تازہ تر ین

کرونا کے معاملہ پر امریکہ اور چین میں تصادم نہیں ہوگا،سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان

اسلام آباد ( انٹر ویو : ملک منظور احمد ) سابق سیکرٹری خا رجہ شمشاد احمد خان نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی اندرونی پا لیسیوں کا عکس ہو تی ہے ،کسی بھی ملک کی خارجہ پا لیسی منجمند نہیں رہتی اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔کرونا وائرس کی وبا انسانیت کے لیے ایک سبق ہے ۔ انسان نے ہر قسم کے تباہی پھیلانے والے ہتھیار تو تیار کر لیے ہیں لیکن اپنے آپ کو محفوظ کرنے کا طریقہ نہیں نکا ل سکے ۔پاکستان کی حکومت عرب ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی ورکرز کا روزگار بچانے کے لیے کو شش کر رہی ہے لیکن ،عرب ممالک اپنے مفاد میں فیصلے کررہے ہیں ۔یہ حکومتوں کا معاملہ ہے ۔18ویں ترمیم میں تعلیم اور صحت کے شعبے صوبوں کو منتقل کرکے ریاست نے اپنے آپ کو بے بس کرلیا ہے ۔اس میں نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے کہا کہ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت کی جانب سے مسلمانوں کو کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کا ذمہ دار قرار دینے کے الزامات قابل مذمت ہیں ۔امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کی معاشی سمیت دیگر وجوہات بھی ہیں ۔کرونا وائرس کے معاملے پر دونوں ممالک میں تصا دم نہیں ہو گا ۔پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت اہمیت کے حا مل ہیں ۔امریکہ کی جانب سے کرونا وائرس کے حوالے سے پاکستان کی مدد کی جاتی ہے تو اسے سراہنا چاہیے ۔پاکستان اور امریکہ افغانستان معاملے میں تعاون بڑھا سکتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار ان شخصیات نے چینل فائیو کے پروگرام ڈپلومیٹک انکلیو میں گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ایک سوال کے جواب میں شمشاد احمد خان نے کہا کہ کرونا وائرس کے حوالے سے آنے والے دنوں میں کیا صورتحال بننے جا رہی ہے اور اس حوالے سے آگے کیا ہو گا یہ تو حکومت ہی بہتر بتا سکتی ہے ۔اس کے پاس وسا ئل ہیں ۔میں یہ کہتا ہوں کہ یہ عالمی وبا ایک بہت بڑا عالمی انسانی بحران ہے ۔یہ بحران جنگ کی طرح ہے اور جنگیں ہمیشہ تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا کرتی ہیں ۔دنیا کی جو قومیں اس وبا کے لیے تیار ہو سکتیں تھیں جن کے پاس وسائل تھے ،ٹیکنالوجی تھی وہ مکمل طور پر اس آفت کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں ۔لیکن میں یہاں پ یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہماری حکومت کا رسپانس اس حوالے سے قابل فخر رہا ہے ۔جس طریقے سے اس وبا کو ہینڈل کیا جا رہا ہے وہ مغربی ممالک سے بہتر ہے ۔لیکن پھر بھی ہمارے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔اس حوالے سے سول اور عسکری قیادت بھی مشترکہ حکمت عملی بنا رہے ہیں جو کہ خوش آ ئند بات ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ وبا انسانیت کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتی ہے ۔انسان نے ہر قسم کا ہتھیار تو تیار کرلیا ہے لیکن اپنے آ پ کو محفوظ کرنے کا طریقہ نہیں بنا سکے ۔اس بیماری کا علاج بھی جلد یا بدیر تلاش کر ہی لیا جائے گا ،لیکن اس بیماری کے باعث لاکھوں افراد ما رے جا ئیں گے کروڑوں لوگ بے روز گا ر ہو جا ئیں گے ۔ہمیں اپنے وسائل تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کرنے ہوں گے ۔یہ شعبے پاکستان میں مسلسل نظر انداز کیے گئے ہیں ۔18ویں ترمیم میں ان شعبوں کو صوبوں کے حوالے کرکے ریاست نے اپنے آپ کو بے بس کرلیا ہے ۔اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔عوام کے لیے ملک میں کبھی قانون سازی نہیں کی گئی ۔ہمارے کرپٹ حکمرانوں کے مفادات کے لیے پا لیسز تشکیل دی گئیں ۔یہ بہترین موقع ہے کہ ان شعبوں کی طرف وسا ئل کا رخ موڑا جائے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں تو کرونا کی صورتحال کے پہلے سے یہ ہی کہتا رہا ہوں کہ پارلیمنٹ میں صرف ڈیسک بجانے کا وقت چلا گیا ہے ۔اب عملی اقدامات کرنے کا وقت ہے ۔ہم اپنی ہر ضرورت کے لیے باہر کے ملکوں کی جانب دیکھتے ہیں ہمیں اس رویہ کو ختم کرنا ہو گا ۔ہمارے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ دوسری قوموں سے خود انحصاری کا سبق سیکھیں ۔وزیر اعظم عمران خان الیکشن سے قبل کہا کرتے تھے کہ باہر سے امداد نہیں لیں گے ۔لیکن وہ بھی ایک مشکل صورتحال میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنا آسان نہیں ہو گا ۔ہم جتنے بھی بیرونی قرضے لیں گے وہ ہمارا اثا ثہ نہیں بلکہ ہم پر بوجھ ثا بت ہوں گے ۔بیرونی وسائل کی بجائے اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ حکومتوں کا ہے عرب ریاستیں سوچ سمجھ کر اپنے مفادات کے لیے فیصلے کر رہی ہیں ،حکومت عرب ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کا روزگا ر بچا نے کے لیے کوششیں کر رہی ہے لیکن لوگ بے روزگار ہوں گے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کبھی بھی منجمند نہیں ہو تی خا رجہ پا لیسی میں ہمیشہ تبدیلیاں آ تی رہتی ہیں ۔خا رجہ پالیسی کسی بھی ملک کی اندرونی پالیسی کا عکس ہو تی ہے ۔اگر کوئی ملک اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے تو اس کی خا رجہ پالیسی ہے ورنہ نہیں ہے ۔وزیر اعظم خان ملک کے مانگ رہے ہیں اپنے لیے نہیں یہ ماضی کے حکمرانوں کی نسبت ایک بڑا فرق ہے ۔ایک سوال کے جواب میں ریاض محمد خان نے کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کی معاشی سمیت دیگر وجوہات بھی ہیں لیکن کرونا کی صورتحال کے باعث دونوں ممالک میں کوئی تصادم نہیں ہو گا ۔عالمی ادارہ صحت نے اس وبا کو ایک قدرتی آفت قرار دیا ہے لیکن اس وبا کی تحقیقات ہو نی چاہیے لیکن اس سے آئندہ کے لیے ایسی صورتحال سے نمٹنے میں مدد ملے گی ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ چین کا معاشرہ ہمارے معاشرے سے بہت مختلف ہے وہ جو فیصلے کرتے ہیںان پر عمل درآمد ہمارے معاشرے کے مقابلے میں زیادہ آسان ہو تا ہے ۔چین کرونا وائرس کے حوالے سے پاکستان کی امداد کر رہا ہے ۔چین سے حفاظتی سامان پاکستان پہنچ رہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت کی جانب سے مسلما نوں پر کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات قابل مذمت ہیں ۔اس رویہ کے خلاف بھارت کے اندر سے بھی آوازیں آرہی ہیں ،دنیا کو بھارت کے اس رویہ کا نوٹس لینا چاہیے ۔کرونا وائرس کی وبا کا کو ئی علاج یا ویکیسن نہیں ہے صرف اس کے پھیلاﺅ کوتھوڑا سا سلو کر دیا گیا ہے ۔ہمیں اس حوالے سے بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ۔ایک سوال کی کے جواب میں انھوں نے کہ کہا کہ یو این سیکرٹری جنرل کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے قرضے معاف کرنے کے حوالے سے اپیل بہت اچھا قدم ہے ،اس وبا کے باعث عالمی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے ۔اس غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی فیصلے لینے کی ضرورت ہے ۔لیکن اب یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ترقی یافتہ ملک اس حوالے کو ئی اقدام لیتے ہیں یا نہیں ۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain