نئی دہلی‘ اترپردیش‘ فیروزآباد‘ ممبئی (مانیٹرنگ ڈیسک‘ نیوز ایجنسیاں) بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ بھارتی ریاست اترپردیش میں اب تک 21 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔ بھارت میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف19 روز سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور روز بروز مظاہروں میں تیزی آرہی ہے۔بھارتی ریاست اترپردیش کے مسلم اکثریتی صوبوں میں احتجاج کے پیش نظر انٹرنیٹ کی سروس بند کردی گئی ہے جبکہ نماز جمعہ کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔ریاستی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقوں میں پیراملٹری فورس کے دستے تعینات کرکے دفعہ 144 نافذ کردی ہے جس کے باعث ریاست کے 21 اضلاع میں لاک ڈان کی صورتحال ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے ملک میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلبہ سمیت مشتعل ہجوم کی رہنمائی کرنا لیڈرشپ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف متنازع قانون سے متعلق سیاسی بحث میں لاحاصل دخل دے رہے ہیں۔ہیلتھ کیئر لیڈرشپ سمٹ میں خطاب کے دوران بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے کہا کہ ‘قائدین وہ لوگ نہیں ہیں جو لوگوں کو نامناسب سمتوں کی جانب لے جاتے ہیں، ہم بڑی تعداد میں یونیورسٹیز اور کالجوں کے طلبا میں گواہی دے رہے ہیں یہ قیادت نہیں ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘قائد وہ شخص ہوتا ہے جو آپ کو صحیح سمت کی جانب لے جاتا ہے، آپ کو صحیح مشورے دیتا ہے اور پھر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی دیکھ بھال کرے جن کی وہ رہنمائی کرتا ہے، اس لیے ہماری ذاتی مثال ہے جو ہمیں مسلح افواج کو قابل فخر بناتی ہے’۔واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل 31 دسمبر کو ریٹائرر ہورہے ہیں اور اس کے بعد وہ پہلے چیف آف ڈیفنس کا عہدہ سنبھالیں گے۔فوج کے ریٹائرڈ افسران نے آرمی چیف پر زور دیا کہ مسلح افواج کو اپنے غیر سیاسی اور سیکولر اخلاق کے ساتھ فخر کرنا چاہیے، آرمی چیف نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف جاری مظاہروں کے خلاف عوامی موقف اختیار کرتے ہوئے ‘پھر سے لائن عبور کرلی’ ہے۔سابق نیوی چیف ریٹائرڈ ایڈمرل ایل رامداس نے کہا کہ جنرل راوت کے بیانات واضح طور پر ‘غلط’ تھے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کو ‘ملک کی خدمت کرنے کے دہائیوں پرانے اصول پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ کسی سیاسی طاقت’ کے۔ریٹائرڈ ایڈمرل ایل رامداس نے کہا کہ مسلح افواج کے پاس ‘ایک داخلی ضابطہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ غیرجانبدار اور متعصبانہ نہیں ہونا چاہیے’۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ قواعد کئی دہائیوں سے رہنمائی کا محور ہے۔ایک سینئر حاضر سروس افسر نے کہا کہ ‘بھارتی آرمی انتہائی سیاسی ہوتی جارہی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار سرجیکل اسٹرائیکس (2016) اور رواں برس فروری میں بالاکوٹ کے فضائی حملوں سے لے کر یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ تک سب نے انتخابی جلسوں میں بھارتی فوج کو ‘مودی جی کی سینا’ قرار دیا۔ایک اور افسر نے کہا کہ ‘افسوس کی بات یہ ہے کہ سینئر افسران اپنی افواج میں اعلی عہدوں کے لیے جستجو کررہے ہیں اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ صحیح سیاسی روابط یا حکومت حامی بیانات دینے سے ترقی حاصل کرسکتے ہیں’۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف جمعہ کی نماز کے بعد اتر پردیش کے متعدد اضلاع شدید احتجاج کیا گیا۔ احتجاج کے دوران یو پی میں اب تک 6 افراد کی موت ہو چکی ہے۔گزشتہ روز لکھو میں ایک شخص جان بحق ہوا تھا، جبکہ جمعہ کے روز بجنور میں گولی لگنے سے دو نوجوان ہلاک ہوگئے، یہاں 8 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ کانپور، سنبھل اور فیروز آباد میں بھی ایک ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ دریں اثنا، میرٹھ میں پولیس چوکی نذر آتش کی گئی۔