بھارتی فورسز کی سفا کیاں ،درندگی کھل کر سا منے آگئیں،شہلا راشد کے ٹویٹ میں سنسنی خیز انکشا فات

سری نگر (ویب ڈیسک )بھارتی فورسز لڑکیوں کو حراست میں لیکر گھروں میں توڑ پھوڑ کرتی ہیں ۔ نہتے کشمیریوں کی چیخوں کو سارے علاقے میں سنایا جاتا ہے ۔ کشمیری سماجی کارکن شہلا راشد نے سلگتے کشمیر کی اندرونی کہانی سنا دی ۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں دنیا کو بھارتی مظالم سے پھر سے آگاہ کیا ہے جو ٹویٹر پر بھی دیکھا جا سکتا ہے

 

پہلا حکومتی سال: دنیا میں ادویہ 30 فیصد، پاکستان میں 70فیصد مہنگی ہوئیں

اسلام آباد:(ویب ڈیسک)تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا، صحت کے شعبے میں عوام کو مشکلات اور مہنگی ادویہ کے سوا کچھ نہیں ملا۔موجودہ حکومت کے پہلے سال کے دوران وزارت قومی صحت اور اس کے ماتحت ادارے بد ترین انتظامی بے حسی کا شکار رہے۔ کسی بھی ادارے کا مستقل سربراہ تعینات نہ کیا جاسکا، وفاقی وزیر عامر کیانی کی قربانی بھی عام شہری کو سستی ادویہ فراہم نہ کرسکی۔معاون خصوصی صحت ڈاکٹر ظفرمرزا نے ادویہ کی قیمتیں واپس کرانے کے بجائے70 فیصد تک مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کرادیا۔ فارمولے کی بنیاد پر دنیا بھر میں ادویہ کی قیمتوں میں30 فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔ حکومت کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں من پسند افرادکی تقرری کے بعد سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔سینیٹ کمیٹی نے صدارتی ا?رڈیننس کے تحت قائم پی ایم اینڈ ڈی سی کونسل کو مسترد کردیا۔ رواں سال کئی میڈیکل کالجز میں تین چار ماہ تاخیر سے کلاسیں شروع ہوئیں۔

بھارتی آبی جارحیت، 48 گھنٹوں میں بڑا سیلابی ریلا پاکستان میں داخل ہوگا

لاہور / قصور / پاکپتن:(ویب ڈیسک) بھارت کی طرف سے اچانک پانی چھوڑے جانے پر دریائے ستلج میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔بھارت کی جانب سے ا?ئندہ 24 سے 48گھنٹوں کے دوران پانی کا بڑاریلا ہیڈ گنڈا سنگھ والا کے مقام سے پاکستان میں داخل ہوگا، سیلاب سے قصور، پاکپتن، ساہیوال، اوکاڑہ، بہاولنگر، وہاڑی اور لودھراں کے اضلاع میں دریاکے قریبی علاقے متاثر ہونے کاخدشہ ہے۔ بھارت کی طرف سے گزشتہ روز 2 لاکھ 40 ہزار کیوسک پانی دریائے ستلج میں چھوڑدیاگیا ہے۔حکومت پنجاب نے ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلیے پاک فوج کی خدمات طلب کر لیں،محکمہ داخلہ پنجاب نے مراسلہ ارسال کرتے ہوئے پاک فوج کی 2کمپنیاں طلب کی ہیں جبکہ دریائے ستلج کے علاقوں کیلیے امدادی ٹیمیں روانہ کر دی گئیں۔ذرائع کے مطابق محکمہ صوبائی حکومت نے پاک فوج کی دو کمپنیوں کی خدمات کے لیے درخواست ارسال کی ہے۔

پاکستان کی ساتویں پوزیشن کو ویسٹ انڈیز سے خطرہ

دبئی:(ویب ڈیسک) ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستان کی ساتویں پوزیشن کو بھی ویسٹ انڈیز سے خطرہ لاحق ہوگیا۔ویسٹ انڈیز اور بھارت کے درمیان 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں پاکستان کی رینکنگ میں ساتویں پوزیشن بھی داو¿ پر لگی ہوگی، اگر کیریبیئن سائیڈ نے یہ سیریز 1-0 کے مارجن سے بھی جیتی تو اس کے پوائنٹس 82 سے ایکدم 88 ہوجائیں گے، یوں84 پوائنٹس کی حامل پاکستانی ٹیم کو مزید تنزلی کا شکار ہوکر ا?ٹھویں نمبر پر جانا پڑے گا، اس صورت میں بھارت بھی اپنی ٹاپ پوزیشن گنوا دے گا،البتہ کوہلی الیون کے سیریز میں کلین سوئپ کی صورت میں ویسٹ انڈیز کے پوائنٹس 80 رہ جائیں گے۔دوسری جانب انگلینڈ اور ا?سٹریلیا کے درمیان ڈرا ہونے والے دوسرے ایشز ٹیسٹ کے بعد پلیئرز کی تازہ ترین رینکنگ بھی جاری کردی گئی۔ بیٹنگ میں عثمان خواجہ کی تنزلی کا براہ راست فائدہ اٹھاتے ہوئے بابر اعظم 17 ویں نمبر پر پہنچ گئے، اسد شفیق 22اور اظہر علی 24 ویں نمبر پر موجود ہیں، ٹاپ پوزیشن ویرات کوہلی کے پاس ہے،ا?سٹریلیا کے اسٹیون اسمتھ دوسرے نمبر پر پہنچ کران کیلیے خطرے کی گھنٹی بجا چکے۔بولرز میں محمد عباس بدستور ا?ٹھویں پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں، ناتھن لیون اور مچل اسٹارک کی تنزلی کی وجہ سے یاسر شاہ 2 درجے ترقی پاکر 17 ویں نمبر پرا?گئے، حسن علی کو تنزلی نے 47 ویں نمبر پر پہنچا دیا،فہیم اشرف بھی ایک درجہ نیچے 58 ویں نمبر پر چلے گئے۔بولنگ چارٹ میں سرفہرست ا?سٹریلیا کے پیٹ کمنز نے لارڈز ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی سے اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرلیا۔ ٹاپ ا?ل راو¿نڈر کا اعزاز ویسٹ انڈین کپتان جیسن ہولڈر کے پاس ہے۔

جولائی 2019 معلومہ انسانی تاریخ کا گرم ترین مہینہ تھا، ماہرین

واشنگٹن:(ویب ڈیسک) زمین پر اگرچہ ہم نے کچھ صدیوں سے ہی درجہ حرارت اور دیگر موسمیاتی عوامل کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا ہے اور اب خبر یہ ہے کہ گزشتہ ماہ جولائی کے دوران کئی ممالک میں انسانی معلومات کے مطابق سب سے بلند درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے جو ماہرین کی تشویش میں مزید اضافے کی وجہ بنا ہے۔دوسری جانب اسی گرمی کی شدت سے ا?رکٹک اور انٹارکٹک خطوں میں برف پگھلنے میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس نے بھی تاریخی ریکارڈ قائم کئے ہیں۔امریکا میں نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیئرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے یا نوا?) کے مطابق 2019 کے جولائی میں اس ماہ کا اوسط درجہ حرارت 1.71 درجے زیادہ تھا جبکہ بیسویں صدی میں ماہِ جولائی کا درجہ حرارت اوسطاً 60.4 تک ہی محدود رہا۔ یہ معلومات ن نوا? کےتمام موسمیاتی مراکز سے حاصل کی گئیں۔ اس سے قبل 2016ئ کے جولائی کو تاریخی لحاظ سے گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا تھا۔اس لحاظ سے تاریخ کے گرم ترین ماہِ جولائی کی بات کی جائے تو ان میں 10 میں سے 9 گرم ترین جولائی سال 2005ئ کے بعد ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اب گویا ہرسال کی جولائی میں گرمی کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ ریکارڈ مزید بتاتے ہیں کہ بیسویں صدی کے مقابلے میں اکیسویں صدی کے 19 برسوں میں تمام مہینوں میں اوسط درجہ حرارت 1.71 درجے فیرن ہائٹ بڑھا ہے جو 56.9 درجے فیرن ہائٹ رہا۔ اس لحاظ سے 2017ئ بھی گرم ترین سال گزرا ہے جس کی تصدیق درجہ حرارت کے ریکارڈ سے ہوئی ہے۔ماہرین نے صرف ایک مقام پر نہیں بلکہ کئی جگہوں پر درجہ حرارت میں اضافہ نوٹ کیا ہے۔ شمالی اور جنوبی امریکا، ایشیا، ا?سٹریلیا، نیوزی لینڈ، افریقہ کا نصف جنوبی حصہ اور اوقیانوس کے کئی علاقے اور بحرالکاہل کے خطوں میں بھی یہ اضافہ نوٹ کیا گیا ہے جسے جھٹلانا ناممکن ہے۔جولائی کے مہینے میں ا?رکٹک سمندر پر پڑنے والی برف میں بھی کمی دیکھی گئی ہے جو اوسط سے 19.8 فیصد کم ہے جس نے جولائی 2012ئ کا کم ترین ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔اسی طرح انٹارکٹک سمندر کی برف میں 1981ء سے 2010ء کے دوران 4.3 فیصد کمی دیکھی گئی ہے یعنی گزشتہ 41 برس سے کم ترین برف کا ریکارڈ ہے۔

ایک گولی سے جن بھوت کا علاج

(ویب ڈیسک)خدانخواستہ اگر آپ کے سامنے کوئی شخص اچانک زمین پر گرجائے ، اس کا جسم اکڑ جائے ، اس کے سر بازو اور ٹانگوں میں جھٹکے لگے۔ منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجائے ، شکل پر تناو بڑھ جائے اور یہ سلسلہ کم و بیش پانچ منٹ تک جاری رہے۔ جس کے بعد وہ ہوش میں ا?ئے اور ایک بار پھر تمام صورت حال نارمل ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ اس شخص کو مرگی کا دورہ پڑا ہے۔ہر میں رہنے والوں کو دماغی مرض مرگی کے نام سے تو واقفیت ہے لیکن دیہی علاقوں کی اکثریت تو ان دوروں کو سائے کا اثر گردانتی ہے۔ ایسی صورت میں علاج کا تو سوال ہی نہیں البتہ جھاڑ پھونک سے مریض کی حالت اور زندگی دونوں ہی تباہ کردی جاتی ہے۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہزار میں سے نو اعشاریہ نو فیصد کو مرگی کا مرض لاحق ہے۔ جس میں سے بیشتر کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ مریضوں کی زیادہ تعداد دیہات میں ہےلیکن اس مرض سے متعلق بنیادی ا?گاہی میسر نہیں ہے۔ا?گاہی اور علاج کے سلسلے میں ایپیلپسی فاو?نڈیشن ا?ف پاکستان کا کردار نمایاں ہے۔ شہروں میں فری کلینکس چلائے جاتے ہیں ، دیہی علاقوں میں کیمپس لگائے جاتے ہیں۔ یہاں ایک قصہ تحریر کرنا انتہائی اہم ہے۔ فاو?نڈیشن کی صدر اور مایہ ناز نیوروسرجن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے مرگی کے علاج سے متعلق گفتگو ہورہی تھی ، انہوں نے بدین میں پیش ا?نے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ، ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق مرگی کے علاج کے لئے میڈیکل کیمپ لگایا لیکن علاقے سے کوئی نہ ا?یا ، جس کے بعد ایک اعلان ہوا تو دو سو سے زائد مریض کیمپ ا?پہنچے۔وہ اعلان تھا ، ( ایک گولی سے جن بھوت کا علاج کیا جارہا ہے )۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قابل علاج مرض کے بارے میں مریض قطعی معلومات نہیں رکھتے۔ اس جملے نے وقتی طور پر تو علاج کی راہ میں رکاوٹ کو دور کیا لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ لاعلمی کا یہ مرض صرف دیہی علاقوں تک ہی محدود نہیں شہروں میں بسنے والے بھی مرگی کو بیماری سے زیادہ بوجھ تصور کرتے ہیں۔ اور کئی افراد تو یہ جانتے ہی نہیں کہ سرجری کے ذریعے اس مرض سے ہمیشہ کے لئے نجات مل سکتی ہے۔ اس مرض کی تشخیص و علاج میں تاخیرکی ایک اور وجہ نیورولوجسٹ کی کھپت بھی ہے۔پاکستان میں چودہ لاکھ ا?بادی کے لئے ایک نیورولوجسٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دماغی امراض کے علاج کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں جو مرض نوجوانوں کا حوصلہ پست کرکے انہیں زندگی کی راہ میں پیچھے دھکیل رہا ہے ، اسی مرض کا شکار البرٹ ا?ئن سٹائن دنیا کا بہترین سائنس دان رہ چکا ہے۔تھامس ایڈسن بھی مرگی کا مریض تھا ، نپولین کو بھی مرگی کے دورے پڑتے تھے ، لیکن بیماری ان کی کامیابیوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی۔ یہاں ان ناموں کا تذکرہ کرنے کا مقصد اس امر کی جانب توجہ دلانا ہے کہ علاج سے بھی زیادہ ضروری ا?گاہی ہے ، تاکہ مرگی سے جڑی ہوئی غلط فہمیاں مرض سے پہلے مریض کی جان نہ لے لیں۔

