لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نیب کی ہر تیسرے، چوتھے روز کوئی نئی لسٹ سامنے آ جاتی ہے لیکن اب اس پر تنقید شروع ہو گئی ہے۔ نیب قوانین میں تبدیلی کیلئے 20 ایم این ایز پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے تا کہ نیب کو مزید مو¿ثر ادارہ بنایا جا سکے۔ نیب کے سربراہ کو چاہئے کہ وہ اپنے ادارے کا جائزہ لیں کیونکہ سابق پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر نے کہا ہے کہ نیب میں ساری بھرتیاں پرانے دور کی ہیں جو کام نہیں کرنے دیتے۔ سابق چیئرمین نیب قمر زمان چودھری نے نوازشریف کو بچانے کیلئے کئی کیسز ٹائم بار کرائے، سب سے پہلے ان کی پراسیکیوشن ہونی چاہئے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، نیب کو ایک مداخلت کے بغیر کام کرنے والا اور مستقل ادارہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل مجھے بڑے فون آ رہے ہیں۔ گزشتہ روز ڈی جی خان سے 2 فون آئے، لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا اخبار و چینل پر حکومت کی تعریف اور اپوزیشن کی مذمت ہوتی ہے۔ یہ غلط ہے ہم نے کبھی اپوزیشن کی مذمت نہیں کی بلکہ میں نے اپنی کتاب میں ایک پورا باب رکھا ہے جس میں لکھا کہ میں نے کبھی نوازشریف کو مجرم نہیں کہا، یہ کہا کہ ان پر الزام ہیں وہ غلط ہیں یا درست یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ دنیا کی کون سی ایسی جمہوریت ہے کہ حکومت کو آئے دو مہینے ہوئے ہوں اور مولانا فضل الرحمان عدم اعتماد کے ووٹ کی فکر کرنے لگیں۔ حکومت 5 سال کے لئے آئی ہے۔ عام طور پر ایسی باتیں چوتھے سال میں شروع ہوتی ہیں کہ حکومت ناکام ہو گئی۔ حکومت کو 2 مینے ہوئے ہیں اور اس کے خلاف مشترکہ تحریک چلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آصف زرداری شہباز شریف کا ہاتھ پکڑ کر ایوان میں داخل ہوئے، خوش گپیاں کر رہے تھے۔ شہباز شریف نے اپنے دور اقتدار میں کہا تھا کہ زرداری کا پیٹ پھاڑ کر ملک کی لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا اور واپس لاﺅں گا۔ بڑے بھائی کی ایک بار زرداری سے صلح ہو گئی، کھانے پر مدعو کیا تو ہیلی پیڈ سے خود نوازشریف گاڑی چلا کر آصف زرداری کو جاتی امراءمیں لے کر آئے، اس وقت بھی شہباز شریف موجود نہیں تھے۔ کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ پیپلزپارٹی کے لوگ شہباز شریف سے ان کے بیانات کی وجہ سے خفا ہیں۔ وہی شہباز و زرداری آپس میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایوان میں آتے ہیں۔ میں نے شہباز شریف یا اپوزیشن کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ میرا یہ کہنا ہے کہ حکومت کو کام کرنے کا موقع دینا چاہئے اگر عوام سمجھیں کہ وہ ناکام رہی تو آئندہ الیکشن میں اسے نکال باہر کریں۔ شہباز شریف اتنی دفعہ کہا تھا کہ اگر لوڈ شیڈنگ و پانی کا مسئلہ فتح نہیں ہوا تو میرا نام بدل دینا، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر زرداری کا پیٹ پھاڑ کر ملک کی لوٹی دولت واپس نہ لایا تو میرا نام بدل دینا، اب شہباز شریف سب سے پہلے تو اپنا نام تبدیل کریں۔ شریف برادران اپنے دور اقتدار میں خود آصف زرداری کی سوئٹزرلینڈ میں بڑی دولت کو تحفظ دیتے رہے۔ اب آپس میں ملنے کی بات کرتے ہیں۔ ہمارا اخبار و چینل حکومت کی بے جا حمایت یا مخالفت نہیں کرتا، ہم کہتے ہیں کہ حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے پھر تنقید کریں۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے کہ ابھی دلہن آ کر بیٹھی ہی ہے اور طلاق کی باتیں شروع ہو گئیں۔ عمران خان کی حکومت کو سپورٹ کرتا ہوں، کرپشن کے خلاف مہم کو بھی سپورٹ کیا تھا، آج بھی اگر ان کی پارٹی میں کرپشن پائی جاتی ہے تو ہمارا اخبار و چینل مخالفت کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی میں نوک جھونک، جملے بازی ہونا جمہوریت کا حسن ہے، ساری دنیا کی اسمبلیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ نیب میں پیشی والے دن سلمان شہباز کے بیرون ملک چلے جانے پر انہوں نے کہا کہ جو باہر جا سکتا ہے وہ چلا جائے گا، این آر ہو یا نہ ہو۔ پیپلزپارٹی، نون لیگ پہلے حساب دیں کہ کس طرح ملک چلاتے رہے۔ سابقہ حکومتوں نے کبھی کھوج لگانے کی کوشش کی سڑکوں پر کتنی جعلی نمبر پلیٹس والی گاڑیاں گھوم رہی ہیں۔ آزاد کشمیر کی نمبر پلیٹ والی سمگل شدہ گاڑیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ میرے صاحبزادے امتنان شاہد نے اپنی سیکنڈ ہینڈ گاڑی مجھے دی، پتہ چلا کہ اس کے کچھ ٹوکن واجب الادا ہیں۔ میں نے اسی وقت ایک لاکھ 19 ہزار کا چیک دستخط کیا۔ یہاں کوئی ٹوکن ٹیکس نہیں دیتا، رجسٹریشن نہیں کرائی جاتی۔ کبھی کوئی غریب، سفید پوش، مڈل کلاس آدمی جرم نہیں کرتا، وہ بجلی، گیس و پانی سمیت سارے بل ادا کرتے ہیں۔ گاڑی ہو یا موٹر سائیکل، ٹوکن ٹیکس دیتے ہیں اور رجسٹریشن بھی کرواتے ہیں۔ میں نے اپنی کتاب میں نشاندہی کی ہے کہ سابق وزیراعظم نوامشریف کی کتنی گاڑیاں غیر سجرٹرڈ نہیں اور ان کو موٹر سائیکلوں کے نمبر لگے ہوئے تھے، ان کی پارٹی کے اسمبلی ارکان کتنے ٹیکس دیتے تھے یا اپنی گاڑیوں کی رجسٹریشن کراتے تھے۔ افغانستان و ایران سے سمگل شدہ گاڑیاں کوئٹہ، پشاور سے لے کر استعمال کرتے ہیں۔ قانون کی پاسداری صرف غریب آدمی کرتا ہے، بڑے لوگوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ میرے پاس ملتان و کراچی سےتعلق رکھنے والے سابق وزرائے اعظم کے نام ہیں جن کی گاڑیوں کو جعلی نمبر لگے ہوتے تھے۔ یہاں قانون غریب کے لئے ہے، بڑے آدمی کا بیٹا باہر چلا جاتا ہے، پتہ چلتا ہے صبح اس کی پیشی تھی۔عمران خان کو چاہئے کہ سب سے پہلے سرکاری محکموں کا حلیہ درست کریں۔ جرگے کے حکم پر مویشی چوری کے الزام میں 2 نوجوانوں کو انصاف کے نام پر فرسودہ آف آس جھیل کے گہرے پانی میں رسیوں سے باندھ کر پھینکنے کے واقعہ پر انہوں نے کہا کہ یہ جہالت ہے۔ یہاں گلی محلوں میں عام لوٹا گھومانے والے مل جائیں گے، کسی کے چوری ہوتی ہے تو وہ لوٹے والے کو بلا لیتے ہیں وہ دم درود کرتا ہے کہ جس کی طرف لوٹے کی ٹوٹی گھومے گی وہ چور ہے۔ ہمارا ملک پڑھے لکھے جاہلوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر السر ہے یا پیٹ میں تکلیف ہے تو وہ دم درود سے کیسے ٹھیک ہو جائے گا اس کا علاج کروائیں۔ قائداعظم سے ایک آسٹریلین صحافی نے پوچھا تھا کہ آپ کا آئین کیا ہو گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا آئین 1300 سال پہلے ہی آ گیا تھا، وہ اسلامک قانون ہے۔ ملک کے ہر گلے کوچے میں دم درود، ٹوٹکے کرنے اور کروانے والے مل جاتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ شہباز شریف آصف زرداری کے خلاف بہت کچھ کہتے رہے، اسی لئے ان کو وزیراعظم کے امیدوار کیلئے ووٹ نہیں دیا تھا۔ جب پارلیمان میں آتے ہیں تو پھر سلام دعا ہو جاتی ہوتی ہے۔ وقت بڑا ظالم و عجیب ہوتاہے، اب شہباز شریف کو وقت نے کہاں لا کر کھڑا کیا ہے؟ شہباز شریف زرداری کے خلاف ماضی میں بہت کچھ کہتے رہے البتہ سیاست میں ایسی باتوں سے گریز بہتر ہوتا ہے۔ اب شہباز شریف کو بھی احساس ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ شریف برادران کا ساتھ دیا۔ جب مشرف سے معافی مانگ کر گئے۔ اس وقت بھی بے نظیر نے میثاق جمہوریت کے ذریعے ان کو مشکل سے نکالا، تیسری بار وزیراعظم بننے والی شرط بھی ختم کی، نواز و شہباز نے پی پی سے معافی بھی مانگی لیکن میثاق جمہوریت کے بعد دوبارہ پھر ان سے غلطیاں ہوئیں۔ انہوں نے کہا عمران خان آج کل جو پی پی و نون لیگ کی قیادت بارے زبان استعمال کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔ عمران خان کوئی اوپر والی مخلوق نہیں۔ ان کو بھی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا حکومت کے خلاف عدم اعتماد ووٹ لانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ جتنی اپوزیشن مضبوط ہو گی، اتنی ہی جمہوریت مضبوط ہو گی۔ ہم چاہتے ہیں عمران خان خودکشی نہ کریں کیونکہ انہوں نے کہا تھا ”اگر میں نے آئی ایم ایف سے کوئی استدعا کی تو خود کشی کر لوں گا۔“ سیاستدانوں کو ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہئے۔ عمران خان بہت لمبی لمبی چھوڑتے رہے، اتنے وعدے کر بیٹھے ہیں، جس کے لئے ان کی کوئی تیاری نہیں تھی، وہ ابھی تک کنٹینر سے نہیں اترے۔ تحریک انصاف میں جمہوری رویوں کا فقدان ہے، اب انہیں میچورٹی کی طرف آنا چاہئے۔ حکومت کبھی بھی کسی چیز کو اشتعال انگیزی کی طرف نہیں لے کر جاتی۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ”سن لو میں نہیں چھوڑوں گا“ دھمکیاں اپوزیشن دیا کرتی ہے، حکومت صبر و تحمل سے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ وزیراعظم و وزراءجو زبان استعمال کر رہے ہیں سب کے سامنے ہے۔