ملتان (سجاد بخاری سے) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو لانگ مارچ اور دھرنے کی بابت بہت بڑی مایوسی کا سامنا ، جنوبی پنجاب کے کارکنان ، عہدیداران ، مدرسوں کے مہتمموں اور خیرخواہوں نے دبے لفظوں میں مولانا سے معذرت کرلی۔ صرف ذاتی حیثیت میں چندہ اور شرکت کی یقین دہانی جبکہ عوام کو شرکت پر آمادہ کرنے سے معذرت ظاہر کر دی۔ انتہائی باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ ہفتے دو دن ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں گزارنے اور انہوں نے لانگ مارچ اور دھرنے کی بابت ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں اپنی جماعت کے عام کارکنوں ، عہدیداران اور ہمدردوں سے خطاب اور میٹنگز بھی کیں اور مولانا فضل الرحمن کے فیصلے کے مطابق فی کارکن مبلغ سو روپے عہدیداران پانچ ہزار اور اس سے اوپر اور مجلس عمومی کے ارکان آٹھ ہزار سے بیس ہزار تک چندہ دیں گے اور تمام کارکنان و عہدیداران اپنے سمیت اپنے دوستوں اور محلے داروں کوبھی زیادہ سے زیادہ دھرنے میں لائیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد واپس جانے کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے عہدیداران نے بہت کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کیاجائے اور لوگوں کی شرکت کو بھی زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جائے مگر تاحال ان کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ کیونکہ کارکنان و عہدیداران کے علاوہ خیرخواہ اور کاروباری و زمیندار جمعیت کا ہمدرد طبقہ مالی مشکلات کا شکار ہے اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اس لیے فی الحال دھرنے کے لیے چندہ ہے نہ بندہ۔ذرائع نے مزید بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام کا تعلق چونکہ وفاق المدارس کے مدرسوں/مساجد سے بنتا ہے اور مولانا فضل الرحمن کا خیال ہے کہ صرف مدارس کے طلباءبھی دھرنے میں آجائیں تو وہ بھی لاکھوں میں ہوں گے جبکہ ذرائع نے بتایا کہ ملتان سے سوائے قاسم العلوم گلگشت کے باقی کسی مدرسے کے مہتمم نے حامی نہیں بھری کیونکہ ان کے بقول اگر مولانا کا دھرنا لمبا ہو گیا تو بچوں کا تعلیمی نقصان بہت زیادہ ہو گا اور پھر دھرنے میں ان کے کے کھانے پینے اور رہائش کے بندوبست کا بھی ابھی تک کوئی معقول انتظام نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا جنوبی پنجاب سے چند سو افراد بھی دھرنے میں اپنے خرچے پر شرکت کر سکتے ہیں اور یہ بات مولانا تک بھی پہنچا دی گئی ہے جس سے وہ خاصے مایوس ہوئے ہیں۔