لاہور (رپورٹ: ازھر منیر سے) مسلمان کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کائنات کا مرکز اور مذہبی مرکز مکہ مکرمہ ہے جہاں خانہ کعبہ شریف ہے لیکن جنوبی پنجاب میں آکر آباد ہونےوالا سندھی آباد کار ظہور احمد دھریجہ یہ اعزاز مکہ مکرمہ سے چھین کر ملتان کو بخش رہاہے، اس کا کہنا ہے کہ کائنات کا مذہبی مرکز ہونے کا اعزاز (نعوذ باللہ) ملتان کو حاصل ہے، اسی طرح اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ پیدائش کے وقت اس کے کانوں میں اذان دی گئی تھی یا خواجہ فرید کی کافی سنائی گئی تھی، مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ شمس تبریزؒ کو وہ کوئی حقیقی مسلمان شخصیت نہیں بلکہ ہندوو¿ں کے سورج دیوتا کا ایک روپ قرار دیتا ہے، یہ باتیں سینئر صحافی ازھر منیر نے دھریجے اور اس کے ساتھیوں کی کتابوں میں درج باتوں کے حوالے سے اپنے تحقیقی مضمون میں بیان کی ہیں جو آج کے خبریں کے ادارتی صفحہ پر ملاخطہ کیا جاسکتا ہے ،ازھر منیر نے مزید بیان کیا کہ ظہور دھریجہ اصل میں سندھی آباد کار ہے ، جو جنوبی پنجاب میں آکر آباد ہوا اور لسانی تعصب پھیلانے اور اس علاقے کے لوگوں کو پنجابی اور سرائیکی کے نام پر لڑانے کے مشن پر مامور ہے، ظہور دھریجہ مسلمان فاتح محمد بن قاسم کو غیر مسلم سکندر کی صف میں رکھتے ہوئے حملہ آور اور لٹیرا قرار دیتا ہے جبکہ اسکے حواری اکرم مرانی راجہ داہر کو ہیرو اور ”سرائیکی وسیب“ کی آزادی اور بقا کی جنگ لڑنے والا قرار دیتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے اقتدار کو غلامی کا دور کہتے ہیں دھریجے نے اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ 14اگست ہمارے لئے یوم آزادی نہیں یوم غلامی ہے، دھریجہ شاعر مشرق کو حقارت سے” انگریزوں سے سر کا خطاب حاصل کرنے والا “قراردیتا ہے اور اس بات پر دکھ کا اظہار کرتا ہے کہ نصاب کی کتابیں علامہ اقبال ؒ کی تعریفوں سے بھری پڑی ہیں، یہی نہیں اسلامی تشخص کے حوالے سے وہ بہاولپور کے نواب کو علامہ اقبال سے برتر قرار دیتا ہے، اردو کے بارے میں دھریجے کا کہناہے کہ یہ قوم کو غلامی کے سواکچھ نہیں دے سکی، یہ چوں چوں کا مربہ ہے جس نے دوسری زبانوں سے لفظ خیرات کے طور پر لئے، یہ دشمن ملک کی زبان ہے، سندھی آباد کار ظہور دھریجہ کا شیخ مجیب الرحمن کے پیروکاروں سے اپنا رشتہ جوڑتے ہوئے کہنا ہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی اور مغربی پاکستان میں سرائیکی سے ظلم ہوا، قائد اعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے بارے میں وہ یہ شر انگیزی بھی کرتا ہے کہ انہوں نے بہاولپور کے نواب کو ”نوکری“ کیلئے درخواست دی تھی۔ازھر منیر نے تحقیق کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ 1962ءسے پہلے جنوبی پنجاب میں سرائیکی نام کی کوئی زبان نہیں تھی، یہ اصل میں سندھی زبان کی چھ بولیوں میں سے ایک بولی کا نام ہے، جس کا پودا جنوبی پنجاب کے لوگوں کو آپس میں لڑانے کیلئے سندھ سے لاکر یہاں لگایا گیا، تازہ مردم شماری میں پنجاب کے 69.67فیصد باشندوں نے اپنی زبان پنجابی لکھوائی جبکہ اسکے مقابلے میں فقط 20.68 فیصد نے اپنی زبان سرائیکی لکھوائی ۔