لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا مزاج پرائمری سکول کے بچوں والا ہے، اسکی جگہ کوئی سمجھدار آدمی ہوتا تو اسلام آباد حادثے پر معذرت و افسوس کا اظہار کرتا۔ رسمی معذرت کرنے کے بجائے الٹا ہمارے سفارتکاروں کو دھمکا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چودھری شجاعت حسین کی کتاب پڑھی، اس کو سیاسی یا بناوٹی انداز میں نہیں بلکہ صاف گوئی و سادگی سے بیان کیا گیا۔ انکی شخصیت میں بھی معصومانہ انداز، خاص قسم کی بے تکلفی و سچائی ہے۔ انکی کتاب کی طرح اگر ملکی سیاست میں بھی اتنی صاف گوئی و سچائی آ جائے تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں۔ شجاعت کی کتاب کا حساس حصہ ہے جب مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے محروم کیا، وہ اٹک جیل گئے۔ اس پر لکھتے ہیں کہ اس وقت بہت شور مچا تھا کہ بڑا ظلم ہوا، تشدد ہوا حالانکہ جیل میں ان سے پوچھ کر انکی پسند کے کھانے مہیا کیے جاتے تھے۔ دوسری بات جو پسند آئی، انہوں نے لکھا کہ نواز شریف جب سعودی عرب چلے گئے تو انکی والدہ کراچی جا رہی تھیں کہ انکو روک لیا گیا جس پر میں نے فوری حکم دیا کہ انکو عزت و احترام کے ساتھ جانے دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے جب انہوں نے کہا کہ این آر او کس طرح ہوا؟ جب امریکہ نے مشرف و بےنظیر کی ڈیل کرا دی اور طے ہو گیا کہ اب ق لیگ کا بستر گول کرنا ہے۔ اس پر وہ لکھتے ہیں کہ میں نے امریکہ کے ”منسٹر آف سٹیٹ“ سے پوچھا کہ ہمیں کس نے ہرایا؟ جواب ملا کہ کونڈولیزا رائز اور پاکستان میں بہت سارے لوگ جن میں مشرف و طارق عزیز بھی شامل ہیں۔ تجزیہ کار نے کہا کہ مجھے اس بات کا بہت پہلے پتہ چل گیا تھا جب محمد علی درانی مشرف کے وزیر اطلاعات تھے۔ ایک بار انہوں نے فون پر مجھے بتایاکہ ہم ابوظہبی جا رہے ہیں، وہاں 2گھنٹے میٹنگز ہیں۔ انہوں نے نام تو نہیں بتایا البتہ چند گھنٹوں بعد میں نے انکو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں باہر بیٹھا ہوں اندر سلطان ایان کے صاحبزادے، پرویز مشرف اور ایک بگ گن موجود ہیں، مذاکرات ہو رہے ہیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ کیا مذاکرات ہو رہے ہوں گے۔ بینظیر تو دبئی میں رہتی تھیں، مذاکرات ابوظہبی میں ہو رہے تھے۔ انکے واپس آ جانے کے بعد وزیراعلیٰ ہاﺅس میں محمد علی درانی سے ملاقات ہوئی تو میں نے انکو مشورہ دیا تھا کہ امریکہ نے تو معاملات طے کر لیے ہیں۔ آپ کےلئے بہتر ہے کہ پہلے ہی استعفی دے دیں ورنہ الیکشن سے باہر نکال دیا جائے گا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب دوست محمد کھوسہ نے کہا ہے کہ 2010میں پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کا مطالبہ پیش کیا تھا۔ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا احساس ہے، خود اسی خطے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے علاقے کی آواز تھی اس لیے میں نے ایوان میں اس کو بلند کیا۔ اب جنوبی پنجاب کے لوگوں نے اس پر آواز بلند کی ہے۔ ”دیر آئے درست آئے“۔ ہمارے خاندان و دوستوں کی حمایت اس مقصد کے ساتھ ہے۔ انہوںنے کہا کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جنوبی پنجاب کی 3 ڈویژنوں سے اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کو بلایا تھا اور ان کو لالی پاپ دیا کہ گزشتہ دو ادوار میں چند مشکلات کے باعث جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبہ بننے کےلئے کچھ نہیں کر سکے اگلی حکومت میں ضرور کرینگے۔ 10سالوں میں یہ علیحدہ شناخت نہیں دلوا سکے۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے، اب گھر گھر سے الگ صوبے کی آواز اٹھے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف ابتک حکومت میں نہیں آئی، انہوں نے اپنی خواہشات کا اظہار ضرور کیا ہے کہ اگر اقتدار ملا تو پیش رفت کرینگے۔ 2010میں یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی صوبے کی آواز بلند کی تھی، جس پر ہم نے اعتراض کیا تھا کہ صوبہ زبان یا قومی نہیں بلکہ انتظامی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ 2011 میں نواز شریف نے بہت بڑے جلسے میں وعدہ کیا کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے۔ چند ہی روز بعد یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف نے الگ الگ بہاولپور جا کر ”بہاولپور صوبے“ کی آواز بلند کی۔ یہاں سے ان دونوں کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے، ایک ہی خطے میں رہنے والے لوگوں کو دو صفوں میں تقسیم کر دیا کہ آپس میں لڑیں اور مر جائیں۔ انکی طرز حکمرانی سے ثابت ہو چکا کہ یہ ہر حوالے سے صوبہ نہیں بننے دیں گے۔ انہوں نے جنوبی پنجاب میں نئے اتحاد کے حوالے سے کہا کہ 16, 15 اضلاع بنتے ہیں، جہاں اچھی خاصی ایم پی ایز و ایم این ایز کی تعداد بن جاتی ہے۔ ن لیگ چھوڑنے والوں کی تعداد بارے معلوم نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات جن کو آج برا بھلا کہہ رہی ہیں ان عادی لوٹوں کو شریف برادران نے ہی شامل کیا تھا۔ 2008میں فارورڈ بلاک بنا کر لوٹا بننے کی عادت ن لیگ نے ڈالی تھی۔ 2013میں آزاد و دیگر پارٹیوں کے لوگوں کو انہوں نے ہی حکومت سازی میں شامل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری ہمارے پاس آئے تھے اور پارٹی میں شمولیت کی دعوت بھی دی تھی۔ والد ذوالفقار علی کھوسہ نے مشاورت کے بعد فیصلے سے آگاہ کرنے کا کہا تھا۔ یہاں پیپلز پارٹی کا کردار رہا ہے، ملک گیر جماعت تھی، عالمی سطح پر ان کے کنکشنز نظر آنے تھے لیکن چند لوگوں نے اس کو جس طرح تباہ کیا، کوئی بھی سینئر سیاستدان ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی و تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب کو علیحدہ شناخت دلوانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ لوگوں کی آواز ایوانوں میں بلند کریں۔ ن لیگ کی طرف سے منافقت ہو رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ایک خطہ 70 سال سے محرومی کا شکار ہے۔ ن لیگ صوبے کو ذاتی جاگیر بنا کر رکھنا چاہتی ہے یہ اب نہیں ہوگا۔ سابق سفیر عابدہ حسین نے کہا کہ امریکی سفارتکار کی گاڑی سے ہونے والا حادثہ انتہائی افسوسناک ہے۔ پاکستان کے قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔ امریکی سفارتکار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی کوشش تو کی جا رہی ہے۔ سفارتکار کو بھی چاہیے کہ وہ مقتول کی فیملی سے رابطہ کرے اور اگر وہ دیت پر معاملہ ختم کرنے پر راضی ہوتے ہیں تو انہیں ایک خطیر رقم کی ادائیگی کرے لیکن اگر وہ ایسا نہیں چاہتے تو پھر قانون کے مطابق سزا بھگتنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ پاکستانی سفارتکاروں پر پابندی لگا کر کم ظرفی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ معذرت کرتے تو انکی بھلائی و ہماری دل جوئی ہوتی۔ امریکہ کی ہٹ دھرمی کا نقصان اسے خود ہی بھگتنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ چودھری شجاعت حسین نے پوری زندگی میں کبھی کرپشن نہیں کی۔ اس لیے انکی اور انکی فیملی کی عزت کرتا ہوں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں خود کے ساتھ پیش آنے والے واقعات لکھے، اگر ہم اس طرح نیک نیتی سے اور بناوٹی چیزوں سے بالاتر ہو کر خدمت کریں تو وہ دن دور نہیں جب ہم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کو سینٹ انتخابات سے سبق سیکھنا چاہیے وہ ووٹ کے درست یا غلط کہنے والے کون ہیں۔ 2015 کے سینٹ انتخابات میں لوگوں نے انکو بتا دیا تھا کہ آپ کے رویے سے نالاں ہیں۔ میں نے ایک گروپ بنایا، 6 سنیٹرز لیکر آیا اگر ثناء اللہ زہری و ن لیگ کی مداخلت نہ ہوتی تو 7,8 سیٹیں لاتے۔ نواز شریف نے چیئرمین سینٹ کےلئے پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ سب سے زیادہ خود ن لیگ نے 2 نمبری کی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہاں ٹھیک نہیں ہوا۔ حاصل خان کا اپنا پارٹی بائیکاٹ تھا۔ یہ سنیٹر کیسے بن گیا۔ اگر وہ زبردستی یا پیسے سے ووٹ لیکر آ جائیں تو ٹھیک ہے؟ 35 پنکچر والی کہانی میں ثابت ہوا کہ ووٹ جعلی تھے۔ ن لیگ اپنی غلطیاں نکالے کہ لوگ نالاں کیوں ہیں؟