تازہ تر ین

حیرت ہے سیاسی جماعتیں بلدیاتی سربراہوں کو معطل کرنیکی بات ہی نہیں کر رہیں : ضیا شاہد، ملتان کا آر پی او ابو بکر خدا بخش اعلانیہ قادیانی ، اپنوں کو پروموٹ کرتا ہے : سید کفیل بخاری ، بلدیاتی سربراہ فوراً معطل کریں ورنہ الیکشن شفاف نہیں ہونگے : کنور دلشاد ، چینل ۵ کے لائیو پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مشرف کو خطرہ تھا کہ گرفتار کر لیا جائے گا وہ پاکستان نہیں پہنچے سپریم کورٹ نے ان کو یقین دہانی کرائی تھی اس کو انہوں نے ادھوری یقین دہانی قرار دیا کہ ایئرپورٹ سے سپریم کورٹ تک انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا لیکن بعد ازاں کوئی یقین نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کا اگلے 5 سال کے لئے سیاسی طور پر بستر گول ہو گیا ہے۔ اور اب جو ان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر امجد جو ان کے وزیر بھی رہے ہیں۔ مشرف نے پارٹی سے بھی استعفیٰ دے دیا انہوں نے ڈاکٹر امجد کو ایکٹنگ چیئرمین مقرر کر دیا ہے۔ اگر وہ پارٹی میں نہ ہوتے اور الیکشن نہیں لڑتے تو کتنے امیدوار ان کی پارٹی پر الیکشن لڑ رہے ہیں، یہ بات ڈاکٹر امجد ہی بتا سکتے ہیں۔ کیا عملاً اب پارٹی کا سیاسی مستقبل نظر آتا ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر امجد نے کہا ہے پرویز مشرف صاحب نے چیئرمین شپ چھوڑی ہے پارٹی نہیں چھوڑی وہ پارٹی کے قائد بھی ہیں اور چیف پیٹرن بھی ہیں۔ چیئرمین شپ اس لئے چھوری کہ الیکشن کمیشن نے ہمیں کہا تھا کہ ان کا جو ڈس کوالیفکیشن والا کیس ہے سپریم کورٹ نے ان کو ریلیف نہیں دیا۔ سپریم کورٹ نے اپیل پینڈنگ کر دی اس لئے الیکشن کمیشن نے ہمیں کہا کہ جب تک وہ ڈس کوالی فیکیشن والی شرط ختم نہیں ہوتی وہ پارٹی کے چیئرمین نہیں رہ سکتے۔ جس پر مشرف صاحب نے مجبوراً استعفیٰ دیا۔ دوسرا طریقہ یہ بھی تھا کہ جیسے نوازشریف کو نااہل کیا لیکن انہوں نے پارٹی کی صدارت نہیں چھوڑی جب الیکشن کمیشن نے ان کو ڈی نوٹی فائی کیا تو انہوں نے کہا قانون بنوا لیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پارٹی چھوڑنا پڑی لیکن مشرف کو ایک ہی دفعہ سپریم کورٹ نے پوچھا اور انہوں نے کہا کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں، میں اپنی جگہ ایک چیئرمین بنا دیتا ہوں جب میری یہ ڈس کوالیفکیشن کی شرط ختم ہو گی تو میں دوبارہ پارٹی صدر یا چیئرمین بن جاﺅں گا۔ یہ عارضی طور پر انتظام ہے سیاست نہیں چھوڑی پارٹی نہیں چھوڑی کارکنوں کو نہیں چھوڑا۔ وہ ہماری رہنمائی کیا کریں گے ابھی وہ خود میڈیا میں آ کر اعلان بھی کریں گے خود میڈیا میں آ کر اور اس کے علاوہ پارٹی جلسوں سے ویڈیو لنک سے خطاب کریں گے۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ ڈاکٹر امجد صاحب آپ کی پارٹی کی طرف سے کتنے لوگ قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں، کس کس صوبے سے لڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد نے کہا کہ 52 لوگ چاروں صوبوں سشے ہماری پارٹی کی طرف سے ایم این اے کے امیدوار ہیں ان کو ہم نے ٹکٹ دیئے ہیں اور انہوں نے اپنی کمپین شروع کر دی ہے۔ میں بھی ان کے حلقوں میں جاﺅں گا اور پرویز مشرف بھی خطاب کریں گے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کے پی کے اسمبلی میں 52، کراچی میں 50 لوگوں کو پارٹی ٹکٹ کنفرم کئے ہیں کل لاہور میں مرکز اور جنوبی پنجاب کی میٹنگ ہے جس کو کوئی 67 کے لگ بھگ امیدوار ہیں، لوگ تو اسی جوش و خروش سے ہمارے پاس درخواستیں دی ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ الیکشن کمشن کو چاہئے کہ وہ ایاز صادق کی شکایت کا نوٹس لیا وہ قومی اسمبلی کے سپیکر رہے اور مسلم لیگ ن کے اہم ایم این اے بھی رہے اگر ان کے پاس جنیوئن ثبوت ہیں تو ضرور اس پر تحقیقات ہونی چاہئے۔ لیکن مجھے ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ یہی ایاز صادق تھے لاہور میں ان کا طوطی بولتا تھا اور اسمبلی میں بھی ان کے طوطے بولتے تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ آج میری ملاقات ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے ہوئی انہوں نے دو چیزوں کی طرف توجہ دلائی ایک تو انہوں نے کہا کہ میری پارٹی تو سیاست میں حصہ نہیں لے رہی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ انتخابی اصلاحات میں جو پارٹیاں موجود تھیں انہوں نے عملاً کوئی بھی کام نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہی کہ پہلے دھرنے میں جو چودھری شجاعت اور جو اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی انہوں نے جو مجھے یقین دلایا تھا اس کا کوئی کام نہیں ہوا اور تیسری بات یہ کہی کہ نہ صرف یہ کہ سیاسی گورنروں کی موجودگی میں صاف شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے کہ گلی اور محلے میں جہاں ووٹرز گھر سے نکلتا ہے جس سے زیادہ اس کو متاثر کرتا ہے اس کو بلدیاتی منتخب نمائندہ ہے کونسلر ہو یا چیئرمین ہو۔ نکاح کے اندراج سے لے کر اور پیدائش کے اندراج تک اور سڑک کی تعمیر سے لے کر گلی محلے کے کام بلدیاتی اداروں کے پاس ہوتے ہیں لہٰذا وہ سب سے زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے جو بھی ایم این اے اور ایم پی اےسے بھی کہیں زیادہ اس کا اثرورسوخ عام ووٹر پر ہوتا ہے۔ اور جب میں نے ان کو بتایا کہ ہمارے دوست کنور دلشاد نے 2008ءمیں بطور سیکرٹری الیکشن نے خود آرڈر جاری کر دیا جائے ان کو الیکشن کے دوران۔ خود طاہر القادری صاحب نے کہا کہ یہ سب سے زیادہ ضروری کام ہے۔ ان کو معطل کئے بغیر صاف شفاف انتخابات کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
کنور دلشاد نے کہا کہ طاہر القادری نے درست فرمایا ڈاکٹر صاحب کا 15 جنوری 2013ءمیں کامیاب دھرنا ہوا تھا۔ اس میں معاہدہ ہوا تھا کہ سکروٹنی جو ہے جانچ پڑتال کا عمل جو ہے سات دن کے اندر کی بجائے 15دن رکھا جائے گا اور الیکشن کمشین جو اس وقت تھا غیر قانونی اور غیر آئینی تھا اس کو بھی معطل کیا جائے گا وہ بہت بڑا معاہدہ ہوا تھا لاہور میں پریس کانفرنس ہوئی تھی اس میں خورشید شاہ صاحب اور پوری حکومت جو اس وقت تھی موجود تھی۔ مجھے بھی بطور آبزرور طاہر القادری نے بلایا تھا۔ سب نے اتفاق کیا تھا کہ اس کو 15 دن کر دیں گے۔ میں نے کہا بہت آسان ہے۔ معاہدہ ہوا جب حالات تبدیل ہوئے گرد بیٹھ گئی اور طاہر القادری صاحب سپریم کورٹ میں چلے گئے کہ الیکشن کمیشن کو برطرف کیا جائے یہ غیر قانونی ہے جسٹس افتخار چودھری صاحب نے بھی طاہر القادری کی پٹیشن خارج کر دی۔ ہمارا مطالبہ ہے آپ کی وساطت سے کہ فوری طور پر لوکل گورنمنٹ کا سسٹم غیر فعال، مفلوج کر دیا جائے ان کی موجودگی میں شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ہمارا پولنگ سٹاف کا تیسرا حصہ اس کا تعلق بھی لوکل گورنمنٹ کے اداروں سے ہے اور اسی طرح شہباز شریف نے جاتے جاتے جو 3 لاکھ کے لگ بھگ جو کنٹریکٹ پر تھے ان کو بھی کنفرم کر دیا۔ لوکل گورنمنٹ کا جو سسٹم ہے فوراً معطل کیا جائے اس الیکشن کمیشن سے ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو اس میں ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت نے خواہ پیپلزپارٹی ہو یا پی ٹی آئی۔ دھاندلی کے خلاف سب سے زیادہ تحریک تو پی ٹی آئی نے چلائی تھی۔ کنور دلشاد نے کہا ہے کہ بلدیاتی اداروں سے سب کے فوائد ہیں۔ خیبر پختونخوا میں لوکل گورنمنٹ میں ان کا کنٹرول ہے۔ پنجاب میں نوازشریف کا فائدہ وہ بھی خاموش ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی رورل ایریا میں ہے اس کو سارے فائدہ اس کو نظر آ رہے ہیں اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے پارٹیاں خاموش ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میاں غفار نے ملتان سے بتایا کہ یہاں اس بات پر نارضگی پائی جاتی ہے، لوگوں کو اعتراض ہے کہ خدا بخش جو آر پی او ملتان بنائے گئے ہیں ان کا تعلق شاید قادیانیوں سے ہے۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ شہباز شریف جو ڈیرہ غازی خان میں جو الیکشن لڑ رہے ہیں اویس لغاری کے حلقے میں وہاں بھی ان کے بھانجے یا بھتیجے جو ہیں وہ پولیس افسر سربراہ بنائے گئے ہیں ان کا تعلق بھی قادیانی مذہب سے ہے۔ آپ کی تنظیم جس کا بڑا مقام ہے جس نے ختم نبوت کی تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ کیا آپ نے اس معاملے پر غوروفکر کیا ہے اور کس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ کفیل بخاری نے کہا کہ ملک ابوبکر خدا بخش کھوکھر کا اعلانیہ قادیانی ہے ہمیں کسی قادیانی پر ذاتی طور پر اعتراض نہیں ہے۔ وہ ملازمتوں میں موجود ہیں جب وہ اپنی حقوق سے تجاوز کر کے مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں اور آئینی طور پر وائلیشن کرتے ہیں تو اس کا ہم نوٹس لیتے ہیں یہ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔ ابوبکر خدا بخش کھوکھر خوشاب میں رہے تو وہاں پر ان کی کارکردگی انتہائی قابل اعتراض رہی وہاں انہوں نے ایک مسلماننوں کی مسجد پر قادیانیوں کا قبضہ کرایا اس پر عدالتی کارروائی عل رہی تھی مسلمانوں نے عدالت میں درخواست دی ہوئی تھی کیس چلتا رہا۔ یہ قادیانیوں کو پروموٹ کرتے رہے اور اس مسجد کے جو متولی تھے سید اطہر شاہ صاحب وہ اب بھی وہاں موجود ہیں ان کو خاصا ہراساں کیا گیا اور اس کیس کو انہوں نے مداخلت کر کے خراب کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ کے فضل سے وہ کیس مسلمانوں کے حق میں ہو گیا اور مسجد کی رجسٹریشن بھی مسلمانوں کے حق میں ہو گئی۔ خوشاب ہمارا بڑا حساس علاقہ ہے کیونکہ یہاں پر ہمارے ایٹمی اثاثے ہیں، ملکی دفاع کا مسئلہ ہے تو وہاں جتنا بھی ایٹمی مرکز ہے وہاں آس پاس انہوں نے قادیانیوں کو بڑے وسیع پیمانے پر انہوں نے انہیں لے کر دیں یہ ہمارے نیو کلیئر پروگرام کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر بھی اس مسئلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں، زاہد ملک کی کتاب میں ہی اس پر کمنٹس کئے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچانے والے لوگ ہیں۔ یہ شیخوپورہ بھی گئے وہاں بھی ان کی سرگرمیاں قادیانیوں کو پروموٹ کرنے کے حوالے سے نہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں اس کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ ملتان میں یہ کیا کرتے ہیں ڈی جی خان کا معاملہ میرے پاس ابھی کلیئر نہیں ہوا وہاں کون صاحب گئے ہیں۔ شہباز شریف وہاں الیکشن لڑ رہے ہیں کہا جا رہا ہے کہ کوئی وقاص صاحب ہیں لیکن ابھی کنفرم نہیں ہوا۔ شہباز شریف کا یہ خاص آدمی ہے خدا بخش خاص طور پر ان کے پسندیدہ لوگوں میں رہے ہیں ان کو خاص مقامات پر تعینات کر کے کام لیا جاتا ہے۔ قصور میں جو کیس ہوا تھا بڑا دردناک اس میں بھی ان کو انکوائری میں شامل کیا گیا۔ پھر احتجاج پر ان کو ہٹایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ختم نبوت معاملے میں این جی او پلڈ اٹ بہت زیادہ متحرک تھی۔ قادیانیوں کو سیاست میں لانا عالمی استعمار کا پرانا ایجنڈا ہے وہ کسی کو بھی استعمال کر سکتے ہیں، نوازشریف کو بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ختم نبوت بل پر اسمبلی کے ممبران نے بغیر پڑھے دستخط کر دیئے، عوامی احتجاج و شیخ رشید نے آواز اٹھائی تو تبدیلی کو واپس لے لیا گیا، اب بھی کوشش چل رہی ہے لیکن یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ قادیانی اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں، اقلیتی نشستوں پر الیکشن لڑیں کوئی اعتراض نہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain