نئی دہلی، گوہاٹی، کانپور، گووا، بھوپال، کانپور (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) بھارت میں پارلیمنٹ سے منظورشدہ شہریت کے متنازع بل کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد 10سے زائدہوگئی ہے جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے ہورہے ہیں جہاں سیکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہے جو مسلسل سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق گوہاٹی میں گزشتہ روز بھی ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور آسام زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے جبکہ سیکڑوں اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔مقامی انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ریاست میں تیل اور گیس کی پیدوار متاثر ہوئی ہے حالانکہ اتوار کو پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اور چند دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ آسام میں پولیس کی فائرنگ سے 6 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 4افراد دیگر شہروں میں فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ، ایک شہری نذر آتش کی گئی دکان میں سورہا تھا اور اسی دوران ہلاک ہوگیا جبکہ اور شہری کی ہلاکت احتجاج کے دوران تشدد کے باعث ہوئی۔ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔بھارتی فورسز کی جانب سے میڈیا کو مظاہروں سے دور رکھا جا رہا ہے۔ بھارت میں نئے شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی ،دارالحکومت نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں اس بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے استعمال سے 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ سمیت ہزاروں افراد نے غیرمسلموں کو شہریت دینے کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ اس قانون کے خلاف تیسرے روز ہونے والا پرامن مظاہرہ افراتفری میں تبدیل ہوگیا اور 3 بسوں کو نذرآتش کردیا گیا،ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار بسوال نے کہا ہے کہ جنوبی دہلی کے پوش علاقے میلی میں 6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ تاہم منتظمین طلبہ کے مطابق تشدد باہر کے افراد کی جانب سے کیا گیا۔بھارتی پولیس متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر ٹوٹ پڑی اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ بھارت بھر میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی سلوک پر مبنی قانون کی منظوری کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ بھارتی دارالحکومت دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی اور علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کے طلباءو طالبات بھی مودی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور انتہا پسندی اور نفرت پر مبنی سرکاری پالیسیز کے خلاف شدید احتجاج کیا۔بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینر جی نے بھی متنازع قانون کے خلاف مودی سرکار کے خلاف بڑی ریلی نکال لی۔تفصیلات کے مطابق بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک گیر مظاہرے جاری ہیں، بھارتی میڈیا نے خبر دی ہے کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینر جی نے بھی اپنی قیادت میں احتجاجی ریلی نکالی۔اس سے قبل ممتا بینر جی نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ کولکتہ میں بابا صاحب امبیڈکر کے مجسمے کے پاس غیر آئینی شہریت کے بل کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی جا رہی ہے، سماج کے ہر طبقے سے اس میں شرکت کی دعوت ہے۔ریلی میں ممتا بینر جی کی پارٹی کے سیکڑوں رہنماﺅں اور کارکنوں نے شرکت کی، بھارتی میڈیا اسے بہت بڑی ریلی قرار دے رہا ہے، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال سمیت 5 بھارتی ریاستیں متنازع قانون سے انکار کر چکی ہیں۔ادھر راہول گاندھی نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریت کا متنازع قانون بھارت کے 2 حصوں میں تقسیم کی سازش ہے، اظہار یک جہتی کے لیے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔خیال رہے بھارت کے تیس کے قریب شہروں میں مسلم مخالف بل کے خلاف جاری مظاہروں کے دوران مودی سرکار کی جانب سے بد ترین تشدد کے تناظر میں کانگریسی خاتون رہنما پریانکا گاندھی نے بیان دیا ہے کہ مودی سرکار بزدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سیکرٹری جنرل پریانکا گاندھی نے مودی سرکار کو بزدل قرار دے دیا۔دنیا کے سامنے فاشسٹ ہٹلر مودی اور ہندو انتہا پسندی کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو گیا، بھارت میں مسلمان مخالف، ہندو نواز متنازع بل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے، پرتشدد مظاہروں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔تفصیلات کے مطابق مسلمان مخالف شہریت قانون کے خلاف دہلی میں احتجاج میں شدت آ گئی، مودی سرکار نے پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی ہے، پولیس مسلمانوں کے حق میں احتجاج روکنے کے لیے دہلی کی جامعہ ملیہ کے طلبہ پر ٹوٹ پڑی، طلبہ اور طالبات پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پولیس گرلز ہاسٹل اور جامعہ ملیہ کی مسجد میں بھی گھس گئی، اور پناہ گزین طالبات کو بری طرح مارا پیٹا گیا، اسکارف پہنی طالبات کو بالوں سے گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا گیا، لاٹھیاں چلائی گئیں، آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے۔بھارتی پولیس نے طلبہ پر بدترین تشدد کرتے ہوئے متعدد طلبہ کو زخمی کیا اور کئی طلبہ کو گرفتار کر کے لے گئی، پولیس تشدد سے کئی طلبہ کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے، دہلی سمیت مختلف شہروں میں طلبہ نے کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے، بھارتی میڈیا کے مطابق جامعہ ملیہ کے طلبہ و طالبات کے خلاف رات بھر کریک ڈان کیا گیا۔ دلی پولیس نے صحافیوں پر بھی تشدد کیا، بی بی سی کی رپورٹر بشری شیخ کے بال کھینچے گئے، لاٹھیاں ماری گئیں اور موبائل چھین لیا گیا۔ادھر بھارت کی مسلم آبادی سے دیگر قومیتیں بھی مودی سرکار کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہیں، مودی اور امیت شاہ کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف پورا ملک نعروں سے گونج اٹھا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے بھارت کے طول و عرض میں جموں و کشمیر ابھرنے لگے ہیں، گلی گلی، شہر شہر احتجاج کیا جا رہا ہے، بھارتی متنازع بل کے خلاف احتجاجی مظاہرین نے مودی کے پتلے جلائے۔ دوسری طرف بھارتی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے مظاہرین پر بہیمانہ تشدد کیا جا رہا ہے، اور نسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ عروج پر ہے، خواتین، مرد، بچے سب پر بھارتی درندوں نے لاٹھیاں، گولیاں برسا دیں، جس سے بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔رپورٹس کے مطابق بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے عورتوں پر بھی بے پناہ تشدد کیا جا رہا ہے، عورتیں دہائیاں دیتی رہ جاتی ہیں، پرتشدد مظاہروں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ بھارت میں کلکتہ، گلبارگا، مہا راشٹرا، ممبئی، سولاپور میں احتجاج زوروں پر ہے، ہندوستان کے علاقوں پونے، ناندت، بھوپال، جنوبی بنگلور میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، کانپور، احمد آباد، لکھنو، سرت، مالاپورم، آراریہ، حیدر آباد میں عوامی سمندر سڑکوں پر نکل آیا ہے۔گایا، اورنگ آباد، اعظم گڑھ، کالی کٹ، یوات مل، گووا، دیو بند میں بھی مظاہرے جاری ہیں، احتجاجی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ متنازع شہریت ترمیمی بل واپس لیا جائے، مظاہرین مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو بھارتی آئین کے مطابق مکمل حقوق دینے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، مظاہرین نے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رکھنے اور ہر قربانی دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
