تازہ تر ین

مولانا بات آئین کی بالادستی کی کرتے ،حکومت غیر آئینی طریقے سے گرانا چاہتے ہیں،ایاز خان

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف صحافی روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹرایاز خان کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی گفتگو قارئین کی دلچسپی ئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد: آزادی مارچ جاری ہے، جلسہ، جلوس، دھرنا کے باوجود کوئی ٹیم کے سارے وزراءصف آراءتھے کل عمران خان نے کہا ہے کہ اس پر کوئی رائے زنی کریں۔ خود عمران خان صاحب اپنی اپوزیشن کے دور میں دھرنا دیا تھا اور یہی مطالبہ کیا تھا کہ نوازشریف استعفیٰ دے دیں اس وقت درست تھا تو پھر آج فضل الرحمن یہ کہیںکہ عمران خان استعفیٰ دے دیں تو پھر یہ کیوں غلط ہے۔
ایاز خان:ہمارے ہاں چہرے بدلتے ہیں۔ ڈائیلاگ وہی رہتے ہیں جب اپوزیشن میں لوگ بدلتے ہیں بات اور کر رہے ہوتے ہیں حکومت میں جاتے ہیں تو مختلف بات کرتے ہیں آج وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موازنہ نہ کیا جائے ہمارا دھرنا بالکل جائز تھا۔ یہ بلاوجہ ہے۔ اس وقت کی اپوزیشن یہ بات کرتی تھی کہ یہ ناجائز دھرنا ہے۔ اس دھرنے میں حکومتی وزراءکا بڑا ہاتھ ہے ابھی مولانا فضل الرحمان صاحب نے ابھی بات ہی شروع کی تھی آزادی مارچ کے حوالہ سے انہوں نے ہائیک بنانی شروع کر دی تھی سب نے پہلے ان کے وزیراعلیٰ پختونخوا محمود خان نے کہا تھا کہ ان کی ایسی کی تیسی میں ان کا ایک بندہ یہاں سے گزرنے نہیں دوں گا۔ ہر وزراءبھی کہنے لگے ہم دھرنے نہیں کرنے دیں گے۔ یہ فلاپ ہو جائے گا جب دھرنا ہو گیا۔ اس طرح کے دھرنے کی روایت کا جہاں تک تعلق ہے طاہر القادری صاحب نے تو خیر ذاتی تھی سیاسی شناخت کے حوالے سے عمران خان خود ذمہ دار ہیں جنہوں نے 126 دن تک دھرنا دیا۔ اور قادری صاحب تو سپورٹ میں آئے تھے بنیادی طور پر تو دھرنا ان کا ہی تھا۔ اگر وہ دھرنا ٹھیک تھا تو اب بھی ٹھیک ہے۔ اس حکومت کا بنیادی المیہ یہی ہے کہ مذاکرات کے قائل نہیں ہیں یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں جس کو اقتدار ملتا ہے وہ سوچتا ہے کہ مجھے سیاہ و سفید کا مالک ہونا چاہئے۔ نوازشریف کا بھی یہی رویہ تھا۔ ن لیگ کے دور میں سینٹ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت تھی۔ بہت سے بل وہاں سے پاس نہیں ہوتے تھے کئی دفعہ انہیں جوائنٹ سیشن بلانا پڑتا تھا بعض دفعہ ڈیل کر لیتے تھے۔ اس وقت مجھے اس حکومت میں مجھے نظر نہیں آ رہی ہے۔
سوال: جب عمران خان دھرنے میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے تھے۔ مجھے بہت سے دوستوں نے کہا کہ آپ یہاں آئیں۔ ہمارے بہت سے صحافی گئے بھی لیکن میں نے کہا کہ میں نہیں جاﺅں گا، میں اصولی طور پر اس بات کو غلط سمجھتا ہوں الیکشن میں واحد راستہ ہے جس سے حکومت تبدیل ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اسلام آباد میں جمع کر کے لے جانا اور استعفیٰ طلب کرنا میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ میں انتظار کرتا رہا کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے اور پھر وہی انجام ہوا جو عام طور پر اس قسم کے دھرنوں کا ہوتاہے، کیا مارچ اسلام آباد لے جا کر استعفیٰ کا مطالبہ کرنا جائز اقدام ہے۔
جواب: احتجاج حق ہے۔ اجتماع جلسہ جلوس جمہوری چیزیں ہیں یہ ددھرنے کی چونکہ بدعت ڈالنے والی پی ٹی آئی خود ہے یہ ٹھیک طریقہ نہیں ہے ایک حکومت کو مینڈیٹ مل گیا یہ علیحدہ بات ہے کہ یہاں الیکشن کے نتائج کبھی تسلیم نہیں کئے گئے جب سے میں اس پروفیشن میں ہوں۔ میں بھی ہمیشہ دھاندلی کے الزامات ہی سنتا آیا ہوں جب بھی الیکشن ہوئے ہیں۔ استعفیٰ کے علاوہ بہت سے طریقے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر ان ہاﺅس تبدیلی کے لئے آپ کوشش کریں آپ سمجھتے ہیں کہ ان کی اکثریت نہیں ہے۔ سینٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں ہوا اس سے بھی خوفزدہ ہوئے ہیں اپوزیشن والے کہ جیتی ہوئی بازی ہم ہار گئے تھے۔ یہ جتنی ہماری سیاسی پارٹیاں ہیں جب ہر اس طرح کے کام کے لئے تو عام طور پر ان کا موقف ہوتا ہے کہ ہم ان قوتوں کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں جو الیکشن میں مداخلت کرتی ہیں لیکن پھر ان سے ہی مدد بھی مانگ رہی ہوتی ہیں۔ ان ہی کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ انہی کو مخاطب کرتی ہیں کہ ہمیں یہاں سے راستہ لے کر دیں۔ یہ حکمران آپ نے مسلط کئے تھے اب ہمیں مسلط کر دیں۔ گویا وہ قوتیں جب آپ کے ساتھ تو بالکل ٹھیک ہیں جو کوئی آپ کو سو فیصد ٹھیک لگتا ہے جب کوئی دوسری پارٹی آ جاتی ہے تو آپ کہتے ہیں یہ غلط ہو گیا۔ فضل الرحمان صاحب کے ساتھ اور زیادہ ظلم یہ ہوا کہ ان کو اسمبلی سے بھی نکال دیا گیا وہ پارلیمنٹ میں نہیں آ سکے۔ محمود اچکزئی ان کے ساتھ ہوتے ہیں اس دن سے جب سے یہ دھرنا شروع ہوا ہے وہ بھی نظر آ رہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ بھی اسمبلی میں نہیں آ سکے۔ اصل دکھ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سپیشلی نکالا گیا ہے اس لئے ہمارا رائٹ بنتا ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اس حکومت کو چلتا کریں۔ اس کے لئے ہر جائز ناجائز طریقہ اپنایا جائے۔ بات کرتے ہیں کہ ہم آئین کی بالادستی کے لئے نکلے ہیں اور غیر آئینی طریقے سے آپ حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ تضاد تو آپ کا یہاںپر آ گیا ہے لیکن فالوورمان رہا ہوتا ہے۔ ہمارا لیڈر کہہ رہا ہے کہ یہ حکومت ناجائز ہے تو ناجائز ہے۔
سوال:فضل الرحمن صاحب نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ تو ایک مہرہ ہیں اصل قوت تو ان کے پیچھے ہے۔ جو ان کو لے کر آئی ہے اس کے بعد انہوں نے اشارتاً فوج کے بارے میں باتیں کیں جہاں تک ڈی جی آئی ایس پی آر کو پوچھنا پڑا کہ مولانا یہ بتائییں کہ کیا آپ کی مراد، الیکشن کمیشن، عدلیہ یا اداروں سے مراد آپ کی فوج ہے۔ کیا مولانا فضل الرحمان کی فوج پر تنقید کو درست سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر ان معنوں میں کہ مولانا نے اب مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ جب بھی الیکشن ہو اس میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔
جواب: عمران خان پر سلیکٹڈ کا الزام لگتا ہے شدت سے ایک مدت سے لگتا ہے میں بھی سن رہا ہوں۔ ایک شو میں سینئر تجزیہ کار بیٹھے تھے وہاں یہ سوال اٹھا تھا کہ یہ بھی سلیکٹ کر لیا گیا ہے میں نے ان صاحب سے کہا تھا کہ آپ عمران خان کی مقبولیت کاعروج دیکھنا ہے تو 2013ءمیں تھی 2013ءکے جب الیکشن ہو رہے تھے تو ان کی مقبولیت عروج پر تھی اور نوازشریف صاحب مقبولیت کے اعتبار سے بہت نیچے چلے گئے تھے۔ اس وقت یہ طے ہوا کہ نوازشریف صاحب کو تیسری طرف سلیکٹ کرنا ہے اگر میں آپ کے ریفرنس میں بات کروں عمران خان کو الیکٹ، سلیکٹ نہیں ہونے دیا گیا۔ اب آپ کو اعتراض ہے کہ شاید آپ کے خیال میں نوازشریف کی مقبولیت زیادہ ہے وہ اب سلیکٹ یا الیکٹ نہیں ہو سکے۔ اور عمران خان آ گئے۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں آپ نے تنقید بھی اسی ادارے پر کرنی ہے پھر آپ کی نظریں بھی ان لوگوں کی طرف اٹھنی ہیں۔ انہی سے اپیل بھی کر رہے ہوتے ہیں کہ آئییں اور ہمیں بچائیں۔ جب آپ اپنا مقدمہ پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں میں لے آئیں گے تواس کا مطلب ہے کہ آپ اس کو مخاطب کر رہے ہیں اسی پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اب آپ کی تقریر پوری دنیا میں براہ راست جا رہی ہوتی ہے۔ لہٰدا آپ اس ادارے بارے بات کر رہے ہوتے ہیں جس کے ملک کے اندر بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے صرف سرحدوں پر ہی نہیں لڑی۔ بہت سے انتخابی حلقے موجود ہیں جن میں مخالف امیدوار کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے اور وہاں الیکشن ممکن نہیں ہوتا اگر وہاں فوج نہ ہو۔ پہلے ان چیزوں کو ٹھیک کریں اس کے بعد مطالبہ کریں کہ فوج الیکشن کے دن نہ نظر آئے۔
سوال: مولانا نے وزیراعظم کو ان کے گھر سے گرفتار کرنے کی بات کی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ حکومتی صفوں میں اسے بغاوت بھی کہہ رہے ہیں۔ کیا آئینی طور پر یہ اقدام جائز ہے۔ کیا مولانا کا کہنا بغاوت کے ذیل میں آتا ہے۔
جواب: جب بڑا مجمع سامنے ہوتا ہے تو جذبات مختلف ہو جاتے ہیں مولانا نے پہلے دن بہت جذباتی تقریر کی تھی اب ان کی گفتگو میں اعتدال آتا جا رہا ہے۔ عمران خان نے بھی جب ان کا دھرنا تھا سول نافرمانی تک کی بات کر دی تھی۔ بجلی کے بل پھاڑ دیئے تھے وہ سارا کچھ اسی طرح چلتا رہا تھا۔ اس کو جذباتی تقریر سمجھ کر بھول جانا چاہئے۔ حکومت کو بھی اس پر زور نہیں دینا چاہئے کہ ان پر غداری کا مقدمہ نہیں بنانا چاہئے اس سے فائدہ نہیں ہو گا حکومت کو نقصان ہو گا۔ مجھے نہیں لگتا دھرنا زیادہ دن چلے سردی کی شدت بڑھ رہی ہے لوگ بیمار ہو رہے ہیں ایک آج ایک 65 سالہ شخص کی وفات بھی ہوئی ہے ہارٹ اٹیک ہوا ہے ظاہر ہے مولانا فضل الرحمان تو وہاں سے چلے جاتے ہیں اپنے گھر میں آرام سے رات گزارتے ہیں جس طرح عمران خان اور طاہر القادری چلے جایا کرتے تھے۔ خود کو آرام دہ ماحول میں بیٹھے ہیں لیکن ان لوگوں کا بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ غریب لوگ آئے ہیں ان کی جوتیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں لیڈر تو ان کو استعمال کر رہا ہے خود تو رات آرام سے گزارتا ہے وہ ہمارے لئے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ اس چیز سے گریز کرنا چاہئے کہ ایک جذباتی تقریر تھی بات ختم ہو گئی۔
سوال: مولانا کا رویہ کافی سخت ہے۔ پہلے انہوں نے مطالبہ کیا کہ استعفے سے کم بات نہیں ہو سکتی۔ آج بھی رہبر کمیٹی کے مذاکرات ہوئے ہیں حکومتی کمیٹی سے اس میں یہی کہا گیا ہے کہ دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ تو پھر دھرنا کیسے ختم ہو گا۔ اتنے لوگوں کو باہر رات کی سردی میں بیٹھے ہیں ان کو گھروں کو جانا نصیب ہو گا۔
جواب: ڈیڈلاک تو نظر آ رہا ہے ظاہر دو مین مطالبات، حکومتی کمیٹی نے شروع میں کہہ دیا کہ ایک استعفیٰ اور دوسرا نئے الیکشن اس پر وہ کہتے ہیں بات نہیں ہو گی۔ اس کے بعد انتخابی اصلاحات کمیٹی کو فعال کرنے کا معاملہ ہے اس کے بعد بہت سی باتیں ہیں۔ حکومتی کمیٹی یہاں تک کہہ چکی ہے کہ یہ دو مطالبات نکال دیں تو باقی سارے مطالبات آئینی حدود کے اندر ہی وہ تمام ماننے کے لئے تیار ہیں۔ مولانا کو بھی فیس سیونگ چاہئے وہاں سے جانے کے لئے وہ بار بار اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ ہم یہاں 126 دن کے قائل ہیں نہ اس ماڈل کو اپنانا چاہتے ہیں ہم جو اچیو کیا ہے وہ گراﺅنڈ کے حساب سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ اچیو کر لیا ہے جو قافلہ ان کے ساتھ چل کر آیا تھا دوسرے صوبوں سے یہاں آئے۔ اس توقع کے ساتھ چلتا کہ جلوس کے ساتھ چلتا ہے، فضل الرحمان صاحب کی ایک کوالٹی ہے کہ انہیں اگر یہ دھرنا ختم کرنا ہے جس دن دھرنا ختم کرنا ہے طاہرالقادری کی طرح 4 گھنٹے تقریر نہیں کرنا پڑے گی انہیں 5 سے 10 منٹ کی تقریر چاہئے ہو گی وہ مطمئن کر کے لوگوں کو اٹھا دیں گے کہ ہم نے جو حاصل کرنا تھا اس سے زیادہ ہم نے حاصل کر لیا ہے چاہے کچھ بھی حاصل نہ ہوا ہو۔ بصورت دیگر ان کے پاس آپشنز موجود ہیں وہ کہیں گے اب فیصلہ اپوزیشن نے کرنا ہے اپوزیشن کے لیڈرز نے کرنا ہے کہ یہاں سے کب اٹھنا ہے انہیں کوئی ٹینشن نہیں ہے۔
سوال: پیپلزپارٹی ن لیگ کا مارچ کے حوالے سے طرز عمل بڑا دلچسپ ہے کہ مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں لیکن دھرنے میں ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، مولانا نے اے پی سی بلائی وہاں بھی سینئر لیڈ شپ نظر نہ آئی دونوں پارٹیاں مارچ سے اپنے مقاصد تو حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: اس احتجاج میں سب ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں اور ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ دوسرے کو استعمال کر رہا ہے۔ چودھری شجاعت زیرک سیاستدان ہیں ان کا فضل الرحمان کو کہنا کہ آپ نے میلہ لوٹ لیا ہے کہ دونوں پارٹیو ںکو اپنے پیچھے لگا لیا ہے، یہ مولانا کی کامیابی ہے۔ شہباز شریف کی اپنی مجبوریاں ہیں ان کا خاندان مشکل میں ہے وہ کبھی ایک حد سے آگے نہیں جاتے کیونکہ سمجھتے ہیںکہ سیاست میں رہنا ہے تو اعتدال اور مفاہمت سے چلنا ہو گا وہ تو نوازشریف کے لئے نکلے اور ایئرپورٹ بھی نہیں گئے تھے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی بھی مشکل میں ہے اس کے سینئر رہنما گرفتار ہیں۔ دونوں پارٹیاں چاہتی ہیں کہ مولانا کے حکومت پر دباﺅ سے کچھ رعائیتیں حاصل کر لیں ن لیگ ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہی ہے۔
سوال: حکومت بننے کے بعد کہا گیا کہ ایک کروڑ ملازمتیں 50 لاکھ گھر بنا کر دیں گے، کرپشن کا خاتم کریں گے سرمایہ کاری آئے گی تاہم حالات تو کچھ اور منظر دکھا رہے ہیں عوام کی مالی مشکلات بڑھی ہیں، کیا حکومت کے پاس معاشی ٹیم اچھی نہیں یا ترجیحات ہی درست نہیں ہیں؟
جواب:کوئی شک نہیں کہ حکومت کو معیشت برے حالات میں ملی، ن لیگ نے آخری بجٹ میں صرف الیکشن میں فائدے کیلئے انکم ٹیکس بجٹ میں بہت کمی کر دی تحریک انصاف نے اپنے آل راﺅنڈر اسد عمر کو جسے مسیحا کے روپ میں پیش کیا جا رہا تھا سب سے پہلے ہٹا دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کا کوئی ہوم ورک نہیں تھا صرف دعوے اور باتیں تھیں، آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ بروقت نہ کرنے کے باعث معاشی حالات مزید ابتر ہو گئے حکومت نے نوکریاں دینے کے بجائے چھیننا شروع کر دیں، بیروزگاری بہت بڑھ چکی ہے، عام آدمی کو تو کوئی ریلیف نہیں مل سکا وہ تو پہلے سے زیادہ مشکل میں ہے ایسی صورت میں تمام حکومتی دعوے صفر ہو جاتے ہیں۔
