لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی، معروف تجزیہ کار نے بول ٹی وی کے اینکر سمیع ابراہیم کے پروگرام میں جوتا بازی کی سیاست کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں صحافت میں آیا تو ایوب خان کا دور تھا۔ اس وقت سے آج تک 50 سال میں بہت حکومتیں دیکھیں مارشل لا اور سیاسی ادوار بھی۔ انہوں نے کہا کہ اس دور کے سیاستدان بہت اونچے قد کے انسان تھے۔ انہوں نے تین مثالیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ضیا دور میں اقتدار سے علیحدگی کے بعد ناصر باغ لاہور میں آئے۔ میں نے انہیں ٹرک میں سوار دیکھا قومی اتحاد کے لوگ ان کے سخت خلاف تھے کسی نے ان کے قریب جا کر دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے جوتے دکھائے مشتعل ہونے کے بجائے بھٹو نے یہ نہیں کہا کہ اس شخص کو مارو بلکہ ازراہ مزاح یہ کہا کہ مجھے معلوم ہے جوتے بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ دوسری بار حکومت ملی تو سب سے پہلے جوتے سستے کروں گا۔ انہوں نے دوسری مثال قومی اتحاد کے صدر اور آج کی معروف سیاسی شخصیت مولانا فضل الرحمن کے والد محترم مولانا مفتی محمود کی دی انہوں نے کہا کہ 1977ءکے الیکشن میں میں اُردو ڈائجسٹ کے ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت سے گرفتار ہوا۔ اور شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں 14 دن گزارے ضیاءالحق کی حکومت آنے کے بعد یہ قومی اتحاد سے پہلے اصغر خان، نسیم ولی خان اور مولانا شاہ احمد نورانی الگ ہو گئے میں نے قومی اتحاد کے نو ستاروں پر سیشن کورٹ میں مقدمہ کر دیا کہ انہوں نے قوم کو فریب دیا ہے اتحاد لیڈر اب اتحاد سے علیحدہ ہو رہے ہیں حالانکہ انہوں نے نظام مصطفی کا وعدہ کیا تھا۔ مفتی محمود قومی اتحاد کے صدر سے اور ایک نوجوان صحافی کی حیثیت سے میرے نام اور کام سے واقف تھے۔ میں بڑے جوش میں ان کے پاس گیا کہ جناب لڑنے آیا ہوں۔ انہوں نے مٹھائی کے ڈبے کی طرف جو کوئی تحفے کے طور پر لے کر آیا تھا اشارہ کیا پہلے مٹھائی کھاﺅ پھر سبز کشمیری چائے پیو پھر میں تمہاری بات سنوں گا۔ وہ بزرگ اور سینئر لیڈر تھے۔ میں نے ان کی فرمائش کی تعمیل کی۔ چائے اتنی مزیدار تھی کہ پھر پندرہ بیس منٹ گزرے اور کچھ اچھی چائے پینے سے میں کچھ نرم پڑ گیا۔ پھر بھی پرجوش انداز میں کہا کہ میں نے آپ سب لیڈروں پر 420 کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ وہ بولے جن تین جماعتوں نے قومی اتحاد چھوڑا۔ میں تو ان جماعتوں میں شامل نہیں پھر مجھ پر اتنا غصہ کیوں۔ پھر ہنستے ہوئے بولے۔ میں تو تمہیں بیٹے کی طرح سمجھتا ہوں چلو کوئی بات نہیں بیٹا ناراض ہو کر باپ سے لڑنے آیا ہے تو بولو کیا کہتے ہو۔ ان کی بات میں وزن بھی تھا اور انداز میں محبت اور خلوص اور نہ ان کے پاس بیٹھے کسی معتقد نے مجھ سے کوئی جھگڑا کیا نہ انہوں نے اس کا بعد میں کبھی گلہ کیا اور آخری ملاقات تک اس طرح محبت اور شفقت سے پیش آتے رہے۔ ضیا شاہد نے تیسرا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ بھاٹی گیٹ کے باہر بڑی سڑک کے کنارے واقع باغ میں ملک امیر محمد خان کے دور میں جماعت اسلامی کا کنونشن منعقد ہوا۔ کچھ بدمعاش جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ حکمرانوں کی شہہ پر آئے ہیں نے نہتے جماعتیوں پر گولیاں برسائیں ایک شخص شہید ہو گیا اور حملہ آوروں نے جلسہ گاہ میں لگے ہوئے لاﺅڈ سپیکروں کے تار کاٹ دیئے۔ میں نے ایک رپورٹر کی حیثیت سے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔ لگ بھگ 12,10 ہزار کا بپھرا ہوا مجمع تھا۔ مودودی صاحب نے کہا کہ جو ساتھی اللہ کے حضور پیش ہو گیا اس کی نماز جنازہ اتنے بجے ہو گی۔ اور بولے ہم جانتے ہیں حملہ آور کس نے بھیجے تھے اس لئے پولیس کے پاس کوئی ایف آئی آر درج نہیں کروائیں گے۔ پھر انہوں نے بردباری اور ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ اے اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ تیرے معصوم بندوں پر کس ظالمانہ طریقے سے اندھا دھند گولیاں چلائی گئی ہیں۔ اے اللہ ہم تیری بارگاہ میں اپنا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔ تو ہمارے ساتھ انصاف کرنا۔ بجلی کے تار کٹ چکے تھے لہٰذا انہوں نے بیٹری سیل والا دستی مائیکروفون سے خطاب کیا۔ وہ جذباتی انداز اختیار کرتے تو 12,10 ہزار ارکان اور متفقین شاید اس قدرطوفان بپا کرتے کہ دونوں طرف سے 20,10 افراد تو ضرور جاں بحق ہو جاتے۔ مگر مولانا مودودی نے کہا کہ جلسے کی کارروائی پھر شروع کی جائے۔ خبریں کے چیف ایڈیٹر نے کہا کہ میں نے اور بہت لیڈر بھی دیکھے سہروردی کو سنا ، آغا شورش اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کی تقریریں سنیں یہ لوگ جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے صبر و تحمل کی تلقین کرتے اور جذبات کی آگ کو بھڑکنے سے بچاتے تھے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ اس دور کے بڑے لیڈر بڑے لوگ تھے۔ اور آج کے بہت سے لیڈر ذہنی قد کے اعتبار سے چھوٹے لوگ ہیں۔ ملک میں جوتوں کی سیاست لاٹھی گولی کی سیاست آ گئی اور آخر میں جمہوریت کے جسم آتش بیانی اور بدلے کی سیاست پر اکسانے والے شاید نہیں چاہتے کہ ملک میں پرامن طور پر الیکشن کا عمل مکمل ہو سکے خدارا سیاست دان مل کر طے کریں کہ گلی کوچوں میں مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی مذموم سیاست نہ کریں اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اختلاف رائے کو برداشت کرنا ہو گا۔