فیروزآباد میں نماز کے بعد لوٹ رہے لوگوں نے احتجاج کیا۔ اس دوران پولس چوکی میں آگ لگا دی گئی اور کئی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ اد دوران پولس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا۔بجنور میں بھی لوگ ایک جگہ جمع ہوئے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مغربی اتر پردیش کے مظفرنگر اور فیروز آباد میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے کے دوران تشدد کی آگ بھڑک اٹھی۔ دریں اثنا، مرکزی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق فیروز آباد میں مظاہرین نے کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے۔فیروز آباد میں مظاہرین نے پولیس پر پتھرا کیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے اور مظاہرین کو منتشر کر دیا۔ مغربی یوپی کے غازی آباد میں بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کیا گیا اور نعرے بازی کی گئی۔ اس کے علاوہ ہاپوڑ میں آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے۔ فیروز آباد کے علاوہ مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر میں بھی جمعہ کے روز احتجاج ہوا۔ مظفر نگر میں لوگوں نے پولیس پر پتھرا کیا، جس کے بعد پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا۔واضح رہے کہ جمعہ کے پیش نظر اتر پردیش میں احتیاط کے طور پر 15 اضلاع میں انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا۔ مغربی یوپی میں میرٹھ سمیت دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ کو بند رکھا گیا۔ جبکہ گورکھپور اور لکھن میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔جمعرات کے روز راجدھانی لکھن میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج پرتشدد ہو گیا تھا۔ دریں اثنا، ہزاروں مظاہرین نے پتھرا کیا، گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی۔ پولس کی فائرنگ کے دوران لکھنو میں مظاہرہ کر رہے ایک شخص محمد وکیل کی موت واقع ہوگئی تھی۔ لکھن کے علاوہ یوپی کے سنبھل میں سرکاری بسوں کو بھی نذر آتش کیا گیا تھا۔ ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کی رکن پارلیمان اور مالیگاوں بم دھماکہ کی ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے خلاف بھوپال یونیورسٹی کے طلبہ نے نعرے بازی کی۔پرگیہ سنگھ ٹھاکر اپنی حاضری کی کمی کو لے کر دھرنے پر بیٹھی دو طالبات شریا پانڈے اور مونو شرما سے ملنے کے لیے بھوپال یونیورسٹی پہنچی تھیں، جہاں طلبا نے ان کے خلاف ‘دہشت گرد واپس جا’ کے نعرے لگائے۔ بھارت میں حال ہی میں منظور ہونے والے متنازعہ شہریت قانون کے خلاف پورے ملک میں احتجاج جاری ہے، حکومت کی جانب سے مظاہرین کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے جس کے باعث پولیس اہلکار لوگوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے پائے گئے ہیں، پولیس کے اسی رویے کے خلاف اداکارہ سوارا بھاسکر نے پریس کلب آف انڈیا نئی دلی میں احتجاجی دھرنے میں شرکت کی۔ اس موقع پر اے بی پی نیوز کے ایک رپورٹر نے ان سے انٹرویو کے دوران مودی سرکار کی ترجمانی کی کوشش کی تو اداکارہ نے اسے کھری کھری سنادیں۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے آج ایک بار پھر مرکزی حکومت کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بنگال میں میں حراستی کیمپ کسی بھی صورت میں قائم کرنے نہیں دیا جائے گا وزیرا علی نے کہا کہ میں مرجاں گی مگر حراستی کیمپ قائم نہیں ہوگا۔نیہاٹی فیسٹیول کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا کہ ملک کے ہر شہری کے مساوی حقوق ہیں۔وزریا علی نے کہا کہ غریبوں کے جو حقوق ہیں، اسی صنعتکار وں کے بھی وہی حق ہیں۔کسی کو کسی بر برتریت حاصل نہیں ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے بھارتیہ جنتاپارٹی پر وعدہ پورا نہ کرنےکا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ وہ عوام کو گمراہ کرکے مرحلہ وار طریقہ سے اداروں کو بربادکرنے مصروف ہے۔