لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کاایک اقدام کیا گیا ہے کہ جس کا اقدام ہونا چاہئے تھا ایسی کون سی مصروفیت ہے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی کہ وہ کرتار پور بارڈر پر کوریڈور کے افتتاح کی تقریب میں نہیں آ سکتیں۔ ان سے بات کرو تو اپنے لاہور اور پنجاب سے تعلقات جتاتی ہیں کہ پنجابی میں کہتی ہیں کہ ”میں دلی دروازے لاہور دی آں، اوتھے ساڈی حویلی ہوندی سی“ اب جبکہ ایک اور بارڈر کھلنے والا ہے اور سکھ بہت خوش ہیں ان کے متبرک مقامات ہیں اور یہ انہی کے لئے کھولا جا رہا ہے اس موقع پر سشما سوراج کا نہ آنا اوریہ کہنا کہ اعلیٰ سطح کا وفد بھیجیں گی۔ کون سا اعلیٰ سطح کا وفد ہے ہمارے وزیرخارجہ نے آپ کو بلایا ہے آپ ان کی ہم منصب ہیں آپ کو آنا چاہئے تھا نہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھیج دینا چاہئے۔ اتنا دکھ کا مقام ہے کہ اتوار کے روز آٹھ لوگ شہید کئے تھے مسلمان۔ انڈیا نے اپنی نہیں چھوڑی۔ مقبوضہ کشمیر میں انڈین فوج ظلم اور تشدد کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے 4 اور بے گناہ مسلمان شہید کر دیئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ پاکستان جو کوشش کر رہا ہے اپنی طرف سے سکھ آبادی تواس پر بڑی خوش ہو گی وہ وفد میں بھی اب تک جو ٹی وی چینلز پر باتیں سنی ہیں انہوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا ہے لیکن بھارتی حکومت نریندر مودی کی حکومت اس سے خوش دکھائی نہیں دیتی بلکہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام کی کارروائی مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی بیک گراﺅنڈ ہے ایک زمانے میں سکھوں نے انڈین حکومت کے خلاف بڑی بغاوت کر دی تھی بھنڈراں والا کی قیادت میں جو ان کا جو متبرک مقام ہے امرتسر سے بھی باقاعدہ طور پر جلسے جلوس اور اس قسم کے احتجاجی مارچ ہونے لگے تھے اور سکھ انڈیا سے خوش نہیں پوری دنیا کینیڈا، برطانیہ، امریکہ اور یورپ کے کسی بھی ملک میں دیکھ لیں سکھ وہ انڈین گورنمنٹ کے خلاف لائن لیتے ہیں اور آزادی چاہتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ ہم انڈیا کی متعصبانہ پالیسی ہے آپ کویاد ہو گا کہ جب مقبوضہ کشمیر میں مظالم ہو رہے تھے تو دہلی میں جن لوگوں نے ان مظالم کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے ان میں کچھ ایسے ہندو بھی شامل تھے جو اس پالیسی کو پسند نہیں کرتے لیکن اس میں بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کی تھی۔ سکھ جو ہیں وہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اور کشمیر کے مسلمانوں کے یہ مطالبات کہ ان کو آزادی دی جائے سکھ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ خالصتان بنانے کی تحریک آج سے نہیں شروع ہوئی یہ پچھلے 40,30 برس سے شروع ہے اور خالصتان پر بڑی کتابیں ملتی ہیں امریکہ میں آپ دیکھیں تو آپ کو کسی بھی بڑے بک سٹال پر جس نے خود خریدی ہیں جو خالصتان کے حوالے سے خاص طور پر جو کینیڈا کے رہنے والے سکھ ہیں وہ اس میں بڑے پیش پیش ہیں انہوں نے باقاعدہ فلمیں بنائی ہوئی ہیں جو انڈیا میں سکھوں کی آزادی کے حق میں جلسے جلوس کرتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 3,2 پنجابی چینل بنائے ہووئے ہیں جن پر دن رات انڈین گورنمنٹ کے جو مظالم ہیں تشدد ہے اور اقلیتوں سے ان کا سلوک ہے اس کے خلاف وہ ہمیشہ بہت کھل کر باتیں کرتے ہیں۔
حکومت کے 100 روز مکمل ہونے کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان کی یہ بات درست ہے جو لوگ ان کے مخالف ہوں گے وہ تو کہیں گے کہ حکمران ہمیشہ یہی کہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں اپوزیشن میں ان کے نعرے بھی سنتا رہا، ان کی تقریریں، ان کے خیالات دیکھتا رہاا ہے۔ ان کے اس طرح کہنے میں وزن ہے کہ چھ ماہ انتظار کریں آپ دیکھیں گے کہ ہماری جو نئی پالیسیاں ہیں وہ رنگ لائیں گی اور ہم عوام کے معاشی حالات ٹھیک کریں اور ان کی معاشی مشکلات دور کریں گے۔
اس وقت معاشرے کے دو حصے ہیں ایک کو عمران خان لیڈ کر رہے ہیں اور جن کی حکومت بھی ہے۔ دوسرے حصے کو ن لیگ اور پیپلزپارٹی لیڈ کر رہے ہیں یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئی ہیں یہ مل کر عمران خان کے مقابلے میں صف آراءہیں۔ انہوں نے تو کہنا ہی کہنا ہے کہ آئندہ 100 دن میں بھی کچھ نہیں ہو گا۔
برطانیہ کے ساتھ جو بھی پروٹوکول سائن ہوا ہے کم از از کم پہلے سے تو بہتر پوزیشن ہو گی، اگر برطانیہ حکومت یہ یقین دلاتی ہے کہ اس سے آپ کی بہت سی چھپی جائیدادیں یہاں ہیں پاکستانیوں کی ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں آسانی ہو گی تو چلیں سو فیصد نہ سہی 50 فیصد ہی سہی۔
لندن سے شمع جونیجو نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے ان کا سٹیٹ منٹ نہیں دیکھا۔ لیکن جائیدادوں کا ایسا کوئی پروٹوکول سائن ہوا ہے تو مجھے تو کوئی خوف نہیں، فرسٹ کلاس، بزنس کلاس جو بھی تھوڑی بہت پراپرٹی ہے وہ تو ہر چند یہ ہے اس پروٹوکول سے ان لوگوں کو ڈرنا چاہئے جو جن کے دو نمبر طریقے ہوں گے۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ اگر عدلیہ کو پاکستانیوں کی جائیداد بارے معلومات یا احتساب کے ادارے کو نیب کو مل سکتی ہیں تو کیا اس سے کافی بہتر پوزیشن سامنے نہیں آ جائے گی چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے کہ ابھی جو پروٹوکول سائن ہوا ہے برطانیہ سے اس کی رو سے منی لانڈرنگ کر کے یہاں آ کر جائیدادیں خریدنے والوں کی بہت سی معلومات حاصل ہو گئی ہیں۔
شمع جونیجونے کہا کہ اگر اس طرح کا کوئی پروٹوکول ہے کیونکہ یہاں پر جو لیگل ٹیم ہے جب آپ پراپرٹی خریدتے ہیں۔ ایک مشترکہ طریقے سے ٹرانزکشن دکھائیں یا منی لانڈرنگ کا پیسہ آ جائے اور پتہ نہ چلے یہاں بڑا شفاف طریقہ ہے۔جو بھی پراپرٹی خریدی جاتی ہے یہی وجہ پاکستانیو ںکی جائیدادیں دبئی میں زیادہ ہیں یو کے میں بہت کم ہیں لیکن اس طرح کا معاہدہ ہو گیا ہے جس میں وہ انفارمیشن دیں گے وہ بے شک دیں لیکن یہاں جس جس نے بھی پراپرٹی بنائی ہیں اس کو پراپرٹی لینے سے پہلے برطانوی حکومت کو ایک کلیئر ٹرانزکشن دکھاتے ہیں اس کے بعد ہی کوئی جائیداد خرید سکتے ہیں یا اس کے بعد یہاں تو کسی کو کرائے کا گھر نہیں جب تک آپ ایک فیئر پرائس کے تھرو آپ اپنی انکم شو کرتے ہیں کہ میری آمدنی اتنی ہے کہ میں ہزار پاﺅنڈ کا یا اتنے سو پاﺅنڈ کا گھر لے سکتا ہوں۔ یہاں قوانین فالو کر کے ہی یہاں پراپرٹی لے سکتے ہیں چاہیں جو بھی ہوا ہے لیکن میں نہیں سمجھتی کہ ان کی مدد مل سکتی ہے منی لانڈرنگ کی جو کرپشن کے پیسے، سوئس بینکوں کے اکاﺅنٹ کی ڈی ٹیل ٹل جائے کیونکہ کبھی نہیں دیئے۔
ضیا شاہد نے موبائل کارڈ پر ٹیکس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب لوگوں سے پوچھنا پڑے گا جن کی آمدنیوں میں آپ نے ٹیکس کاٹنا ہے یہ اچھی بات ہے کہ زبردستی ٹیکس لگانے کی بجائے انہوں نے یہ آئیڈیا دیا ہے ہو سکتا ہے لوگ کہیں کہ سو فیصد ٹیکس نہ لگائیں 50 فیصد،25 فیصد لگا دیں کیا لوگ یہ قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اب لینڈ لائن بہت کم طبقہ استعمال کرتا ہے۔ اب ہل چلاتے بندے کے پاس بھی موبائل موجود ہے۔ اس سہولت سے لوگ بہت عادی ہوچکے ہیں ۔ عوام کے لیے ایسا قانون نافذ کرنا کہ اخراجات بڑھ جائیں ، ایک مشکل کام ہے۔
لندن سے چینل فائیو کے بیورو چیف وجاحت علیخان نے ٹیلی فونک گفتگو میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے کہا کہ بنیادی طور پر قتل لندن میں ہوا ہے اور سکاٹ لینڈ یارڈ اس کیس پر اپنے شواہد مکمل کر چکی ہے۔ اس کیس کے دو ملزم پاکستان کے پاس ہیں اور برطانوی پولیس نے بہت بارپاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ملزمان ہمارے حوالے کریں تاکہ کیس پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔ پاکستانی ایجنسیوں نے بعض وجوہات کی بنا پر ملزمان حوالے نہیں کیے ۔ پاکستان نے کیا شواہد اکٹھے کیے ہیں ، قتل لندن میں ہوا اور سکاٹ لینڈ شواہد اکٹھے کر چکی۔ برطانوی ایجنسیوں کی اطلاعات پر ہی پاکستانی ایجنسیوں نے کراچی سے دو ملزمان کاشف وغیرہ کو گرفتار کیا تھا۔برطانوی ملزم اپنے ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کرے گی۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے لندن میں کہا ہے کہ برطانوی اور پاکستانی حکومتوں کے درمیان پروٹوکول سائن ہونے سے انہیں منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدنے والوں کیخلاف بہت مدد ملے گی اور اس حوالے سے معلومات بھی مل چکی ہیں۔ جس پر وجاحت علی کا کہنا تھا کہ جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ روز بھی معاہدے کی بات کی تھی ۔ اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوا ہے تو یہ ایک لمبا عمل ہے۔ برطانیہ اپنے لوگوں کی معلومات کسی کو نہیں دیتا۔ اگر یہ پتا کرنا ہو کہ وجاحت علی خان کی کوئی جائیداد برطانیہ میں ہے تووہ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر پتا کر سکتے ہیں کیونکہ ٹائٹل ڈیڈ اوپن ہے۔ کسی بھی برطانوی شہری کی خریدی گئی جائیداد و مکان پاکستان میں بیٹھے معلوم کیے جا سکتے ہیں ۔ اگر پاکستانی حکومت 10یا 100جائیدادوں کی لسٹ بنا کر برطانوی حکومت کے حوالے کرے گی کہ ہم نے تفتیش کی ہے کہ یہ جائیدادیں ہمارے ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے پاکستان میں منی لانڈرنگ کر کے برطانیہ میں جائیددیں بنائی ہیں تو پھر ایک لمبے پراسیس کے تحت برطانوی پولیس اور سپریم کورٹ اس بارے میں تحقیق کرےگی کہ کیا واقعی منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ہم پاکستان میں بیٹھے ہیں اور ایک آئینی اور قانونی طور پر ہم اپنے ملک کے چیف جسٹس کے بیان کو بھی ایک خبر کا حصہ سمجھتے ہیں اور اگر انہوں نے یہ کہا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس عہدے پر بیٹھا ہوا آدمی اتنا غیر سنجیدہ ہوکہ ایسی بات کہہ دے جو نہ ہوئی ہو۔جس پر بیورو چیف نے کہا کہ آپ بالکل درست فرمارہے ہیں ، چیف جسٹس صاحب نے بھی صحافیوں سے گفتگو میں اپنے خدشے کا اظہار کیا تھا لیکن انہوں نے بڑے مثبت انداز میں کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتاکہ کوئی معاہدہ نہ ہوا ہو اور میں ہوا میں بات کر دوں، ایسا نہیں ہو سکتا ۔ لیکن معاہدہ ہوا ہے اور میں اس معاہدے کو مانتے ہوئے وہ بات بتا رہا ہوں جو بعد کے مضمرات ہیں۔ضیا شاہد نے پوچھا کہ کیا برطانیہ کیساتھ کوئی خفیہ معاہدہ تھا جسکی خبر لوگوں کے سامنے نہیں آرہی ۔ جس پر وجاحت علی خان کا کہنا تھا کہ اگر یہ معاہدہ ہوا ہے تو حکومت پاکستان اس معاہدے کو عوام کے سامنے کیوں نہیں لارہی۔ضیا شاہد نے کہا کہ ہم تو ماٹھے لوگ ہیں تب ہی شاید یہ خبر ہم تک نہیں پہنچی لیکن انگلستان ، جسکے قصیدے پڑھتے ہم نہیں تھکتے کہ وہاں ہر چیز کھلی ہے۔ وہاں ایک پروٹوکول سائن ہوا اور لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ اس قسم کی کوئی بات ہوئی ہے۔ بیوروچیف نے کہا کہ برطانوی حکومت اپنے عوام کو اس لیے نہیں بتاتی کہ وہ اس بارے میں پوچھتے ہی نہیں ۔ بطور صحافی ہم پوچھ سکتے ہیں ، ہم نے برطانوی وزارت سے پوچھا اور انہوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا ۔ مگر چیف جسٹس نے جو بتایا ہم اسے در نہیں کر سکتے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ وزارت سے تحریری طور پر پوچھا جائے ، میل کی جائے کہ یہ پروٹوکول کیا ہے ، کیا سائن ہوا اور اسکی شرائط کیا ہیں۔
شہبازشریف کے سینے میں گلٹیوں کے انکشاف اور طبیعت میں خرابی کی باعث جسمانی ریمانڈ میں رعایت کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ یہ خبر سن کر افسوس ہوا ۔ ہماری خواہش اور دعا ہے کہ اللہ انہیں صحت یاب رکھے ، اگر انہیں کوئی تکلیف ہے تو اسکا علاج ہو اور تکلیف بڑھنے کی بجائے یہیں رک جائے۔ یہ وہ بات ہے جو انسان کسی بھی شریف آدمی کے بارے میں کہہ سکتا ہے ۔ لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ کیا بیماری ہے اور اس بیماری کی شدت کیا ہے یہ کسی ڈاکٹر سے ہی پوچھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بہت اچھا علاج ہوتا ہے اور کینسر کا بہت اچھا ہسپتال ہے آغا خان اور عمران کے ہسپتال میں بہت اچھا علاج ہے۔ عمران خان جب گرے تھے تو وہ باہر نہیں گئے تھے بلکہ اپنے ہی ہسپتال میں زیر علاج رہے تھے۔ میں نے خود انکے ہسپتال کا دورہ کیا ہے وہاں بہت اچھے اور نایاب قسم کے بندوبست ہیں ۔پاکستان میں کوالٹی کے اعتبار سے آغا خان پہلے نمبر پر اور دوسرے نمبر پر شوکت خانم ہسپتال اور ریسرج لیبارٹریز ہیں۔
اس حوالے سے پروگرام میں سرجیکل پروفیسر تنویر انور نے کہاکہ شہباز شریف کو جس قسم کی بیماری ہے اس سے پہلے انہیں بڑی آنت کا اپینڈکس کے لیول پہ کینسر تھا جسکے لیے انہوں نے انگلینڈ سے آپریشن کروایا۔ وہ کیمو تھیراپی ریگولر لیتے ہیں جسکی وجہ سے اس پر کنٹرول تھا ۔ لیکن اب شاید یہ دوبارہ ہو گیا ہے کیونکہ انکی انتڑی کے اندر سوزش بتائی گئی ہے اور سینے میں بھی غدود ہیں۔ کینسر جب پھیلتا ہو تو خون کے ذریعے کہیں بھی جا سکتا ہے۔ اس وقت اخبار کی خبر سے جو صورتحال نظر آتی ہے تو انکے لیے علاج کیمو تھراپی ہے یا اگر کوئی فوکل لیون ہو تو اسکے لیے ریڈیو تھراپی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ملک میں ایسے ادارے ہیں جہاں یہ چیزیں موجود ہیں اور انکا علاج ہو سکتا ہے۔ جب یہ بیماری دوبارہ زور پکڑتی ہے تو زیادہ شدت سے آتی ہے۔ اللہ کرے کے انکے لیے بہتری ہو جائے۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ پاکستان میں موجود آغا خان اور شوکت خانم ہسپتال میں انکے علاج کے لیے سہولتیں موجود ہیں ۔ شہباز شریف پر کیسز چل رہے ہیں اس لیے ان کے فوری باہر جانے میں شاید کوئی رکاوٹ ہو ۔ کیا پاکستان میں انکا علاج بخوبی کیا جا سکتا ہے یا انہیں باہر جانا پڑے گا۔ جس پر پروفیسر تنویر نے کہا کہ میں فائل اتھارٹی نہیں ہوں لیکن بطور سرجن ایسا پاکستان کے دوسرے لوگوں کیساتھ بھی ہوتا ہے ، شوکت خانم اور دیگر ہسپتال جن میں کینسر کا علاج ہوتا ہے وہاں کیمو تھراپی سے علاج ہو سکتا ہے۔ اس بیماری میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ پاکستان میں علاج نہ ہو سکے۔ شوکت خانم ورلڈ لیول کا ہسپتال ہے ، وہاں ہر طرح کا علاج ہوتا ہے۔ اسکے لیے انہیں ہسپتال میں اپنا پرانا ریکارڈ پیش کرنا ہوگا، ان سب چیزوں کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ گلٹیوں اور آنت میں سوزش کی بیماری میں عام طور پر کیمو تھراپی ہوتی ہے۔ آنکالوجسٹ اور ریڈیو تھراپسٹ اس بارے میں بہتر بتا سکیں گے۔ یہ جاننا پڑے گا کہ انہیں کس لیول کی کیمو تھراپی کی ضرورت ہے۔
کراچی میں دفاعی سازو سامان کی نمائش آئیڈیاز 2018ءکے انعقاد پر ضیا شاہد نے کہاکہ اصل میں پر امن ہتھیاروں کے لیے ، پرامن استعمال کے لیے، پرامن حالات میںپاکستان نے جو چھوٹے ہتھیار بنائے ہیں انکی شہرت ہمیشہ سے بہت اچھی رہی ہے۔ چنانچہ ہر سال یہ نمائش پاکستان کے شہر کراچی میں لگتی ہے۔ اس حوالے سے پروگرام میں دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہتھیاروں کے مسلسل بنانے سے اسمیں بہتری آتی ہے۔ خواہ وہ ائیرکرافٹ ہو، ٹینک ہو، چھوٹے ہتھیاریا وائرلیس ہوں ۔ پاکستان کے وسائل کم سے کم ہونے پر زور دیا گیا کہ اپنی پیداوار خود کریں اور اسمیں ہم کافی حد تک خود کفیل ہوگئے ہیں۔ جے ایف 17تھنڈر کی کارکردگی اب کافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ پاکستان کے مین بیٹل ٹینک پاکستان کے علاقے کے لیے بہترین ہیں اسکی رفتار بھی اچھی ہے ، اسکی آرمر اور گن کی کپیسٹی سمیت ٹارگٹ کا ہدف پانے کے لیے ریڈار بھی ٹھیک ہے۔ کوئی بھی ہتھیار لے لیں اسمیں بہت بہتری آئی ہے۔ دنیا میں اپنے ہتھیاروں کی فروخت دکھانا ہے۔ دنیا میں جہاں جائیں وہ ایڈوانس ہتھیار امریکہ ، روس، برطانیہ اور فرانس سے لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے لوکل ہتھیاروں کی پیداوارانکے مقابلے میں اتنی بہتر نہیں کیونکہ ان ممالک کے پاس ریسرچ کے ادارے ، سرمایہ کاری اور فنڈز ہوتے ہیں۔ ضیا شاہد نے کہاکہ اس لیول کی نمائشوں میں کراچی کی دفاعی نمائش کا کیا مقام ہے اور پاکستان کے خود کار ہتھیاراور سافٹ ریولوشن کے تحت ترقی ، ہمارے کام کو کس حد تک ظاہر کرتی ہے۔ اکرام سہگل نے کہاکہ جتنا پیسا ہوتا ہے اسی لیول پر نمائش کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ پاکستان کے پاس نمائش کے لیے جگہ کے لحاظ سے ہتھیاروں کو نمائش کے لیے سجایا گیا ہے لیکن ہم بہت سی چیزیں ہم نمائش میں پیش ہی نہیں کرتے ۔ہمارے کنونشنل اور نان کنونشنل ہتھیاروں میں ہمارے پاس ایک بڑی رینج ہے جسکی وجہ سے کوئی بھی دشمن ہم سے ڈر کر رہتا ہے۔ بھارتی فوج کی تعدادہم سے 5گنا ہے لیکن ہماری افرادی قوت کی صلاحیت اور ہتھیاروں کی کوالٹی انکا مقابلہ کر لیتی ہے۔
ضیا شاہد نے پروگرام کے آخر میں موٹر سائیکل سوار دونوں افرادپر ہیلمٹ کی پابندی پر کہا کہ یہ بحث بہت پرانی ہے ، پچھلی سیٹ پر ہمارے ہاں خواتین اور بچے بیٹھتے ہیں ، لیکن ہمیشہ سے میں نے پڑھا تھا کہ اسے بھی ہیلمٹ پہننا چاہئے کیونکہ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو اگلا سوار ہیلمٹ کیوجہ سے بچ جاتا ہے لیکن پچھلے سوار کے سرپر ذرا سی چوٹ بھی خطرناک ہے۔ میرے خود بڑے بیٹے عدنان شاہد کے سر پر چوٹ لگی تھی اور وہ 21دن جنرل ہسپتال میں بے ہوش رہے تھے اور ڈاکٹرکہہ رہے تھے کہ دعا کریں یہ ہوش میں آجائیں۔ عدنان 21دن کومہ میں رہے تھے ۔ مجھے پتا ہے کہ یہ گھر کے عزیرواقارب اور رشتہ داروں کے لیے یہ کتنا تکلیف دہ عمل ہوتاہے۔ سر کی چوٹ بہت ہلک چوٹ ہوتی ہے ۔ سر میں کسی بھی جگہ پر کہیں چوٹ لگ جائے تو زخم بظاہر نظر نہیں آتا مگر چوٹ مہلک ثابت ہوتی ہے،اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ عام لوگ اس پر جز بز کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کیا بکواس ، نئی مصیبت شروع ہوگئی ہے لیکن میں ایک دکھی آدمی کی حیثیت سے ، جس نے اپنے بیٹے کو 21دن اپنے ہاتھوں میں سنبھالا ہے ، میں محسوس کرتا ہوں کہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کا بھی ہیلمٹ نہ پہننے پر کیا حثر ہوتا ہے۔ میں اس پابندی کے حق میں ہوں ۔ انسانی جان کوبچانا سب سے ضروری ہے۔ کوئی رسک نہیں لیا جا سکتا ۔ سرپر چوٹ کا کوئی علاج نہیں ہے۔
