تازہ تر ین

کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد: ’اب یاتریوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہو گی‘

لاہور (ویب ڈیسک)انڈیا کے نائب صدر ونکیا نائیڈو اور انڈین پنجاب کے وزیراعلی امریندر سنگھ نے پیر کو کرتارپور راہدرای کا سنگِ بنیاد رکھ دیا ہے۔ڈیرہ بابا نانک میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعلی کیٹپن امریندر سنگھ نے کہا کہ اب یاتریوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اب براہِ راست زیارت ہو سکے گی۔انڈیا کے نائب صدر ونکیانائ?ڈو نے کہا کہ انڈیا پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، تاہم کسی بھی قسم کی دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔کرتارپور کوریڈور کے حوالے سے پاکستان میں راہداری کا سنگ بنیاد بدھ کو رکھا جائے گا۔ اس تقریب میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان شرکت کریں گے اور انڈیا کی جانب سے وزرا ہرسیمرت کور اور ہردپپ سنگھ پوری اس پروگرام میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔پاکستان کی سرحد سے 100 میٹر کے فاصلے پر انڈین ریاست پنجاب کے ضلع گروداس پور میں ڈیرا بابا نانک ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے جلد ہی پاکستان کے کرتارپور صاحب گرودوارے جانے والے زائرین کے لیے کوریڈور، یعنی راہداری بنائی جائے گی۔پیر کو ہونے والی ایک تقریب میں اس راہداری کا سنگِ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ اس تقریب میں انڈیا کے نائب صدر وینکیا نائیڈو اور پنجاب کے وزیر اعلی امریندر سنگھ شرکت کر رہے ہیں۔اس کے لیے ڈیرا بابا نانک میں تقریبا دو درجن افراد تیاریوں میں مشغول نظر آتے ہیں جبکہ علاقے میں بڑے پیمانے پر سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔پیر کو منعقد کی جانے والی اس تقریب کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے دو روز بعد یعنی 28 نومبر کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی سرحد کے دوسرے پار سے اسی کوریڈور کی بنیاد رکھیں گے۔کرتارپور صاحب پاکستان کے حصے میں ہے جبکہ انڈین سرحد سے اس کا فاصلہ محض ساڑھے چار کلو میٹر ہے۔اب تک کچھ عقیدت مند دوربین سے کرتارپور صاحب کا دیدار کرتے رہے ہیں۔ یہ کام اب تک انڈیا کی سرحدی فورس بی ایس ایف کی نگرانی میں ہوتا رہا ہے۔سکھ عقیدت مند کہتے ہیں کہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک سنہ 1522 میں کرتارپور گئے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال وہیں گزارے۔یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس جگہ گرو نانک کا انتقال ہوا اسی جگہ ایک گرودوارہ تعمیر کیا گیا تھا۔اب جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان کرتارپور صاحب کے لیے کوریڈور بنانے پر اتفاق ہوا ہے، مقامی لوگوں میں اس کے متعلق کچھ تشویش پائی جاتی ہے۔اس کی وجہ بظاہر علاقے میں اچانک سکیورٹی فورسز اور دوسرے آنے والے لوگوں کی بھیڑ میں اضافہ ہے۔دور سے ہی عقیدت مند گرودوارے کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔بی ایس ایف کے ایک افسر نے بتایا: ‘ابھی تک جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ ادھوری ہیں۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ کس قسم کا کوریڈور بنے گا اور اس کا راستہ کس جانب سے ہوگا۔’علاقے کے ایک کسان ہربھجن سنگھ نے کہا: ‘رب کی مہر سے ہم آج یہ دن دیکھ رہے ہیں کہ سرحد پر چہل پہل بڑھی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ کوریڈور سے ہمیں فائدہ پہنچے گا۔ لیکن پتہ نہیں کہ اوپر والے نے ہمارے نصیب میں کیا لکھا ہے۔’تاہم بہت سے لوگ اس معاملے پر پرجوش نظر آ رہے ہیں۔
اس کی وجہ وہ رپورٹیں ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ زائرین کی آمد و رفت سے اس علاقے کی جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔گرودوارے کے باہر بیرا کھلونے بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘یہاں کبھی 1500 سے زیادہ لوگ نہیں آئے۔ لیکن جب سے کوریڈور بننے کی بات ہوئی ہے لوگوں کی آمد میں یکایک اضافہ ہو گیا ہے۔‘’یہ تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا کہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں لیکن اب تک جو ہو رہا ہے اسی کا مزا لیا جائے۔’قریبی گاو¿ں کے جوگیندر سنگھ کا بھی یہی خیال ہے۔ اس علاقے میں ان کی زمینیں ہیں۔انھوں نے کہا: ‘یہ سب دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن ہماری تشویش یہ ہے کہ کہیں ہمیں یہاں سے ہٹا نہ دیا جائے۔ کیونکہ آنے والے وقت میں یہاں سیاحوں کی بھیڑ بڑھے گی۔ امید ہے کہ گرو نانک ہمارا خیال رکھیں گے۔’سرحد پر تعینات ایک بی ایس ایف افسر کو سرحد پر پہلی مرتبہ تعینات کیا گیا ہے۔ ان کے خدشات مختلف ہیں۔وہ کہتے ہیں: ‘اس علاقے میں سرگرمیوں میں اضافے سے ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی۔ ہمیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی۔’پاکستان میں سکھوں کے دوسرے مذہبی مقامات جیسے ڈیرہ صاحب، لاہور، پنجہ صاحب اور ننکانہ صاحب کے برعکس کرتارپور صاحب انڈو پاک سرحد کے قریب واقع ہے۔تقسیم ہند میں یہ گرودوارہ پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔لاہور سے نکل کر گرودوارے کی جانب بڑھنے پر سبز کھیت آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ بچے کھیتوں میں کھیلتے ٹیوب ویل سے پانی پیتے نظر آتے ہیں۔ انھی کھیتوں کے درمیان ایک سفید رنگ کی شاندار عمارت نظر آتی ہے۔
گرودوارے میں ایک کنواں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ گرونانک کے زمانے سے ہے اور عقیدت مند اس کا خاصا احترام کرتے ہیں۔کنویں کے پاس ایک بم کے ٹکڑے کو شیشے میں سجا کر رکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنہ 1971 کی جنگ میں یہ بم یہاں گرا تھا۔یہاں کے خدمت گاروں میں سکھ اور مسلم دونوں شامل ہیں۔دریائے راوی میں سیلاب کی وجہ سے گرودوارے کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ 1920 سے 1929 کے درمیان مہاراجہ پٹیالہ نے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔ اس وقت اس پر ایک لاکھ 35 ہزار روپے کا خرچہ آیا تھا۔سنہ 1995 میں حکومت پاکستان نے اس کے بعض حصوں کو دوبارہ بنوایا تھا۔
انڈیا اور پاکستان نے کرتارپور صاحب کے بارے میں سنہ 1998 میں پہلی بار بات کی تھی۔ اب 20 سال بعد اس سمت اہم قدم اٹھایا جا رہا ہے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain