گیا کہ اس ضمن میں کسی بھی تاخیر سے ناصرف عدالتی وقار متاثر ہو گا بلکہ اس سے عدالتوں اور ان کے احکامات کے عدم احترام کا رحجان بڑھے گا۔ اس طرح یہ شق بھی آرٹیکلز 2Aاور 9 کے تحت عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک فراہمی کے اصول سے متصادم ہے اس لئے کالعدم ہے عدالت نے مزید کہا کہ سیکشن 8کے تحت مقدمات کی منتقلی عدالتی اختیارات کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ سیکشن 8 کا سب سیکشن (1)برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ اس میں عدالت پر بہتان تراشی کی بجائے ایک جج پر اس کے دفتر کے حوالے سے بہتان تراشی کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ سب سیکشن بھی توہین عدالت کے ملزم کو سزا دینے کی ضرورت سے متصادم ہے جبکہ عدالت کے احترام میں تیزی سے مناسب قدم اٹھایا جانا چاہئے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک سے دوسرے جج یا بنچ کو مقدمے کی منتقلی اس عدالت کے سربراہ کی حیثیت سے چیف جسٹس کا اختیار ہے جسے مقننہ کنٹرول نہیں کر سکتی۔ اس لئے سیکشن 8 کا سب سیکشن 3 عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ سیکشن 8 کے سب سیکشن 5کے تحت مقننہ چیف جسٹس کی فائل سے ایک کیس دوسرے سینئر جج کو منتقل کرنے کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی یہ عدالتوں کی آزادی کے خلاف ہو گا اور اس حوالہ سے مقننہ کی مداخلت چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے اختیار کو کم کرنے کے مترادف ہو گی، اس طرح یہ شق بھی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سیکشن 10بی آرٹیکل 19میں درج آزادی اظہار کے بنیادی حق کے خلاف ہے جسے روکا جانا چاہئے۔ مزید برآں توہین عدالت اور آرٹیکل 68جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کے کنڈکٹ پرپارلیمنٹ میں کوئی بحث نہیں ہو گی۔ مختصرحکم میں کہا گیا آرٹیکل 270اے اے کے مطابق توہین عدالت آرڈیننس 2003 جو 15دسمبر 2003 کو لاگو ہوا اور 12جولائی 2012 کے روز تک نافذ العمل رہا جب توہین عدالت ایکٹ 2012 لاگو کیا گیا۔ سیکشن 13جو توہین عدالت ایکٹ 1976 اور 2003 اور 2004 کے آرڈیننس کو منسوخ کرتا ہے اس تنسیخ کیلئے کوئی وجہ نہیںآرڈر میں مزید کہا گیا اس لئے کوئی اور آئینی راستہ نہ بچنے کے باعث توہین عدالت ایکٹ 2012 غیر آئینی ، کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اٹارنی جنرل فارابرٹا بنام اٹارنی جنرل فار کینیڈا (AIR(1948) PC(194)میں بیان شدہ اصول کے مطابق یہ قرار دیا جاتا ہے کہ توہین عدالت آرڈیننس 2003 کو 12جولائی 2012 سے بحال تصور کیا جائیگا جس روز توہین عدالت ایکٹ 2012 نافذ کیا گیا تھا.بھارت میں توہین عدالت دو طرح کی ہیں سول توہین عدالت میں توہین عدالت ایکٹ 1971 کے سیکشن ٹو بی کے تحت سول توہین عدالت کو کسی فیصلے حکم نامے، ہدایت، آرڈر، رٹ یا کسی اور عدالتی امر کی دانستہ عدم تعمیل یا عدالتی احکام کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔کریمینل توہین عدالت کے تحت توہین عدالت ایکٹ 1971 کے سیکشن ٹو سی سے تحت کریمینل توہین عدالت کوئی ایسی اشاعت(خواہ الفاظ جو لکھے یا بولے گئے۔ بول، یا اشارے یا کسی اور طریقے سے) جو کسی عدالت کو سیکنڈ لائز کرتی ہو یا اس طرف مائل ہو یا عدالتی اتھارٹی کو کم کرتی ہو یا اس کی طرف میلان رکھتی ہو یا پھر کسی عدالتی عمل میں مداخلت کرتی ہو یا ایسا رحجان رکھتی ہو یا کسی بھی طور پر انصاف کی فراہمی کے عمل میں مداخلت کرتی، رکاوٹ ڈالتی یا اس کی طرف مائل ہو کریمنل توہین عدالت کے زمرے میں آئے گی۔ توہین عدالت ایکٹ 1971 کی سیکشن بی کلاز بی جو 2006 کے ایک فیصلے میں متعارف کرائی گئی اس اقدام کے درست ہونے کا جواز پیش کرنے پر دفاع کا موقع دیتی ہے اگر عدالت کو مطمئن کیا جائے کہ یہ اقدام مفاد عامہ میں تھا۔انگلینڈ اور ویلز:انگلینڈ اور ویلز میں توہین عدالت قانون (توہین عدالت ایکٹ 1981)میں زیادہ سے زیادہ سزا دو سال ہے۔ جج یا مجسٹریٹ کے سامنے بدتمیزی توہین آمیز رویہ جب وہ عدالت میں ہو، ٹرائل کے عمل یا دیگر قانونی امور کو متاثر کرنیکی کوشش کو براہ راست توہین تصور کیا جاتا ہے۔براہ راست توہین با لواسطہ توہین سے نمایاں طور پر مختلف ہے جس میں کوئی شخص کسی کیخلاف توہین کی درخواست دائر کر سکتا ہے اور الزام عائد کر سکتا ہے کہ اس نے عدالت کے قانونی احکام کی دانستہ خلاف ورزی کی۔فوجداری توہین عدالت: برطانوی کراﺅن کورٹ کے پاس اپنی کارروائی پراس وقت توہین عدالت کی سزادینےکااختیارہے جب عدالتی حکم کونہ ماناجائے یا عدالتی کارروائی کی خلاف ورزی کی جائے۔ جب کارروائی کرنا جلد مقصود ہو تو جج(حتی کے ٹرائل جج) توہین عدالت کی سزا دینےکیلئے کارروائی کرسکتاہے۔ جہاں ایسا کرنا ضروری نہ ہویا توہین عدالت بلاواسطہ طور پرکی گئی ہوتو اٹارنی جنرل مداخلت کرسکتاہےاورکراون پراسیکیوشن سروس اپنی جانب سےکورٹ آف جسٹس آف انگلینڈاینڈویلز کے ڈویژنل کورٹ آف دی کوئین بنچ ڈویژن کے سامنے کارروائی کا آغاز کرسکتاہے۔ مجسٹریٹ عدالتیں اعلی عدالتیں نہیں ہیں لیکن انھیں توہین عدالت ایکٹ 1981 کے تحت کارروائی کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ وہ عدالتی بے عزتی کرنےوالے کسی بھی شخص کو حراست میں لے سکتی ہیں یاسماعت کے اختتام تک اپنی کارروائی روک سکتی ہیں۔ توہین عدالت تسلیم کیے جانےیا ثابت ہونے پر جج مجرم کوزیادہ سے زیادہ ایک ماہ قید کی سزا دے سکتاہے، اڑھائی ہزار پاﺅنڈ جرمانہ بھی کرسکتاہےیادونوں کرسکتاہے۔ برطانوی عدالت کی مرضی کے بغیر کمرہِ عدالت میں کوئی بھی آڈیو یکارڈنگ یا تصویرلینےوالا ڈیوائس لانا توہین عدالت کےزمرے میں آتاہے۔ برطانیہ میں جب تک عدالت دستیاب ثبوتوں پر غورنہ کرلے اور یہ فیصلہ نہ کرلے کہ معلومات انصاف، نیشنل سکیورٹی یا انتشار یا جرائم کوروکنےکیلئےضروری ہیں، تب تک (ایکٹ کی شق20 کے تحت) کسی بھی صحافی کا اپنا ذرائع نہ بتانا توہین عدالت میں نہیں آتا۔ برطانیہ میں سنگین توہین عدالت: توہین عدالت ایکٹ 1981 کے تحت یہ فوجداری توہین عدالت ہےکہ کچھ ایسا شائع کردیاجائے جس سے عدالتی کارروائی متاثرہونے کا خدشہ ہوجائے۔ اس کا نفاذ وہاں ہوتا ہے جہاں کارروائی جاری ہو اور اٹارنی جنرل رہنمائی کرے کہ اس کے خیال میں توہین عدالت کب ہوئی ہے، اور یہاں قانونی رہنمائی بھی ہونی چایئے۔ یہ شق اخبارات اور میڈیا کو کوئی بھی ایسا مواد شائع کرنے سے روکتی ہے جو کسی بھی فوجداری مقدمےیا اس سے متعلقہ مقدمات کےختم ہونےاور ججز کی جانب سے فیصلہ آنےسےپہلےاس کے بارےمیں انتہائی حساس ہو۔ برطانیہ میں سول توہین عدالت: سول مقدمات میں دو طرح کی چیزیں ہیں جہاں توہین عدالت ہوسکتی ہے: طلبی کےباوجودعدالت میں پیش نہ ہونا یا عدالتی احکامات کی پیروی نہ کرنا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جاتاہے اور وہ حکم کی پیروی نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوسکتاہے یا تحریری طورپر مذکورہ شخص کو قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن عملی طور پر ایسا شازوناذرہی ہوتاہے کیونکہ معافی نامہ یا جرمانے کو ہی مناسب سمجھا جاتاہے۔ امریکا: امریکی قوانین کے مطابق توہین عدالت کے ایکٹ کو براہِ راست یا بالواسطہ اور سول یا فوجداری میں تقسیم کیاگیاہے۔ براہِ راست توہین عدالت کسی جج کی موجودگی میں ہوتی ہے؛ سول توہینِ عدالت دھمکی آمیزاور قابلِ حل ہے کیونکہ اس میں سزا کی مخالفت کی جاتی ہے۔ براہِ راست توہینِ عدالت جج کی موجودگی میں ہوتی ہے اور اس میں جج موقع دے سکتاہے، یا فوری طور پر پابندی عائد کرسکتاہے۔ بلااسطہ توہین عدالت: یہ کمرہ عدالت سے باہر ہوتی ہے اور یہ عدالتی حکم نہ ماننے کی صورت میں ہوتی ہے۔ سول مقدمات میں توہین عدالت کو جرم نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس میں جس پارٹی کو عدالتی حکم سےفائدہ ہوتا ہے وہ عدالتی حکم کونافذ کرانے کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے۔

نہا ل ہا شمی 5سال کے لیے نا اہل 1ماہ قید

اسلام آباد (آئی این پی، مانیٹرنگ ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدلیہ مخالف تقریر پر نہال ہاشمی کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا مرتکب قرار د یکر نہال ہاشمی کو ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں نہال ہاشمی کو 15 روز مزید قید کاٹنا ہوگی، نہال ہاشمی 5 سال کیلئے نا اہل بھی ہوگئے۔ عدالتی فیصلے کے بعد اسلام آباد پولیس نے نہال ہاشمی کو حراست میں لے کر تھانہ سیکرٹریٹ منتقل کر دیا۔ جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سنیٹر نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے 24 جنوری کو نہال ہاشمی توہین عدالت کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے نہال ہاشمی کو ایک ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے ان کا معافی نامہ مسترد کردیا۔ عدالت نے نہال ہاشمی پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے 5 سال کے لیے نااہل بھی کردیا۔ فیصلے کے بعد نہال ہاشمی کو پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا ہے جب کہ انہیں اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ توہین عدالت کیس کا فیصلہ 2-1 کے تناسب سے آیا۔ نہال ہاشمی قومی، صوبائی اسمبلی یا سینیٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی توہین عدالت کیس کا فیصلہ دو ایک کے تناسب سے سنایا، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مقبول باقر نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا جبکہ جسٹس دوست محمد نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ خیال رہے نہال ہاشمی نے گزشتہ سال کراچی میں عدلیہ مخالف تقریر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تم جس سے حساب لے رہے ہو وہ تو نواز شریف کا بیٹا ہے اور ہم اس کے کارکن، آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہو جاو¿ گے، حساب لینے والو ہم تمہارا یوم حساب بنا دینگے، ہم تمہارے بچوں اور خاندان کیلئے پاکستان کی زمین تنگ کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں، کان کھول کر سن لیں ہم نے انہیں چھوڑنا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تم پاکستان کے باضمیر اور باکردار رہنماءنواز شریف کا زندہ رہنا مشکل کر رہے ہو، پاکستانی قوم تمہارا زندہ رہنا مشکل کر دے گی۔ سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کی تقریر پر توہین عدالت کا نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے 24 جنوری 2018 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے طلال چودھری کی عدلیہ مخالف تقاریر کا نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ نے طلال چودھری کی عدلیہ مخالف تقاریر کا نوٹس لیتے ہوئے ان کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ لیگی رہنماءکیخلاف از خود نوٹس کی سماعت 6 فروری کو کرے گی۔ واضح رہے کہ طلال چودھری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ ہیں۔ وہ پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالتی فیصلے کو اپنی متعدد تقاریر میں خوب آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں۔یاد رہے کہ انہوں نے جڑانوالہ میں اپنے حلقے میں نون لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں پی سی او کے بت بنے ہوئے ہیں، میاں نواز شریف ان کو عدالت سے نکالو، یہ انصاف نہیں کریں گے۔

 

بلا ول ہاوس چھا پہ مارا تو راﺅ انوار مل جا ئے گا

کراچی (آئی این پی) وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ اگر بلاول ہاو¿س اسلام آباد پر چھاپہ مارا جائے تو راو¿ انوار مل جائے گا‘سندھ کے حکمران چور اور لٹیرے ہیں، عوام کے اربوں ہڑپ کر چکے ہیں ‘ایک ایک پائی کا حساب لیں گے‘ایان علی کے ذریعے قوم کا پیسہ باہر بھیجا گیا‘کراچی کے لوگ ووٹ کے ذریعے گند صاف کریں گے‘نہال ہاشمی کو ان کے نازیبا کلمات کی سزا ملی‘ جس دن انہوں نے توہین عدالت کی اسی روز نواز شریف نے ایکشن لیا تھا۔ وہ جمعرات کو کراچی ایئر پورٹ پر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ وزیر مملکت توانائی عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ نہال ہاشمی کو ان کے نازیبا کلمات کی سزا ملی، جس دن انہوں نے توہین عدالت کی اسی روز نواز شریف نے ایکشن لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ راو¿ انوار معصوم لوگوں کا قاتل ہے۔ بلاول ہاﺅس اسلام آباد پر چھاپہ ماریں راو¿ انوار مل جائے گا۔ عابد شیر علی نے کہا کہ سندھ کے حکمران چور اور لٹیرے ہیں، عوام کے اربوں روپے ہڑپ کر چکے ہیں تاہم ایک ایک پائی کا حساب لیں گے، پیپلز پارٹی کو وقت دیا اب قوم ان کا احتساب کرے۔ انہوں نے کہا کراچی کے لوگ ووٹ کے ذریعے گند صاف کریں گے۔وزیر مملکت توانائی نے کہا کہ میاں صاحب کی وجہ سے کراچی میں امن ہے۔ انہوں نے کہا سندھ کے حکمرانوں کا احتساب کا وقت آگیا ہے، ایان علی کے ذریعے قوم کا پیسہ باہر بھیجا گیا، کراچی میں بسیں چلیں گی پھر لوگوں کو پتا چلے گا ترقی کیا ہے۔

 

کرکٹ کھیلنا جائز یا حرام علامہ خاد م حسین رضوی کے فتوے نے ہنگامہ برپا کر دیا

لاہور (ویب ڈیسک ) تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو پورے پاکستان کو ان کے بارے میں معلوم ہو گیا جس کے بعدسوشل میڈیا پر ان کی بہت ساری ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں اور وہ کافی عرصہ تک خبروں کی زینت بنتے رہے۔لیکن اب سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ان کی ایک ایسی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے جس میں انہوں نے کرکٹ سمیت تمام کھیلوں کو حرام قرار دیدیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سب کھیل شیطانوں اور کافروں کی ایجاد ہیں اور انہیں کھیلنے والے غافل ہیں، اس لئے تمام مسلمانوں کیلئے ان کھیلوں کو کھیلنا یا دیکھنا حرام ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ان کی مبینہ ویڈیو میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ”کھیل کے بارے میں بتائیں خصوصاً کرکٹ جائز ہے یا ناجائز ہے؟ جتنے کھیل انگریزوں کی طرف سے آتے ہیں، سب کھیلنا حرام ہیں، جس کھیل کو شیطانوں نے ایجاد کیا ہو اور کھیلنے والے غافل ہوں تو وہ مسلمانوں کیلئے حرام ہے۔کرکٹ ایجاد ہی کافر کی ہے اور اسے کھیلنے والے شیطان غافل ہیں، مسلمان کیلئے حرام ہے، کرکٹ ہو یا ہاکی، سب حرام ہے اور جو کھلاڑیوں کو پسند کرتا ہے وہ بے غیرت ہے۔ عمران خان کہتا ہے کہ مجھ پر 30 ہزار لڑکی عاشق ہے، یہ جو کینسر لگانے کیلئے ہسپتال کھول کر بیٹھا ہے، آپ حیران ہو گئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کینسر کا علاج کرتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ وہ کینسر لگاتا ہے۔ خدا کے بندو، اس طرح کے لوگ بنے ہیں، یہ لوگ آئے ہیں تو کینسر آئے ہیں، یہ لگانے والے ہیں۔ ہم اگر نبی کریم کے طریقے پر چل پڑیں تو قسم اس ذات کی کھا کر کہتا ہوں کہ کینسر مسلمانوں میں رہ جائے تو میری ناک کاٹ کر کتوں کے سامنے ڈال دینا، یہ ہمیں کینسر لگانے والے ہیں، ان کی نرسیں خود کینسر ہیں اور جسے ہاتھ لگائیں اسے دل کا کینسر لگ جاتا ہے۔“سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو خادم حسین رضوی کے نام سے وائرل ہو رہی ہے جس میں ان کی تصویر تو موجود نہیں البتہ صرف ویڈیو ہے اور صارفین کا پرزور اصرار ہے یہ آواز خادم حسین رضوی کی ہی ہے جو ڈائریکٹر ریکارڈ نہیں ہوئی بلکہ لاوڈ سپیکر سے ریکارڈ کی گئی ہے۔