منہ میں برقی آری رکھنے والی خطرناک شارک

(ویب ڈیسک)ہماری زمین پر طرح طرح کے جاندار پائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ ہماری ا?نکھوں کے سامنے ہیں، جبکہ کچھ اوجھل ہیں۔ہماری آنکھوں سے اوجھل یہ وہ جاندار ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوسکے، یا یہ پرانے وقتوں میں ہوا کرتے تھے اور اب معدوم ہوچکے ہیں۔ اب ان جانداروں کی باقیات ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں جو ان کی بناوٹ و ساخت دیکھ کر سخت پریشان ہوجاتے ہیں۔ایسی ہی ایک شارک نے ماہرین کو خوفزدہ کر رکھا ہے جس کے منہ میں برقی ا?ری موجود ہوا کرتی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شارک جسے ہیلی کوپریون کا نام دیا گیا ہے، 25 کروڑ سال قبل ہمارے سمندروں میں ہوا کرتی تھی۔یہ شارک 35 فٹ طویل تھی اور اس کے ا?گے کے دانتوں کی ساخت ایسی تھی کہ وہ گھوم کر ایک برقی ا?ری کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ یہ ا?ری حرکت نہیں کرتی تھی۔ماہرین کے مطابق اس شارک کے منہ میں اوپر کا حصہ دانتوں سے خالی ہوتا تھا لہٰذا یہ ا?ری باا?سانی اس کے منہ میں سما جاتی تھی۔نہایت خطرناک دکھنے والی اس ا?ری کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شارک اپنے شکار کی طرف بڑھتی ہوگی اور اس ا?ری کی مدد سے چند لمحوں میں شکار کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہوگی، لیکن یہ ا?ری اس قدر مو¿ثر نہیں تھی۔شارک اپنے شکار کیے گئے صرف چند چھوٹے موٹے جانوروں کے اس ا?ری کی مدد سے ٹکڑے کرسکتی تھی۔اب تک ہم نے ایسے جانور صرف سائنس فکشن فلموں میں ہی دیکھے ہیں، تاہم اب جبکہ ان جانوروں کا حقیقت میں موجود ہونا بھی ثابت ہوگیا، تو اسے خوش قسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ یہ خطرناک شارک کروڑوں سال قبل معدوم ہوگئی۔

کافی پینے کے شوقین افراد کے لیے بری خبر

ّ(ویب ڈیسک)کیا ا?پ کافی پینے کے بے حد شوقین ہیں؟ تو پھر ا?پ کو یہ جان کر بے حد صدمہ ہوگا کہ روزانہ دن میں 3 سے زیادہ کپ کافی پینا ا?پ میں میگرین یا ا?دھے سر کے درد کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔امریکن جنرل ا?ف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے لیے میگرین کے شکار افراد کا تجزیہ دیکھا گیا۔ماہرین نے دیکھا کہ ان افراد کو میگرین کا اٹیک اس وقت ہوا جب انہوں نے اس روز یا اس سے ایک روز قبل کافی کے 3 سے زائد کپ پیے۔ اس کے برعکس 1 یا 2 کپ پینے سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوا۔خیال رہے کہ ا?دھے سر کا اذیت ناک درد یا میگرین نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے، یہ درد سر کے کسی ایک حصے میں اٹھتا ہے اور مریض کو ناقابل برداشت تکلیف کا شکار بنا دیتا ہے۔میگرین کا کوئی باقاعدہ علاج نہیں ہے تاہم گھریلو ٹوٹکے اپنا کر وقتی طور پر ا?رام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میگرین کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک نیند کی کمی ہے، تاہم کافی کا اس سے تعلق نہایت پیچیدہ ہے، بعض مواقعوں پر کافی اس مرض کی شدت کو کم بھی کر سکتی ہے۔اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ہمارے چائے یا کافی کو پسند کرنے کا انحصار ہماری جینیات یا ڈی این اے پر ہوتا ہے۔ وہ افراد جن کی جینیات تلخ اور کھٹے ذائقوں کو برداشت کرسکتی ہوں، صرف ایسے افراد ہی تلخ کافی پینا پسند کرتے ہیں۔اس کے برعکس بعض افراد کی جینیات تلخ ذائقوں کے حوالے سے حساس ہوتی ہے، ایسے افراد قدرتی طور پر چائے پینا پسند کرتے ہیں۔

جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

ّ(ویب ڈیسک)ذہنی تناو¿، ڈپریشن اور اینگزائٹی ا?ج کل کے عام امراض بن گئے ہیں اور ہر دوسرا شخص ان کا شکار نظر ا?تا ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کا ایک اور سبب تلاش کرلیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں تو مختلف دماغی امراض و مسائل کی بڑی وجہ جینیات، دماغ کی کیمسٹری، ماحولیاتی عوامل اور کوئی طبی مسئلہ یا بیماری ہوتا ہے، تاہم اس کا تعلق جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی سے بھی ہوسکتا ہے۔ان کے مطابق جسم میں وٹامن بی 6 اور ا?ئرن کی کمی دماغی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وٹامن بی 6 اور ا?ئرن کی کمی دماغ کے اس حصے میں کیمیائی تبدیلیوں میں اضافہ کردیتی ہے جو پینک اٹیکس (شدید گھبراہٹ)، گھٹن محسوس ہونے، سانس کے تیزی سے چلنے اور اینگزائٹی (بے چینی) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔تحقیق کے لیے 21 افراد پر مشتمل گروہ کی جانچ کی گئی جو پینک ڈس ا?رڈر اور اینگزائٹی میں مبتلا تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو معمولی نوعیت کے پینک اٹیکس کا سامنا ہوتا جو گھر میں ہی کنٹرول کرلیا جاتا، البتہ کچھ کو ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جاتی۔ماہرین نے دیکھا کہ ان کے پینک اٹیک کی شدت ان کے جسم میں موجود غذائی اجزا کی سطح پر منحصر تھی، شدید اینگزائٹی اور پینک اٹیکس کا شکار افراد میں وٹامن بی 6 اور ا?ئرن کی سطح کم تھی۔حقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اجزا دراصل دماغ میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے سیرو ٹونین کو فعال کرتے ہیں، سیرو ٹونین دماغ میں خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال کی جانے والی بہت سی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بھی سیرو ٹونین کو بڑھانے پر کام کرتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہلو پر مزید جامع تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم صحت مند اور متوازن غذا کا دماغی صحت مندی سے نہایت گہرا تعلق ہے۔

گزشتہ مالی سال کے دوران گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی ریکارڈ

کراچی: (ویب ڈیسک)گزشتہ مالی سال کے دوران گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی ریکارڈ ہوئی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2019 میں گاڑیوں کی فروخت میں 42 فی صد کمی ہوئی۔تفصیلات کے مطابق ا?ٹو انڈسٹری کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں گاڑیوں کی فروخت میں 42 فی صد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 میں مختلف مقامی کار ساز کمپنوں کے 12482 یونٹس فروخت ہوئے ہیں، جب کہ جولائی 2018 میں مختلف کار ساز کمپنیوں کے 21344 یونٹس فروخت ہوئے تھے۔پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی اے ایم اے) کا کہنا ہے کہ جولائی 2018 سے جولائی 2019 کے دوران مختلف کار ساز کمپنیوں کو گاڑیوں کی فروخت میں واضح کمی کا سامنا رہا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ کمی کا سامنا ہونڈا کمپنی کو رہا، مالی سال کے دوران کمپنی کی فروخت میں 66 فی صد کمی ا?ئی، انڈس کو 56 فی صد جب کہ سوزوکی کو 23 فی صد کمی کا سامنا رہا۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی کا سبب روپے کی قدر میں کمی ہے، جس کی وجہ سے مقامی کاریں مہنگی ہوئیں۔دوسری طرف جولائی تا نومبر 2017 میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پی اے ایم اے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار میں انکشاف کیا گیا تھا کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں مذکورہ مدت میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ادھر آٹو انڈسٹری کی سیلز میں نمایاں کمی ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں ملازمتیں ختم ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