تازہ تر ین

کرونا بحران ،وفاقی حکومت کا 18ترمیم میں نظر ثانی کا فیصلہ، سخت مزاحمت کریں گے اپوزیشن کا اعلان

اسلام آباد (آئی این پی، مانیٹرنگ ڈیسک) کرونا وائرس کی وجہ سے پچھلے ایک ماہ سے ملک میں جاری بحران کے بعد حکومت نے اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے غور کرنا شروع کردیا۔نجی ٹی وی کے مطابق وفاقی حکومت کے ذرائع نے خبر دی ہے کہ وفاقی حکومت نے اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوراڈ میں نظر ثانی کا فیصلہ کرتے ہوئے اتحادی و دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔یہ بھی اطلاع سامنے آئی کہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے وفاق کو نظر ثانی کے لیے مثبت اشارے مل گئے ہیں۔وفاقی حکومت نے مقف اختیار کیا ہے کہ صوبے بڑے بحران کے لیے تیار تھے اور نہ ہی انہوں نے وفاق کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جس کی وجہ سے کرونا کے بعد صورت حال مزید گھمبیر ہوگئی ہے۔یاد رہے کہ 2010 میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئین پاکستان کی اٹھارویں شق میں ترمیم کی تھی جس کے بعد صوبہ سرحد کا نام خیبرپختونخوا رکھا گیا اور صدرپاکستان کے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم ہوا۔ترمیم کے تحت وفاقی حکومت صوبائی کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتی اور ہر سال جمع ہونے والے ریونیو میں سے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کی صورت میں آبادی کے لحاظ سے پیسہ دیا جاتا ہے۔ ترمیم کے تحت وفاقی حکومت صوبائی کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتی اور ہر سال جمع ہونے والے ریونیو میں سے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کی صورت میں آبادی کے لحاظ سے پیسہ دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی نے اعلان کیا ہے کہ کرونا کے نام پر اگر حکومت نے اٹھارویں ترمیم میں چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو بھرپور سیاسی مزاحمت کی جائے گی، صوبائی وزیراطلاعات ناصر حسین شاہ نے الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت کرونا کے معاملے پر بھی سیاست چمکانے سے باز نہیں آرہی۔ 18ویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بنائی حکومت کرونا پر توجہ دے۔ اے این پی کے زاہد علی نے کہا ہے کہ نیا پنڈورا بکس نہ کھولا جائے ترمیم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم میں کچھ خامیاں نظر آئی ہیں۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم ترمیم صحیح سمت کی طرف قدم تھا لیکن ابھی بھی نامکمل ہے کیونکہ صوبائی حکومتوں تک تو اختیارات پہنچ گئے تاہم مقامی حکومتوں کو اختیارات نہیں ملے۔انہوں نے کہا کہ جب تک وفاق اور صوبے ساتھ مل کرکام نہیں کریں گے تو معاملات حل نہیں ہوں گے، ہم کوئی اختیار صوبوں سےنہیں لینا چاہتے اورنہ ہی یہ اختیارات کی جنگ کا سلسلہ ہے بلکہ ہم مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم میں کچھ خامیاں نظرآئی ہیں اور ہمیں تجربہ بھی حاصل ہوگیا ہے ، تمام سیاسی جماعتیں اس پر بیٹھ کر بات کرسکتی ہیں۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد ملک کو آگے لے جانے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی) کا سیکرٹریٹ بننا تھا لیکن پچھلی دونوں حکومتوں نے نہیں بنایا تاہم اب کابینہ نے سیکرٹریٹ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ شیری رحمان کو شاید مکمل معلومات نہیں ملیں، اگر وہ مشاورت کریں گی تو انہیں پتا چل جائے گا۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر سینیٹرمیرکبیراحمدمحمدشہی نے کہاہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 18ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کافیصلہ کسی صورت قبول نہیں کرینگے اکابرین کی 40سالہ جدوجہد کے نتیجے میں 2010 میں صوبوں کو کچھ خودمختاری ملی جس کو فیڈریشن رول بیک کرناچاہتی ہے جو ملک اور وفاق کیلئے نقصان دہ ہوسکتاہے ۔ اتوار کو انہوں نے میڈیا پر حوالے سے چلانے والی خبروں پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرونا کے باعث لاک ڈاﺅن سے پوری قوم پریشان ہے ان حالات میں بھی حکمرانوں کو صوبوں کے حقوق چھیننے کی فکر ہے ہونا تو چاہیے حکومت لوگوں کے مسائل حل اور معیشت کی بہتری پر توجہ دی جاتی مگر افسوس حکمران غیرسنجیدہ اقدامات کررہے ہیں اگر حکومت نے 18ویں ترمیم کو چھیڑنے کی کوشش کی تو نیشنل پارٹی پارلیمنٹ سمیت ہر سطح پر اس کیخلاف احتجاج کرے گی حکومت ہوش کے ناخن لیتے ہوئے صوبوں سے حق چھیننے کی بجائے انہیں اختیارات منتقل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain