لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)چینل فائیو کے پروگرام ”نیوز ایٹ سیون “ میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ی سینئر رہنماطاہرہ اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے 15ایم پی ایز کی ملاقات کی خبر غلط ہے ، صرف 5ایم پی ایز بنی گالا گئے۔ مسلم لیگ ن کے 5ایم پی ایز نے سیاسی خودکشی کی ہے اور اپنے ووٹرز کو دھوکہ دیا ہے، یہ لوگ لوٹے اور غیر سیاسی افرادہیں۔ عمران خان ریاست مدینہ کا پرچار کرتے ہیں، ریاست مدینہ میں سوداگروں کی طرح خریدوفروخت نہیں ہوتی تھی۔ وقت بتائے گا کہ (ن) لیگ چھوڑ کر جانے والوں کا کتنا نقصا ن ہوا، انکے اپنے ووٹرز انکا محاسبہ کریںگے۔ ن لیگ میں کوئی انتشار نہیں، اصل لیگی پارٹی کیساتھ کھڑے ہیں۔ نہیں کہا جا سکتا کہ مریم نواز ، نواز شریف کے مقام تک جائیں گی۔ن لیگ کا ایک بھی ایم این اے پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں نہیں جائے گا۔حکومت نے ق لیگ کا دباﺅ کم کرنے کے لیے لیگی ایم پی ایز کو ساتھ ملایا ہے۔ مشترکہ اپوزیشن کی اے پی سی کا مقصد مہنگائی کے خلاف عوام کیساتھ کھڑے ہو کر حکو مت کیخلاف احتجاج کرنا اور آئی ایم ایف کے بجٹ سے عوام کو نجات دلانا تھا۔سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈرکو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں۔ ن لیگ کے ناراض ایم پی ایز کی وزیراعظم سے ملاقاتوں پر حکومتی وزراءخوشی سے کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ پارٹی لیڈر کے پاس موجود اختیارات کی بدولت ناراض لیگی ایم پی ایز کی وزیراعظم سے ملاقات اور حکومتی وزراءو معاون خصوصی کے ٹویٹس و بیانات کا ریکارڈ اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی کے سامنے پیش کر دیا جائے تو ملک میں آئینی بحران پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کرنے والے وزراءکو اپنی موجودہ نشستوں سے مستعفیٰ ہونا پڑے گا ۔الیکشن کمیشن کو دیکھنا پڑے گا کہ مریم ضمانت پر رہا ہونے کے بعد کوئی سیاسی عہدہ رکھ سکتی ہیں یا نہیں۔ مریم نواز کے دادا نے انہیں وصیت میں جن لوگوں کی شر انگیزی سے بچنے کی تلقین کی تھی آج وہی لوگ مریم نواز کے اردگرد ہیں ۔ پرویز رشید کے بارے میں میاں محمد شریف نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ اسکے شر سے محفوظ رہنا، یہی پرویز رشید مریم نواز کے چیف ایڈوائزر ہیں۔ چوہدری نثار نے پرویز رشید کے بارے میں کہا تھا کہ وہ دہلی کے نمائندے ہیں۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایمنسٹی اسکیم کی تاریخ ستمبر تک بڑھانے چاہیئے تھی تاکہ لوگ اگلے سال کے نئے گوشواروں میں ٹیکس ادا کر سکتے۔ پاکستانی معیثت کو راہ راست پر لانا بہت مشکل ہے۔سروس سیکٹر میں یونیورسٹیز ، بینکنگ ،آئی ٹی ،زراعت اور انڈسٹری تباہ ہوچکی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں فوری سرمایہ کاری آئے مگر سرمایاکاروں کو سکیورٹی دئیے بغیر ایسا ممکن نہیں ہے۔ حکومت کوسی پیک کو پچھلی حکومت کے لیول پر لیجانا ہوگا پھر ہی معیثت درست سمت میں جائے گی۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کیوجہ تجارتی خسارہ اور منی لانڈرنگ ہے۔ اس سال کے آخر تک ڈالر 200روپے کی قیمت پر جائے گا۔ حکومت کو سنجیدہ طورپر ایکسپورٹرز اور ایس ایم ایز پر زور دینا پڑے گا تاکہ ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے روکا جائے۔ اپوزیشن کی منگائی کے خلاف بیان بازی سے کچھ نہیں ہوگا، انکے پاس طاقت ہوتی تو بجٹ کو پاس ہونے سے روک لیتے۔