سوال: پچھلی حکومت نے جو بھی طریقہ کار اختیار کیا ڈالر کا ریٹ نہ بڑھنے دیا، عوام کے مالی حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے اب ہو چکے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ کرپشن کیسز بھگتنے والے شہباز شریف بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ6 ماہ کیلئے حکومت دی جائے تو حالات بہتر بنا دوں گا ورنہ میرا نام بدل دیا جائے، غلطی کہاں ہوئی اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
جواب: معیشت کی حالت بہت خراب ہے، دعوے کرنا آسان ہے حالات تبدیل کرنا مشکل ہے۔ پچھلے ادوار میں آئی ایم ایف سے وعدے تو کئے جاتے مگر عوامی دباﺅ کے نام پر پورے نہیں کئے جاتے رہے اس بار ایسا نہیں چل سکا کیونکہ آئی ایم ایف نے مطالبات مانے بغیر قرضہ دینے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ انہی مطالبات میں یہ شرط بھی تھی کہ حکومت کا ڈالر کی قیمت پر کنٹرول نہیں ہو گا۔ اسحاق ڈار نے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر آگے بڑھنے سے روکے رکھا تاہم ان کے بعد مفتاح اسماعیل نے چارج لیا تو کہا کہ ڈار نے غلط پالیسی اختیار کی اور ڈالر کا ریٹ بڑھا دیا۔ موجودہ حکومت بتدریج ڈالر کی قیمت نیچے لانے میں کامیاب رہی تو ہی بہتری آئے گی ورنہ ڈالر کی قیمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ مہنگائی کنٹرول نہیں ہو سکتی۔
سوال: تحریک انصاف حکومت میں آنے سے قبل ہی اشتہارات پر تنقید کرتی ہیں اب حکومت میں آئی ہے تو اشتہارات کم کر دیئے جس سے اخبارات کے ریونیو میں کمی آئی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اکثر اخبارات کے مختلف سٹیشن بند ہو رہے ہیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے اخبارات کیلئے اشاعت جاری رکھنا مشکل ہے۔ جس چیز کو فضول خرچی سمجھا گیا وہ تو دولت کی سرکولیشن تھی جس سے اخبارات اور چینلز کا دھندا چل رہا تھا۔ اس وقت بے شمار صحافی فارغ ہو چکے ہیں جو کام کر رہے ہیں ان کا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے۔ ایسی صورتحال کب تک چل سکتی ہے؟
جواب: عمران خان کی میڈیا پالیسی پہلے سن سے ہی تباہ کن رہی حالانکہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے وزیراعظم بننے میں میڈیا کا اہم کردار ہے۔ حکومت کو میڈیا کی اہمیت سمجھ ہی نہیں آئی۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ میڈیا کا شیئر بڑھانے پر اس کی کمپئن نے آپ کو اقتدار میں لانے میں مدد دی لیکن حکومت نے بہتری کے بجائے پہلے دن سے ہی میڈیا کو دشمن بنا لیا۔ میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں۔
سوال: حکومت کا دعویٰ ہے کہ مشکل دور گزر گیا 6 ماہ میں معاشی خوشحالی کا دور شروع ہو جائے گا۔ اس بات میں کتنی صداقت نظر آتی ہے؟
جواب: حکومت نے آتے ہی 100 دن کا پروگرام دیا،کچھ نہ ہوا پھر کہا کہ سال انتظار کریں اب 6 ماہ کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے ایسا نظر نہیں آ رہا کہ 6 ماہ میں معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ دُعا گو ضرور ہیں کہ معیشت اپنے پاﺅں پرکھڑی ہو۔
سوال: عوام چاہتے ہیں کہ حالاتت پرسکون ہوں سیاسی دھرنا کب تک ختم ہو گا؟
جواب: دھرنا زیادہ دن تک چلتا نظر نہیں آتتا تین چار دن تک ختم ہو جانا چاہئے حکومت کو چاہئے کہ پارلیمنٹ کو اہمیت دے وہاںپر مسائل بارے بحث ہو اپوزیشن کے تمام مطالبات بھی غلط نہیں ہوتے ان کے جائز مطالبات مان لینے چاہئیں۔ احتساب جاری رہنا چاہئے تاہم حکومت کو اپنا کام کرنا چاہئے اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دینا چاہئے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain