کراچی (ویب ڈیسک)پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جاری دفاعی ساز و سامان کی نمائش آئیڈیاز پر ’سرخ پرچم‘ حاوی نظر آتا ہے۔ اکثر سٹالز پر چین سرفہرست ہے اس کے بعد ترکی اور روس کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔پاکستان کا محکمہ دفاع اور دفاعی پیداوار کے ادارے 2000 سے اس بین الاقوامی نمائش انعقاد کر رہے ہیں۔ یہ نمائش ہر دو سال کے بعد منعقد کی جاتی ہے، صرف 2010 میں سیلاب کے باعث اس کو موخر کردیا گیا تھا جس کے بعد اس کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے۔اس دفاعی نمائش کے پہلے سال صرف 15 ممالک کی کمپنیوں نے شرکت کی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور رواں سال 50 ممالک کی 500 کے قریب کمپنیاں اپنی مصنوعات کی نمائش کر رہی ہیں۔سابق سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان ترقی پذیر ممالک میں اسلحہ سازی کے میدان میں سب سے بڑا ملک ہے جو بھاری اسلحے کے علاوہ چھوٹے ہتھیار اور دفاعی مواصلاتی نظام بناتا ہے۔ یہاں اسلحہ سازی کی صنعت بہت پرانی ہے اور پاکستان کا حق بنتا ہے کہ اس کی مارکیٹنگ کرے۔’باہر کی کمپنیاں آ کر اپنی مصنوعات کی نمائش کرتی ہیں، اس سے ہمیں یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ ہم انھیں دیکھ لیتے ہیں۔ اس سے اسلحہ سازی کی صنعت میں تعلقات اور روابط پیدا ہوتے ہیں اور سٹریٹجک سطح پر ہمارے چھاپ بن جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نمائش میں فوجی سربراہان، سفیر اور اتاشی شرکت کرتے ہیں اور سائیڈ لائن پر مذاکرات کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔‘یہ نمائش تین سے چار روز تک جاری رہتی ہے جس کی سکیورٹی کے باعث شہر میں ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے۔ نمائش کا ایک دن عام شہریوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ اس نمائش سے قوم پر مثبت اثر پڑتا ہے اور ایک حوصلے اور اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے کہ ملک کا دفاع مضبوط ہے اور ہم کلی طور پر کسی دوسرے پر انحصار نہیں کرتے۔اس برس نمائش میں 50 ممالک کے اداروں اور کمپنیوں نے فضائی، برّی اور بحری دفاعی ساز و سامان جن میں لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹرز، ٹینک، آبدوز، چھوٹے ہتھیار، میزائل، ڈرونز کے ساتھ جدید دفاعی مواصلاتی سامان نمائش کے لیے پیش کیا ہے۔ بعض کمپنیوں نے تو سٹالز لیے ہیں جبکہ چین اور ترکی کے پاس ہالز ہیں۔اسی طرح امریکہ کی ایف 16 بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بھی موجود ہے جبکہ روس کی جانب سے میزائل نظام سمیت جدید ہیلی کاپٹرز کی نمائش کی جا رہی ہے۔آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ چین، ترکی اور روس علاقائی ممالک ہیں ان کی اپنی مارکیٹ ہوتی ہے۔ ’جو یورپی ممالک ہیں ان کے پاس اپنی مارکیٹ ہے جہاں وہ اپنی دفاعی مصنوعات فروخت کرتے ہیں یہاں ان کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ہمارے جو دوست ممالک ہیں ان کا تسلط ہے، چین اور ترکی کے ساتھ ہمارے گہرے تعلقات ہیں اس وجہ سے وہ یہاں خوشگوار محسوس کرتے ہیں۔‘یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے چین کے بعد ترکی اور روس کے ساتھ دفاعی اور عسکری میدان میں تعلقات کو وسیع کیا گیا ہے، ترکی پاکستان کی آبدوز آگسٹا کو اپ گریڈ کرے گا جبکہ اس کے جدید ہیلی کاپٹرز میں بھی پاکستان دلچسپی کا اظہار کر چکا ہے۔پاکستان دنیا کے 32 ممالک کو دفاعی ساز و سامان فروخت کرتا ہے، جن میں سری لنکا، عرب ریاستوں کے علاوہ افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ محکمہ دفاعی پیداوار کے مطابق گذشتہ دو برسوں سے نئی منڈیاں تلاش کی جا رہی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ عالمی دفاعی نمائش اس میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔سابق سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ اس نمائش میں خریدار ایک ذہن یا خیال بنا لیتے ہیں کہ یہ ایک اچھی چیز ہے اور اس کا مزید مشاہدہ کرتے ہیں۔ دوسرا یہ ہوتا ہے کہ اگر پس منظر میں کوئی ڈیل چل رہی ہے تو اس کی توثیق ہو جاتی ہے۔ دفاعی ساز وسامان کی خریداری کا طریقہ طویل مدتی ہوتا ہے اس ملک کے اپنے حالات ہوتے اور کئی ممالک درمیان میں آجاتے ہیں۔
