تازہ تر ین

نوجوان ٹیٹو مٹانے کیلئے انتہائی اذیت ناک طریقہ اپناکر اسپتال جا پہنچا

لاہور:ٹیٹو جسم پر مشین اور سوئی کی مدد سے بنایا جاتا ہے اور یہ مٹ نہیں سکتا جبکہ اگر کوئی شخص اسے مٹوانا چاہے تو اس کا طریقہ کار کافی تکلیف دہ ہوتا ہے جس میں لیزر کے ذریعے ٹیٹو کو مٹایا جاسکتا ہے۔ارجنٹینیا سے تعلق رکھنے والا لڑکا جو کہ ٹیٹو مٹانے کے لیے اتنا جذباتی ہوگیا تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ کا ٹیٹو ’کدوکش‘ یعنی گریٹر (ایسا آلہٰ جس سے پنیر کو رگڑ کر کدوکش کیا جاتا ہے) سے مٹا دیا اور ایسا کرنے میں اسے ایک ہفتے کا وقت لگا۔21 سالہ نوجوان نے یہ ٹیٹو 2 سال قبل مٹایا تھا جس کی تصاویر اس کے دوست کے پاس تھیں۔لڑکے کے دوست نے ٹیٹو مٹانے سے پہلے اور بعد کی تصاویر کو 2 سال بعد سوشل میڈیا پر شیئر کیا جس کے بعد وہ تصویریں وائرل ہوگئیں۔فوٹو: بشکریہ آڈیٹی سینٹرلنوجوان نے بتایا کہ میں نے اپنی کلائی پر ایک ٹیٹو بنوایا اوراسے بنوانے کے ایک ہفتے بعد ہی مجھے ائیرپورٹ پولیس میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش ہوئی، اگرچہ ائیرپورٹ پولیس کی ویب سائٹ پر کہیں اس بات کا ذکر نہیں تھا کہ جس کے جسم پر ٹیٹو بنا ہوگا تو وہ پولیس میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتا۔اس نے مزید بتایا کہ جب میں 18برس کا تھا تو مجھ سے 2017 میں اگست کے مہینے میں ایک شخص نے کہا تھا کہ جس کے جسم پر ٹیٹو ہوتا ہے وہ پولیس میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتا، یہی وجہ تھی کہ میں نے اپنی کلائی کے ٹیٹو کو خود مٹانے کی کوشش کی۔ٹیٹو کو خود مٹانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھے یہ اپنے جسم پر اچھا نہیں لگ رہا جس کے بعد میں نے یوٹیوب پر اسے مٹانے کے طریقے دیکھنا شروع کیے، سب سے پہلے میں نے اپنی کلائی پر بنے ٹیٹو کو جھانوے کی مدد سے رگڑ کر مٹانا شروع کیا مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا پھر اس کے بعد میں نے ٹیٹو کو گریٹر (کدوکش) سے مٹانے کی کوشش شروع کی اور اس دوران مجھے شدید تکلیف ہوئی،اس جگہ سے بہت خون بھی نکلا اور مجھے اس پر پٹی بھی باندھنی پڑی کیونکہ اس میں انفیکشن ہوگیا تھا جس کے بعد مجھے اسپتال جانا پڑا۔لڑکے نے مزید بتایا کہ یہ طریقہ میرے لیے بے حد اذیت ناک ثابت ہوا اور مجھے اپنے اس فیصلے پر بہت پچھتاوا ہوا ہے اور میں کبھی بھی کسی کو اس طریقے سے ٹیٹو مٹانے کا مشورہ نہیں دوں گا۔21 سالہ لڑکے کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو پر بہت سے ٹیٹو بنانے والے لوگوں نے کمنٹ بھی کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ٹیٹو مٹانے کا اس سے بہتر طریقہ لیزر کا تھا، اس سے درد تو ہوتا ہے مگر اس کا نشان اتنا برا نہیں ہوتا جیسا اس لڑکے کے ہاتھ پر ابھی ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain