لاہور (نیا اخبار رپورٹ) پیپلز پارٹی تحریک انصاف اور ق لیگ کی طرف سے پنجاب میں سینٹ کا الیکشن لڑنے کے لئے اپنے امیدوار نامزد کرنے پر ن لیگ کے اندر نئی پریشانی شروع ہو گئی۔ تینوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدواروں کی نامزگی اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ پنجاب سے ن لیگ کے ارکان اسمبلی ان سب سیاسی جماعتوں سے رابطے میں ہیں۔ ن لیگ کو پریشانی ہے کہ الیکشن سے پہلے کوئی ایسی گیم نہ ہو جائے کہ پنجاب سے لیگی ارکان اسمبلی اپنے امیدوار کی بجائے کسی اور سیاسی جماعت کے امیدوار کو ووٹ نہ دے دیں۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے دو سال خفیہ اداروں نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پنجاب سے بہت سے ارکان اسمبلی جن میں جنوبی پنجاب سے تعلق سیاسی جماعتوں سے رابطوں میں ہیں اور وہ سینٹ انتخابات میں حکومت مخالف امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ سینٹ الیکشن سے چند روز پہلے ن لیگ نے اپنے ارکان اسمبلی کا اکٹھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایسی حکمت عملی بھی اپنائی جا رہی ہے کہ ارکان اسمبلی کے رابطے ہوئے ن لیگی رہنماﺅں کے کسی اور کے ساتھ نہ ہوں۔ اس ضمن میں باقاعدہ بیورو کریٹس مافیا اور اہم پولیس افسران کی بھی ڈیوٹیاں لگائی گئیں کہ ارکان پر نہ صرف نظر رکھیں بلکہ ان کے فون اور ملاقاتوں کی روزانہ بنیاد پر لیگی قیادت کو رپورٹس دی جائیں۔ ادھر باوثوق ذرائع کا کہنا ہے چیئرمین سینٹ کے حوالے سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرف سے کیے گئے دعوے انتخابات کے بعد غلط ہوتے نظر آئیں گے اور سینٹ کے انتخابات میں ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی بجائے کسی اور طرف سے چیئرمین سینت آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے نیا چیئرمین سینٹ بلوچستان یا کے پی کے سے ہو سکتا ہے اوراس ضمن میں کئی بڑی سیاسی جماعتیں بھی انئے نام کی حمایت کا اعلان کریں گی۔
