تازہ تر ین

نواز شریف کی ڈیل میں ایک غیر ملکی طاقت شامل ،پہلی قسط سٹیٹ بنک جمع ہو چکی ،چودھری غلام حسین

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف اینکر،صحافی وتجزیہ نگار چودھری غلام حسین کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی گفتگو قارئین کی دلچسپیے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد: Aایک تو نوازشریف کی امریکہ کے لئے علاج کے لئے اور دوسرا مسئلہ دھرنا ہے مولانا فضل الرحمان کا۔ عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ میرے اپنے پیسے ہوتے تو نظر انداز کر دیتا ہے لیکن قوم کا پیسہ ہے جو ان لیڈروں نے دینا ہے میں یہ ختم نہیں کر سکتا این آر او کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف یہ بھی افواہیں ہیں کہ کسی قسم کی معلومات نہیں بتائی جائیں گے کچھ نہ کچھ دے کر ہی جائیں گے نوازشریف صاحب پاکستان سے۔ کی قصہ ہے کیا نوازشریف پیسے دے کر جا رہے ہیں یا بغیر پیسے دیئے جا رہے ہیں یا عمران خان پر دباﺅ آ گیا ہے جو ان کا کہنا تھا کہ این آر او نہیں دوں گا لیکن اب انہیں دینا پڑ گیا ہے۔
چودھری غلام حسین:دو تین مہینے سے یا اس سے بھی کم و بیش زیادہ وقت سے زرداری فیملی اور نواز، شہباز فیملی ان سے بااثر اداروں سے ان کی بات چیت چل رہی تھی کہ آپ جتنا پیسہ پاکستان سے لے گئے ہیں وہ لوٹا ہوا ہے ڈاکہ ہے چوری ہے اس پر بحث میں پڑے بغیر آپ پیسے دے کر آزادی خرید لیں سو بات چیت چل رہی تھی کہ اس دوران نواز شریف واقعتاً بیمار بھی ہیں اور ان کی بیماری کو بڑھا چڑھا کر پیش بھی کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دو چیزیں گڈ مڈ ہو گئی ہیں اس لئے لوگوں کو صحیح بات کا پتہ نہیں چل رہا کہ پیسے دے کر رہا ہو رہے ہیں یا بیماری کا ریلیف دیا جاتا ہے کیونکہ میاں شہباز شریف صاحب نے جو ”یاراں دا جو کم اے“ جس طرح ان کے بیٹے نے پہلے ٹویٹ کر دی کہ سارے اندر ہیں لیکن شہباز شریف اپنے بھائی کو نکال کر باہر لے گئے۔ یہ جو رویہ تھا پھر شہباز شریف نے خود کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میاں صاحب کی بیماری کا باہر علاج کے لئے لے جانے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ تو پھر سارے لوگ کہتے ہیں یہ بیماری جو ہے اس کو بڑھایا، چڑھایا گیا ہے جعلی طور پر غیر معمولی طور پر کہ اگر میاں نوازشریف ایک دو گھنٹے میں ملک سے باہر نہ گئے تو وہ فوت ہو جائیں گے۔ یہ سارا کام شہباز شریف نے خراب کیا ہے ہاں مارکیٹ میں یہ بات آئی ہے کہ جب ساتھ ستر ارب روپیہ سٹیٹ بینک میں بغیر ذریعہ بتائے آئے ہیں تو اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ 14 بلین ڈالر یہ دو تین فیملیوں نے دینے کی کمٹمنٹ کی ہے ایک سال میں اس کی پہلی قسط آئی ہے اور اس کے مطابق ہو رہا ہے لیکن وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی سیاست بھی قائم رکھیں۔ مریم صاحبہ اپنی دھونس دھاندلی بھی قائم رکھیں اور یہ بھی نہ پتہ چلے کہ ہم نے چوری ڈاکے کا پیسہ واپس دیا ہے اور ہمیں بیماری کی آڑ میں باہر جانے دیا جائے۔ اس سے وزیراعظم کے لئے مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ جس کا ہائی مورل گراﺅنڈ بھی یہی ہے کہ وہ چور اور اچکوں کے خلاف ہیں وہ دیانتدار لیڈرہے بددیانتی سے نفرت کرتا ہے خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو وہ کسی چور ڈاکو کو رعایت نہیں دے گا۔ اب ان کے ہوتے ہوئے بار بار کہنے کے باوجود جب رعایت دینے کی بات آتی تو انہوں نے خود بھی کہہ دیا پچھلے ہفتے بھئی میں کسی کی زندگی سے نہیں کھیل سکتا۔ صحت اور بیماری پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے۔ تو ان کو جانے دیتے ہیں ان کی بیماری کا مذاق نہ اڑائیں۔ لیکن شہباز شریف اور ان کے چمچوں کڑچھوں نے اور خاندان والوں نے اس سے لگا ہے کہ انہوں نے دھول جھونکی ہے اور یہ جو بورڈ بنایا ہوا تھا کہ وہ جو بیماری کا ہی نہیں پتہ چلتا۔ آج وہ ڈاکٹر یاسمین راشد کہہ رہی ہیںکہ بھئی شوگر بڑھی ہوئی ہے۔ میں برملا کہہ رہا ہوں کہ یہ اپنی ڈیل بھی مچور کر چکے ہیں پیسے بھی دینا چاہتے ہیں اس میں ایک غیر ملکی طاقت شامل ہے اور ان کی بیماری بھی موجود ہے۔ ان کو کئی بیماریاں ہیں اب مرنے کے لئے بیمار ہونا ضروری نہیں ہے۔
سوال: آپ کا پروگرام دیکھا اس میں آپ کے ایک ساتھی کہہ رہے تھے کہ ایک بینک کی برانچ میں بے تحاشا پیسے کوئی اماﺅنٹ بھی بنا رہے کہ اتنے پیسے جمع کرائے گئے ہیں ان کا اشارہ یہ تھا کہ شاید نوازشریف کے بھی ہاف پر کسی نے ادائیگی کی ہے۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ کوئی ادائیگی کر دی گئی ہے۔
جواب: ایک قسط کی ادائیگی 442 ملین ڈالر جو اس وقت یعنی آج کے ڈالر کی قیمت کے مطابق دیکھیں تو 70,65 ارب روپیہ بن جاتا ہے اور یہ کافی بڑی رقم ہے یہ پہلی قسط ہے۔ جب اس کا ذریعہ پتہ نہیں چل رہا تو اس کو مشکوک ٹرانزکشن بھی ڈکلیئر نہیں کر رہا سٹیٹ بینک تو غالباً خیال یہ ہے کہ یہ انہیں لوگوں کے بیحاف پر رقم جاری ہوتی ہے اب گورنمنٹ کو یاتو یہ بتانا پڑے گا کہ رقم آنی شروع ہو گئی ہے اور یا پھر شریف خاندان کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ہم نے کوئی ادائیگی کی اور نہ ہم نے چوری کیا ہے پیسہ واپس کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نوازشریف کی حالت واقعی حراب ہے اور ہم اس کے لئے ہی فائٹ کر رہے ہیں۔ وہ جو شہباز شریف نے جو ڈھینگیں ماری ہیں وہ غلط بیان تھا۔ جب تک حکومت اور شریف فیملی ابہام دور نہیں کرتے اب لوگ حکومت پر الزام دیتے رہیں گے۔
سوال: کیا طے ہوا ہے کہ مریم نواز کے بارے میں چند خبریں چھپی ہیں کہ وہ بھی دس سال کے لئے سیاست سے الگ ہو رہی ہیں۔ دوسری خبر یہ ہے کہ نوازشریف کے بارے میں پہلے سے فیصلہ آ چکا ہے کہ سات سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے لیکن غالباً ابھی تک یہ معاملہ کلیئر نہیں ہوا تھا کہ مریم نواز پر پابندی اگلے الیکشن تک ہے یا لمبی مدت کے لئے ہے۔ اب فیملی کا طے کیا ہوا ہے کہ مریم نواز والد کے ساتھ پاکستان سے باہر جائیں گی اور لمبی مدت تک سیاست سے آﺅٹ رہیں گی۔
جواب: یہ تفصیلات طے نہیں ہوئیں یہ بات وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے حتمی طور پر بتائی ہے اپنے ترجمانوں کو کہ مریم نواز کو فی الحال باہر بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جب تک رقم پوری نہیں ہوتی۔ جیسے پچھلی دفعہ حمزہ شہباز پاکستان میں ایک طرح سے پرویز مشرف کے وقت میں یرغمال تھے لگتا ہے کہ تاریخ خود کو دہرائے گی۔ حکومت کو کنفیوژن دور کرنا پڑے گا ورنہ پی ٹی آئی حکومت کا عوام کو جو بری حالت ہے مہنگائی کا طوفان اور کاروبار کا فقدان کی وجہ سے یہ ایک ان کے سپورٹرز ہیں ان کی نظروں میں حکومت گر جائے گی۔ دھرنے والے کیا گرائیں گے۔
سوال: اس قسم کی اطلاعات بھی آتی رہیں کہ دھرنے کے سلسلے میں نوازشریف نے مکمل اختیارات کیپٹن صفدر کے ذریعے حسین نواز کو دے دیئے تھے کہ وہ وہاں سے گائیڈ کریں گے پھر اچانک صورت حال تبدیل ہو گئی اور شہباز شریف صاحب کے ذمے لگا کہ وہ فضل الرحمان سے رابطہ کر کے اس کام کو آگے بڑھائیں۔ اب جبکہ نوازشریف باہر جانے والے ہیں۔ کیا شہباز شریف کی لائن تھرو ہو گئی ہے۔ کیا پاکستان میں ن لیگ کی جو اصل سیاست ہے اس میں شہباز شریف کو فری ہینڈ مل جائے گا۔
جواب: شہباز شریف کا اپنا بُرا حال ہے۔ اتنی لوٹ مار کے الزامات پنجاب سے آ رہے ہیں۔ کافی دن پہلے انہوں نے افواہ پھیلا دی کہ شہباز شریف کے کیسز کو روک دیا گیا ہے کہ وہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننے والے اور عمران خان کو نکالنے والے ہیں جو حلقے اس ملک میں میٹر کرتے ہیں انہوں نے تحریری طور پر جواب دیا دونوں نے نیب نے بھی لکھ کر دے دیا کہ ہمیں کسی قسم کا چیئرمین کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا کہ کسی کا مقدمہ ٹھنڈے کمرے میں ڈالر دیا جائے فائیلیں بند کر دی جائیں۔ مقتدر حلقوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نو وے۔ دھرنے کے معاملہ میں ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ حسین نواز نے ابتدائی طور پر فضل الرحمان کو فلاں بندے کے ذریعے پچاس کروڑ روپے ایڈوانس دیا تھا اور فضل الرحمان نے ان سے 10 ارب کی ڈیمانڈ کی تھی انہوں نے کہا کہ باقی کا بندوبست آپ کریں ہمارے پاس ابھی یہی ہے۔ شہباز شریف تو دھرنے اور مرنے میں شامل نہیں ہے وہ کہتا ہے کہ وہی روٹ ہے جو میں پاﺅں پڑ کے آپ کے لئے آزادی مانگ رہا ہوں۔ مریم بھی آپ نے نوٹ کیا ہو گا۔ یہ کوئی اتنا آسانن کام نہیں۔ آپ نے تو تھانے، شاہی قلعے کا تشدد خود برداشت کیا ہے۔ وہاں بڑے بڑوں کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ اب مریم نواز کی وہ ٹون اور لب و لہجہ نہیں ہے جو ان کو اکسا کر لندن سے لائی تھیں۔ یہ سیاسی ورکر دودھ پینے والے لوگ ہوتے ہیں۔ نہ ہی لوگ کمٹمنٹ والے ہوتے ہیں یا وہ ہائی مورل گراﺅنڈ۔ اس کا تو یہاں سوال ہی نہیں ہے۔ ادھر اصولی نہیں وصولی کی سیاست رہ گئی ہے۔
سوال: شہباز شریف نے آزادی مارچ سے خطاب میں کہا تھا کہ مجھے ذمہ داری مل جائے تو میں 6 ماہ میں سارے حالات ٹھیک کر دوں گا۔ کیا فضل الرحمن کی ساری تگ و دو ان کے لئے کر رہے ہیں۔
جواب: شہباز شریف کے تو ابھی سارے کیسز سامنے نہیں آئے۔ نوازشریف اسحق ڈار خاندان نے ادھر کلہاڑا پکڑا ہوا تھا۔ قوم کے ”چھوٹے لارے سن“ ادھر یہ تو بھول جائیں۔عمران خان دیانتدار لیڈر کے طور پر ابھرا ہے لیکن ان کی دیانتداری نیچے اثر انداز نہیں ہوئی۔ نہ کرپشن ختم ہوئی ہے نہ مہنگائی ختم ہوئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ”اسی اچار پانا ایں عمران خان کی ایمانداری کا“ لیکن اس کا مطلب ہے لوگ ایماندار لیڈر اور گورنمنٹ چاہتے ہیں اور مہنگائی کم کرنا چاہتے ہیں اور عمران خان اگر دو چار سال نہ کر سکا تو ”کل اور آئیں گے مجھ سے بہتر کہنے والے تم سے بہتر سننے والے“ لیکن یہ چور اچکے ڈاکو کرپشن والے اور ملک دشمن میرا نہیں خیال ان کا دور دور تک امکان ہے۔
سوال:عمران خان نے نئے پاکستان، معاشی خوشحالی کے دعوے کئے، ایک کروڑ ملازمتیں 50 لاکھ گھر، بیرونی سرمایہ کاری آئے گی، کوئی ایک کام بھی نہیں ہو سکا، کیا معاشی ٹیم کا چناﺅ یا ترجیحات درست نہیں؟
جواب: حکومت نے بڑے اہداف تو حاصل کئے ہیں، درآمدات کم برآمدات بڑھی ہیں، کرنٹ خسارہ کم ہوا ہے، عمران خان اب مہنگائی ہو تو جڑے رہے ہیں مہنگائی کا بوجھ تھا معاشی ٹیم میں بھی خرابیاں تھیں اب بہتری آ رہی ہے بدقسمتی سے حکومت اب تک کرپشن پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے بلکہ بڑھی ہے۔
سوال: دھرنے کے حوالے سے کیا مولانا فضل الرحمان کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی جو ایک بڑے اخبار نے بھی شائع کی؟
جواب: ہم نے اپنے شو میں اس ملاقات کی خبر سب سے پہلے دی تھی۔ مولانا نے ملاقات میں آرمی چیف سے وزیراعظم کے استعفے سمیت مطالبات کئے جنہیں ٹھکرا دیا گیا۔
سوال: مولانا کہتے ہیں عمران تو مہرہ ہے ان کا ٹارگٹ تو اصل قوت کی الیکشن عمل سے الگ کرنا ہے۔ کیا یہ سارا کھیل عمران کے بجائے کسی اور قوت کے خلاف ہے فوج کو الیکشن معاملات میں نہیں آنا چاہئے؟
جواب: عمران خان طاقتور حکمران میں آدھا ملک ان کے پیچھے کھڑا ہے، دھرنے والے نے ہزاروں لوگ اکٹھے کئے، مہنگائی بھی ہے اس کے باوجود عوام عمران خان کو ہٹانے کے حق میں نہیں، عمران خان نے عالمی سطح پر پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ بڑی کامیابی سے لڑا ہے۔ اس وقت مارا ماری کا ماحول پیدا کر کے ملک اور فوج کے ساتھ دشمنی کی جا رہی ہے۔ فوج کے بغیر الیکشن صرف اس لئے چاہتے ہیں کہ انہیں دھاندلی کی کھلی چھوٹ حاصل ہو تاہم ایسا کچھ نہیں ہو گا معیشت بھی بہتر ہو گی روزگار بھی ملے گا حکومت کو صرف تیزی سے کام کرنا اور اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو ختم کرنا ہو گا۔
سوال: مولانا کا رویہ سخت ہوتا جا رہا ہے، دوسرے مرحلے میں لاشیں اٹھانے کی بات کر رہے ہیں، ایک رائے ہے کہ انہیں اسلام آباد نہیں آنے دینا چاہئے تھا اب اتنے لوگوں کو روکا گیا تو بھی فساد ہو گا اور آگے جانے دیا گیا تو نظام زندگی مفلوج ہو جائے گا آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: مولانا اپنے ارادے لئے بیٹھے ہیں تاہم حکومت یا ریاستی ادارے کسی دباﺅ میں نہیں ہیں، کہہ دیا گیا ہے کہ دھرنا جب تک چاہیں دیں لیکن اگر قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو سختی کے ساتھ کچلا جائے گا، وزیراعظم اور فوج کو برا بھلا کہہ کر یہ لوگ خود ہی بے نقاب ہو رہے ہیں۔
سوال: شفاف الیکشن کرانے میں پولیس تو بالکل ناکام، رینجرز بھی ناکام رہی اس لئے فوج کو بلانا پڑتا ہے، بلاول اور لیگی رہنما بھی مولانا کی زبان بول رہے ہیں فوج تو پہلے بھی سول حکومت کے کہنے پر الیکشن میں ڈیوٹی دیتی ہے اگر وہ خود سے انکار کر دے تو کہا جائے گا کہ آئینی طور پر فوج حکم ماننے کی پابند ہے فوج اس اپوزیشن کی خواہش کو کیسے پورا کر سکتی ہے؟
جواب: فوج کا کام اپنے لوگوں پر گولیاں چلانا نہیں ہے وہ تشدد کی راہ نہیں اپنائے گی، دھرنا اپنی موت آپ مر جائے گا، مولانا اب تصادم کی طرف جائیں، کچھ بھی کریں سب ان کے گلے میں پڑے گا۔ اب کوئی بھی قانون شکنی یا خنہ جنگی کی اجازت نہیں دے گا۔
سوال: الزام لگ رہا ہے کہ مولانا کے دھرنے کو دو تین ملکوں سے فنڈنگ جاری ہے عمران خان نے یو این میں مسئلہ کشمیر پر جس طرح آواز اٹھائی ان کی حمایت بھی امریکی کانگریس میں بھی بات ہوئی۔ بھارت نے وہاں مسئلہ کشمیر بارے بڑی کوشش کی کہ بات نہ ہو مگر ناکام رہا، اس کے لئے تو فائدہ مند ہے کہ آزادی مارچ جیسا طویل ہو تا کہ توجہ کشمیر سے ہٹ کر داخلی مسائل کی جانبہو جائے کیا کہتے ہیں؟
جواب: جو شخص پاک فوج پر حملہ کرے، بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کیخلاف نعرے لگائے، ڈھینگیں مارے ایسا کام کوئی محب وطن تو نہیں کر سکتا مولانا جو کہہ رہے ہیں اس کا فائدہ دشمن کے علاوہ کسے ہوا ہے۔ دھرنے میں لوگ سردی سے مر رہے ہیں کھانے پینے کے مسائل ہیں ن لیگ نے جو بڑی رقم بڑی تعداد میں چندہ اکٹھا کیا جاتا رہا ہے سب کہاں جا رہا ہے۔ ملک عدم استحکام کا شکار ہو گا نہ خانہ جنگی ہو گی۔
سوال: صرف سوا سال بعد ہی حکومت کیخلاف تحریک سامنے آنا، وزیراعظم سے استعفے طلب کیا جانا پہلی بار دیکھا ہے ایسا عموماً تین یا چار سال بعد ہوتا تھا کیا کوئی غیر ملکی ہاتھ یا سپر پاور بھی ملوث ہے؟
جواب: مولانا فضل الرحمان پہلے چودھری برادران سے بات چیت میں قائل ہو گئے تھے کہ دھرنا اٹھا دیتا ہوں ہم سیرت النبی کانفرنس کر رہے ہیں امام کعبہ اس میں تشریف لائیں، سب نے کہا کہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں تاہم ایسا کرنا مناسب نہ ہو گا کہ امام کعبہ کا ملک کی اندرونی سیاست سے کیا تعلق ہے۔ مولانا اپنے قد سے بڑی باتیں کر رہے ہیں اس سے پہلے جماعت اسلامی بھی ایسے ہی کام کر کر کے آج کس انجام کو پہنچ چکی ہے سب کے سامنے ہے۔
سوال: دھرنے کا مستقبل کیا ہے، کب تک چلے گا ختم کب ہو گا؟
جواب: مولانا پہلے کہتے تھے کہ وزیراعظم کا استعفیٰ لے کر آئیں پھر بات کروں گا لیکن اب چودھری برادران سے رات کے اندھیرے میں کیوں ملاقاتیں کر رہے ہیں مولانا نے غلط پوزیشن لی ہے، استعفیٰ پہلے دینا ہے تو مذاکرات کا کیا مطلب ہوا اور وزیراعظم کیوں استعفیٰ دیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain