لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف تجزیہ نگار و صحافی ارشاد احمدارف کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی گفتگو قارئین کی دلچسپی کے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد:عمران خان جب آئے تو ایک کروڑ ملازمتیں دوں گا، 50 لاکھ گھر بنوا کر دوں گا، کرپشن ختم کروں گا باہر سے سرمایہ کاری آئے گی لیکن ان کی ساری بھاگ دوڑ کے باوجود زیادہ اچھے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ان کو نئے پاکستان کے لئے اچھی ٹیم نہیں مل سکی یا ترجیحات درست نہیں۔
ارشاد احمد عارف: عمران خان نے جو وعدے کئے کچھ ناتجربہ کاری تھی کیونکہ وہ حکومت میں کبھی نہیں رہے تھے۔ ساتھ ہی ان کودو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس مانگے تانگے کی ٹیم ہے کیونکہ انہوں نے پہلے تو الیکٹ ایبلز 2002ءمیں لئے ہی نہیں اس کی وجہ سے وہ الیکشن ہارے 2013ءکا الیکشن ہارے ان کی ضد تھی کہ میں صاف ستھرے اچھی شہرت کے تعلیم یافتہ لوگ لاﺅں گا لیکن یہ معاشرہ ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ٹیم کا مسئلہ تھا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ وہ یہ مافیا اتنا مضبوط ہے اور اس کی جڑیں کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہیں اس کا شاید عمران خان کو اندازہ نہیں تھا۔ جب آصف سعید کھوسہ نے پانامہ کیس میں اپنے فیصلے میں جو اکثریتی فیصلہ کہلاتا ہے مافیا کا دکر کیا تو لوگوں نے تعجب ظاہر کیا کہ لیکن ایک سال سوا سال میں ہم نے بھی دیکھا کہ بیورو کریسی میں کاروباری برادری، میڈیا میں، علماءمیں مذہبی جماعتوں میں سیاسی جماعتوں میں کس قدر مضبوط مافیا موجود ہے جو کسی بھی عمل کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ جس کی خواہش ہے سٹیٹس کو چلتا رہے خدا نخواستہ پاکستان رہے نہ رہے ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔ ایک سوا سال کے عرصے میں مشکل پیش آتی ہے وہ اس مافیا کی وجہ سے نہ کوئی قرصے واپس کرنا چاہتا ہے نہ کوئی ٹیکس دینا چاہتا ہے۔ اب جو مہنگائی کا معاملہ ہے جو لوگ مہنگائی پیدا کر رہے ہیں اس میں حکومت کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ذریعے ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاﺅن نہیں کیا۔ یہ مافیا ان کی سرپرستی کر رہا ہے اور مہنگائی بڑھا رہا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کا آغاز ہو رہا ہے لیکن اس سال بھی کچھ نہیں ہو گا۔ معیشت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سیچوایشن کا عمل موجودہ حکومت نے روک دیا ہے۔
سوال: اس وقت دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس کے باوجود مہنگائی کنٹرول کرنا تو صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کیا صوبائی حکومتیں درست کام نہیں کر رہیں کیا ضرورت ہے جیسے عمران خان کہتے تھے کہ کام صحیح نہیں کرے گا اس کو تبدیل کر دیا جائے گا کیا صوبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جواب: مگر شکایت یہی ہے کہ کام صحیح نہیں ہو رہا تو تبدیلی سے عمران خان کو گھبرانا نہیں چاہئے۔ بجائے اس کے کہ چند لوگوں کی بری کارکردگی کا ملبہ عمران خان پر پڑے ان کو تبدیلی عمل میں لانی چاہئے۔ حقیقت پنجاب میں مہنگائی کے حوالہ سے اپنا جو وقار اور رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے بالکل نہ ضلعی انتظامیہ کچھ کر رہی ہے نہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کچھ کر رہی ہیں۔
سوال: صوبوں میں تبدیلی سے نظم و نسق میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
جواب: اچھا وزیراعلیٰ ہو اور اچھی کابینہ بنائے تو کیوں نہیں ہو سکتی۔ اس معاشرے میں ڈنڈے کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ موجودہ حکومت ہومیوپیتھی حکومت سمجھی جا رہی ہے جس کی نہ بیوروکریسی سنتی ہے نہ تاجر، نہ عوام پولیس کا اپنا نظام متوازی حکومت کے طور پر نظام چل رہا ہے اچھی انتظامیہ سے یقینا فائدہ ہو گا۔
سوال: جب وزیراعلیٰ پنجاب کو مقرر کیا گیا تو اس وقت بھی ایک آواز اٹھی تھی کہ پرویز الٰہی جو پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں اگر انہیں پنجاب سونپ دیا جاتا تو وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر اس کو بہتر چلا سکتے تھے کیونکہ اس وقت ڈاکٹر، ٹینکر، تاجر ہوں گڈ گورننس کی ہر جگہ کمی ہے اور ہر دوسرا طبقہ اپنے مطالبات لے کر بیٹھا ہے۔ صوبائی حکومت اب تک نظم و نسق بہتر نہیں کر سکی۔ جیسے ڈاکٹروں کے معاملات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
جواب: مافیا ریاست کو چلنے نہیں دے رہا، مثال کے طور پر ڈاکٹر کام نہیں کرنا چاہتے تنخواہیں اور مراعات لینا چاہتے ہیں۔ غلط بیانی کی جا رہی ہے کہ این آئی ٹی کا جو قانون آیا ہے اس کے تحت جونیئر ہوں یا سینئر ہوں ڈاکٹروں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ آپ کی ریاست سے یا حکومت سے تنخواہیں نہیں ہے تو آپ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کریں گے یہ لوگ غریب مریضوں کو دیکھتے نہیں دوائیوں میں خورد برد ہوتی ہے پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں میڈیکل کالج کا ایک پروفیسر وہ چار کمروں کا کلینک چلا رہا ہے وہ اپنے وارڈ میں نہیں جاتا وہ اس تبدیلی کو روکنے کے لئے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ مافیا اپنے مفادات کے لئے پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیںوہ اتحادیوں کی محتاج ہے، ق لیگ، چودھری سرور، علیم خان کے معاملات کچھ اور ہیں مخلوط کمزور حکومت اس طرح کے مضبوط انداز میں معاملات سے نہیں نمٹ سکتی جس طرح کہ دو تہائی اکثریت والی حکومت نمٹا کرتی ہے۔ لیکن سارا بوجھ صوبائی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ میاں نوازشریف کے معاملے میں جو ہو رہا ہے کس طرح سے میڈیا، بیورو کریسی کس طرح سے قانون کے رکھوالے مدد کر رہے ہیں اور حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا موازنہ شہباز شریف یا پرویز الٰہی سے نہیں کیا جا سکتا جن کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور بیورو کریسی بھی ان کی بات مانتی تھی۔
سوال: فضل الرحمان کی آزادی مارچ اسلام آباد پہنچنے والا ہے وہ کیا مطالبہ کرنے والا ہے۔ کیا وہ عمران خان سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
جواب: فضل الرحمن کے مارچ کے مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں پہلا جو ان کا مقصد نظر آتا ہے کشمیر کے مسئلہ سے توجہ ہٹا دی جائے اور حکومت پاکستان کو مودی حکومت کے برابر لا کھڑا کیا جائے کہ وہاں بھی پابندی لگائی ہوئی ہیں اوریہاں بھی پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عمران حکومت کی کامیابی ہے کہ اس نے مارچ کو روکا نہیں ہے ورنہ مولانا نے کھل کر کہنا تھا کہ جس طرح حریت کانفرنس کو آزادی نہیں ہے اپنے مطالبات پیش کرنے کی ہمیں بی نہیں دی جا رہی کیونکہ نجی محفلوں میں وہ مکالمہ کرتے ہیں کہ جس طرح مودی نے کشمیر کا الحاق کیا ہے انڈیا کے ساتھ پاکستان بھی فاٹا کا انضمام کر چکی ہے وہ فاٹا اور کشمیر میں ایک مثال قائم کرتے ہیں اور پاکستان کی ریاست کو انڈیا کی ریاست سے اس کا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ تو عمران خان کی حکومت نے موقع نہیں دیا کہ وہ اس طرح کا پروپیگنڈا کر سکیں۔ فضل الرحمان کا مقصد دنیا کو باور کرانا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے آزادی نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ حکومت کر رہی ہے یہاں الیکشن اس کی مرضی سے ہوتے ہیں یہاں جمہوریت نہیں ہے۔ میڈیا کا ایک حصہ ان کی حمایت کر رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے۔ میری معلومات کے مطابق جتنے لوگ پنجاب میں داخل ہوئے تھے مولانا اتنے ہی لوگ لے کر نکلے ہیں اس میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہو گا۔ جو ان کو توقع تھی کہ لاہور پہنچنے پر چالیس پچاس ہزار لوگ شامل ہوں گے اور مسلم لیگ ن کے کارکن شامل ہوں گے۔ میرے رپورٹر بتا رہے ہیں کہ لاہور میں ڈیڑھ دو سو سے زیادہ کا قافلہ شامل نہیں ہوا۔ جو انہوں نے شہباز شریف یا ن لیگ کے خلاف بات چیت کی وہ میڈیا پر منظر عام پر نہیں آئی۔ وہ سخت تلخ تھی وہ بہت زیادہ گلہ تھا شکوہ تھا کہ مجھے مسلم لیگ ن نے دھوکہ دیا ہے ان کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ گویا شہباز شرییف نے انتظامیہ کو یہ تاثر دیا ہے کہ ہم فضل الرحمن کے ساتھ نہیں ہیں۔ اب ان کی توقعات خیبرپختونخوا سے ہیں۔ اگر وہ ایک لاکھ لوگ جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ مطالبات عمران خان کے صرف استعفے کا مطالبہ نہیں کریں گے وہ ایک دو اور استعفے بھی مانگ سکتے ہیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کن کے استعفے ہو سکتے ہیں۔ ان کی تحریک یا مارچ عمران خان کے خلاف نہیں ہے۔ اس وقت جب پاکستان کی دونوں سرحدوں پر خطرات موجود ہیں اس طرح کی کارروائی کا مقصدسوائے اس کے اور نہیں ہے کہ انتشار پیدا کیا جائے اور سرحدوں کے محافظ لوگوں کو جتنا کمزور کیا جائے۔ جتنی کامیابی انہوں نے حاصل کر لی ہے اس سے زیادہ کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ مولانا سمجھدار ہیں لگتا نہیں ہے کہ عبدالرشید غازی، علامہ خادم رضوی یا طاہر القادری جیسی صورت حال پیدا کریں اگر پیدا کر دی۔ اگر خدانحواستہ کوئی صورتحال پیدا ک دی تو جمہوریت کا مستقبل محفوظ نہیں رہے گا۔
سوال: مارچ کی کوریج کیلئے جانے والے خبریں، چینل۵ کے رپورٹروں کو مولانا کے جوشیلے کارکنوں نے پکڑ لیا اور موبائل و دیگر سامان چھین لیا پولیس نے بڑی مشکل سے چیزیں واپس دلائیں، میرے نام ایک پیغام بھیجا کہ آپ کے شام کے اخبار میں فواد چودھری کی خبر چھاپی گئی جو ہمارے خلاف تھی۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت ان کے نزدیک کیا ہے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف ایک لفظ نہ چھپے کیا اب یہی آزادی صحافت کا مطلب ان لوگوں سے سیکھنا ہو گا؟
جواب: ان مذہبی کارکنوںکے نزدیک آزادی اظہار صرف اس حد تک جائز ہے جسے یہ ٹھیک سمجھتے ہیں ہماری سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی ایسا ہی ہے تاہم مذہبی جماعتیں تو میڈیاکو جعلی اور فحاشی کے فروغ دینے والا سمجھتی ہیں اس لئے میڈیا کے ساتھ ان کا رویہ قابل فہم ہے، مولانا کے پیروکار بھی اس فکر کے ہیں جو فکر جامعہ حفصہ یا تحریک طالبان کی ہے۔ میڈیا کے بعض لوگ جو اس وقت مولانا پر فریفتہ ہو رہے ہیں کہ مارچ سے نوازشریف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے انہیں ابھی اندازہ نہیں کہ مولانا کی جماعت اگر طاقت پکڑتی ہے تو میڈیا کے لئے خطرات کتنے بڑھ جائیں گے۔ مارچ کراچی سے اسلام آباد پہنچ گیا مگر اس میں عام آدمی جو مہنگائی، بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہونے کے باوجود ساتھ نہیں چلا عوام کی مارچ میں شرکت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، صرف مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور کارکن مولانا کے ساتھ ہیں۔ میڈیا کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرح ایک ایسے عفریت کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہمارا گلا دبوچ لے۔
س: اسلام آباد میں مارچ شرکا کی تعداد بڑھ گئی تو وہ آگے بھی جا سکتے ہیں کیونکہ افرادی طاقت فیصلے تبدیل کرا دیتی ہے کیا مولانا حکومت کے کئے معاہدے پر قائم رہیں گے؟
جواب:ایسا امکان موجود ہے تاہم مولانا کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار نہیں کریں گے جبکہ وہ نتائج سے بھی باخبر ہیں، ریاست یا حکومت اتنی کمزور نہیں ہے کہ فساد پر قابو نہ پا سکے، مولانا نے ٹکراﺅ کی سیاست کبھی نہیں کی مولانا نے ایک اہم شخصیت کو پیغام بھیجا تھا کہ جب آپ کے خلاف ن لیگ اور مولانا ساجد میر ایک مخصوص پروپیگنڈا کیا تھا تو ہم سے بھی رابطے کئے گئے مگر میں نے اپنے ساتتھی علماءکو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ مولانا اگر اسلام آباد میں دو تین دن لوگوں کو بٹھائیں گے بھی تو اگلی تاریخ دے کر پرامن طور پر اٹھ جائیں گے۔ مولانا اپنی طاقت شو کر چکے ہیں وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ظاہر کر چکے ہیں اب وہ سیاسی بارگیننگ کی کوشش کریں گے اور انتشار کا راستہ نہیں اپنائیں گے تاہم پاکستان میں کوئی سیاسی پیش گوئی ممکن نہیں تاہم میرے نزدیک بہتری ہی ہو گی۔
سوال: کیا مولانا وزیراعظم سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوں گے اگر یہی کام شروع ہو گیا کہ کوئی بھی افرادی طاقت لے کر اسلام آباد پہنچے اور حکومت کو ختم کر دے تو کیا ایسے چل سکتا ہے؟
ج: مولانا دو یا تین استعفوں کا مطالبہ کریں گے، میرے نزدیک صرف ایک اجتماع کے زور پر وہ وزیراعظم تو کیا کسی وزیر کا بھی استعفیٰ نہیں لے سکتے۔
سوال: بڑی تعداد میں لوگوں کی کراچی سے لے کر اسلام آباد تک پرامن لے جانے پر مولانا کو مبارکباد دی جا سکتی ہے؟
جواب: مولانا کو کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے دکھا دیا کہ وہ پی پی ن لیگ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر لا سکتے ہیں اور انہیں پرامن بھی رکھ سکتے ہیں۔ حکومت کا بھی کریڈٹ ہے کہیں بھی ان لوگوں کو روکا نہیں گیا۔ ن لیگ، میڈیا کے بعض لوگ اورغیر ملکی طاقتیں توڑ پھوڑ چاہتی ہیں، مولانا کو اکسایا بھی جا رہا ہے۔
سوال: حکومت کی اس بات میں کتنا سچ ہے کہ مہنگائی کی صورتحال چند ماہ میں تبدیل ہو جائے گی؟
جواب: معاشی بحران ماضی کی حکومتوں کا شاخسانہ ہے، مافیاز بھی حکومت کو ناکام بنانے پر تلے ہیں۔ بحران حقیقی نہیں مصنوعی ہے، دھرنا پرامن طور پر منتشر ہو جاتا ہے اور ن لیگ کی اس سے اُمیدیں دم توڑتی ہیں تو معیشت بہتری کی جانب جائے گی۔ بیورو کریسی کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ حکومت جانے والی نہیں ہے اس لئے کام کرے گی زرداری اورنواز کی کرپٹ حکومت پانچ سال پورے کرتی ہے تو عمران خان کا کیا قصور ہے کہ صرف ایک سال بعد ہی مہنگائی کا بہانہ بنا کر ہٹا دیا جائے۔ سو فیصد یقین ہے کہ گومگو کی کیفیت ختم ہو گی تو معیشت بھی بہتری کی طرف جائے گی۔ معاشی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ ملک بہتری کی جانب گامزن ہے ماضی کا گند صاف ہو رہا ہے۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف تجزیہ نگار و صحافی ارشاد احمد
باقی صفحہ5بقیہ نمبر 1
عارف کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی گفتگو قارئین کی دلچسپی کے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد:عمران خان جب آئے تو ایک کروڑ ملازمتیں دوں گا، 50 لاکھ گھر بنوا کر دوں گا، کرپشن ختم کروں گا باہر سے سرمایہ کاری آئے گی لیکن ان کی ساری بھاگ دوڑ کے باوجود زیادہ اچھے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ان کو نئے پاکستان کے لئے اچھی ٹیم نہیں مل سکی یا ترجیحات درست نہیں۔
ارشاد احمد عارف: عمران خان نے جو وعدے کئے کچھ ناتجربہ کاری تھی کیونکہ وہ حکومت میں کبھی نہیں رہے تھے۔ ساتھ ہی ان کودو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس مانگے تانگے کی ٹیم ہے کیونکہ انہوں نے پہلے تو الیکٹ ایبلز 2002ءمیں لئے ہی نہیں اس کی وجہ سے وہ الیکشن ہارے 2013ءکا الیکشن ہارے ان کی ضد تھی کہ میں صاف ستھرے اچھی شہرت کے تعلیم یافتہ لوگ لاﺅں گا لیکن یہ معاشرہ ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ٹیم کا مسئلہ تھا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ وہ یہ مافیا اتنا مضبوط ہے اور اس کی جڑیں کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہیں اس کا شاید عمران خان کو اندازہ نہیں تھا۔ جب آصف سعید کھوسہ نے پانامہ کیس میں اپنے فیصلے میں جو اکثریتی فیصلہ کہلاتا ہے مافیا کا دکر کیا تو لوگوں نے تعجب ظاہر کیا کہ لیکن ایک سال سوا سال میں ہم نے بھی دیکھا کہ بیورو کریسی میں کاروباری برادری، میڈیا میں، علماءمیں مذہبی جماعتوں میں سیاسی جماعتوں میں کس قدر مضبوط مافیا موجود ہے جو کسی بھی عمل کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ جس کی خواہش ہے سٹیٹس کو چلتا رہے خدا نخواستہ پاکستان رہے نہ رہے ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔ ایک سوا سال کے عرصے میں مشکل پیش آتی ہے وہ اس مافیا کی وجہ سے نہ کوئی قرصے واپس کرنا چاہتا ہے نہ کوئی ٹیکس دینا چاہتا ہے۔ اب جو مہنگائی کا معاملہ ہے جو لوگ مہنگائی پیدا کر رہے ہیں اس میں حکومت کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ذریعے ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاﺅن نہیں کیا۔ یہ مافیا ان کی سرپرستی کر رہا ہے اور مہنگائی بڑھا رہا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کا آغاز ہو رہا ہے لیکن اس سال بھی کچھ نہیں ہو گا۔ معیشت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سیچوایشن کا عمل موجودہ حکومت نے روک دیا ہے۔
سوال: اس وقت دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس کے باوجود مہنگائی کنٹرول کرنا تو صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کیا صوبائی حکومتیں درست کام نہیں کر رہیں کیا ضرورت ہے جیسے عمران خان کہتے تھے کہ کام صحیح نہیں کرے گا اس کو تبدیل کر دیا جائے گا کیا صوبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جواب: مگر شکایت یہی ہے کہ کام صحیح نہیں ہو رہا تو تبدیلی سے عمران خان کو گھبرانا نہیں چاہئے۔ بجائے اس کے کہ چند لوگوں کی بری کارکردگی کا ملبہ عمران خان پر پڑے ان کو تبدیلی عمل میں لانی چاہئے۔ حقیقت پنجاب میں مہنگائی کے حوالہ سے اپنا جو وقار اور رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے بالکل نہ ضلعی انتظامیہ کچھ کر رہی ہے نہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کچھ کر رہی ہیں۔
سوال: صوبوں میں تبدیلی سے نظم و نسق میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
جواب: اچھا وزیراعلیٰ ہو اور اچھی کابینہ بنائے تو کیوں نہیں ہو سکتی۔ اس معاشرے میں ڈنڈے کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ موجودہ حکومت ہومیوپیتھی حکومت سمجھی جا رہی ہے جس کی نہ بیوروکریسی سنتی ہے نہ تاجر، نہ عوام پولیس کا اپنا نظام متوازی حکومت کے طور پر نظام چل رہا ہے اچھی انتظامیہ سے یقینا فائدہ ہو گا۔
سوال: جب وزیراعلیٰ پنجاب کو مقرر کیا گیا تو اس وقت بھی ایک آواز اٹھی تھی کہ پرویز الٰہی جو پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں اگر انہیں پنجاب سونپ دیا جاتا تو وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر اس کو بہتر چلا سکتے تھے کیونکہ اس وقت ڈاکٹر، ٹینکر، تاجر ہوں گڈ گورننس کی ہر جگہ کمی ہے اور ہر دوسرا طبقہ اپنے مطالبات لے کر بیٹھا ہے۔ صوبائی حکومت اب تک نظم و نسق بہتر نہیں کر سکی۔ جیسے ڈاکٹروں کے معاملات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
جواب: مافیا ریاست کو چلنے نہیں دے رہا، مثال کے طور پر ڈاکٹر کام نہیں کرنا چاہتے تنخواہیں اور مراعات لینا چاہتے ہیں۔ غلط بیانی کی جا رہی ہے کہ این آئی ٹی کا جو قانون آیا ہے اس کے تحت جونیئر ہوں یا سینئر ہوں ڈاکٹروں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ آپ کی ریاست سے یا حکومت سے تنخواہیں نہیں ہے تو آپ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کریں گے یہ لوگ غریب مریضوں کو دیکھتے نہیں دوائیوں میں خورد برد ہوتی ہے پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں میڈیکل کالج کا ایک پروفیسر وہ چار کمروں کا کلینک چلا رہا ہے وہ اپنے وارڈ میں نہیں جاتا وہ اس تبدیلی کو روکنے کے لئے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ مافیا اپنے مفادات کے لئے پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیںوہ اتحادیوں کی محتاج ہے، ق لیگ، چودھری سرور، علیم خان کے معاملات کچھ اور ہیں مخلوط کمزور حکومت اس طرح کے مضبوط انداز میں معاملات سے نہیں نمٹ سکتی جس طرح کہ دو تہائی اکثریت والی حکومت نمٹا کرتی ہے۔ لیکن سارا بوجھ صوبائی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ میاں نوازشریف کے معاملے میں جو ہو رہا ہے کس طرح سے میڈیا، بیورو کریسی کس طرح سے قانون کے رکھوالے مدد کر رہے ہیں اور حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا موازنہ شہباز شریف یا پرویز الٰہی سے نہیں کیا جا سکتا جن کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور بیورو کریسی بھی ان کی بات مانتی تھی۔
سوال: فضل الرحمان کی آزادی مارچ اسلام آباد پہنچنے والا ہے وہ کیا مطالبہ کرنے والا ہے۔ کیا وہ عمران خان سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
جواب: فضل الرحمن کے مارچ کے مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں پہلا جو ان کا مقصد نظر آتا ہے کشمیر کے مسئلہ سے توجہ ہٹا دی جائے اور حکومت پاکستان کو مودی حکومت کے برابر لا کھڑا کیا جائے کہ وہاں بھی پابندی لگائی ہوئی ہیں اوریہاں بھی پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عمران حکومت کی کامیابی ہے کہ اس نے مارچ کو روکا نہیں ہے ورنہ مولانا نے کھل کر کہنا تھا کہ جس طرح حریت کانفرنس کو آزادی نہیں ہے اپنے مطالبات پیش کرنے کی ہمیں بی نہیں دی جا رہی کیونکہ نجی محفلوں میں وہ مکالمہ کرتے ہیں کہ جس طرح مودی نے کشمیر کا الحاق کیا ہے انڈیا کے ساتھ پاکستان بھی فاٹا کا انضمام کر چکی ہے وہ فاٹا اور کشمیر میں ایک مثال قائم کرتے ہیں اور پاکستان کی ریاست کو انڈیا کی ریاست سے اس کا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ تو عمران خان کی حکومت نے موقع نہیں دیا کہ وہ اس طرح کا پروپیگنڈا کر سکیں۔ فضل الرحمان کا مقصد دنیا کو باور کرانا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے آزادی نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ حکومت کر رہی ہے یہاں الیکشن اس کی مرضی سے ہوتے ہیں یہاں جمہوریت نہیں ہے۔ میڈیا کا ایک حصہ ان کی حمایت کر رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے۔ میری معلومات کے مطابق جتنے لوگ پنجاب میں داخل ہوئے تھے مولانا اتنے ہی لوگ لے کر نکلے ہیں اس میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہو گا۔ جو ان کو توقع تھی کہ لاہور پہنچنے پر چالیس پچاس ہزار لوگ شامل ہوں گے اور مسلم لیگ ن کے کارکن شامل ہوں گے۔ میرے رپورٹر بتا رہے ہیں کہ لاہور میں ڈیڑھ دو سو سے زیادہ کا قافلہ شامل نہیں ہوا۔ جو انہوں نے شہباز شریف یا ن لیگ کے خلاف بات چیت کی وہ میڈیا پر منظر عام پر نہیں آئی۔ وہ سخت تلخ تھی وہ بہت زیادہ گلہ تھا شکوہ تھا کہ مجھے مسلم لیگ ن نے دھوکہ دیا ہے ان کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ گویا شہباز شرییف نے انتظامیہ کو یہ تاثر دیا ہے کہ ہم فضل الرحمن کے ساتھ نہیں ہیں۔ اب ان کی توقعات خیبرپختونخوا سے ہیں۔ اگر وہ ایک لاکھ لوگ جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ مطالبات عمران خان کے صرف استعفے کا مطالبہ نہیں کریں گے وہ ایک دو اور استعفے بھی مانگ سکتے ہیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کن کے استعفے ہو سکتے ہیں۔ ان کی تحریک یا مارچ عمران خان کے خلاف نہیں ہے۔ اس وقت جب پاکستان کی دونوں سرحدوں پر خطرات موجود ہیں اس طرح کی کارروائی کا مقصدسوائے اس کے اور نہیں ہے کہ انتشار پیدا کیا جائے اور سرحدوں کے محافظ لوگوں کو جتنا کمزور کیا جائے۔ جتنی کامیابی انہوں نے حاصل کر لی ہے اس سے زیادہ کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ مولانا سمجھدار ہیں لگتا نہیں ہے کہ عبدالرشید غازی، علامہ خادم رضوی یا طاہر القادری جیسی صورت حال پیدا کریں اگر پیدا کر دی۔ اگر خدانحواستہ کوئی صورتحال پیدا ک دی تو جمہوریت کا مستقبل محفوظ نہیں رہے گا۔
سوال: مارچ کی کوریج کیلئے جانے والے خبریں، چینل۵ کے رپورٹروں کو مولانا کے جوشیلے کارکنوں نے پکڑ لیا اور موبائل و دیگر سامان چھین لیا پولیس نے بڑی مشکل سے چیزیں واپس دلائیں، میرے نام ایک پیغام بھیجا کہ آپ کے شام کے اخبار میں فواد چودھری کی خبر چھاپی گئی جو ہمارے خلاف تھی۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت ان کے نزدیک کیا ہے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف ایک لفظ نہ چھپے کیا اب یہی آزادی صحافت کا مطلب ان لوگوں سے سیکھنا ہو گا؟
جواب: ان مذہبی کارکنوںکے نزدیک آزادی اظہار صرف اس حد تک جائز ہے جسے یہ ٹھیک سمجھتے ہیں ہماری سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی ایسا ہی ہے تاہم مذہبی جماعتیں تو میڈیاکو جعلی اور فحاشی کے فروغ دینے والا سمجھتی ہیں اس لئے میڈیا کے ساتھ ان کا رویہ قابل فہم ہے، مولانا کے پیروکار بھی اس فکر کے ہیں جو فکر جامعہ حفصہ یا تحریک طالبان کی ہے۔ میڈیا کے بعض لوگ جو اس وقت مولانا پر فریفتہ ہو رہے ہیں کہ مارچ سے نوازشریف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے انہیں ابھی اندازہ نہیں کہ مولانا کی جماعت اگر طاقت پکڑتی ہے تو میڈیا کے لئے خطرات کتنے بڑھ جائیں گے۔ مارچ کراچی سے اسلام آباد پہنچ گیا مگر اس میں عام آدمی جو مہنگائی، بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہونے کے باوجود ساتھ نہیں چلا عوام کی مارچ میں شرکت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، صرف مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور کارکن مولانا کے ساتھ ہیں۔ میڈیا کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرح ایک ایسے عفریت کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہمارا گلا دبوچ لے۔
س: اسلام آباد میں مارچ شرکا کی تعداد بڑھ گئی تو وہ آگے بھی جا سکتے ہیں کیونکہ افرادی طاقت فیصلے تبدیل کرا دیتی ہے کیا مولانا حکومت کے کئے معاہدے پر قائم رہیں گے؟
جواب:ایسا امکان موجود ہے تاہم مولانا کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار نہیں کریں گے جبکہ وہ نتائج سے بھی باخبر ہیں، ریاست یا حکومت اتنی کمزور نہیں ہے کہ فساد پر قابو نہ پا سکے، مولانا نے ٹکراﺅ کی سیاست کبھی نہیں کی مولانا نے ایک اہم شخصیت کو پیغام بھیجا تھا کہ جب آپ کے خلاف ن لیگ اور مولانا ساجد میر ایک مخصوص پروپیگنڈا کیا تھا تو ہم سے بھی رابطے کئے گئے مگر میں نے اپنے ساتتھی علماءکو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ مولانا اگر اسلام آباد میں دو تین دن لوگوں کو بٹھائیں گے بھی تو اگلی تاریخ دے کر پرامن طور پر اٹھ جائیں گے۔ مولانا اپنی طاقت شو کر چکے ہیں وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ظاہر کر چکے ہیں اب وہ سیاسی بارگیننگ کی کوشش کریں گے اور انتشار کا راستہ نہیں اپنائیں گے تاہم پاکستان میں کوئی سیاسی پیش گوئی ممکن نہیں تاہم میرے نزدیک بہتری ہی ہو گی۔
سوال: کیا مولانا وزیراعظم سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوں گے اگر یہی کام شروع ہو گیا کہ کوئی بھی افرادی طاقت لے کر اسلام آباد پہنچے اور حکومت کو ختم کر دے تو کیا ایسے چل سکتا ہے؟
ج: مولانا دو یا تین استعفوں کا مطالبہ کریں گے، میرے نزدیک صرف ایک اجتماع کے زور پر وہ وزیراعظم تو کیا کسی وزیر کا بھی استعفیٰ نہیں لے سکتے۔
سوال: بڑی تعداد میں لوگوں کی کراچی سے لے کر اسلام آباد تک پرامن لے جانے پر مولانا کو مبارکباد دی جا سکتی ہے؟
جواب: مولانا کو کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے دکھا دیا کہ وہ پی پی ن لیگ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر لا سکتے ہیں اور انہیں پرامن بھی رکھ سکتے ہیں۔ حکومت کا بھی کریڈٹ ہے کہیں بھی ان لوگوں کو روکا نہیں گیا۔ ن لیگ، میڈیا کے بعض لوگ اورغیر ملکی طاقتیں توڑ پھوڑ چاہتی ہیں، مولانا کو اکسایا بھی جا رہا ہے۔
سوال: حکومت کی اس بات میں کتنا سچ ہے کہ مہنگائی کی صورتحال چند ماہ میں تبدیل ہو جائے گی؟
جواب: معاشی بحران ماضی کی حکومتوں کا شاخسانہ ہے، مافیاز بھی حکومت کو ناکام بنانے پر تلے ہیں۔ بحران حقیقی نہیں مصنوعی ہے، دھرنا پرامن طور پر منتشر ہو جاتا ہے اور ن لیگ کی اس سے اُمیدیں دم توڑتی ہیں تو معیشت بہتری کی جانب جائے گی۔ بیورو کریسی کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ حکومت جانے والی نہیں ہے اس لئے کام کرے گی زرداری اورنواز کی کرپٹ حکومت پانچ سال پورے کرتی ہے تو عمران خان کا کیا قصور ہے کہ صرف ایک سال بعد ہی مہنگائی کا بہانہ بنا کر ہٹا دیا جائے۔ سو فیصد یقین ہے کہ گومگو کی کیفیت ختم ہو گی تو معیشت بھی بہتری کی طرف جائے گی۔ معاشی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ ملک بہتری کی جانب گامزن ہے ماضی کا گند صاف ہو رہا ہے۔