نواز شریف نے مقدمات کی فیس کے بدلے سونے کی کان کس کو دی ؟ 600ارب ڈالر کا سونا ہے 60سال تک نکلتا رہے گا ؟ خبریں میں چونکا دینے والے انکشافات

ملتان(میاں غفار احمدسے) نوازشریف نے نیب کے مقدمات ختم کروانے کے لیے فیس اور دیگراخراجات کی مد میں ایک کمپنی کو رقم دینے کے بجائے ریکوڈک کے علاقے میں ریکوڈک کی سونے کی کان کا ایک بڑا علاقہ مفت میں دے دیا اور مذکورہ کمپنی2سال سے زائد عرصہ سونا نکال کر بڑے ملک میں جاتا رہا جبکہ شہباز شریف نے3ارب روپے کی لاگت سے لگنے والے سولر پاور پلانٹ 15ارب سے زائد میں لگواکر قوم کا کم سے کم12ارب روپیہ محض ایک منصوبہ میں ضائع کردیا۔ شاہد خاقان عباسی نے پاکستان میں پی او ٹی کی بنیاد پر ترکی کی مپنی کو سستی بجلی کے پلانٹ اس لیے لگانے نہیں دیئے اگر سستی بجلی کے پلانٹ لگ جاتے تو آر ایل این جی کا منصوبہ ناکام ہوجاتا جو مہنگے داموں خریدی گئی تھی۔ ان خیالات کااظہار صوبائی وزیر توانائی پنجاب ڈاکٹر اختر ملک نے روزنامہ خبریں کے دفتر میں ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔ انہوں نے کہاکہ شریف خاندان نے جتنے معاہدے کیے وہ اس طرح سے کیے کہ انہیں کک بیک اور سپلائی کی صورت میں کروڑوں، اربوں روپے ملتے رہیں۔ ساہیوال کا پاور پلانٹ سی پیک کا منصوبہ تھا مگر اس کے لیے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ریلوے لائن بچھانے کے لےے محض اس لیے دیا کہ کوئلہ کی سپلائی کا ٹھیکہ ان کی کمپنی کے پاس رہے حالانکہ ریلوے وفاقی محکمہ ہے لیکن سابق وزیراعلیٰ پنجاب صوبائی فنڈز سے رقم نکال کر دیتے رہے۔ اب جتنی بھی کوئلہ کی سپلائی ہورہی ہے اس کا کیرج اور تمام تر کوئلہ شہباز شریف کی اف شور کمپنی سپلائی کررہی ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں قائم56کمپنیوں میں سے ایک کمپنی پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے اکاﺅنٹس سے34کروڑ روپے شہباز شریف کے داماد علی عمران کے اکاﺅنٹ میں منتقل ہوئے۔ انہوںنے کہاکہ الحمدللہ ریکوڈک کا منصوبہ نواز شریف کی کمپنی سے چھین کر حکومت پاکستان نے اپنے کنٹرول میں لے لیاہے کیونکہ یہاں پر600ارب ڈالر سے زائد کا سونا ہے جواگلے 60سال تک نکلتا رہے گا۔ انہوںنے کہاکہ حکومت پنجاب اورحکومت پاکستان سابق حکومتوں کے معاہدے کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے اور کوشش کررہی ہے کہ ایسا راستہ نکالے کہ معاہدوں کو دوبارہ سے دیکھا جائے۔ وزیراعظم عمران خان اکثر اتوار کو لاہورہوتے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں وزراءسے ملاقات کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کابینہ کو ٹارگٹ دے رکھا ہے کہ جو وزیر اپنی3ماہ میں کارکردگی نہ دکھاسکا وہ خود پچھلے بنچوں پر چلے جائے گا اور اس کی جگہ نیا وزیر لے لے گا۔ انہوںنے کہاکہ عمران خان ایک ایک وزیرکی بات سنتے ہیں اور کوئی وزیر خواہ آدھا گھنٹہ بولتا رہے وہ اس کو ٹوکتے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے سوالات کرکے معلومات لیتے ہیں اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ میں اس سے پہلے بھی ممبر پنجاب اسمبلی رہا ہوں۔ سابق حکمران تو سنتے ہی نہیں تھے۔ آج کارکردگی دکھانے کے حوالے سے وزراءخود مختار ہیں اور بیورو کریسی مسلسل رکاوٹ ڈال رہی ہے مگر یہ رکاوٹ جلد دور ہوجائے گی کہ بیوروکریسی نے اب حالات کا رخ سمجھنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ترکی کی زولرو نامی کمپنی پچھلے 4سال سے راجن پور اور کلرکہار میں1500میگا واٹ ونڈانرجی سے اور اڑھائی ہزار میگا واٹ سولر انرجی سے 5روپے 30پیسے پر دینے پر تیار ہے اور کم و بیش اسی طرح کی آفر وسٹاس کمپنی کی طرف سے ہے مگر ان کا سامان بھی یہاں پہنچ چکا تھا مگر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے اجازت نامہ جاری نہ کیاگیا کیونکہ اگر سسٹم میں5روپے 30پیسے کے حساب سے صرف2سال کے عرصہ میں 3ہزار میگاواٹ بجلی سولر اور ونڈ سے داخل کردی جاتی تو شاہد خاقان عباسی کا آر ایل این جی کا منصوبہ ناکام ہوجاتا انہوںنے کہاکہ ہیڈمرالہ سیالکوٹ کے مقام پر7.8میگاواٹ کا منصوبہ2007ءمیں شروع ہوا جسے2008ءکے آخر میں مکمل ہونا تھا اور اس پر2ارب لاگت آنی تھی اور اس کو روک دیا گیا اور اسے التواءمیں ڈالنے کی ذمہ داری دونوں سابق حکومتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن پر ہوتی ہے۔ اب 11سال جو منصوبہ 2ارب میں مکمل ہونا تھا اور جس پر25کروڑ روپے فی یونٹ لاگت آنی تھی اب وہ منصوبہ 11سال بعد 9ارب کی خطیر رقم سے مکمل ہواہے اور اس طرح حکومت پاکستان کو فی یونٹ 25کروڑ کے بجائے تقریباً سوا ارب کی لاگت سے ملے گا۔ ڈاکٹر اختر ملک نے بتایا کہ شہباز شریف نے چین کی ایک کمپنی زو¿ انرجی ہے کو بغیر کسی مقابلے ، بغیر کسی ٹینڈر طلب کرکے محض ایک نوٹ لکھ کر کہ اس کی ساکھ اچھی، سولر پاور پلانٹ کی تعمیرکا کام دے دیا اور مذکورہ کمپنی سے18روپے فی یونٹ بجلی لی جارہی ہے جبکہ اس کی تمام تر خرچ ڈال کر 4روپے سے زائد نہ ہے اور یہ معاہدہ بھی شہبازشریف نے بہت مہنگا کیا۔ ان کی حکومت چلی گئی مگر اس پراجیکٹ ، کوئلے پراجیکٹ اور دیگر کئی پراجیکٹ سے ہرسال اربوں روپیہ مل رہاہے۔ انہوں نے کہاکہ شہبازشریف نے غیرملکی فرم سے ایک بہت ہی مضحکہ خیز معاہدہ کیا جس کے تحت باہر سے کوڑا پاکستان آنا تھا اور یہاں اس کوڑے کو جلاکر کوڑے کو جلاکر انرجی میں تبدیل کیا جانا تھا۔ مذکورہ کمپنی سے اب موجودہ حکومت کے حوالے سے ہمنے یہ مو¿قف اختیار کیاہے کہ کوڑا تو ہمارے پاس بھی بہت ہے باہر سے بھیجنے کے بجائے ہمارا کوڑا استعمال کریں اور اس پر مذاکرات جاری ہیں۔ انہوںنے کہاکہ 18ویں ترمیم میں انرجی کی پیداوار کے حوالے سے صوبے آزاد ہیں لہٰذا حکومت پنجاب نے یہ فیصلہ کیاہے کہ مرحلہ وار پروگرام کے تحت پنجاب کے تمام تعلیمی ادارے ، ہسپتال اور سرکاری عمارات سولر انرجی پر منتقل کردی جائیں اور ساتھ ساتھ زرعی ٹیوب ویل بھی سولر انرجی پر تبدیل کردیئے جائیں اوراس حوالے سے بینک قرض کی بات چیت چل رہی ہے کہ سولر انرجی کے حوالے سے آسان اقساط پر قرضہ دے اور لوگوں کے ٹیوب ویل چلتے رہےں۔ انہوں نے کہاکہ ایک محب وطن پاکستانی نے وزیراعظم پاکستان کو تجویز دی ہے اور یہ بات وزیراعظم نے ازخود بتائی کہ کراچی میں پاکستان سٹیل ملز کے پاس15ہزار ایکڑ زمین ہے جس میں2ہزارایکڑ پر قبضہ ہوچکا ہے اور تقریباً2ہزار ایکڑ زمین خرید و فروخت کرنے کے بجائے ملازمین کی رکی ہوئی تنخواہوں اور دیگر واجبات کی مد میں دے دی جائے پھر بھی حکومت کے پاس11ہزار شہری زمین بچتی ہے اگر اس میں صرف ایک ہزار ایکڑ پر ہائی رائز بلڈنگ اور کمرشل پلازے اوررہائش گاہیں بنادی جائیں تو اس کی آمدنی سے پاکستان سٹیل ملز اگلے50سال تک چلائی جاسکتی ہے اور منافع بھی مل سکتا ہے۔ انہوںنے گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں انہوں نے اپنی وزارت کے حوالے سے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے بعد میں پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہو کہ نواز اور شریف اپنی طرف سے پاکستان کو فروخت کرگئے تھے۔ اللہ نے اسے بچالیاہے۔ حالات ٹریک پر آتے جارہے ہیں اور چند ماہ میں واضح تبدیلی نظر آنا شروع ہوجائے گی۔

آسیہ باہر گئی یا نہیں ،آگئی وہ خبر جس کا سب کو انتظار تھا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، آئی این پی) وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ آسیہ کے حوالے سے غلط خبریں چلائی گئیں، ایسا نہیں کہ کوئی سفیر آئے اور آسیہ کو رہا کر دیا جائے.پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ آسیہ کے معاملے پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی گئی، پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، کسی کے کہنے پر کچھنہیں کریں گے۔فواد چودھری نے کہا کہ آسیہ کے حوالے سے غلط خبریں چلائی گئیں، ایسا نہیں کہ کوئی سفیر آئے اور آسیہ کو رہا کر دیا جائے، غیر ذمہ دارانہ طریقے سے آسیہ کی بیرون ملک روانگی کی خبریں چلائی گئیں، غیر ذمہ دارانہ صحافت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کہا کہ آسیہ کیس کے فیصلے کیخلاف ریویو پیٹشن کا تعلق براہ راست حکومت سے نہیں ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی (پی اے سی) سے بنانے کا مطالبہ درست نہیں، مسلم لیگ (ن) کا مطالبہ ان کی پانچ سال کی حرکتوں کی طرح غیر اخلاقی ہے۔ نواز شریف کا حساب شہباز شریف چیک کریں، شہباز شریف کس طرح اپنے بھائی کے منصوبوں کا آڈٹ کرائیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو اگر این آراو دیدے تو سارا ماحول ٹھیک ہو جائے گا، ان سے حساب نہ لیں تو سارا ماحول اچھا ہو جائے گا، ان کا سارا جھگڑا ہی یہ ہے کہ حکومت کیسوں پر ہاتھ ہلکا کر دے لیکن موجودہ وزیراعظم عمران خان م±ک مکا کا کھیل نہیں کھیلیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے دورہ چین سے متعلق کابینہ کو اعتماد میں لیا، ان کا دورہ نہایت کامیاب رہا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی،اس کی تفصیلات کچھ دنوں میں سامنے آئیں گی،اس سے پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن سے متعلق مسائل حل ہوں گے، 2ماہ میںکابینہ کے11اجلاسوں میں 120فیصلے ہیں جن میں سے صرف4فیصلوں پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوسکا، جن پر جلد عملدر آمد کی ہدایت کی گئی ہے ، کابینہ کے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے میکنزم تیار کرلیاہے، عدم عملدر آمد کی روایت کو ختم کرینگے ، اپوزیشن والے کہتے ہیں ماحول خراب ہے انکو اگر این آر او دیں تو سب ٹھیک ہو جائےگا، عمران خان مک مکا نہیں کرنے دیں گے ، کسی کو بھاگنے نہیں دیں گے، پی اے سی سربراہی پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین ڈیڈلاک برقرار ہے ، حکومت اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی کہ چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی کا آڈٹ کرنے پر لگا دیں ، شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کا مطالبہ اتنا ہی غیر اخلاقی ہے جتنی انکی 5سالہ کارکردگی ‘ اعظم سواتی وفاقی وزیر ہیں انکو کیوں ہٹائیں ، وہ جمعرات کو یہاںپارلیمنٹ ہاﺅ س کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ کابینہ کے اب تک11اجلاس ہوچکے ہیں۔ گزشتہ حکومت میں کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کبھی ہوتے ہی نہیں تھے۔ نواز شریف کو جس دن ایم این این ایز مل لیتے تھے تو ایم این ایزہفتہ ہفتہ ہاتھ نہیں دھوتے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان پابندی کے ساتھ کابینہ اجلاس کرا رہے ہیں اور اپنے ساتھیوں سے مل رہے ہیں۔ کابینہ کے اجلاسوں میں 120فیصلے لیے جاچکے ہیں جن میں سے72فیصلوں پرمکمل طور پر عملدرآمد ہوا ہے جبکہ 31 فیصلوں پرکام ابھی ملتوی ہے اور15فیصلوں پر کام ہورہا ہے جبکہ صرف4فیصلوں پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔جن فیصلوں پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا ان پر کابینہ نے جلد سے جلد عملدرآمد کرنے کا کہا ہے۔اس حوالے سے متعلقہ ڈویژنز اور وزارتوں کو احکامات جاری کیے جاچکے ہیں۔