 

خواجہ آصف ملک کے لیے سیکورٹی رسک ،نا اہل کرانے سپریم کورٹ جا ئینگے

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے خواجہ آصف کی نااہلی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ کر لیا۔عمران خان نے کہا کہ خواجہ آصف بیرون ملک ایک کمپنی سے تنخواہ لیتے ہیں، اس لئے وہ وزارت خارجہ کیلئے سکیورٹی رسک ہیں، خواجہ آصف کا ڈومیسائل بھی غیرملکی ہے، انہوں نے یہ تمام چیزیں اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں، ان کے غیرملکی بینکوں میں اکاو¿نٹس بھی ہیں۔عمران خان نے مزید کہا کہ نہال ہاشمی کیخلاف کارروائی پر عدالت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، عدلیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے، نون لیگ کے توہین آمیز رویئے سے عدلیہ کا وقار کم نہیں ہو سکتا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب اور سندھ پولیس ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہے،خواجہ آصف شریف خاندان کے منی لانڈرنگ گینگ کا حصہ ہیں ،وزیرخارجہ کی کرپشن اورمنی لانڈرنگ کو ہرسطح پراٹھایا جائے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عمران خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی خودمختار، پیشہ ور اور غیرسیاسی پولیس کا پنجاب اور سندھ پولیس سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔خیبر پختونخوا ایکٹ کے ذریعے صوبے کی پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی کردیا گیا ہے جبکہ پنجاب اور سندھ میں پولیس سیاسی مخالفین کو کچلنے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہے۔دریں اثنا عمران خان نے تحریک انصاف کے رہنماعثمان ڈار سے ملاقات میں خواجہ آصف نااہلی کیس سے متعلق پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ عمران خان نے عثمان ڈارکو تمام دستاویزی ثبوت میڈیا کوجاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف شریف خاندان کے منی لانڈرنگ گینگ کا حصہ ہیں اوروزیرخارجہ کی کرپشن اورمنی لانڈرنگ کو ہرسطح پراٹھایا جائے۔ جمعرات کوعمران خان نے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کی خودمختار، پیشہ ور اور غیرسیاسی پولیس کا پنجاب اور سندھ پولیس سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا ایکٹ کے ذریعے صوبے کی پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی کردیا گیا ہے جب کہ پنجاب اور سندھ میں پولیس سیاسی مخالفین کو کچلنے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہے۔

 

نہال ہاشمی نے جن کو خوش کرنے کی کوشش کی وہ انسان شناسی میں انتہائی کمزور ہیں

اسلام آباد (نیا اخبار رپورٹ) سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کے فیصلہ کے آغاز میں قرار دیاہے کہ اگر اس عدالت کے ججز دل کے ضعیف یا کمزور ہیں اور اگر انہیں زبانی تضحیک یا کھلے عام دھمکیوں سے خوفزدہ کیا جاسکتا ہے تو پھر مدعاعلیہہ نہال ہاشمی نے یقینا درست کوشش کی ہے تاہم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس (نہال ہاشمی) یا جن کی اس نے تقلید کرنا چاہی یا جن کو خوش کرنے کی کوشش کی وہ انسان شناسی میں انتہائی کمزور ہیں۔ 10صفحات کے فیصلہ میں نہال ہاشمی کی طرف سے ادا کئے گئے الفاظ بھی شامل کئے گئے ہیں۔

پاکستان کھیلے بغیر ہی تیسری پوزیشن کا حقدار

کوئنزٹاﺅن(سپورٹس ڈیسک) نیوزی لینڈ میں جاری انڈر 19 ورلڈ کپ میں تیسری اور چوتھی پوزیشن کے لیے کھیلے جانے والا میچ بارش کی نذر ہو گیا جس کے بعد پاکستان کو ٹورنامنٹ کے قوائد کے مطابق گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے افغانستان کے خلاف میچ کا فاتح قرار دیا گیا۔اس طرح پاکستان انڈر 19 ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔جمعرات کو کوئنز ٹان کے جان ڈیوس اوول میں کھیلنے جانے والا میچ گذشتہ رات کی بارش اور صبح کو مسلسل بوندا باندی کے باعث شروع نہ ہو سکا۔ میچ کے امپائرز نے مقامی وقت کے مطابق صبح 11.15 پچ کا جائزہ لیا لیکن اس موقع پر بارش دوبارہ شروع ہو گئی اور میچ شروع کرنے کے امکانات ختم ہو گئے۔یہ فیصلہ پاکستان کے لیے سودمند ثابت ہوا جو ٹورنامنٹ کے گروپ مقابلے میں افغانستان سے شکست کھا چکا تھا۔ لیکن بعد میں پاکستان نے اپنی کارکردگی میں بہتری کا مظاہرہ کیا اور آئرلینڈ کے خلاف نو وکٹوں سے کامیابی کی مدد سے اپنے نیٹ رن ریٹ کو بہت بہتر کیا۔ادھر افغانستان کی ٹیم آئرلینڈ سے چار رنز سے شکست کھا گئی جس کی وجہ سے انھیں گروپ میں دوسری پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا اور یہ ہار تیسری اور چوتھی پوزیشن کے مقابلے میں ان کو بھاری پڑ گئی۔دونوں ٹیمیں گروپ ڈی میں شامل تھیں اور دونوں ٹیموں نے 3,3 میچز میں سے 2,2 فتوحات حاصل کی تھیں، تاہم بہتر رن ریٹ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم گروپ میں ٹاپ پوزیشن پر موجود تھی اور افغانستان کی ٹیم دوسرے نمبر پر تھی۔ٹورنامنٹ کا آخری میچ ہفتے کو کھیلا جائے گا جب افغانستان کو ہرانے والی آسٹریلوی ٹیم کا فائنل میں انڈیا کے خلاف سامنا ہوگا جنھوں نے پاکستان کو 203 رنز سے ہرا کر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ دونوں ٹیموں کو اس سے قبل تین، تین مرتبہ عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہے، ایونٹ میں دونوں ٹیموں کی حالیہ فارم اور کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کن معرکے میں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

 

میر ہزار بجارانی نے 2 شادیاں کیں‘ 44 سال سیاست کی

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) اہلیہ کے ساتھ مردہ حالت میں پائے جانے والے 72 سالہ میر ہزار خان بجارانی کی زندگی کے 44 سال پاکستانی پارلیمنٹ اور سیاست میں گزرے۔میر ہزار خان بجارانی اس وقت میں رکن سندھ اسمبلی اور صوبائی وزیر تھے، جب کہ ان کی اہلیہ فریحہ رزاق میر ماضی میں رکن سندھ اسمبلی رہ چکی ہیں، وہ اس وقت فری لانس صحافی تھیں۔میر ہزار خان بجارانی صوبہ سندھ کے شمالی ضلع کندھ کوٹ ایٹ کشمور کے شہر کرم پور میں قیام پاکستان سے ایک سال قبل یعنی 1946 میں ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔میر ہزارخان بجارانی نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالحکومت کراچی کا رخ کیا، جہاں سے انہوں نے نہ صرف گریجویشن کی، بلکہ انہوں نے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ہزار خان بجارانی نے نیشنل کالج کراچی سے بی اے کرنے کے بعد سندھ مسلم لا کالج سے ہی ایل ایل بی کی ڈگری لی، جس کے بعد انہوں نے سیاست کی تعلیم حاصل کی۔ہزار خان بجارانی پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے اپنا ماسٹر بھی سیاست میں کیا، ساتھ ہی وہ قانون کی تعلیم پڑھنے والے ملک کے چند سیاستدانوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔چار مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور تین مرتبہ رکن سندھ اسمبلی رہنے والے میر ہزار خان بجارانی ایک بار سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔وہ سب سے پہلے 1974 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، جس کے بعد وہ ایک بار پھر 1977 میں بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔1988 میں وہ پہلی و آخری بار سینیٹر منتخب ہوئے، جس کے بعد وہ ہمیشہ عوامی ووٹوں سے ہی اسمبلی میں پہنچے۔وہ 1990 کے بعد مسلسل 2008 تک اپنے حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ انہوں نے 1997، 2002 اور 2008 کے انتخابات بھی بھاری اکثریت سے جیتے۔گزشتہ انتخابات یعنی 2013 میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سیٹ پر صوبائی نشست کے لیے انتخاب لڑا اور ہمیشہ کی طرح جیت گئے۔میر ہزار خان بجارانی نے جہاں سیاست میں تعلیم حاصل کی، وہیں سیاست انہیں خاندانی ورثے میں بھی ملی، کیوں کہ ان کے دادا خدا بخش شیر محمد بجارانی تقسیم ہند سے قبل ممبئی کونسل کے رکن رہے تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کو ممبئی سے جوڑا گیا تھا۔میر ہزار خان بجارانی کے والد کے ایس سردار نور محمد خان بجارانی بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں داخل ہوئے، اور 1946 سے 1947 تک سندھ اسمبلی کے رکن رہے۔اپنے دادا اور والد کی طرح جہاں میر ہزار خان بجارانی سیاست میں آٰئے، وہیں انہوں نے اپنے بچوں کو بھی سیاست میں متعارف کرایا۔میر ہزار خان بجارانی کے بڑے بیٹے میر شبیر علی بجارانی 2013 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔اس وقت منصوبہ بندی و ترقی کی صوبائی وزارت کا قلمدان سنبھالنے والے میر ہزار خان بجارانی اس سے قبل سندھ کے وزیر تعلیم تھے، مگر انہوں نے اس وقت کے سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو کے ساتھ کام کرنے سے معزرت کرلی تھی، جس کے بعد سیکریٹری تعلیم کو تبدیل کیا گیا۔سیکرٹری تعلیم کی تبدیلی کے بعد انہوں نے وزیر تعلیم کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں، تاہم سندھ کے وزیر اعلیٰ تبدیل ہونے کے بعد ان کی وزارت بھی تبدیل کردی گئی۔صوبائی وزیر اور رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے انہوں نے چین، جاپان، برطانیہ، امریکا اور سوویت یونین سمیت متعدد ممالک کے دورے بھی کیے۔میر ہزار خان بجارانی کے 5 بچے ہیں، جن میں سے ایک بیٹا رکن اسمبلی ہے۔ میر ہزار خان بجارانی کرم پور ضلع کشور میں 1946ءمیں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 2 شادیاں کیں ان کے 5 بچے ہیں ان کے صاحبزادے میر شبر بجارانی رکن قومی اسمبلی ہیں۔

