لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی، تجزیہ کار، کالم نگار، انگریزی روزنامہ ”پاکستان ٹوڈے“ کے ایڈیٹر انچیف عارف نظامی کا چینل ۵ کے پروگرام میں ضیا شاہد کے ساتھ مکالمہوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد: آزادی مارچ کا ایک فیز ختم ہوا دوسرے فیزمیں بڑی شاہراہوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ عمران خان ہوں یا مولانا فضل الرحمن۔ کیا منتخب حکومت سے مجمع لے کر اسلام آباد بہت سارے لوگ جمع کر کے اسلام آباد لائے جائیں اور دھرنا کی شکل میں بیٹھ جائیں اور مطالبہ کریں کہ وزیراعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ نہ تو نوازشریف نے استعفیٰ دیا تھا نہ عمران خان نے استعفیٰ دیا۔ لیکن یہ رجحان چل پڑا ہے کہ اس طرح سے حکومتیں ختم کی جا سکتی ہیں بجائے الیکشن کے تو ایک دباﺅ براہ راست ڈالا جانا چاہئے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا درست ہے۔
عارف نظامی: آئینی اور قانونی طور پر درست نہیں ہے لیکن یہ ریت چل پڑی ہے یہ کوئی پہلا دھرنا نہیں ہے۔ عمران خان کو اس دوائی کا ڈوز مل رہا ہے جو انہوں نے خود تشخیص کی تھی۔ وہ 126 دن تک دھرنا دیئے بیٹھے رہے نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ تیسرے امپائر نے انگلی نہیں اٹھائی۔ علامہ طاہر القادری نے 2013ءمیں کیا۔ پھر عمران خان کے ساتھ بھی دھرنا دیا۔ اس کے بعد خادم حسین جنہوں نے اسلام آباد کو بلاک کر دیا جب انہوں نے فیض آباد میں دھرنا دیا۔ نتیجہ تو کسی ایک دھرنے کا نہیں نکلا۔ یہ پھر کوشش بھی کی گئی تھی جو خادم حسین رضوی صاحب کے دھرنے میں کہ شہروں کو بھی بلاک کیا جائے اب مولانا فضل الرحمان کا دوسر فیز یہ پہلے فیز سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی جو خبر ان کی صورتحال ہے وہ ایسی ہے کہ ہمارے رسد کا انتظام سڑکوں کے ذریعے ہی چلتا ہے۔ پٹرول، کھانے پینے کی اشیاءکی نقل و حمل متاثر ہو سکتی ہے اکانومی متاثر ہو سکتی ہے۔ شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے یقینا اس سے بھی حکومت نہیں گرے گی۔
سوال: آج دوسرا دن ہے کہ اس قسم کی اطلاعات آ رہی ہیں اب اخبارات میں دلچسپ بحث شروع ہے کہ وفاقی حکومت کی بجائے گیند ڈپٹی کمشنروں کے سامنے آ گئی ہے اور ڈپٹی کمشنروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں سڑکوں کو رواں رکھیں۔ تین مقامات پر کل اور آج سڑکیں روکی گئی ہیں اور جا رہی ہیں کیا یہ جمہوری طور پر آئینی طور پر درست ہے۔
جواب: مثال کے طور پر سندھ میں پی پی کی حکومت ہے اس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کریں گے۔ باقی جگہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے حکومت کو اس کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ یہ روایت ہی غلط ہے۔ بدقسمتی سے سیاستدانوں نے ریت ڈال دی ہے کہ پارلیمنٹ یا عدالتوں کی بجائے سڑکوں کے ذریعے دباﺅ ڈالنے کی کوشش کریں۔ چلیں یہ تو مولانا کا دھرنا مگر لاہور میں نابینا افراد کئی دنوں سے لاہور کو بند کر رکھا ہے۔ چیئرنگ کراس پر اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کوئی نہ کوئی گروپ رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے اور سارا شہر بند ہو جاتا ہے۔ یہ ایسی روایت چل پڑی ہے اس سے معاشی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے اور سیاسی طور پر بھی نقصان ہو رہا ہے۔ صرف اس لئے کہ حکمران جو ہیں وہ بروقت مداوا نہیں کر پائے عام آدمی کے مسائل کا اور سیاستدان بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں کہ بجائے اس کے پارلیمنٹ کے اندر مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔
سوال: عارف نظامی! کل میں نے حال روڈ پر جہاں سے جی او آر کو سڑکیں مڑتی ہیں اور جہاں وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ اس کی طرف سڑک مڑتی ہے وہاں بالکل اس کے سامنے نابینا افراد نے کیمپ لگا رکھے ہیں۔ حکومت کی طرف سے یہ سہولیات دی جاتی ہیں کہ ان کو کیمپ لگانے دیا گیا اور وہ سڑک بند ہے بڑی سڑک بند ہو تو چھوٹی سڑک پر ٹریفک ڈالی جاتی ہے تو 5 منٹ کا سفر آدھے گھنٹے کا ہو گیا ہے۔ یہ رجحان چل نکلا ہے کوئی انت بھی اس کا ہے۔
جواب: ڈاکٹروں کی ہڑتال خیبرپختونخوا میں ہائی کورٹ نے اس کو غیر قانونی قرار دے دیا یہاں ڈاکٹر ایمرجنسی وارڈ تک بند کر دیتے ہیں۔ اس کا یقینا حل باقی باتوں کی طرح مذاکرات ہی ہے کہ بیٹھے رہیں تھک کر چلے جائیں۔ حکمرانوں میں سے کسی کو بلائیں متعلقہ لیول پر ان سے مذاکرات کریں جو مسائل ہیں ان کو حل کرنے کی کوشش کریں لیکن بعض ان کے مطالبات میں اور حل کے درمیان میں اتنا بڑا گیپ ہوتا ہے کہ وہ حکومتوں کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
سوال: کیا مہذب ترقی یافتہ ممالک میں کوئی بھی اٹھ کر سڑکیں بند کر سکتا ہے۔ یہ مہذب قوموں نے ایسے مسائل پر کس طرح قابو پایا۔ اور یہ غیر آئینی، غیر قانونی ہتھکنڈے ہمارے ہاں بھی اتنا زیادہ کیوں ہے۔
جواب: آج کل آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہانگ کانگ میں ایک احتجاجی تحریک چل رہی ہے اور وہاں بھی ایسی ہی صورت حال ہے وہاں چین سے آزادی چاہئے اور جمہوری حقوق چاہتے ہیںنوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کچھ اموات بھی ہوئی ہیں۔ اب یہ غیر قانونی طریقہ ہے لیکن کہا جاتا ہے بعض ممالک میں ہے۔
سوال: لاہور ہائی کورٹ نے مال روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کی رٹ کے جواب میں ایک شفعہ نہیں کئی مرتبہ فیصلہ دیا ہے کہ آپ مال روڈ کو اس طرح سے بند نہیں کر سکتے۔
جواب: اس مسئلے کا حل تو مذاکرات ہے یا کوئی بڑی پارٹیاں ہیں ان کو سوائے مطمئن کرانے کے اور کوئی حل نہیں نظر آتا اور اگر کوئی لوگ شرپسندی کر رہے ہیں تو ان سے سختی سے نپٹنا بھی چاہئے یہ بھی حل ہے اس کا۔
سوال: مال روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن ک کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں احتجاج کے لئے آتے ہیں وہاں ٹی وی چینلز کے رپورٹرز اور کیمرہ مین پہنچ جاتے ہیں اگر وہ طے کر لیں کہ وہ اس قسم کی غیر قانونی اجتماع کی کوریج نہیں کریں گے تو لوگ مجبوراً ناصر باغ کی جلسہ گاہ کو استعمال کریں گے۔
جواب: یہ درست فرما رہے ہیں آپ۔ یہ ٹی وی چینلز کو آپس میں طے کر لیں۔
سوال: مولانا فضل الرحمان نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم استعفیٰ دے دیں لیکن ایک مسئلے پر واضح رائے دی کہ اپنا مطالبہ کیا کہ پاکستان کی فوج کو کبھی بھی کسی بھی شکل میں الیکشن کے پراسز میں داخل نہیں ہونا چاہئے ان کا کہنا تھا عمران خان تو محض ایک ان کی علامت ہیں ان کی اصل لڑائی تو ان کے اس رجحان کے خلاف کہ وہ الیکشنز میں مختلف طریقے سے جب ان کو بلایا جاتا ہے۔ سوال انتظامیہ کی مدد کے لئے وہ آتے ہیں اور اس طرح وہ الیکشن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کی حمایت بلاول بھٹو زرداری نے بھی کی اور فوج کے الیکشن میں مداخلت پر اعتراض کیا ہے۔ کیا پاکستان کی فوج کو اگر ان کو بلایا بھی جائے تو انہیں یہ کہا کہ ہم پولیس اور رینجرز کے بعد فوج کو پسند نہیں کرتے۔ کیا فوج کو الیکشنز میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جواب: یا تو آپ سادہ ہیں کہ آپ سمجھ نہیں پائے کہ مولانا کا مطالبہ کیا ہے وہ مختلف بات کہہ رہے ہیں ان کا مطالبہ مختلف ہے اور اس میں وہ کسی حد تک وزن بھی ہے کہ جو 2018ءکے انتخابات ہوئے ان میں عام طور پر یہ تاثر رونما ہوا ہے کہ وسیع پیمانے پر پری پول الیکشن کی منتخب کہہ لیں یا پری پول رکنگ کہہ لیں اس میں یہ وننگ ایبل امیدوار کو روک کر پی ٹی آئی میں شامل کرایا جائے کہ کنگز پارٹی بنایا جائے اس کو اور آپ کو معلوم ہے کہ وہ بہت سے لوگ جو ہیں ان دینے کی لیکن بہت سے لوگ پیپلزپارٹی سے توڑ کے جو وننگ ایبل امیدوار ہیں کچھ ن لیگ سے توڑ کر، کچھ باقی پارٹیوں سے توڑ کر ایک باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لیول پلینگ فیلڈ وہ مہیا نہیں کی گئی اس کے باوجود پی ٹی آئی کو اتنی اکثریت نہیں ملی کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکیں۔ اچھا ماضی میں بھی ایسے ہوتا رہا ہے کہ مشرف نے نیب کے ذریعے اور کچھ ریاستی قوت کے ذریعے ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی اور پیپلزپارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹ بنائی یہ کھیل تو ہوتا رہا ہے ایک زمانے میں یہ مطالبہ کرتے تھے کہ فوج کی نگرانی میں یہ الیکشن کراﺅ یعنی فیئر اینڈ فری ہوں گے۔ اب الٹا مطالبہ ہو رہا ہے؟ ایسا ہونا نہیں چاہئے لیکن آزادانہ منصفانہ الیکشن کی جو گارنٹی وہ ایک آزاد ادارہ الیکشن کمیشن ہے اس بارے میں حال دیکھیں یہ الیکشن کمیشن ہی مکمل نہیں ہے اس کے دو ممبران کورٹ کو کالعدم قرار دینے پڑے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہ عمران خان جو ہیں اپوزیشن لیڈر سےے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں کیونکہ اتفاق رائے کے بغیر وہ ہو نہیں سکتے۔ چند ہفتے میں چیف الیکشن کمشنر بھی ریٹائر ہونے جا رہے ہیں تو بجائے انتخابی عمل پر توجہ دی جائے اور ایک پارلیمنٹ کی کمیٹی بنی ہے الیکشن انتخابی اصلاحات کی وہ ابھی غیر موثر ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں رہ گئی اب تو لوگ دھرنوں اور سڑکوں پر کرنے لگ گئے ہیں۔ اس مطالبہ میں میرے نزدیک جان ہے کہ جن کو خلائی مخلوق کہا جاتا ہے وہ اس معاملے میں نہ ہی دخل دیں، نمبر2 اگر یہ غلط خیال ہے تو عمران خان نے اس کو دور کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا وہ سوائے اپوزیشن کو گالی گلوچ کرنے کے ان کے ترجمان کوئی اور کام نہیں کرتے۔
سوال: تحریک انصاف نے بڑی مشکل سے مخلوط حکومت بنائی اس کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں تھی وزیراعظم کو ”سلیکٹڈ“ کہا جاتا ہے کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
جواب: میں اس بات سے متفق نہیں تاہم عمران خان جس انداز سے حکومت چلا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ ”الیکٹڈ“ نہیں ہیں پارلیمنٹ نہیں جاتے نہ اسے اہمیت دیتے ہیں آرڈیننس کے ذریعے حکومت چلا رہے ہیں، معیشت، خارجہ امور سمیت ہر ایشو پر جب تک فوجی لیڈر شپ کو شامل نہ کریں فیصلہ نہیں کر پاتے۔ عمران خان اپنے کردار سے ہی ثابت کر رہے ہیں کہ وہ کتنے سلیکٹڈ اور کتنے الیکٹڈ ہیں۔
سوال: تحریک انصاف نے اقتدار ملنے سے قبل 1 کروڑ ملازمتیں 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا، کرپشن خاتمہ سے بیرونی سرمایہ کاری آنے کا دعویٰ کیا، سوا سال میں معیشت تو پہلے سے زیادہ خراب ہوئی جب کہ عمران خان کہتے ہیں کہ مشکل دور ختم ہو گیا چار سے چھ ماہ میں خوشحالی نظر آنا شروع ہو جائے گی آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: حکومت کا ایک چوتھائی دور گزر گیا اور کارکردگی سب کے سامنے ہے اگلے 6 ماہ میں کیا گل کھلا لیں گے کہ معیشت درست سمت آ جائے ان کے اتحادی چودھری شجاعت نے بھی کہا کہ نواز کو جانے دیں اور اصل مسائل پر توجہ دیں لیکن عمران خان اصل مسائل کی طرف آنا ہی نہیں چاہتے سوا سال میں کوئی مضبوط معاشی ٹیم ہی بنا لیتے اب پھر کابینہ میں ردوبدل کی باتیں ہو رہی ہیں جو بلاواسطہ کابینہ پر عدم اعتماد ہے، سب کہتے ہیں کہ نیب انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔ اس لئے بیورو کریسی بھی کام کرنے کو تیار نہیں، ان کے اپنے آدمی رزاق داﺅد کہتے ہیں کہ نیب کے خوف سے نجی سیکٹر کے کسی آدمی کے پبلک سیکٹر میں لانے کو تیار نہیں۔ آرمی چیف نے صنعتکاروں، تاجروں سے ملاقات کی تو نیب کے خلاف شکایت پر ایک کمیٹی بنائی ایک دن بعد ہی اس کمیٹی کے ایک فاضل رکن سکندر مصطفی کیخلاف نیب چیئرمین نے انکوائری کھول دی۔ ایسے حالات میں کیا گڈ گورننس ہو سکتی ہے۔ وزیر خزانہ کے 17 روپے کلو ٹماٹر کے بیان سے ہی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنے کیلئے بجلی، تیل سمیت ہر چیز کی چیمت بڑھا دی اور اس کے نتیجہ میں مہنگائی اور بیروزگاری کا طوفان آ گیا اس کا کون ذمہ دار ہے۔
سوال: نوازشریف بیمار ہیں بیمار کا علاج کرانا ضروری ہے تاہم حکومت اور ن لیگ اپنی اپنی ضد پر قائم ہیں صورتحال تشویشناک ہے آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: حکومت یہ کیس ہار چکی ہے، حکومتی اتحادیوں اور قانونی ماہرین سب کا کہنا ہے کہ ایک قسم کا تاوان مانگا جا رہا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ عمران خان مسلسل کہتے آ رہے ہیں کہ چور اچکوں کو کوئی این آر او نہیں دوں گا اب اگر نوازشریف باہر چلے جاتے ہیں تو ان کا سارا بیانیہ تو ختم ہو جائے گا اس لئے انہوں نے خود فیصلہ کرنے کے بجائے گیند عدالتی کورٹ میں پھینک دیا۔ اندازہ ہے کہ اس کیس میں نوازشریف کو ریلیف مل جائے گا۔
سوال: خواجہ آصف قومی اسمبلی میں کہتے ہیں کہ دو ماہ میں آپ پر چھت آن گرے گی آپ کو سمجھ نہ آئے گی کہ کیا کریں، اس سے کیا مراد ہے دو ماہ میں کیا ہونے والا ہے؟
جواب: کئی قسم کی باتیں ہو رہی ہیں، ان ہاﺅس تبدیلی نئے الیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں میں نئے الیکشن کا حامی نہیں تاہم یہ بھی ضروری نہیں کہ حکومت ہر قیمت پر 5 سال پورے کرے، برطانیہ میں تھوڑے عرصہ مںی تیسرا الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ سپین میں چار سال میں چار الیکشن ہوئے اس لئے الیکشن کی کال دیا جانا کوئی عجوبہ روزگار بھی نہیں تاہم فی الحال تو ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ مولانا رضاکارانہ طور پر جانے والے نہیں ہیں بات تشدد اور انارکی کی طرف جا سکتی ہے اور یہی شاید پلان بی کا مقصد بھی ہے۔
سوال: عمران خان خوشحالی نہ لا سکے، مہنگائی اور بیروزگاری بڑھی ہے کیا اس کی وجہ پچھلے ادوار کے قرضے ہیں، معاشی ٹیم اچھی نہیں یا اس کی ترجیحات درست نہیں؟
جواب: سابق حکومتوں نے بھاری قرضے لئے تاہم اس وقت گروتھ ریٹ بھی 5.8 فیصد تک رہا پاور پلانٹس لگائے گئے، عمران خان کا مسئلہ ہے کہ ناتجربہ کاری اور نالائقی ٹیم کی وجہ سے مشکلات میں میں ان کے اپنے ساتھی انہیں گمراہ کر رہے ہیں کہ سیاستدانوں کو الٹا لٹکائیں تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ پچھلے ادوار میں لوٹ مار ہوئی ہے تاہم صرف یہ سمجھنا کہ کرپشن ہی واحد مسئلہ ہے جس کی وجہ سے معیشت نہیں چل رہی تو یہ ان کی کج فہمی ہے۔ احتساب انتقام بنن کر رہ گیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام سے میکرو اکنامک بہتری تو لائی جا سکتی ہے لیکن عام آدمی کی مشکلات حل نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان کو ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا اور اعتماد بحال کرنا ہو گا۔
