لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ”ہیومن رائٹس واچ“ میں ساہیوال کے پرائمری سکول پر بااثر افراد کے قبضے اور سکول کو بھینسوں کا باڑہ بنانے کے خلاف ایکشن لیے جانے کے حوالے سے خصوصی نشریات پیش کی گئیں۔چینل ۵ و خبریں میں خبر کے مطابق اہل علاقہ عرصہ درازسے سکول بننے کے منتظر اور اپنی بچیوں کو دور دراز سکول بھیجنے پر مجبور تھے ۔ ساہیوال کے پرائمری سکول پر سیاسی گروپ کے کارندوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ سکول کی جگہ اور فنڈز کی منظوری اس وقت کے چیئرمین بلدیہ نے لی تھی ۔ جب سکول بنانے کا وقت آیا تو اس وقت قبضہ گروپ احاطہ نمبر 41، 42،43،44 اکرم ، اسلم ، کامران ، سراج اور عبدالحمید وغیر نے نقشہ 2193سرکاری اراضی کا بلڈنگ مٹیریل اٹھا لیا اور ٹھیکے دار کو بھی بھگا دیا۔ چینل ۵ اورخبریں پر خبر چلنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور اسسٹنٹ کمشنر سفیان دلاور اپنی بھاری ٹیم اور مشینری کے ساتھ قبضے کی جگہ پہنچے تو قابضین نے مذاحمت کی اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے قبضہ واگزار نہ ہوسکا ۔ اس حوالے سے جہاں ظلم وہاں خبریں کے سلوگن پر عمل کرتے ہوئے مذہبی و سماجی کارکن اصغر رامے نے پریس کانفرنس منعقد کی جو جرم بن گیا۔ سیاسی دباﺅ کی وجہ سے ڈسٹرکٹ حکومت نے ذاتی رہائشی کو گھر کا نوٹس بھیج دیاگیا۔ اصغر رامے نے اس حوالے سے اپنا موقف سامنے لانے کے لیے چینل ۵ سے رجوع کیا۔
پروگرام میںخواتین پر مظالم کے حوالے سے بھی ایک اہم واقعہ پر گفتگو کی گئی کہ مسلم گرلز پرائمری سکول شاہدرہ کے سکیورٹی گارڈ احسان شاہ نے سکول کی خاتون پرنسپل کو حراساں کیا۔ یہ تنازع سکول میں مٹی ڈلوانے کے لیے احسان شاہ کو 10ہزار روپے دینے سے شروع ہوااور بات درخواست گزار خاتون پرنسپل عالیہ ذہین کی عزت اور جان و مال پر آپہنچی ۔ چند روز قبل شفیق آباد کے علاقے میں گھر جاتے ہوئے سکول پرنسپل کو چند رکشہ سوار افراد نے اغوا کرنے کی کوشش کی اور شور کرنے پر انہیں دھمکی دی گئی کہ سکیورٹی گارڈ احسان شاہ کے خلاف کارروائی سے باز نہ آئی تواگلی مرتبہ اس پر تیزاب پھینک دیا جائے گا۔ سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشنل لاہور اور ایس پی سٹی تک درخواست جانے کے باوجود ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکی۔ والدین کی وفات اور چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش کے باعث عالیہ اب تک شادی نہیں کر سکیں۔ اکیلی و لاوارث ہونے کیوجہ سے ایک طرف ملزمان دھاوا بول رہے ہیں اور دوسری جانب محکمہ تعلیم اور پولیس خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ متاثرہ ہیڈ مسٹریس کے مطابق کسی بھی وقت ان کے ساتھ افسوسناک واقعہ پیش آسکتا ہے لہٰذا مجھے تحفظ دیا جائے۔
چیف ایڈیٹر خبریں گروپ آف نیوز پیپرز ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے اور ہم نے محسوس کیا کہ بچوں کے سکولوں کی جگہ پر کسی کا قبضہ نہیں ہونا چاہئے نہ وہاں بھینسیں بندھنی چاہئیں نہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہونا چاہئے۔ ہمارے نمائندگان نے سکول کی جگہ واگزار کروانے کی کوشش کی ہے اور ہم اس جگہ پر سکول بنا کر رہیں گے۔ جب تک سکول کی عمارت مکمل اور پڑھائی شروع نہ ہوجائے ہم مکمل دیکھ بھال کرتے رہیں گے۔ ضیا شاہد نے سکول کا سنگ بنیا د رکھنے کے حوالے سے بھرپور کوشش کرنے کا عزم کیا۔ شاہدرہ کی سکول پرنسپل کے واقعے پر ضیا شاہد نے کہاکہ تکلیف دہ بات ہے کہ ایک پختہ عمر خاتون لاہور میں پڑھا کر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پال رہی ہے اور انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ آپ کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جائے گا۔ اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا کہ کسی کو گھر سے نکلتے ہوئے ہر وقت یہ خوف ہو کہ کسی بھی وقت اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا جائے گا۔ یہ مسئلہ بہت سنجیدہ ہے ، اس معاملہ کو اچھی طرح کھنگھالتے ہوئے مجرم کو گرفتار کیا جانا چاہئے۔ ملزم سکیورٹی گارڈ کی ڈیوٹی لاہور میں ہے تو وہ شاہدرہ میں کیسے کام کر رہا ہے ، اس واقعہ سے محکمہ تعلیم کی اپنی رسوائی ہو رہی ہے کہ ان کے ملازم قوانین کے خلاف دوسری جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔پولیس اور محکمہ تعلیم کو دیکھنا چاہئے کہ کہاں کہاں بے قاعدگیا ں ہو رہی ہیں اور انہیں کیسے ختم کرنا ہے۔ محکمہ تعلیم دیکھے کہ مٹی نہ ڈلوانے پر تنازع کو سکیورٹی گارڈ نے ذاتی انا کا مسئلہ کیوں بنا لیا ہے کہ خاتون کو چہرے پر تیزاب پھینکنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ایسا ہوا تو اس خاتون کی نوکری سمیت بہن بھائیوں کی کفالت بھی ختم ہوجائےگی۔ خاتون پر ناجائز تعلقات کا الزام لگانا انتہائی ناگفتہ بات ہے۔ ضیا شاہد نے کہاکہ متاثرہ خاتون کے عدالت جانے سے پہلے اس سے درخواست لکھوائی جائے ۔ انہوں نے لیگل ایڈوائزر آغا باقر کو اس درخواست کو قانونی شکل دینے کی تاکید کی تاکہ متعلقہ محکموں تک درخواستیں بہتر طریقے سے موصول ہوسکیں۔
متاثرہ سکول پرنسپل عالیہ ذہین نے پروگرام میں ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں تعلیم کے مقدس شعبے سے وابستہ ہوں۔ احسان شاہ نامی سکیورٹی گارڈتعینات ہے مگر ڈی ڈی او صاحبہ کی ڈرائیوری کر رہا ہے۔ احسان شاہ بلیک میلر ہے ، سکولوں میں تعمیری کاموں ، وائٹ واش ، فرشوں کی مرمت جیسے کاموں کے ٹھیکے لیتا ہے۔ جو لوگ اسے ٹھیکہ نہیں دیتے ،یہ انہیں بلیک میل کرنے کے ساتھ دھمکیاں دیتا ہے۔
لیگل ایڈوائزر چینل ۵آغا باقر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شاہدرہ میں سکول کی خاتون پرنسپل اس حد تک مجبور ہوگئی ہے کہ اس کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ایسے ادارے سے رابطہ کرنا پڑا ہے۔پولیس اور محکمہ تعلیم اس واقعہ پر مکمل خاموش ہے جس کے باعث اس خاتون نے ہیومن رائٹس واچ اور میڈیا کی مدد لی۔ یہی واقعہ یورپ، ساﺅتھ کوریا یا ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ یہ معاملہ انفرادی اور اجتماعی ہے۔ خاتون پرنسپل اور ان کے اہل خانہ کی سکیورٹی کی ذمہ داری ریاست کی ہے ، وہ بچوں کی معمار ہے۔ خاتون پر تیزاب پھینکنے اور جان لینے کی دھمکی اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت ڈیل ہوگی۔ خاتون کوکیس کی پیروی کرنے سے بھی روکا جارہا ہے۔اس خاتون کی جگہ کسی بیوروکریٹ کی بہن بیٹی ہوتی تو اسی وقت کارروائی ہوتی۔ آرٹیکل 9کے تحت ریاست تحفظ کی ذمہ دارہے۔ سکیورٹی گارڈ بذات خود طاقتور نہیں ہوسکتا اس کے پیچھے طاقتور لوگ ہیں۔ محکمہ تعلیم کا چیف اسکے خلاف محکمانہ کارروائی تو کیا زبان کھولنے کو تیار نہیں۔ پولیس کیا سو رہی ہے ، اب سب کے پاﺅں جلیں گے تو دوڑیں لگیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ مٹی ڈلوانے کے لیے پیسے سرکاری فنڈ سے دئیے گئے ہوں۔ آغا باقر نے متاثرہ خاتون کو یقین دہانی کروائی کہ ان کی بھرپور جائز مدد کی جائے گی اور چینل ۵ کے ذریعے دادرسی کی جائے گی۔
متاثرہ عالیہ ذہین نے وزیراعظم پاکستان ، پولیس اور محکمہ صحت کو درخواست دے رکھی ہے مگر کہیں ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔ ڈی ای او ایف قراةالعین سے چینل ۵ نے موقف جاننا چاہا تو انہوں نے موقف دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سی ای او پرویز اختر ہی اس حوالے سے بتا پائیں گے۔ پرویز اختر سے رابطہ کیا گیا تو وہ بھی بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ احسان شاہ مڈل سکول شاہدرہ میں سکیورٹی گارڈ تعینات ہے مگر وہ جونیئر ماڈل مڈل سکول مستی گیٹ میں ڈی سی او کوثر پروین کے ڈرائیور کے طور پر کام کر رہا ہے ۔ ادارے میں دو مزید ڈرائیور پہلے ہی موجود ہیں جو فارغ بیٹھ کر گھر چلے جاتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے ٹال مٹول کی جارہی ہے کہ اس حوالے سے محکمانہ کاروائی جاری ہے۔ پولیس بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