گزشتہ 5سالوں کی کابینہ کے فیصلوں پر پورے پانچ پانچ سال عمل درآمد نہیں ہو سکا لیکن ہم نے اس حوالے سے میکانزم بنایا ہے اور کابینہ کے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے۔یہ کہتے ہیں کہ ماحول خراب ہے اگر آج اپوزیشن کے مقدمات بند کر دیے جائیں تو ماحول ٹھیک ہوجائے گا۔ ان کو این آر او لینے کی عادت ہے۔ عمران خان مک مکا نہیں کرنے دیں گے۔ کسی کو بھاگنے نہیں دیں گے۔پی اے سی سربراہی پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین ڈیڈلاک برقرار ہے۔ حکومت اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی کہ چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی کا آڈٹ کرنے پر لگا دیں ۔نیب قوانین میں ترمیم کی بات کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے جو اس پر اپنی سفارشات پیش کرے گی۔اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ عوام کو ان لوگوں کی شکلوں سے نفرت ہے ، حزب اختلاف کو تکلیف یہ ہے کہ حکومت مک مکا کیوں نہیں کررہی ، وزیراعظم مک مکا کا کھیل نہیں کھیلیں گے ، یہ کہتے ہیں کہ حکومت ہمارے مقدمات پر ہاتھ ہلکا کردے، این آر او دے دیں تو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بناسکتے ، شہباز شریف کس طرح اپنے بھائی کا آڈٹ کرینگے، ہم شہبازشریف کو نوازشریف کے آڈٹ کا کام نہیں دے سکتے ، شہبازشریف کو چیئرمین اے پی سی بنانے کا مطالبہ انتہائی غیر اخلاقی ہے ہم نے اپوزیشن کو کہا ہے کہ پہلے ہم آڈٹ کرلیں پھر اپوزیشن ہمارا آڈٹ کرے۔

گورے مان گئے ؟برطانیہ سے مجرموں کو لانے کی منظوری

اسلام آباد (صباح نیوز‘ مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں 21 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں موجودہ حکومت کے فیصلوں پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔ کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت 5خطرناک افراد رسول خان، وسیم اختر، حفیظ الیاس، مشتاق اور ساجد علی کو تحویل میں رکھنے، چیئرمین ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی تقرری، ارکان پارلیمان و عوام کے لئے ٹیکس ڈائریکٹری 2017شائع کرنے کے علاوہ برطانیہ اور آئرلینڈ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری بھی شامل ہیں۔ اجلاس کے آغاز پر کابینہ نے مولانا سمیع الحق کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں برطانیہ اور جنوبی آئرلینڈ کے ساتھ قیدیوں اور مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ کرنے کی بھی منظوری دی جبکہ سری لنکا، سوڈان، نائجیریا، ترکی، چین، تاجکستان سے مختلف شعبوں کے معاہدوں کی بھی منظوری دی۔ اس کے علاوہ اجلاس میں ٹیلنٹ ڈویلپمنٹ کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور ہواوے ٹیکنالوجی کے درمیان معاہدے کی منظوری بھی دی۔ ذرائع نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کے سی ای او کی تعیناتی کی منظوری بھی دی اسی طرح اجلاس میں انجیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کو ختم کرنے کا سابق حکومت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کو برقرار رکھنے اور مزید فعال بنانے کا فیصلہ بھی کیا۔ وفاقی وزرائ، وزرائے مملکت اور تمام وفاقی مشیران و معاونین کے سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرانے پر پابندی ہوگی۔ اس کے علاوہ وفاقی سیکریٹریز اور دیگر سینئر حکام سمیت کسی محکمے یا اتھارٹی کے سربراہ بھی سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج نہیں کراسکیں گے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرانے کی کوئی درخواست قبول نہ کی جائے۔ وفاقی کابینہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے ٹیکس پالیسی بنانے کا اختیار واپس لے لیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت نے ٹیکس پالیسی بنانے کے لیے نیا بورڈ تشکیل دیا ہے جس میں وزیر خزانہ، وزیرتجارت اور اقتصاد و معاشی ماہرین شامل ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے لبرٹی کے نام سے نئی ایئرلائن کو لائسنس دینے کی منظور دے دی ہے جب کہ ایس ای سی پی کا نیا بورڈ تشکیل دے کر احمد نواز سکھیرا کو سرمایہ کاری بورڈ کا سیکرٹری بنایا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ متروکہ وقف املاک کی تنظیم نو کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ وزیراعظم نے کابینہ کو دورہ چین کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ دورہ انتہائی کامیاب رہا، وزیر اعظم نے شرکا کو پاکستان اور برطانیہ میں قیدیوں کے تبادلے کے پروٹوکول پر دستخط سے بھی آگاہ کیا۔ اجلاس میں وفاقی کابینہ کو وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے متعلق بریفنگ دی گئی، وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کو دورہ چین سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ دورہ چین توقعات سے زیادہ کامیاب رہا، چین نے پاکستان کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی، چین پاکستان کو زرعی شعبے میں پہلی بار مکمل تعاون دے گا۔ وفاقی کابینہ نے وزیراعظم کے کامیاب دورہ چین پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی جانب سے وفاقی کابینہ کو دھرنے سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے دوران برطانیہ، نیدرلینڈ، سوڈان اورجکارتہ کے ساتھ معاہدوں کی منظوری دی گئی، نوجوانوں کے لیے ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کے معاہدوں کی بھی منظوری دی گئی۔ وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم اداروں کے سربراہان کی تقرری کی بھی منظوری دے دی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان سری لنکا کوسٹ گارڈ سے متعلق وزارت ساحلی امور کے معاہدے کی منظوری دی گئی اور پاک سوڈان سیاحت اور جنگلی حیات کے تحفظ کے معاہدے کی بھی منظوری دی۔ اجلاس میں چینی سیلولر کمپنی کے ساتھ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی ٹیلنٹ پروگرام اور اس کے علاوہ پاکستان اور نائیجیریا کے درمیان سفارتی تعلقات کے فروغ کی منظوری دی گئی۔ ایڈمرل ظفر محمود عباسی کے لیے ترک حکومت کا اعلی میڈل قبول کرنے اور ایئر کموڈورعامر شہزاد کے لیے عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے میڈل کی منظوری بھی دی گئی۔ وزیراعظم عمران کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں بیرون ملک متعدد پاکستانی شہریوں کو گرفتاری سے بچانے کے لیے اقدامات کی منظوری دی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نئی نجی ایئرلائن کو لائسنس جاری کرنے اور نئے چیئرمین ٹی سی پی کے تقررکی بھی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں وزارت خزانہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے چیف ایگزیکٹیو کے تقرر کی سمری منظور کی گئی، اسٹیٹ بینک تاجکستان مرکزی بینک کے درمیان نگرانی کی مفاہمت کی دستاویز کی منظوری بھی گئی۔ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں 2017کے پارلیمنٹیرین اورٹیکس دہندگان کی ٹیکس ڈائریکٹری جاری کرنے اور کابینہ کی وزارت صنعت کی جانب سے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کی تنظییم نوکی منظوری دی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس وزیرِاعظم عمران خان کی زیرصدارت جاری ہے، وفاقی کابینہ کے اراکین کے بیرون ملک علاج پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پابندی کا اطلاق وفاقی وزرا وزرائے مملکت، معاونین خصوصی پر ہوگا، وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر کابینہ نے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔وفاقی کابینہ کے اجلاس کے آغاز پر مولانا سمیع الحق اور پاک فوج کے شہید کیپٹن کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی اور خصوصی دعا کی گئی۔

سعودی عرب، ایران کو قریب لانا ہمارے لیے اعزاز ہو گا: جنرل امجد شعیب ایران، سعودی عرب کے باہمی اختلاف میں پاکستان کسی کے ساتھ نہیں ،غیر جانبدار ہے پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا وہ خود آیا ہے:افتخار چوہدری، نیوز ایٹ 7میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ) جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی خواہش کافی عرصے سے یہی رہی ہے کہ کہ کسی طرح سعودی عرب اور ایران کو قریب لایا جائے یہ ہمارے لئے یک اعزاز بھی ہو گا۔ایران کو پاکستان کے اس موقف سے اعتماد ملا ہو گا کہ ایران اور سعودی کے باہمی اختلاف میں پاکستان نہ سعودی کے ساتھ ہے نہ ایران کے ساتھ بلکہ غیر جانبدار ہے۔چینل فائیو کے پروگرام نیوز ایٹ7میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عر ب بھی نہیں چاہتا کہ یمن سے کشیدگی بڑھے ۔یمن پر ایک بات واضح ہونی چاہئے پاکستان نے جنگ میں کسی کا ساتھ نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین بہت کامیاب رہا۔چین بھی چاہتا ہے پاکستان کو قرضوں کے عفریت سے نجات ملے کیونکہ وہ پاکستان کی بہتری چاہتا ہے۔سعودی عرب پاکستان کو تیل یا پیسے تو دے سکتا ہے لیکن ٹیکنالوجی نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما انجینئر افتخارچوہدری نے کہا پاکستان مشکلات سے نکلے گا اب پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا آئی ایم ایف خود آیا حکومت آئی ایم ایف سے ان شرائط پر قرضہ لے گی جس سے ملکی مفاد متاثر نہ ہو۔پاکستان معاشی بحران سے نکل رہا ہے۔

پولیس اہلکاروں کی معذور خاتون کو اغوا کر کے اجتماعی زیادتی

لاہور (خصوصی ر پو رٹر )اقبال ٹاون کے علاقہ میں معذور خاتون کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی مبینہ طو ر پر اجتما عی زیادتی کا انکشاف کے بعد انصاف نہ ملنے پر متا ثر ہ خاتو ن نے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیا ، جس پر لاہور پو لیس کو ہو ش آگےا اور خاتون کی مد عیت میں اغواءاور زےا دتی کی د فعا ت کے تحت مقد مہ نمبر 1532/18در ج کر کے تفتےش کا آغاز کردےا ہے ۔ ےاد ر ہے مذکو ر ہ واقعہ سے 5سال قبل فیکٹر ی ایریا کے علاقہ میں نا با لغ لڑ کی کو بھی پو لیس اہلکا روں اجتما عی زےا دتی کا نشانہ بنا یا تھا ۔ تفصےلا ت کے مطا بق کرا مت کا لو نی وحد ت رو ڈ کی ر ہا ئشی 30سالہ دو بچو ں کی ما ں لبنیٰ بی بی جو پاﺅن سے معذور ہے اور اسکی پا نچ سال قبل را حیل نا می شخص سے شاد ی ہو ئی تھی ۔ لبنیٰ بی بی کے مطا بق گزشتہ ما ہ 8تا رےخ کو اپنے شوہر کے ساتھ نجی کمپنی سے سم نکلو انے گئی جہا ں پر اسکے شوہر کے ساتھ تلخ کلا می ہو گئی اور وہ اپنے بچو ں کے ساتھ گھر ویل چیئر پر واپس جا ر ہی تھی۔ خاتون نے الزا م عا ئد کیا ہے کہ اسی اثنا ءمیں نا معلوم پو لیس اہلکا رو ں اسے رو ک لیا اور پو چھ گچھ کی اور اپنے ساتھ گا ڑی میں بٹھا لیا ، اور ٹاﺅن شپ کے علاقہ میں اےک مکا ن میں لے گئے جہا ں زبر دستی 15روز تک اجتما عی زیا دتی کا نشانہ بنا تے ر ہے اور بچو ں کو قتل کی د ھمکیاو ں د ےتے ر ہے اور زبردستی مجھے شرا ب بھی پلاتے تھے ۔ متا ثر ہ خاتون کی جا نب سے تھا نہ اقبا ل ٹاﺅن میں اپنے ساتھ ہو نے والی زےا دتی کی در خواست دی جس پر پو لیس نے کا رروا ئی نہ کی تو متا ثر ہ نے اپنی در خواست سوشل میڈیا پر پر اپ لو ڈ کردی جس پر پو لیس کو ہو ش آگےا ، اور گزشتہ روز خاتون کی مد عےت میںایف آئی ار نمبر 1532/18د فعہ 376B,365کے تحت در ج کر لی ہے ۔ اس حوالے سے ایس پی اقبا ل ٹاﺅن آپرےشز سید علی نے” خبر ےں“ کوبتا ےا کہ مذکو ر ہ واقعہ علم میں آنے کے بعد فور ی ایف آئی ار در ج کر لی گئی ہے جبکہ خاتون کی نشاند ہی پر اس مکا ن میں گئے جس کی اس نے بتا ےا کہ اس کے ساتھ پو لیس اہلکا ر ذےا دتی کرتے ر ہے ہیں لےکن وہا ں کو ئی ایسے شوائد نہیں ملے اور اہل محلے کے بےا ن بھی لئے گئے جس سے ایساکچھ ثا بت نہیں ہو تا کہ اسے اس مکا ن میںخاتون کو ر کھا گےا تھا ، مزےد انوےسٹی گےشن پو لیس واقعہ کی تحقےقات کر ر ہی ہے جلد اصل حقائق واضح ہو جا ئےں گئے ، ےا در ہے مذکو ر ہ واقعہ سے 5سے پا نچ سال قبل فےکٹر ی ایریا کے علاقہ میںن نا با لغ لڑ کی کو بھی پو لیس اہلکا رو ں نے مبےنہ طو ر پر زیادتی کا نشانہ بنا یا تھا اور حا لت غےر ہو نے پر جنا ح ہسپتا ل کے قرےب پھنک کر فرا ر ہو گئے تھے جس نے ہو ش میں آنے کے بعد بیا ن دیا تھا کہ 4 پو لیس اہلکا رو ں نے اسے زیا دتی کا نشانہ بنا ےا اور واقعہ کے چند ما ہ بعد ہی مذکو ر ہ منظر عا م سے پرا سرا ر طو ر پر غا ئب ہو گئی تھی ۔

سیاستدان ٹیکس کے پیسوں سے بیرون ملک عیاشی کرتے رہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگارعلامہ اظہر صدیق نے کہا کہ پاکستان میں رواج بن گیا تھا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر سیاستدان بیرون ملک علاج کراتے اور عیاشی کرتے رہے۔ چینل فائیو کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ بہت اچھا ہے اس فیصلے وکو قانونی شکل دے ینی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام کے پیسوں کی تباہی ان کنسٹرکشن کے کاموں میںہوئی جس میں من پسند افراد کو ٹھیکے دیے گئے۔اس کام میں بے پناہ منافع بھی ہے اور فراڈ بھی سب سے زیادہ ہے۔عطاالحق قاسمی کو لطیفے بہت آتے ہیں اور شریف فیملی کو لطیفے بہت پسند ہیں۔انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال سے آلودگی پھیل رہی ہے اس پر پابندی لگنی چاہئے کالم نگارآغا باقر نے کہا کہ خود احتسابی ایسا عمل ہے اوپر سے شروع ہوتا ہے اور نیچے تک جاتا ہے۔عادل حکمرانوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا کہ انہوں نے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا۔وفاقی کابینہ پر بیرون ملک علاج پر پابندی بہت خوش آئند ہے۔سادگی میں ویسے بھی سکون قلب ہے۔انہوں نے کہا کرپشن کوئی بھی کرے احتساب ہونا چاہئے اور بلاامتیاز ہونا چاہئے۔میرٹ ہونا بہت ضروری ہے۔ کالم نگارمیاں سیف الرحمان نے کہا کہ اچھے کام کی ابتدا خود سے کرنی چاہئے۔سادگی اپنا کر ہم بہت سے اضافی اخراجات بچا سکتے ہیں۔ویسے بھی پاکستان مقروض ملک ہے اشرافیہ کو پرتعیش زندگی ترک کرنی چاہئے۔وزراءپر بیرون ملک سرکاری اخراجات پرعلاج پر پابندی احسن اقدام ہے اسے آئندہ کی حکومتوں کو بھی اپنانا چاہئے۔ ایک ملاقات میںسابق چیئرمین نیب قمرالزمان نے کہا ہمارے معاشرے میں کرپشن کے خلاف ابھی تک نفرت پیدا نہیں ہوئی۔کالم نگارسردار حیات خان نے کہا کہ سابق حکومتوں نے ہمیشہ دعوی کیا ہم نے عوامی کی بڑی خدمت کی لیکن سوال ہے سابق حکمران اپنے دس سالہ اقتتدار میں کوئی بھی ایک ایسا ہسپتال نہیں بنوا سکے جس میں اپنا علاج کرا سکتے۔یہ سابق حکمرانوں کی ناکامی کی بڑی مثال ہے۔عمران خان اپنے منشور پر عمل پیرا ہیں یہ وہ اپنے عمل سے ثابت بھی کر رہے ہیں۔قوم کی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ملک کے لئے بہت مفید ہیں۔

قاسمی کو سزا سرکاری ملازمین کے لیے سبق کہ بے تحاشہ اخراجات پر کل کوئی پو چھ بھی سکتا ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نواز ریف نے وزیراعظم بننے کے فوراً بعد عطاءالحق قاسمی کو جو پیشے کے اعتبار سے پڑھاتے تھے۔ ایم اے او کالج میں استاد تھے اور ساتھ ساتھ صف اول کے اختیارات میں پہلے نوائے وقت میں کالم لکھتے رہے تھے پھر جنگ میں کالم لکھتے تھے ان کو ناروے میں سفیر بنا دیا تھا۔ بعد ازاں دوسری بار نواز شریف وزیراعظم بنے تو اس کے بعد تیسری مرتبہ آئے تو انہوں نے عطاءالحق قاسمی کو پی ٹی وی کا چیئرمین بنا دیا کچھ دیر وہ ایم ڈی پی ٹی وی بھی رہے کچھ دیر دنوں عہدے ان کے پاس رہے۔ ان کی تقرری کے سلسلے میں چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیا تھا چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس کا فائنل فیصلہ سنا دیا ہے کہ بڑی کڑی سزا دی ہے کہ یہ جو 19 کروڑ روپے ان کے ذمے نکلتے تھے کہ ان پر خرچ ہوئے وہ انہوں نے کہا کہ 50 فیصد عطاءالحق قاسمی صاحب دیں گے 20 فیصد اس میں رقم جو ہے وہ پرویز رشید صاحب جو اس وقت وزیراطلاعات تھے وہ دیں گے اور 20 فیصد اسحاق ڈار دیں گے اور باقی پیسے جو ہیں وہ فواد حسن فواد دیں گے۔ میں سمجھتا ہو ںکہ اس طرح سے ان کے 19 کروڑ تو پورے ہو جائیں گے لیکن ذاتی طور پر بڑا افسوس ہو رہا ہے کہ بہرحال وہ میرے کلاس فیلو تھے البتہ جب کوئی حکومت میں ہوتا ہے اس وقت اس کا دماغ بھی آسمان پر ہوتا ہے عطاءالحق قاسمی صاحب بھی اس وقت کم ہی سیدھے منہ بات کرتے تھے اور اسی اوورکانفیڈنس میں انہوں نے جو سرکاری اخراجات کو بے دریغ استعمال کیا اور اب اس پر ایک چیز ثابت ہوتی ہے کہ اگر عدالتیں غیر جانبدار ہوں مضبوط ہوں اور بڑی ہمت اور جرا¿ت سے فیصلے کریں تو پھر سرکاری ملازمت کے باوجود لوگ اس بات سے خوف کھائیں گے کہ کل کو بھی ان کا معاملہ عدالت میں گیا تو ان کو اس طرح سے سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اسحق ڈار صاحب اگر باہر ہیں ان کی پراپرٹی تو یہاں ملک میں موجود ہے اور ان کے حصے کا پیسہ ان کی پراپرٹی سے لیا جا سکتا ہے اور فواد حسن فواد خود ایک اور مقدمے میں آشیانہ سکیم میں چونکہ وہ اس وقت پنجاب کے سیکرٹری ہوتے تھے بعد میں وہ وزیراعظم کے پرسنل سیکرٹری بنے لہٰذا اِن پر بھی جرمانہ ہوا ہے۔ یہ کافی سخت سزا ہے لیکن اس کا ایک فائدہ ہے کہ سرکاری ملازمین اب ملازت کے دوران محتاط ہو کر چلیں گے۔ اس بات کا خیال رہے گا کہ کل کلاں ان کا معاملہ کسی عدالت میں جا سکتا ہے اس شکل میں ان کو پیسے بھی واپس کرنے پڑ سکتے ہیں۔ دیکھیں اگر یہ فیصلہ ہائی کورٹ کا ہوتا تو پھر ہم کہہ سکتے تھے کہ نظرثانی ہو سکتی ہے اب اگر سپریم کورٹ میں نظرثانی کر سکتے ہیں جس میں ان کا جرمانہ کم ہو سکتا ہے لیکن اسے بھی دوبارہ وہی چیف جسٹس سنیں گے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سزا میں کچھ کمی ہو جائے لیکن ختم شاید نہیں ہو سکتا۔
آصف زرداری کے بیان پر نوازشریف اور مریم نواز نے جو خاموشی اختیار کی ہے وہ معاملات ٹھنڈا کر رہے ہیں پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا نوازشریف جب نااہل ہونے کے بعد مری سے اسلام آباد پہنچے تو میںبھی اخبار نویسوں کے وفد میں شامل تھا جن کو انہوں نے دعوت دی اور اس وقت جو کچھ ان کو مشورے دیئے گئے تھے خاص طور پر ہمارے ہاں ایک پرو انڈیا لابی ہے جس کو عرف عام میں کہا جاتا ہے پتہ نہیں وہ پروانڈیا ہیں بھی یا نہیں بہر حال اس وقت ہمارے دوست بڑا معروف نام ہے امتیاز عالم صاحب انہوں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ آپ لاہور سفر کریں جی ٹی روڈ پر اور موٹر وے کی بجائے مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے آپ کو لاہور پہنچتے پہنچتے یہ جو فوج سول حکومت کے خلاف کر رہی ہے آپ کو جس طرح سے حکومت سے الگ کیا گیا ہے اس کا پول کھول دیں اور پاکستان میں بھی ترکی کی طرح سے عوام جو ہے پاک فوج کے ٹینک جو ہیں الٹا دیں گے لیکن میں نے اس موقع پر بھی یہ بات کہی تھی کہ جناب میرے اس مشورے پر عمل کرنے سے پہلے سو بار سوچیں کیونکہ اگر آپ کی کوشش کامیاب ہو گئی تو پاک فوج کو نقصان پہنچا تو وہ بھی پاکستان کا نقصان ہے۔ وہ پاکستان کی فوج ہے کسی اور ملک کی تو نہیں اور اگر آپ ناکام ہو گئے تو پھر آپ ایک سب سے بڑی دفاعی قوت جو ہے جو دہشتگردی کے خلاف بھی جنگ لڑ رہی ہے اس وقت جو فیصلہ ہوا وہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے احتساب عدالت نے فیصلہ کیا ہے کوئی فوج نے تو فیصلہ نہیں کیا۔ میں نے بڑے ادب سے ان سے کہا تھا کہ جناب یہ مشورہ بالکل نہ مانیں لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ بعد میں جناب نوازشریف صاحب نے جو لائن لی وہ لاہور کے الیکشن میں جس طرح سے مریم نواز نے جو الزامات لگائے کہ خلائی مخلوق جو تھی وہ آ کر ہمارے ووٹ چھینتی رہی اور اس لئے ہمیں کم ووٹ ملے۔ بعض اوقات تو وہ اس سے بھی بڑھ کر نوازشریف سے بھی آگے بڑھ کر مریم نواز نے فوج پر بہت ہی زیادہ الزامات لگائے کہ بار بار ان کے بارے می ںکہا کہ سول حکومت مداخلت کر رہی ہے پھر ڈان لیکس کا واقعہ بھی آیا۔ سرل المیڈا کا انٹرویو بھی آیا جو جلال الدین رومی کے گھر پر نوازشریف کا ملتان میں لیا گیا۔ ان دونوں انٹرویوز میں جناب نوازشریف نے پاک فوج کے بارے میں کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا کہ اشارةً انہوں نے یہ کہا کہ انڈیا میں جو گڑ بڑ ہوتی ہے وہ پاکستان کے زیر اثر ہو رہی ہے میں یہ سمجھتا ہو ںکہ ان واقعات کی وجہ سے جس پر بہت کڑی سزا ان کو ملی اور اگر ایک پر 12 نومبر کو ان کا فیصلہ ہونے والا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہف یصلے میں بری بھی ہو رہے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے میں سپریم کورٹ ان کو دوبارہ جیل بھیج دے۔ اگر سپریم کورٹ دوبارہ جیل بھیجے گی تو اسی کی وجہ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس ہوں گے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو اسلام آباد ہائی کورٹ ہے ان کو رہائی کا حکم کیسے دے دیا۔ اب نوازشریف اور مریم نواز خاموش ہیں یہ زرداری صاحب کی بات درست ہے۔ مولویوں کے این آر او میں بظاہر تو کوئی سچائی نظر نہیں ااتی لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ نوازشریف نے کوئی طے کیا ہوا ہے کہ وہ سیاسی بات نہیں کریں گے حتیٰ کہ سی پی این ای کے وفدکے ساتھ اخبارات کے ایڈیٹروں کی موجودگی میں خود بھی جاتی امراءکافی دیر کے بعد گیا تھا ان کی بیگم صاحبہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی تعزیت کے لئے اس وقت بھی میں نے دیکھا کہ خواہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہوں یا ان کے ساتھی امیر العظیم ہوں، سلمان بٹ، لیاقت بلوچ وغیرہ ہوں اور اکثر ہمارے بھی بعض ساتھیوں نے ان سے سوال کیا کیونکہ ظاہر جب بھی کوئی لیڈر اخبار نویسوں سے ملتا ہے خواجہ کسی بھی بہانے سے ملاقات ملتا ہے اخبار نویس کبھی چوکتا نہیں کوئی نہ کوئی سیاسی سوال کرتا ہے لیکن انہو ںنے کسی سیاسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ہمارے ایک ساتھی نے ان سے کہا کہ بڑی زیادتی ہو رہی ہے کہ شہباز شریف صاحب کو سزا دے دے گئی ہے اس پر نوازشریف خاموش رہے۔ انہوں نے سوائے فاتحہ کے موقع پر رسمی تعزیت کے جواب میں شکریے کے چند الفاظ کے سوا قطعی طور پر کوئی سیاسی بات نہیں کی مریم نواز صاحبہ تو مکمل طور پر خاموشی رہیں۔ کہتا تھا کہ انہوں نے اپنے اوپر سیلف ڈسپلن طاری کر لیا ہے اور انہو ںنے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سیاست پر فی الحال کوئی بیان نہیں دیں گی۔ اس لئے یہ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید کوئی این آر او ہوا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہو ںکہ جب عمران خان کی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ہر گز ہرگز کوئی این آر او قبول نہیں کریں گے اور دوسری طرف نوازشریف سے بھی زیادہ کھل کر کہا کہ ہم نے کوئی این آر او نہیں کیا اگر نوازشریف یا میری طرف سے کوئی این آر او کی بات کی جاتی ہے تو مجھے نام بتایا جائے کہ کسنے این آر او کا نام لیا اس لئے وہ تو نہیں مان رہے لیکن جس طرح سے وہ خاموش ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ اپنے طور پر انہوں نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سردست چپ رہیں گے ظاہر ہے وہ سیاستدان ہیں آگے چل کر شاید وقت آنے پر اس سے بڑے بیانات دیں فی الحال باپ بیٹے دونوں مکمل طور پر خاموش ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ مصلحتاً خاموش ہیں۔ کیونکہ اس وقت جو بھی وہ حکومت کے خلاف سیاسی حکومت کے خلاف تو بات ہو سکتی ہے لیکن وہ اس سے پہلے وہ فوج کے بارے میں اور عدلیہ کے بارے میں وہ بڑھ چڑھ کر بولتے تھے چونکہ اب محسوس کرتے ہیں کہ ان کو فائدے کی بجائے نقصان ہوا ہے اور جس طرح سے ان کا خیال تھا کہ لاہور سے جی ٹی روڈ سے اسلام آباد سے لاہور پہنچنے تک عوام اٹھ کر کھڑی ہو جائے گی اور حکومت کا تختہ الٹ دے گی محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان کی خواہشات پوری نہیں ہوئیں۔ حکومت کا تختہ تو نہیں کہنا چاہئے اس وقت شاہد خاقان عباسی بھی وزیراعظم تھے لیکن اس سے مراد یہ تھی کہ پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف ان کی دھواں دھار تقریریں اور بیان جاری تھے۔
آج زرداری صاحب نے بیان دیا ہے کہ نوازشریف اور ان کے ساتھی جو ہیں وہ خاموش ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مصلحت کے تحت خاموش ہیں یا طے شدہ پالیسی کے تحت خاموش ہیں۔ اس پر آپ کیا فرماتے ہیں۔
مسلم لیگ ن پنجاب میں ترجمان ملک احمد خان نے کہا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی مصلحت کے تحت خاموش ہے اس کے دو تین محرکات ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الیکشن سے قبل آپ کا جو جارحانہ انداز ہوتا ہے وہ لامحالہ الیکشن کے بعد اس طرح سے جارحانہ نہیں رہ جاتا۔ دوسری بات یہ ذاتی طور پر خاندان ایک صدمے سے گزرا ہے اس کا بھی ایک اثر ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی مصلحت یا ڈیل کا پہلو نہیں ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ایک بات بالکل واضح ہے کہ جناب شہبازشریف صاحب نے بہت کھل کر پارلیمنٹ میں یہ کہا کہ کوئی این آر او کسی نے کیا ہے تو نام بتایا جائے خود نوازشریف نے بھی اس کو رد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نام بتایا جائے کہ کس نے این آر او کیا ہے او ریہ اس قسم کے الزامات پر وہ این آر او کے تحت خاموش ہیں یہ درست نہیں ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ جناب شہباز شریف اور جناب نوازشریف جو ہیں انہوں نے سختی سے اس امر کی تردید کی کہ انڈرسٹینڈنگ کے تحت خاموش ہیں۔
ملک احمد خان نے کہا کہ کسی این آر او کا تاثر دینا بھی غلط ہے جب اب تک ساری صعوبتیں برداشت کی ہیں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا وہ اپنے سارے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں تو وہ کیوں این آر او مانگیں گے۔ میں مانتا ہے کہ کسی طور پر کی این آر او یا حکومت جو تاثر دینا چاہتی ہے یہ بالکل غلط ہے اگر ان کے پاس کوئی بات ہے کہ کسی نے این آر او کے لئے کہا ہے تو اس کا نام بتائیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ایک زمانے میں یہ محسوس ہوتا تھا کہ جناب شہباز شریف صاحب اگر پارٹی کے نئے صدر ہیں اس کے باوجود خود سارا کنٹرول جو تھا وہ محترمہ مریم نواز کے پاس تھا اور وہ انتہائی نوازشریف سے کہیں جا کر جوڈیشری اور فوج کے حوالے بہت سخت ریمارکس دے رہی تھیں ان کی طرف سے مکمل خاموشی جو ہے وہ اصل میں شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔ وہ اتنا زیادہ خاموش کیوں ہیں۔
ملک احمد نے کہا کہ جیسا میں نے کہا کہ الیکشن سے قبل ایک جارحانہ انداز اختیار کرنا جو کہ الیکشن کمپین میں ایک بات ہوتی ہے لامحالہ الیکشن سے پہلے اور بعد میں ایک ماحول ہوتا ہے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مقدمات چل رہے ہیں اور ان کا نقطہ نظر یا بات کو سٹیج پر آ کر بات کرنا ہے تو اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ کس دلیل سے بات کریں گی۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ عطاءالحق قاسمی کے خلاف کیس کے سلسلے میں ہمارے دوست محترم پرویز رشید صاحب کو بھی رقم جمع کرانے کا حکم دیا ہے اور اسحق ڈار کے ذمے نکلے ہیں ایک فیصد فواد حسن فواد کے ذمے نکلا ہے۔ضیا شاہد نے پوچھاکہ عطاالحق ایک فرد نہیںبلکہ ن لیگ کے سینئر حامی ، مددگار اورمشورہ دینے والے بھی تھے۔آپ سمجھتے ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کرنی چاہئے۔ جس پر انکا کہنا تھا کہ عطاالحق کو اس فیصلے کو من و عن تسلیم نہیں کرنا چاہئے اور نظر ثانی کی اپیل کرنی چاہئے۔ تعیناتی کرنے والے اگر سمجھتے ہیں کہ کوئی دلیل یا نقطہ ایسا ہے جو عدالت کی نظر سے نہیں گزرا تو نظر ثانی کی اپیل کرنی چاہئے اور وہ نقطہ انکے سامنے رکھ کر دلائل دینے چاہئیں۔ بادی نظر میں جو بات نظر آرہی ہے وہ یہ کہ انکی تقرری قواعد کے مطابق نہیں تھی۔