ہر 15 دن بعدپٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے ساتھ ظلم

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) تجزیہ کار جاوید کاہلوں نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کی نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا جو فل بینچ بیٹھا ہے یقینا اس کا پورا پوسٹمارٹم ہو گا اس کے تمام زاویوں پر سیر حاصل بحث ہوگی۔ چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے مغربی معاشرے میں سیکرٹری سے ناجائز تعلقات کی افواہ رسابق صدر کلنٹن کا مواخذہ ہوا حالانکہ امریکی معاشرے میں اس حوالے سے کافی آزادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا شخص جو اعلیٰ عہدے پر فائز ہو لیکن اپنے عہدے سے وفاداری نہ کر رہا ہوں اسے نااہل کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لینا چاہئے۔ افغانستان میں جنگ چلتی رہے تو ان کی معیشت چلتی رہتی ہے۔ افغانستان تب تک پرامن نہیں ہوسکتا جب تک وہاں سے بیرونی مداخلت ختم نہیںہوتی۔ ہنری کسنجر نے اپنی کتاب میں لکھا امریکہ اپنے دشمنوں سے تو صرف نظر کر سکتا ہے لیکن اپنے دوستوں کوکبھی معاف نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ خالصتان تحریک کو ختم کرنے کے لئے بھارت نے سکھوں کا خون بہایا۔ کالم نگار ہمایوں شفیع نے کہا کہ افغانستان سے امریکہ کا نکلنا اب اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اگر ٹرمپ یہ اعتراف کر لے کہ امریکہ کی افغانستان بارے پالیسی ہی غلط ہے تو امریکہ کا پھر افغانستان میں رہنے کا جواز نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو تقسیم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کی تحریک جس جذبے سے چل رہی ہے وہ اب دبائی نہیں جا سکتی۔ بھارت کے تو اپنے بہت مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی طور پر خودمختار ہوئے بغیر فارن پالیسی بہتر نہیں کی جا سکتی۔ جس طرح پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہاہے لگتا ہے قوم سوئی ہوئی ہے۔ کالم نگار کاشف بشیر نے کہا کہ جنرل ضیاءنے جس شخص کو موقع دیا آج وہی فوج کو گالیاں دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں طاقت کے محور تبدیل ہو رہے ہیں لیکن پاکستان اب بھی وہیں کھڑا ہے۔ اگر امریکہ اتنا ہی دنیا میں امن قائم کرنے والا ہوتا تو میکسیکو کو ٹھیک کر لیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمرانوں نے قومی غیرت بیچ دی ہے۔ اگر قصور واروں کو سزا نہیں دی جاتی تو یہ ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 69ڈالر فی بیرل ہے اور ایک بیرل میں ایک سو انیس اعشاریہ چوبیس لیٹر ہوتے ہیں اگر اسی تناسب سے قیمت نکالی جائے تو 64روپے فی لیٹر بنتی ہے۔ خام تیل سے جو دوسری اشیاءنکلتی ہیں اس حساب سے 35سے 40روپے فی لیٹر بنتی ہے لیکن عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔ تجزیہ کارمکرم خان نے کہا کہ امریکہ کی معیشت مشرق وسطی پر چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا ایک مکروہ چہرہ ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں اس کے ہمدرد پیدا ہو چکے ہیں بلکہ بڑے مضبوط بھی ہیں۔ میں حیران ہوں پاکستانی چینل پر بیٹھ کر لوگ کہتے ہیں کشمیر میں انڈیا کے لئے اچھے جذبات ہیں۔ حالانکہ کشمیری اپنی آزادی کی جنگ کے لئے بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ بھارت میں جب سے خالصتان تحریک شروع ہوئی ہے بھارت کو وخت پڑ گیا ہے۔ انہوں نے کہا پوری دنیا میں فارن پالیسی پر فوج کو آن بورڈ لیا جاتا ہے۔ ہم اگر کر لیں تو اس میں کیا حرج ہے۔

 

ملتان ،یونیورسٹی کی طالبہ سے زیادتی ،گورنر پنجاب کو فون اور رانا ثناءاللہ سے ملا ہوں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میر ہزار خان بجا رانی اور ان کی اہلیہ کی ہلاکت ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ خبر میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے اگر کمرہ اندر سے مقفل تھا تو یقینا یہ خودکشی کا واقعہ ہو سکتا ہے۔ میر ہزار خان بجارانی وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ میں ان سے اسلام آباد میں مل چکا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ان کی تیسری بیوی تھی۔ جو ایک اخباری ادارے میں کام بھی کرتی تھیں۔ ان کا نام میں نے اخبار جہاں میں پڑھا تھا۔ عام طور پر ہمارے ملک میں اس عمر میں مرد دوسری، تیسری شادی کر لیتے ہیں بڑی سوچ سمجھ کر شادی کرنی چاہئے۔ فرانزک ٹیسٹ کے بعد پتا چلے گا کہ میاں نے گولی چلا کر بیوی کو مارا اور خودکشی کی یا بیوی نے طبع آزمائی کر کے خود کو ہلاک کیا۔ ان شادیوں کا عام طور پرایسا ہی انجام ہوتا ہے۔ ڈکیتی کی واردات نہیں ہو سکتی۔ وہاں کافی تعداد میں گارڈز وغیرہ موجود تھے۔ ویسے وہ ثروت مند انسان تھے ان کے پاس ٹھیک ٹھاک پیسہ دولت موجود تھی فرانزک سے اصل حقائق سامنے آ جائیں گے کیونکہ گولیو ںکا چلنا اور لاشوں کی صورتحال بہت کچھ واضح کر دیتی ہے۔ شاہ زیب قتل کیس میں آج ملزم کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے ہر جگہ محبت کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ماں باپ اپنے قتل ہونے والے بیٹے کی دیت بھی وصول کر سکتے ہیں اور قتل کرنے والا بھی رقم ادا کر دیتا ہے۔ ماڈل ٹاﺅن لاہور سانحہ کے کئی متاثرین سے میں ملا ہوں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں کافی ”آفرز“ آئیں لیکن انہوں نے رقم وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ کافی غریب لوگ اپنے مقتولین کا قصاص نہیں لیتے۔ بلکہ وہ انصاف چاہتے ہوئے ملزمان کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ مجھے کسی شخص نے دولت کا مطلب یوں سمجھایا کہ جس سے رقم لینی ہو۔ دھونس دھمکی، منت سماجت سے نکلوا لو۔ اور جس کے دینے ہیں اس کو ہر گز نہ دو۔ اسے دولت کہتے ہیں۔ میں نے ایک صنعتکار کو دیکھا جس کی 36 صنعتیں ہیں۔ وہ سادا کھدر کے کپڑے پہنتا اور ایک فلیٹ میں رہتا۔ اس کے نام پر کمپنیاں، بینک، صابن پر نام۔ میں نے جب ان سے پلنگ کے بارے کہا تو وہ کہنے لگے میں تو زمین پر سوتا ہوں لاہور میں ایک بڑی فیملی رہائش پذیر تھی۔ خواجہ سلطان وہ کرائم کے وکیل تھے۔ خواجہ حارث جو میاں نوازشریف کے وکیل ہیں۔ ان کے والد تھے۔ ان کا ایک بھائی خواجہ خورشید انور میوزک ڈائریکٹر تھا۔ ایم ایس سی کر کے وہ ممبئی گیا تھا ایک بھائی خواجہ آصف پاکستان ٹائمز اور امروز کا پرنٹر پبلشر تھا۔ تیسرا بھائی پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل تھا۔ خواجہ سلطان کہتے مشہور تھا کہ ڈیڑھ کروڑ جمع کر لو اور جس کو چاہے قتل کر دو اور ان کے پاس چلے جاﺅ۔ وہ کرائم اور فوجداری کے ٹاپ کے وکیل تھے۔ جو ان کے پاس چلا گیا وہ پکڑا نہیں جا سکتا۔ اس لئے ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے۔ ایک سیاست دان ایم انور بار ایٹ لاءایوب خان نے ان کی جج بننے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ کیونکہ انہوں نے اپنی ماں کو تہہ خانے میں بند کر رکھا تھا۔ ایوب خان نے مجھے بتایا کہ میں نے ملٹری والوں سے کہا کہ ایک دم جا کر حملہ کرو اور اس کی ماں کو بازیاب کرواﺅ۔ اس عورت نے کہا میں ان کی سگی ماں ہوں انہوں نے جائیداد کیلئے مجھے قید کر رکھا ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسے جج اور وکلاءگزرے ہیں۔ جنہوں نے دولت کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا۔ ایک اٹارنی جنرل کو رفیق سہگل نے اتنی دولت دی کہ اس نے فوراً نوکری کو ٹھوکر مار دی۔ لہٰذا یہاں انصاف بکتا ہے۔ شاہ زیب کیس میں بھی ایسا ہی ہے۔ جس کے پاس دولت پیسہ ہو گا وہ صاف بچ نکل جائے گا۔ مجھے زندگی نے یہی کچھ سکھایا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری میرے ہمسائے ہیں میں اکثر ان سے ملتا رہتا ہوں۔ میاں نوازشریف کے والد میاں شریف نے جو اتفاق مسجد 187/H ماڈل ٹاﺅن میں بنائی تھی۔ ڈاکٹر صاحب دوپہر تک وہاں بیٹھا کرتے تھے۔ اور وہاں جمعہ کا خطبہ دیتے تھے۔ انہوں نے خود لکھا ہے جب یہ نوازشریف اور شہباز شریف کے ساتھ حج کرنے گئے تو شہباز شریف نے انہیں کندھوں پر بٹھا کر غار حرا کی چڑھائی پر لے کر گئے۔ شریف فیملی ان کی اتنی عقیدت مند تھی۔ معلوم نہیں ان کی ناراضی کی وجہ کیا بنی۔ فرار وہ شخص ہوتا ہے جس کے پیچھے پولیس ہو یا پکڑا گیا ہو یا جیل میں ہو۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو فرار ہونا نہیں کہنا چاہئے۔ وہ بڑی اچھی اُردو بولتے ہیں۔ مولوی حضرات کا اصل کام پیسہ اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں دولت روپوں میں ملے گی۔ وہاں ڈالرز میں ملتے ہیں۔ وہ بے وقوف ہیں یہاں پیسے اکٹھے کریں۔ ایک مرتبہ میں ناروے گیا۔ انہوں نے مجھے منہاج القرآن کی بلڈنگ دکھائی گاڑی تین سے چار منٹ تک اس بڈنگ کے ساتھ ساتھ تیز رفتاری سے چلتی رہی اور منہاج القرآن کی بلڈنگ ختم نہیں ہوئی۔ یہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں واقع تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ میں پیرس میں، جرمنی میںان کی اتنی پراپرٹیاں ہیں کہ اتنہا ہے۔ لوگ انہیں پیسے دیتے ہیں لوگوں نے اپنی عاقبت درست کروانی ہے؟؟؟ پیر سیالوی کو لوگ پیسے کیوں دیتے ہیں۔ جس دربار پر بیٹھتے ہیں۔ لوگ وہاں چندے دیتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے ایک رگڑا دیا اور سیالوی صاحب بیٹھ گئے۔ مشائخ نے انہیں مشورہ دیا کہ پنجاب حکومت (اوقاف) ان کی گدیوں پر قبضہ کر لے گی۔ طاہر القادری کی دولت یہاں کروڑوں میں ہے لیکن یہاں بار بار ڈی ویلیو کی وجہ سے رقم کہاں سے کہاں چلی گئی ہو گی۔ جبکہ بیرون ملک دولت ڈالروں میں ہے وہ کتنی رفتار سے اوپر گئی ہو گی۔ میں 17 تاریخ کے لاہور ڈرامے کے فلاپ ہونے کی وجوہات اچھی طرح جانتا ہوں۔ کس طرح آصف زرداری واپس چلے گئے۔ عمران خان مایوس ہو گیا شیخ رشید نے استعفے کا اعلان کیا اور پھر واپس کر دیا۔ ایک طالبہ جسے بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار نے دوستوں کے ساتھ مل کر بے آبرو کیا اور ویڈیو فلمیں بنائیں۔ اس کے پیچھے ملزم کے ہاتھ بہتت لمبے تھے۔ اس کا باپ، چچا، تایا ملتان بڑے بڑے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اس شخص نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دی۔ لڑکی پہلے تو خاموش تھی پھر جب اس نے ویڈیو کو اس طرح پھیلتے دیکھا تو اس نے درخواست وائس چانسلر کو دی۔ انہوں نے بات نہیں سنی۔ پھر وہ تھانے چلی گئی۔ وہاں انہوں نے بھی نہیں سنی۔ اس کی فلمیں ہمارے نمائندے کو ملتان میں مل گئیں۔ مجھے جب ہمارے نمائندے میاں غفار نے بتایا تو میں نے پروگرام میں بات کی۔ میں نے گورنر پنجاب رفیق رجوانہ بات کرنے کی کوشش کی۔ وہ اسلام آباد پنجاب ہاﺅس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے ساڑھے گیارہ بجے کے وقت مجھ سے بات کی۔ میں نے انہیں بتایا کہ بہاﺅالدین زکریا کے وائس چانسلر سے کہیں کہ ایک لڑکی نے اپنی بدسلوکی کی اپنی درخواست دے رکھی ہے انہوں نے نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے وائس چانسلر سے بات کی۔ وائسچانسلر نے پولیس والی بات کی کہ جہاں بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ ہمارے علاقے میں نہیں آتا۔ وہ یونیورسٹی کی حدود میں نہیں آتا بلکہ وہ پروفیسر شہر میں رہتا ہے۔ میں نے رانا ثناءاللہ نے دو، ڈھائی گھنٹے تک ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ سی سی پی او کو فون کریں۔ میرے پاس (3) فلمیں تھیں۔ میں نے انہیں دکھائیں۔ انہوں نے سی سی پی او کو فون کیا اور مجھے بھی کہا کہ آپ جو چاہیں اس سے پوچھ لیں اور اس کی بات سن لیں۔ سی سی پی او نے کہا کہ ہم نے ملزم علی رصا کے جتنے بھی موبائل کیچر کئے ہیں اس میں وہ ویڈیو موجود نہیں ہے۔ میں نے متاثرہ لڑکی کی ویڈیو رانا ثناءاللہ کی موجودگی میں سی سی پی او کو بھیجی ہے۔ یہ سائبر کرائم کا مقدمہ بنتا ہے۔ اس پر ٹیلی گراف کا مقدمہ بنانا کیس کی رینج ہی ہے۔ اسے کون بجانا چاہتا ہے جو درست مقدمہ میں درج کرنے میں راضی نہیں ہے۔ اس یونیورسٹی کے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کو مبارک ہو۔ وہ بندوں کے حقوق کی تو بات کرتے ہیں، سرائیکی شعبہ کے استاد کا گھر لڑکیوں کو ذلیل کرنے کے لئے استعمال ہوا کرتا تھا۔ آٹھ سال قبل عورت کے ساتھ یہ پکڑا گیا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والی نے اس کے خلاف شکایت کی۔ لیکن لیکچرار کی تنظیم آئی اور اسے صاف بچا کر لے جاتی۔ ڈی ایس پی، صاحبہ شاہد قریشی وغیرہ سے ملی ہوئی ہیں۔ اس لئے مقدمات ہی غلط درج کئے گئے ہیں تا کہ مجرمان آسانی سے چھوٹ جائیں۔ لڑکی کا اصل قصور کیا ہے؟ وہ لرکی یہ کہتی ہے ڈیڑھ سال پہلے جب یونیورسٹی میں داخل ہوا تو میری اس لڑکے سے دوستی ہو گئی۔ ہم ملتے رہے۔ آپس میں جو کچھ کیا باہمی رصا مندی سے کیا۔ 7 ماہ تک میں ناراض رہی کیونکہ میں کہتی تھی کہ مجھ سے شادی کرو۔ وہ لڑکا کہتا تھا میں نے کسی اور جگہ شادی کرنی ہے۔ اس لڑکے نے پہلے بھی اور بہت سی لڑکیوں کے ساتھ اس طرح کیا۔ اس لڑکی کو پتا چلا کہ اس کے دو اور لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا وہ لڑکیاں اپنی عزت اور شرم کی وجہ سے چپ ہیں۔ اس لڑکی نے خود کو بچانے کے لئے یہ معاملہ اٹھا دیا اور پولیس کی درخواست دی یہی بیان اس نے پولیس کے پاس درج کروایا۔ بچیاں جو یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھتی ہیں خدا کے لئے وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بننے والے تعلقات کو محدود رکھیں اور شادی کے لئے اگر کوئی کہتا ہے تو اسے اپنے والدین کے سامنے رکھیں۔ اور خفیہ جگہوں پر جا کر ان کے ساتھ جھک نہ ماریں۔ ورنہ ایسا ہی انجام ہوا کرے گا۔ نمائندہ خبریں ملتان میاں غفار نے کہا ہے کہ ملزم علی رضا کا موبائل جب پولیس کے پاس پہنچا ہے اس میں سے فلمیں ڈیلیٹ ہو چکی تھیں۔ پولیس نے جب اس کے موبائل سے فلمیں پکڑی ہیں تو اس میں ایک خبر کے مطابق 22 اور دوسری کے مطابق 70 فحش فلمیں تھیں جو ساری یونیورسٹی کی تھیں۔ پولیس افسران کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فلمیں موجود نہیں ہیں میں نے سی سی پی او سے ملاقات کی انہیں اس کی تین فلمیں اپ لوڈ کر کے دیں۔ متاثرہ لڑکی پہلے تھانہ گلگشت گئی۔ یہ تھانہ ایلپا بنتا ہے۔ اس کے بعد وہ بی زیڈ تھانے گئی۔ اسی طرح یہ فلمیں ان ہی تھانوں میں گھومتی رہی ان میں سے کسی بھی تھانے کے اہلکار اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرنے میں ملوث ہیں۔ اس واقعہ پر جو مقدمات درج کئے گئے ہیں اس میں چھ افراد کو گرفتار کیا گیا اس میں محمد علی رضا قریشی، پروفیسر اجمل مہار، بینکار عثمان، کندیل اور حیدر شامل ہیں۔ پولیس نے چھاپے بھی مارے ہیں۔ لیکن سارا مواد تو ادھرادھر کر دیا گیا ہے ہمارے پاس تو تتین ویڈیوز ہیں۔ اس کے مطابق 5 تو آسانی سے کلیئر ہو جائیں گے۔ پولیس نے فضول قسم کا سائبر کرائم کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں ضمنی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے پولیس نے ڈھونڈنا ہے۔ پولیس نے اب کہہ دیا ہے کہ یہ وہ لڑکی نہیں ہے جس کی ویڈیو موجود ہے ٹیکنیکلی پولیس نے یہ مقدمہ ختم ہی کر دیا ہے۔