کوئٹہ (این این آئی، مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے صحت، تعلیم اور پانی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر سابق وزرائے اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو 30اپریل کو اسلام آباد طلب کرلیا جبکہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ صوبائی حکومت گورننس میں ناکام ہے،این ایف سی ایوارڈ کے سب سے زیادہ بلوچستان کو ملے، پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیا؟،سپریم کورٹ نے ڈاکٹرز کی تنخواہ کم ہونے پر ریمارکس دئیے کہ ڈاکٹر کی تنخواہ 24 ہزار جبکہ سپریم کورٹ کا ڈرائیور 35 ہزار لیتا ہے،ڈاکٹرز کو ادائیگی تک سیکرٹری صحت کی تنخواہ بند ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں سماعت کی ۔اس موقع پر چیف سیکرٹری سمیت دیگر اعلی حکام عدالت میں موجود رہے تاہم عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود سابق وزرائے اعلی ثنااللہ زہری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پیش نہ ہوئے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سابق وزرائے اعلی کہاں ہیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کی جانب سے ان کے وکیل عدالت میں موجود ہیں۔عدالت نے طلب کیے جانے کے باوجود پیش نہ ہونے پر سابق وزیراعلی عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنااللہ زہری کو آئندہ سماعت پر اسلام آباد طلب کرلیا۔تاخیر سے پہنچنے پر چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت صالح ناصر سے کہا کہ آپ کس صوبے سے آئے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر صوبے کے لئے کام کریں، ہسپتالوں کی حالت دیکھی ہے آپ نے؟۔چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، سول ہسپتال میں ایک بھی ایم آر آئی مشین نہیں ۔ینگ ڈاکٹرز کے حوالے سے سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ ہاﺅس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کو ہر ماہ وظیفہ دیا جاتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ڈاکٹرز کو 24 ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں، سپریم کورٹ کا ڈرائیور 35 ہزار تنخواہ لے رہا ہے۔چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ڈاکٹرز کی تنخواہ ادا نہیں ہوتی، آپ کی تنخواہ بند ہے۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے مکالمے کے دوران کہا کہ ہسپتالوں میں آلات بہتر رکھیں اور ان کی حالت بہتر بنائیں۔چیف جسٹس نے سیکرٹری تعلیم نذیر آغا سے استفسار کیا کہ صوبے کے دور دراز علاقوں کے سکولوں کی حالت کے بارے میں بتائیں۔ سیکرٹری تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے مکمل پلان ترتیب دیا ہے جسے کابینہ سے منظور کرایا جائے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیشہ یہی پوچھتا ہوں کہ کون تیار کرے گا آپ کا تین سالہ پلان، پانی اور واش روم بننے میں کتنا عرصہ لگ جائے گا۔جس پر چیف سیکرٹری نے کہا کہ تین سال میں 11 ہزار اسکولوں میں واش روم بنا دیں گے، گزشتہ تین سال میں چار لاکھ بچوں کو داخلے دلوائے گئے۔سیکرٹری تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ چھ ارب مل جائیں تو سہولتیں مکمل کر سکیں گے ،حکومت کے زیر انتظام ایک ہزار 135 پرائمری اسکول ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ان سکولوں میں ساری سہولیات ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، 50 فیصد سکولوں میں پانی نہیں، یہی شرح مڈل اور ہائی سکولوں میں ہے۔سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ صوبے میں سرکاری سکولوں کی صورتحال خراب ہے لیکن اتنی بھی نہیں ۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بہترین سکول میں آپ مجھے لے جائیں۔چیف سیکرٹری نے کہا کہ خضدار کے علاقے کٹھان میں ماڈل سکول ہے ، شہر میں سکولوں کا مسئلہ نہیں، خرابی میں اساتذہ بنیادی وجہ ہیں، ہمارے اساتذہ دلچسپی نہیں لے رہے، ٹیچرز پولیٹیکل ونگ بن گئے ہیں۔سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ مجھے اساتذہ کی ایسوسی ایشن سے کوئی تعاون نہیں مل رہا، صوبے میں جے وی ٹیچر 20 گریڈ تک پہنچ جاتا ہے لیکن کارکردگی صفر ہے جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تعلیم سے متعلق پالیسی بنا کر 15 دن میں رپورٹ دی جائے۔گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رہنما مجیب اللہ غرشین نے سماعت کے دوران کہا کہ ہم غیر حاضر اساتذہ کے حق میں نہیں لیکن یہاں جونیئر سینئر کی جگہ آجاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سیاسی مداخلت ختم نہیں کر رہی جس سے معاملہ بگڑ رہا ہے۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس سے پوچھوں وہ دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔چیف جسٹس نے مجیب اللہ غرشین کو خضدار تبادلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جا کر بچوں کو پڑھا ئیں، لیڈری مت کرو، تعلیم اور صحت کے شعبے میں کوئی سیاست قبول نہیں کی جائے گی، ایسا نہ ہو سپریم کورٹ صحت اور تعلیم میں ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دے۔چیف سیکرٹری سے مکالمے کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے سب سے زیادہ پیسے آپ کو ملے، بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیا؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ صوبے میں کوئی گورننس نہیں اور پینڈورا باکس بنا ہوا ہے، میں تو سمجھتا تھا کہ سندھ کی صورتحال ابتر ہے لیکن یہاں تو کوئی حالت ہی نہیں ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پانی کے حوالے سے رپورٹ مکمل کرلی ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل رﺅف عطا نے بتایا کہ کابینہ کا اجلاس ہوا ہے ایک ہفتے میں رپورٹ مکمل کرلی جائے گی۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پالیسی تیار کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے۔ چیف جسٹس نے گنے کے کاشتکاروں کو عدم ادائیگی کا بھی نوٹس لے لیا، رپورٹ طلب کرلی۔