کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر کے دوران بھارت میں دل ہلا دینے والے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو داخل کرانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہا۔ لیکن مریض داخل ہو جائے تو اس کے زندہ واپس آنے کی کوئی ضمانت نہیں۔ نئے کیسز کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کی تعداد بھی نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ شمشان گھاٹوں میں طویل انتظار سے بچنے کے لیے لواحقین پارکوں اور سڑکوں کے کنارے ہی اپنے عزیزوں کی آخری رسومات ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
لاشیں ہی لاشیں
ہسپتالوں میں مردہ گھروں میں ہر طرف پڑی لاشیں عام سی بات ہو گئی ہے۔ لیکن شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں بھی ہر روز لاشوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
قومی دارالحکومت کے دہلی گیٹ کے قریب واقع جدید قبرستان اہل اسلام کے گورکن محمد شمیم کہتے ہیں کہ گزشتہ روز تین گھنٹے میں گیارہ لاشیں آئیں اور شام ہوتے ہوتے ان کی تعداد بیس ہو گئی، ”اس طرح تو تین چار دنوں میں ہی پورا قبرستان بھر جائے گا۔” جدید قبرستان دہلی کا سب سے بڑا قبرستان ہے اور کوئی چھ ایکڑ زمین صرف کووڈ انیس کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیے مختص کی گئی ہے۔ وہاں قبریں کھودنے کے لیے گورکنوں کے بجائے مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
محمد شمیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”دو روز قبل کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا کہ انہیں اپنی والدہ کی تدفین کے لیے قبر تیار کرانا ہے کیونکہ ڈاکٹروں نے ان کی زندگی سے مایوسی ظاہر کر دی ہے۔ یہ سن کر تو میں سکتے میں آ گیا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی یوں کسی زندہ انسان کی قبر تیار کیے جانے کی درخواست کرے گا۔”
دہلی کے سب سے بڑے شمشان گھاٹ نگم بودھ گھاٹ کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ وہاں لکڑیوں سے لاشوں کو جلانے کے لیے بائیس پلیٹ فارم اور سی این جی سے چلنے والی چھ بھٹیاں ہیں۔ یہاں کام کرنے والا 70 سے زائد افراد پر مشتمل عملہ دن رات لاشیں جلانے میں مصروف ہے۔
آخری رسومات کے لیے بھی رشوت
یہ صورت حال صرف دہلی تک محدود نہیں ہے۔ بھارت کی بعض یونین ریاستوں میں حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔
وزیر اعظم مودی کے آبائی شہر احمد آباد میں ایک شمشان گھاٹ میں بجلی کی بھٹی مسلسل دو ہفتے تک بیس گھنٹے جلتے رہنے کی وجہ سے بالآخر پھٹ گئی جبکہ ہیروں کے مرکز کے طورپر مشہور سورت شہر میں شمشان گھاٹ کا لوہے کا فریم پگھل گیا کیونکہ بھٹی کو ٹھنڈ ا ہونے کے لیے ذرا سا بھی وقت نہیں مل سکا تھا۔ پہلے جہاں ہر روز زیادہ سے زیادہ بیس لاشیں آخری رسومات کے لیے لائی جاتی تھیں، اب ہر روز اسی سے کہیں زیادہ لائی جا رہی ہیں۔
اتر پردیش میں لکھنؤ کے بھینسا گھاٹ نامی شمشان گھاٹ پر درجنوں لاشوں کو جلانے کی ویڈیو پہلے ہی وائرل ہو چکی ہے، جس کے بعد انتظامیہ نے اس کے چاروں طرف آہنی دیواریں کھڑی کردی ہیں۔ لکھنؤ میں شمشان گھاٹوں میں لوگوں کو ٹوکن دیے جا رہے ہیں اور انہیں آخری رسومات انجام دینے کے لیے بارہ سے سولہ گھنٹے تک انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ اس صورت حال نے رشوت خوری کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ ایک شخص نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ وہ بتیس ہزار روپے دے کر طویل انتظار کی کوفت سے بچ گیا۔
لوگوں نے اب اپنے عزیزوں کی لاشوں کو سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھوں اور پارکوں میں بھی جلا نا شروع کر دیا ہے۔ اس کی ویڈیو اور تصویریں سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں دیکھی جا سکتی ہیں۔