آسیہ مسیح کو بیرون ملک بھیجے جانے کی خبروں پر حکومت کی جانب سے تردید کیساتھ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کے بیان پر ضیا شاہد نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اردو کاایک محاورہ ہے کہ ”نام بڑے اور درشن چھوٹے“۔بی بی سی کا نام سن کر دہشت پھیل جاتی ہے کہ وہ بی بی سی نے کہا ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ 1965ءکی جنگ میں بی بی سی نے یہ خبر بھی نشر کر دی تھی کہ بھارتی فوج لاہور جم خانہ تک پہنچ گئی ہے اور آدھے لاہور پر قبضہ ہوگیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ بھارتی فوج نہر بھی عبور نہیں کر پائی تھی۔ کل رات بھی اسی قسم کا واقعہ ہوا۔ ساڑھے 12 بجے خبر آئی کہ آسیہ مسیح کو ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت اسکی رہائی کی روبکار آنا ہی تھی اور اسے رہا ہونا ہی تھا لیکن پاکستانی میڈیاکی ذمہ داری کا عالم یہ ہے کہ چار دن پہلے ایک اخبار نے اپنی لیڈ سٹوری چھاپ دی تھی تھی کہ آسیہ کو رہا کر دیا گیا ہے۔ رات کو آسیہ کی رہائی کی خبر آنے کے بعد4 بجے بی بی سی نے ایک خاص خبرنامے میں یہ اطلاع دی کہ انکو ملتان سے ہالینڈ کے سفارتخانے والے اسلام آباد لے گئے۔میری معلومات کے مطابق اگر وہ رات ساڑھے 12 بجے رہا ہو تو صبح چار بجے وہ اسلام آباد نہیں پہنچ سکتی تھی کیونکہ اگر وہ جہاز سے نہیں گئی تو ملتان سے اسلام آبادپہنچنے میں 6 گھنٹے لگتے ہیں۔ اور اگر وہ جہاز پر گئی تو جہاز کو ملتان ائیر پورٹ پر ہونا چاہئے تھا، اسلام آباد ائیر پورٹ پر کیوں۔ لیکن کہا گیا کہ ہالینڈ کاجہاز خصوصی فلائیٹس کی ائیربیس پر کھڑا تھا اور ملتا ن سے بائی روڈ آسیہ کو لیجایا گیا۔آج صبح سے حکومت کی جانب سے تردید آرہی ہے کہ نہ تو آسیہ کے لیے ہالینڈ سے کوئی جہاز آیا اور نہ ہی وہ اور اسکا خاندان ہالینڈ روانہ ہوا ہے۔ یہ خبر غلط تھی، جو کل صبح کے اخبارات اور چینلز پر آرہی ہے۔ میری گفتگو کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم لیپ کر دیتے ہیں کہ یہ وائس آف امریکا یا بی بی سی نے کہا ہے لہذا یہ بات سو فیصد درست ہوگی۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں ہوتا ، بی بی سی سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ آسیہ مسیح کے کیس پر نظر ثانی جاری ہے۔
پروگرام میں سینئر صحافی و صدر سی پی این ای عارف نظامی نے ٹیلی فونک شرکت کی ۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ بی بی سی پہلے بھی چھکے لگاتا رہا ہے لیکن رات 4 بجے کل یہ خبر دیدی کہ ہالینڈ سے آئے ایک جہاز میں آسیہ کو پورے خاندان سمیت ہالینڈ لیجایا گیا ہے۔جسکی وجہ سے پاکستان کے بہت سے اخبارات نے یہ خبر بھی چھاپ دی البتہ 3 سے 4 مرکزی اخبارات نے سنگل کالم رہائی کی خبر کے سوا مبینہ ہالینڈ فرار کی خبر نہیں چھاپی۔ یہ فرمائیے کہ بی بی سی کی خبرکو ہم من و عن مان لیتے ہیں، کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اکثر اوقات بی بی سی بھی چھکے لگا دیتا ہے۔
عارف نظامی نے کہا کہ بی بی سی سے ہی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیسے چھکے لگا رہے ہیں ۔ ہمارے اپنے میڈیااور بڑے بڑے اخباروں میں یہ خبریں لگی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وزارت خارجہ اور حکومت کی جانب سے تردید کی گئی تو مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی بات کریں گے جو خلاف واقعہ ہوگی۔یہ معاملہ انتہائی حساس معاملہ ہے، بی بی سی پر ہمارا دوش نہیں لیکن ہمارے میڈیا کو خود اس معاملے میں احتیاط کرنی چاہئے کیونکہ ایسی خبروں سے ملکی صورتحال پھر خراب ہو سکتی ہے۔
ضیا شاہد نے پروگرام میں مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی اخباروں نے یہ خبر نہیں چھاپی۔ کسی بھی سینئر اخبار نویس یا اخباری ادارے کو خبر کی پوری تحقیق کے بغیر خبر شائع نہیں کرنی چاہئے۔ناموں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے کہ وائس آف امریکا نے کہہ دیا یا بی بی سی نے کہہ دیا۔
پروگرام میںشریک گفتگوسربراہ تحریک لبیک آصف اشرف جلالی نے کہا کہ اس خبر کے شائع ہونے کی بعد اعلیٰ حکام سے بات ہوئی تھی اور انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ آسیہ مسیح کو ملتان جیل سے رہا کیا گیا ہے اور اسلام آباد میں رکھا گیا ہے تاہم نظر ثانی اپیل کا فیصلہ آنے تک اسے باہر نہیں جانے دیا جائے گا۔ دھرنے کے مطالبات میں اس بات پر ہمیں کہا گیا تھا کہ اگر آپ یقین دہانی اور تسلی چاہتے ہیں تو کسی خاتون وکیل کو بھیج کو چیک کر سکتے ہیں اور لوگ اس سے پہلے سے کہتے رہے ہیں کہ وہ ملک سے باہر ہے۔ ان شکوک و شبہات کے برعکس حکومت کی وضاحت پر ہمیں اعتماد کرنا چاہئے ۔ میڈیا کو اگر کوئی مصدقہ خبر ملتی ہے تو ہمیں بھی مطلع کیا جائے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزراءکے بیرون ملک سرکاری علاج پر پابندی عائد کیے جانے پر ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے کہ ایک ایک وزیر پر بے انتہا اخراجات ہوتے تھے اور وہ مہینوں پرائیویٹ ہسپتالوں میں داخل رہتے تھے اور تمام بل حکومت پاکستان کو ادا کرنا پڑتا تھا۔ میں اسکے ساتھ یہ بھی شامل کروں گا کہ صرف وزیروں کو ہی نہیں ، ایم این اے ، ایم پی ایز اور سینیٹرز کے بیرون ملک علاج کے اخراجات بھی حکومت پاکستان کو نہیں برداشت کرنے چاہئیں۔